ٹیگ کے محفوظات: ہاں

کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے

یہ زمیں اور آسماں نہ رہے
کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے
میں ہی اول بھی اور آخر بھی
کوئی بھی میرے درمیاں نہ رہے
بس معانی ہوں، لفظ کھو جائیں
روح رہ جائے، جسم و جاں نہ رہے
میری یکسوئی میں پڑے نہ خلل
"میں رہوں اور یہ جہاں نہ رہے”
مہرباں آج مجھ پہ ہے جو نظر
عین ممکن ہے کل کلاں نہ رہے
ہاں بلا سے مری، رہے نہ وجود
نہیں رہتا عدم بھی، ہاں نہ رہے
سوچتا ہوں خموش ہو جاؤں
اور یہ حرفِ رائگاں نہ رہے
کاش چھا جائے ایک ابرِ اماں
اور کوئی بھی بے اماں نہ رہے
اک سہارا۔ ہے بے یقینوں کا
کیا کریں وہ اگر گماں نہ رہے
بات کیسی جو سننے والا نہ ہو
راز کیسا جو رازداں نہ رہے
وہی ہوتا ہے رائگاں کہ جو ہو
نہ رہوں میں تو یہ زیاں نہ رہے
زخم تو سارے بھر ہی جاتے ہیں
بات تب ہے اگر نشاں نہ رہے
ہے وہاں ماں، یہاں مرے بچے
اب رہے دل کہاں، کہاں نہ رہے
زخمِ دل کو زبان مل جائے
درد ناقابلِ بیاں نہ رہے
کیا خبر کس گھڑی چلے آندھی
اور سر پر یہ سائباں نہ رہے
شہرِ دام و درم کی تم جانو
اہلِ دل تو کبھی وہاں نہ رہے
ان دنوں ہے یہاں، مگر عرفان
بس چلے تو کبھی یہاں نہ رہے
عرفان ستار

لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

تمہارا نام سرِ لوحِ جاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے
لہو سے تر ہے ورق در ورق بیاضِ سخن
حسابِ دل زدگاں سب یہاں لکھا ہوا ہے
نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟
فصیلِ شہر پہ شہرِ اماں لکھا ہوا ہے
ملی ہے اہلِ جنوں کو جہاں بشارتِ اجر
وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے
زمیں بھی تنگ ہوئی، رزق بھی، طبیعت بھی
مرے نصیب میں کیا آسماں لکھا ہوا ہے؟
یہ کیسی خام امیدوں پہ جی رہے ہو میاں؟
پڑھو تو، لوحِ یقیں پر گماں لکھا ہوا ہے
تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے؟
ذرا ہمیں بھی دکھاوٗ، کہاں لکھا ہوا ہے؟
یہ کائنات سراسر ہے شرحِ رازِ ازل
کلامِ حق تو سرِ کہکشاں لکھا ہوا ہے
میں سوچتا ہوں تو کیا کچھ نہیں عطائے وجود
میں دیکھتا ہوں تو بس رائگاں لکھا ہوا ہے
جو چاہتا تھا میں جس وقت، وہ کبھی نہ ہُوا
کتابِ عمر میں سب ناگہاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہوا نہیں کچھ بھی بنامِ خوابِ وجود
نبود و بود کے سب درمیاں لکھا ہوا ہے
عدو سے کوئی شکایت نہیں ہمیں عرفان
حسابِ رنج پئے دوستاں لکھا ہوا ہے
عرفان ستار

یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں

تُو کہ ہم سے ہے بصد ناز گریزاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں
چل یہ مانا کہ تجھے یاد نہیں کچھ بھی۔ مگر
یہ چمکتا ہوا کیا ہے سرِ مژگاں جاناں
آج قدموں تلے روندی ہے کلاہِ پندار
آج وا مجھ پہ ہوا ہے درِ امکاں جاناں
میں بھی کیا چیز ہوں آخر، جو یہاں میرے لے
ہیں فنا اور بقا دست و گریباں جاناں
خواب، تنہائی، تری یاد، مرا ذوقِ سخن
عمر بھر کے لیے کافی ہے یہ ساماں جاناں
زندگی ٹھہری ہوئی، اور گزرتی ہوئی عمر
دیکھ کیا کچھ ہے یہاں ساکت و جنباں جاناں
جتنی زنجیر ہے، اُتنی ہی مری حدِّ سفر
ہے مری حدِّ نظر وسعتِ زنداں جاناں
ابھی حالات موافق ہیں تو کچھ طے کرلیں
کتنا ٹھہرے گی بھلا گردشِ دوراں جاناں
اک ترے غم کی کمی تھی تری دیوانے کو
ورنہ وحشت تو یہاں تھی ہی فراواں جاناں
درد تازہ بھی ہے، گہرا بھی ہے، جاں سوز بھی ہے
کوئی مرہم، کوئی نشتر، کوئی درماں جاناں
اپنا تو ایک ہی لہجہ ہے یہ، سیدھا، سچا
بزمِ احباب ہو، یا بزمِ حریفاں جاناں
اور ہوں گے جو ترے عشق کی تشہیر کریں
ہم نہیں وہ، جو کریں چاک گریباں جاناں
پوچھتا رہتا ہوں اکثر، کہ ہُوا کیا ہے تجھے؟
کچھ بتاتا ہی نہیں ہے دلِ ناداں جاناں
جُز دعا نذرگزارے گا تجھے کیا یہ فقیر؟
جا تری خیر، خدا تیرا نگہباں جاناں
’’خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے‘‘
ہم بہت خوش ہیں ترے بعد، ارے ہاں جاناں
ہم جہاں جائیں یونہی خاک اڑاتے جائیں
پاوٗں کے ساتھ بندھا ہے یہ بیاباں جاناں
یاد آتا تو بہت ہو گا تجھے جانِ فراز
کس قدر پیار سے کہتا تھا وہ جاناں، جاناں
ہائے کیا وقت تھا، اس بام پہ ہوتے تھے فراز
اب جہاں ہوتا ہے عرفان غزل خواں، جاناں
عرفان ستار

‎دھیان جا نکلا مگر اک روئے تاباں کی طرف

آج کرنا تھی توجہ چاکِ داماں کی طرف
‎دھیان جا نکلا مگر اک روئے تاباں کی طرف
‎جب ہوا کے نام پہنچا آمدِ شب کا پیام
‎ایک جھونکا چل دیا شمعِ فروزاں کی طرف
‎ایک چہرہ جگمگایا ہے سرِ دشتِ خیال
‎ایک شعلہ اٹھ رہا ہے دل سے مژگاں کی طرف
‎یہ بیاباں اور اس میں چیختی گاتی ہوا
‎ان سے دل بھر لے تو جاؤں راہِ آساں کی طرف
‎اس طرح حائل نہیں ہوتے کسی کی راہ میں
‎کیوں بھلا اتنی توجہ ایک مہماں کی طرف
‎عین ممکن ہے کہ تو سچ بول کر زندہ رہے
‎میں اشارہ کر رہا ہوں ایک امکاں کی طرف
‎اک تقاضا بے بسی کی راکھ میں دہکا ہوا
‎اک تذبذب کا سفر انکار سے ہاں کی طرف
‎جس کے بدلے موت صدیوں کی بسر کرنا پڑے
‎زندگی کا قرض اتنا تو نہیں جاں کی طرف
عرفان ستار

کب مجھ پہ التفاتِ فراواں کروگے تُم

کَب میری آرزوؤں کو حیراں کروگے تُم
کب مجھ پہ التفاتِ فراواں کروگے تُم
دِل میں بَسائے بیٹھے ہو اِک شہرِ آرزو
کوچے میں کیسے شہر کو پنہاں کروگے تُم
ماضی کے اِرتباطِ فراواں کی یاد میں
تنہائیوں میں جَشنِ چراغاں کروگے تُم
اَچھّا چلو یہی سہی تُم سا کوئی نہیں
ہم بھی ہیں خُوش کہ ہو کے خُوش اب ہاں کروگے تُم
زندہ ہے اِس اُمید پہ ضامنؔ کہ ایک روز
تکمیلِ آرزو پہ پشیماں کروگے تُم
ضامن جعفری

