ٹیگ کے محفوظات: ہر

نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 118
بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار
نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار
وفورِ عشق نے کاشانہ کا کیا یہ رنگ
کہ ہو گئے مرے دیوار و در در و دیوار
نہیں ہے سایہ، کہ سن کر نوید مَقدمِ یار
گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار
ہوئی ہے کس قدر ارزانئ مئے جلوہ
کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار
جو ہے تجھے سرِ سودائے انتظار، تو آ
کہ ہیں دکانِ متاعِ نظر در و دیوار
ہجومِ گریہ کا سامان کب کیا میں نے
کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار
وہ آ رہا مرے ہم سایہ میں، تو سائے سے
ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار
نظر میں کھٹکے ہے بِن تیرے گھر کی آبادی
ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار
نہ پوچھ بے خودئِ عیشِ مَقدمِ سیلاب
کہ ناچتے ہیں پڑے سر بسر در و دیوار
نہ کہہ کسی سے کہ غالب نہیں زمانے میں
حریف رازِ محبت مگر در و دیوار
مرزا اسد اللہ خان غالب

بلا پر چلے آئے ہر ہر قدم

دیوان سوم غزل 1169
گئے عشق کی راہ سر کر قدم
بلا پر چلے آئے ہر ہر قدم
عجب راہ پرخوف و مشکل گذر
اٹھایا گیا ہم سے مر مر قدم
بہت مستی عشق پالغز تھی
خدا جانے پڑتا تھا کیدھر قدم
ہوا ہو گا خالی بدن جاں سے جب
چلے ہوں گے یہ راہ جو بھر قدم
وہ عیار یوں چشم تر سے گیا
کہ ہرگز نہ اس کا ہوا تر قدم
جگر کو ہے ان سر سے گذروں کے عشق
گئے جو ہمارے قدم بر قدم
جو کچھ آوے سالک کے آگے ہے خیر
رکھا ہم نے اب گھر سے باہر قدم
ہمیں سرکشی سربلندی سے کیا
رہے ضعف میں ہم تو سر در قدم
کہیں کیا کف پا میں میر آبلے
چلیں ہم سروں پر مگر دھر قدم
میر تقی میر

گرچہ ہوتے ہیں بہت خوف و خطر پانی میں

دیوان دوم غزل 875
جوشش اشک سے ہوں آٹھ پہر پانی میں
گرچہ ہوتے ہیں بہت خوف و خطر پانی میں
ضبط گریہ نے جلایا ہے درونہ سارا
دل اچنبھا ہے کہ ہے سوختہ تر پانی میں
آب شمشیر قیامت ہے برندہ اس کی
یہ گوارائی نہیں پاتے ہیں ہر پانی میں
طبع دریا جو ہو آشفتہ تو پھر طوفاں ہے
آہ بالوں کو پراگندہ نہ کر پانی میں
غرق آب اشک سے ہوں لیک اڑا جاتا ہوں
جوں سمک گوکہ مرے ڈوبے ہیں پر پانی میں
مردم دیدئہ تر مردم آبی ہیں مگر
رہتے ہیں روز و شب و شام و سحر پانی میں
ہیئت آنکھوں کی نہیں وہ رہی روتے روتے
اب تو گرداب سے آتے ہیں نظر پانی میں
گریۂ شب سے بہت آنکھ ڈرے ہے میری
پائوں رکھتے ہی نہیں باردگر پانی میں
فرط گریہ سے ہوا میر تباہ اپنا جہاز
تختہ پارے گئے کیا جانوں کدھر پانی میں
میر تقی میر

مذکور ہوچکا ہے مرا حال ہر کہیں

دیوان اول غزل 309
سن گوش دل سے اب تو سمجھ بے خبر کہیں
مذکور ہوچکا ہے مرا حال ہر کہیں
اب فائدہ سراغ سے بلبل کے باغباں
اطراف باغ ہوں گے پڑے مشت پر کہیں
خطرے سے ہونٹ سوکھ ہی جاتے تھے دیکھ کر
آتا نظر ہمیں جو کوئی چشم تر کہیں
عاشق ترے ہوئے تو ستم کچھ نہ ہو گیا
مرنا پڑا ہے ہم کو خدا سے تو ڈر کہیں
کچھ کچھ کہوں گا روز یہ کہتا تھا دل میں میں
آشفتہ طبع میر کو پایا اگر کہیں
سو کل ملا مجھے وہ بیاباں کی سمت کو
جاتا تھا اضطراب زدہ سا ادھر کہیں
لگ چل کے میں برنگ صبا یہ اسے کہا
کاے خانماں خراب ترا بھی ہے گھر کہیں
آشفتہ جا بہ جا جو پھرے ہے تو دشت میں
جاگہ نہیں ہے شہر میں تجھ کو مگر کہیں
خوں بستہ اپنی کھول مژہ پوچھتا بھی گر
رکھ ٹک تو اپنے حال کو مدنظر کہیں
آسودگی سی جنس کو کرتا ہے کون سوخت
جانے ہے نفع کوئی بھی جی کا ضرر کہیں
موتی سے تیرے اشک ہیں غلطاں کسو طرف
یاقوت کے سے ٹکڑے ہیں لخت جگر کہیں
تاکے یہ دشت گردی و کب تک یہ خستگی
اس زندگی سے کچھ تجھے حاصل بھی مر کہیں
کہنے لگا وہ ہو کے پرآشفتہ یک بیک
مسکن کرے ہے دہر میں مجھ سا بشر کہیں
آوارگوں کا ننگ ہے سننا نصیحتیں
مت کہیو ایسی بات تو بار دگر کہیں
تعیئن جا کو بھول گیا ہوں پہ یہ ہے یاد
کہتا تھا ایک روز یہ اہل نظر کہیں
بیٹھے اگرچہ نقش ترا تو بھی دل اٹھا
کرتا ہے جاے باش کوئی رہگذر کہیں
کتنے ہی آئے لے کے سر پر خیال پر
ایسے گئے کہ کچھ نہیں ان کا اثر کہیں
میر تقی میر

