ٹیگ کے محفوظات: ہری

تھی ورنہ جانے کب سے طبیعت بھری ہوئی

اچھا ہوا کہ بات بہت سرسری ہوئی
تھی ورنہ جانے کب سے طبیعت بھری ہوئی
پَل میں نکال پھینکنا دل کے مکین کو
ایسی تو آج تک نہ کوئی بے گھری ہوئی
اب انتظار کیجیے اگلی بہار کا
ہے شاخ کون سی جو خِزاں میں ہری ہوئی
رہتا ہے کارواں سے الگ میرِ کارواں
اے اہلِ کارواں یہ عجب رہبری ہوئی
ہر بار تم کو اُس کا کہا ماننا پڑے
باصرِؔ یہ دوستی تو نہیں نوکری ہوئی
باصر کاظمی

جان بدن میں ٹوٹ چلی ہے ہر جانب

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 82
بچوں کی سی حیرانی ہے ہر جانب
جان بدن میں ٹوٹ چلی ہے ہر جانب
جھپٹے گی جانے کن غافل چوزوں پر
چیل ریا کی گھوم رہی ہے ہر جانب
ساون رُت کے جھاڑوں جھنکاروں جیسی
خاموشی کی فصل اُگی ہے ہر جانب
کون ہے جو دیکھے، الہڑ آشاؤں کی
مانگ میں کیا کیا راکھ بھری ہے ہر جانب
زوروں پر ہے فصل نئے آسیبوں کی
ڈائن ڈائن گود ہری ہے ہر جانب
ماجدؔ خوف سے کیا کیا چہرے زرد ہوئے
دیکھ عجب سرسوں پھولی ہے ہر جانب
ماجد صدیقی

ہم پہ ممنوع پھر وہ گلی ہو گئی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 143
بات ڈرتے تھے جس سے وُہی ہو گئی
ہم پہ ممنوع پھر وہ گلی ہو گئی
جب سے اُس سے معنون ہوئی شاعری
چیز کھوٹی تھی لیکن کھری ہو گئی
میرے حرفوں میں جب سے اُترنے لگی
اور بھی ہے وُہ صورت جلی ہو گئی
چاند بھی عکس اُس کا دکھائے نہ اب
یہ ملاقات بھی سرسری ہو گئی
پھر صبا نے جگائے بُجھے ولولے
شاخ اندوہ کی پھر ہری ہو گئی
وہ ستم گر بھی مانگے ہے دادِ ستم
لو شقاوت بھی اَب ساحری ہو گئی
ہوتے ہوتے زمانے کی تحریک پر
اپنی نیّت بھی ماجدؔ بُری ہو گئی
ماجد صدیقی

کہ ہے نخلِ گل کاتو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 108
مجھے باغباں سے گلہ یہ ہے کہ چمن سے بے خبری رہی
کہ ہے نخلِ گل کاتو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی
مرا حال دیکھ کے ساقیا کوئی بادہ خوار نہ پی سکا
ترا جام خالی نہ ہو سکے مری چشمِ تر نہ بھر رہی
میں قفس کو توڑ کے کیا کروں مجھ رات دن یہ خیال ہے
یہ بہار بھی یوں ہی جائے گی جو یہی شکستہ پری رہی
مجھے علم میں تیرے جمال کا نہ خبر ہے ترے جلال کی
یہ کلیم جانے کہ طور پر تری کیسی جلوہ گری رہی
میں ازل سے آیا تو کیا ملا جو میں جاؤں گا تو ملے گا کیا
مری جب بھی دربدری رہی مری اب بھی دربدری رہی
یہی سوچتا ہوں شبِ الم کہ نہ آئے وہ تو ہوا ہے کیا
وہاں جا سکی نہ مری فغاں کہ فغاں کی بے اثری رہی
شبِ وعدہ جو نہ آسکے تو قمر کہوں گا چرخ سے
ترے تارے بھی گئے رائیگاں تری چاندنی بھی دھری رہی
قمر جلالوی

بس اک دیوار ہے اور بے دری ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 206
گماں کی اک پریشاں منظری ہے
بس اک دیوار ہے اور بے دری ہے
اگرچہ زہر ہے دنیا کی ہر بات
میں پی جاؤں اسی میں بہتری ہے
تُو اے بادِ خزاں اس گُل سے کہیو
کہ شاخ اُمید کی اب تک ہری ہے
گلی میں اس نگارِ ناشنو کی
فغاں کرنا ہماری نوکری ہے
کوئی لہکے خیابانِ صبا میں
یہاں تو آگ سینے میں بھری ہے
جون ایلیا

ہر دم نئی ہے میری گریباں دری ہنوز

دیوان چہارم غزل 1395
دیوانگی کی ہے وہی زور آوری ہنوز
ہر دم نئی ہے میری گریباں دری ہنوز
سر سے گیا ہے سایۂ لطف اس کا دیر سے
آنکھوں ہی میں پھرے ہے مری وہ پری ہنوز
شوخی سے زارگریہ کی خوں چشم میں نہیں
ویسی ہی ہے مژہ کی بعینہ تری ہنوز
کب سے نگاہ گاڑے ہے یاں روز آفتاب
ہم دیکھے ہیں جہاں کے تئیں سرسری ہنوز
مبہوت ہو گیا ہے جہاں اک نظر کیے
جاتی نہیں ان آنکھوں سے جادوگری ہنوز
ابر کرم نے سعی بہت کی پہ کیا حصول
ہوتی نہیں ہماری زراعت ہری ہنوز
مدت سے میر بے دل و دیں دلبروں میں ہے
کرتا نہیں ہے اس کی کوئی دلبری ہنوز
میر تقی میر

اس ماہرو کے آگے کیا تاب مشتری کی

دیوان اول غزل 471
کس حسن سے کہوں میں اس کی خوش اختری کی
اس ماہرو کے آگے کیا تاب مشتری کی
رکھنا نہ تھا قدم یاں جوں باد بے تامل
سیر اس جہاں کی رہرو پر تونے سرسری کی
شبہا بحال سگ میں اک عمر صرف کی ہے
مت پوچھ ان نے مجھ سے جو آدمی گری کی
پاے گل اس چمن میں چھوڑا گیا نہ ہم سے
سر پر ہمارے اب کے منت ہے بے پری کی
پیشہ تو ایک ہی تھا اس کا ہمارا لیکن
مجنوں کے طالعوں نے شہرت میں یاوری کی
گریے سے داغ سینہ تازہ ہوئے ہیں سارے
یہ کشت خشک تونے اے چشم پھر ہری کی
یہ دور تو موافق ہوتا نہیں مگر اب
رکھیے بناے تازہ اس چرخ چنبری کی
خوباں تمھاری خوبی تاچند نقل کریے
ہم رنجہ خاطروں کی کیا خوب دلبری کی
ہم سے جو میر اڑ کر افلاک چرخ میں ہیں
ان خاک میں ملوں کی کاہے کو ہمسری کی
میر تقی میر

کوئی یہ سوکھی ہوئی دار ہری کر جائے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 73
پھر بپا شہر میں افراتفری کر جائے
کوئی یہ سوکھی ہوئی دار ہری کر جائے
جب بھی اقرار کی کچھ روشنیاں جمع کروں
میری تردید میری بے بصری کر جائے
معدنِ شب سے نکالے کوئی زر کرنوں کا
کچھ تو کم تیری مری کم نظری کر جائے
وہ جو منصف بھی ہے، محرم بھی ہے مجبوری کا
فائدہ شک کا مجھے دے کے بری کر جائے
آفتاب اقبال شمیم