ٹیگ کے محفوظات: ہزاروں

آئنہ جیسے ریگ زاروں میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
تو نمایاں ہے یُوں نگاروں میں
آئنہ جیسے ریگ زاروں میں
حُسن سارا وُہ اِک تجھی میں ہے
ڈھونڈتا ہُوں جسے ہزاروں میں
جب سے مہکا ہے تن بدن تیرا
کھلبلی سی ہے اِک بہاروں میں
عالمِ خواب ہے کہ قُرب تِرا
گھر گیا ہوں عجب شراروں میں
پھُوٹتی ہے جو کنجِ لب سے ترے
آگ ایسی کہاں چناروں میں
روز تفسیرِ لطفِ جاں دیکھوں
تیرے مبہم سے اِن اشاروں میں
لہلہاتا ہے مثلِ گلُ تُو ہی
فکرِ ماجدؔ کے کشت زاروں میں
ماجد صدیقی

قیامت غم سے ہر ساعت رہی الفت کے ماروں پر

دیوان پنجم غزل 1616
سنا تم نے جو گذرا سانحہ ہجراں میں یاروں پر
قیامت غم سے ہر ساعت رہی الفت کے ماروں پر
کیا ہے عشق عالم کش نے کیا ستھراؤ لوگوں کا
نکل چل شہر سے باہر نظر کر ٹک مزاروں پر
تڑپ کر گرم ٹک جوں برق ٹھنڈے ہوتے جاتے ہیں
بسان ابر رحمت رو بہت ہم بے قراروں پر
بڑی دولت ہے درویشی جو ہمرہ ہو قناعت کے
کہ عرصہ تنگ ہے حرص و ہوا سے تاجداروں پر
سیاحت خوب مجھ کو یاد ہے پر کی بھی وحشت کی
پر اپنا پاؤں پھیلے دشت کے سر تیز خاروں پر
گئے فرہاد و مجنوں ہو کوئی تو بات بھی پوچھیں
یکایک کیا بلا آئی ہمارے غم گساروں پر
گئی اس ناتوان عشق کے آگے سے پیری ٹل
سبک روحی مری اے میر بھاری ہے ہزاروں پر
میر تقی میر

مار رکھا بیتابی دل نے ہم سب غم کے ماروں کو

دیوان چہارم غزل 1476
کام کیے ہیں شوق سے ضائع صبر نہ آیا یاروں کو
مار رکھا بیتابی دل نے ہم سب غم کے ماروں کو
جی تو جلا احباب کا مجھ پر عشق میں اس شعلے کے پر
رو ہی نہیں ہے بات کا ہرگز اپنے جانب داروں کو
آئو نہیں دربستہ یعنی منھ پر اس مہ پارے کے
صبح تلک دیکھا کرتے ہیں محو چشمک تاروں کو
گردش چشم سیہ کاسے سے جمع نہ رکھو خاطر تم
بھوکا پیاسا مار رکھا ہے تم سے ان نے ہزاروں کو
کوہکن و مجنوں و وامق میر آئے تھے صحبت میں
منھ نہ لگایا ہم میں کنھوں نے ایسے ہرزہ کاروں کو
میر تقی میر

ہوا نہ گور گڑھا ان ستم کے ماروں کا

دیوان اول غزل 40
سنا ہے حال ترے کشتگاں بچاروں کا
ہوا نہ گور گڑھا ان ستم کے ماروں کا
ہزار رنگ کھلے گل چمن کے ہیں شاہد
کہ روزگار کے سر خون ہے ہزاروں کا
ملا ہے خاک میں کس کس طرح کا عالم یاں
نکل کے شہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا
عرق فشانی سے اس زلف کی ہراساں ہوں
بھلا نہیں ہے بہت ٹوٹنا بھی تاروں کا
علاج کرتے ہیں سوداے عشق کا میرے
خلل پذیر ہوا ہے دماغ یاروں کا
تری ہی زلف کو محشر میں ہم دکھا دیں گے
جو کوئی مانگے گا نامہ سیاہکاروں کا
خراش سینۂ عاشق بھی دل کو لگ جائے
عجب طرح کا ہے فرقہ یہ دل فگاروں کا
نگاہ مست کے مارے تری خراب ہیں شوخ
نہ ٹھور ہے نہ ٹھکانا ہے ہوشیاروں کا
کریں ہیں دعوی خوش چشمی آہوان دشت
ٹک ایک دیکھنے چل ملک ان گنواروں کا
تڑپ کے مرنے سے دل کے کہ مغفرت ہو اسے
جہاں میں کچھ تو رہا نام بے قراروں کا
تڑپ کے خرمن گل پر کبھی گر اے بجلی
جلانا کیا ہے مرے آشیاں کے خاروں کا
تمھیں تو زہد و ورع پر بہت ہے اپنے غرور
خدا ہے شیخ جی ہم بھی گناہگاروں کا
اٹھے ہے گرد کی جا نالہ گور سے اس کی
غبار میر بھی عاشق ہے نے سواروں کا
میر تقی میر