جلا ہی پڑا ہے ہمارا تو گھر بار

دیوان اول غزل 212
لبوں پر ہے ہر لحظہ آہ شرر بار
جلا ہی پڑا ہے ہمارا تو گھر بار
ہوئیں کس ستم دیدہ کے پاس یک جا
نگاہیں شرر ریز پلکیں جگر بار
کہو کوئی دیکھے اسے سیر کیونکر
کہ ہے اس تن نازک اوپر نظر بار
حلاوت سے اپنی جو آگاہ ہوں تو
چپک جائیں باہم وے لعل شکر بار
سبک کر دیا دل کی بے طاقتی نے
نہ جانا تھا اس کی طرف ہم کو ہر بار
گدھا سا لدا پھرتا ہے شیخ ہر سو
کہ جبہ ہے یک بار و عمامہ سر بار
مرے نخل ماتم پہ ہے سنگ باراں
نہایت کو لایا عجب یہ شجر بار
ہمیں بار اس درپہ کثرت سے کیا ہو
لگا ہی رہے ہے سدا واں تو دربار
یہ آنکھیں گئیں ایسی ہوکر در افشاں
کہ دیکھے سے آیا تر ابر گہربار
کب اس عمر میں آدمی شیخ ہو گا
کتابیں رکھیں ساتھ گو ایک خربار
جہاں میر رہنے کی جاگہ نہیں ہے
چلا چاہیے یاں سے اسباب کر بار
میر تقی میر

ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات

دیوان اول غزل 183
پلکوں پہ تھے پارئہ جگر رات
ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات
اک دن تو وفا بھی کرتے وعدہ
گذری ہے امیدوار ہر رات
مکھڑے سے اٹھائیں ان نے زلفیں
جانا بھی نہ ہم گئی کدھر رات
تو پاس نہیں ہوا تو روتے
رہ رہ گئی ہے پہر پہر رات
کیا دن تھے کہ خون تھا جگر میں
رو اٹھتے تھے بیٹھ دوپہر رات
واں تم تو بناتے ہی رہے زلف
عاشق کی بھی یاں گئی گذر رات
ساقی کے جو آنے کی خبر تھی
گذری ہمیں ساری بے خبر رات
کیا سوز جگر کہوں میں ہمدم
آیا جو سخن زبان پر رات
صحبت یہ رہی کہ شمع روئی
لے شام سے تا دم سحر رات
کھلتی ہے جب آنکھ شب کو تجھ بن
کٹتی نہیں آتی پھر نظر رات
دن وصل کا یوں کٹا کہے تو
کاٹی ہے جدائی کی مگر رات
کل تھی شب وصل اک ادا پر
اس کی گئے ہوتے ہم تو مر رات
جاگے تھے ہمارے بخت خفتہ
پہنچا تھا بہم وہ اپنے گھر رات
کرنے لگا پشت چشم نازک
سوتے سے اٹھا جو چونک کر رات
تھی صبح جو منھ کو کھول دیتا
ہر چند کہ تب تھی اک پہر رات
پر زلفوں میں منھ چھپا کے پوچھا
اب ہووے گی میر کس قدر رات
میر تقی میر

بلب جلتا رہے اذانِ سحر ہونے تک

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 258
ہجر کی رات بھری قبر کے سر ہونے تک
بلب جلتا رہے اذانِ سحر ہونے تک
دفن ہو جائیں گے بنیادمیں دیواروں کی
بامِ ابلاغ کی ہم پہلی خبر ہونے تک
برف بستی میں گری ہے کوئی بارہ فٹ تک
لوگ محفوظ ہیں بس جسم پہ فر ہونے تک
خواب ہو جاتی ہیں رنگوں بھری بندر گاہیں
پھرتے رہتے ہیں جہاں گرد سفر ہونے تک
آنکھ تعبیر کی منزل پہ پہنچ جائے گی
منتظر خواب رہیں عمر بسر ہونے تک
کتنے جانکاہ مراحل سے گزرنا ہو گا
ایک معصوم کوپنل کو ثمر ہونے تک
اس کی فٹ پاتھ بسیرا ہے قیامت کی نوید
حشر آجائے گا منصور کا گھر ہونے تک
نذرِ غالب
منصور آفاق

کوئی کرتا ہوا فر یاد آیا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 62
دشت یاد آیا کہ گھر یاد آیا
کوئی کرتا ہوا فر یاد آیا
پھر بجھی شمع جلا دی ہم نے
جانے کیا وقت سحر یاد آیا
ربط باہم کی تمنا معلوم
حادثہ ایک مگر یاد آیا
در و دیوار سے مل کر روئے
کیا ہمیں وقت سفر یاد آیا
قدم اٹھتے نہیں منزل کی طرف
کیا سر راہگزر یاد آیا
ہنس کے پھر راہنما نے دیکھا
پھر ہمیں رخت سفر یاد آیا
کسی پتھر کی حقیقت ہی کیا
دل کا آئنہ مگر یاد آیا
آنچ دامان صبا سے آئی
اعتبار گل تر یاد آیا
دل جلا دھوپ میں ایسا اب کے
پاؤں یاد آے نہ سر یاد آیا
گر پڑے ہاتھ سے کاغذ باقیؔ
اپنی محنت کا ثمر یاد آیا
زندگی گزرے گی کیونکر باقیؔ
عمر بھر کوئی اگر یاد آیا
باقی صدیقی