کہو اے مکینو کہاں ہو یہ کیسا مکاں ہے

زمیں چل رہی ہے کہ صبحِ زوالِ زماں ہے
کہو اے مکینو کہاں ہو یہ کیسا مکاں ہے
پریشان چیزوں کی ہستی کو تنہا نہ سمجھو
یہاں سنگ ریزہ بھی اپنی جگہ اِک جہاں ہے
کبھی تیری آنکھوں کے تل میں جو دیکھا تھا میں نے
وُہی ایک پل محملِ شوق کا سارباں ہے
کہیں تو مرے عشق سے بدگماں ہو نہ جائے
کئی دِن سے ہونٹوں پہ تیرے نہیں ہے نہ ہاں ہے
خدا جانے ہم کس خرابے میں آ کر بسے ہیں
جہاں عرضِ اہلِ ہنر نکہتِ رائیگاں ہے
جہانوں کے مالک زمانوں سے پردہ اُٹھا دے
کہ دل اِن دِنوں بے نیازِ بہار و خزاں ہے
ترے فیصلے وقت کی بارگاہوں میں دائم
ترے اِسم ہر چار سو ہیں مگر تو کہاں ہے
خمارِ غریبی میں بے غم گزرتی ہے ناصر
درختوں سے بڑھ کر مجھے دھوپ کا سائباں ہے
ناصر کاظمی

اُن سے ہمیں جب جہاں ملاؤ

کیا کہتے ہو کب کہاں ملاؤ
اُن سے ہمیں جب جہاں ملاؤ
میں کب سے ہوں گوش بر آواز
لفظوں سے کبھی زباں ملاؤ
سَر آنکھوں پہ اختلاف لیکن
اک بار تو ہاں میں ہاں ملاؤ
کچھ یاد دلائیں آپ کو ہم
آنکھیں تو ہماری جاں ملاؤ
اب زخم ہمارے بھر گئے ہیں
ناوک سے ذرا کماں ملاؤ
باصر کاظمی

بجائے زمزمہ بیرونِ لب زباں نکلے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 16
نہ باز آئے یہ لُو اور نہ تن سے جاں نکلے
بجائے زمزمہ بیرونِ لب زباں نکلے
ہمیں بہار کے ہونٹوں کی نرمیوں کے امیں
ہمیں وہ برگ کہ پیغمبرِ خزاں نکلے
جہاں گلاب سخن کے سجائے تھے ہم نے
شرر بھی کچھ اُنہی حرفوں کے درمیان نکلے
زخستگی لبِ اظہار کا تو ذکر ہی کیا
کشش سے جیسے قلم کی بھی اب دھواں نکلے
ہمارا حال جبیں سے ہی جاننا اچھا
زباں سے کیا کوئی اب کلمۂ گراں نکلے
حضورِ یار ہیں وہ جاں سپار ہم ماجدؔ
ہو حکمِ قتل بھی اپنا تو منہ سے ہاں نکلے
ماجد صدیقی

کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 100
یہ زمیں اور آسماں نہ رہے
کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے
میں ہی اول بھی اور آخر بھی
کوئی بھی میرے درمیاں نہ رہے
بس معانی ہوں، لفظ کھو جائیں
روح رہ جائے، جسم و جاں نہ رہے
میری یکسوئی میں پڑے نہ خلل
"میں رہوں اور یہ جہاں نہ رہے”
مہرباں آج مجھ پہ ہے جو نظر
عین ممکن ہے کل کلاں نہ رہے
ہاں بلا سے مری، رہے نہ وجود
نہیں رہتا عدم بھی، ہاں نہ رہے
سوچتا ہوں خموش ہو جاؤں
اور یہ حرفِ رائگاں نہ رہے
کاش چھا جائے ایک ابرِ اماں
اور کوئی بھی بے اماں نہ رہے
اک سہارا۔ ہے بے یقینوں کا
کیا کریں وہ اگر گماں نہ رہے
بات کیسی جو سننے والا نہ ہو
راز کیسا جو رازداں نہ رہے
وہی ہوتا ہے رائگاں کہ جو ہو
نہ رہوں میں تو یہ زیاں نہ رہے
زخم تو سارے بھر ہی جاتے ہیں
بات تب ہے اگر نشاں نہ رہے
ہے وہاں ماں، یہاں مرے بچے
اب رہے دل کہاں، کہاں نہ رہے
زخمِ دل کو زبان مل جائے
درد ناقابلِ بیاں نہ رہے
کیا خبر کس گھڑی چلے آندھی
اور سر پر یہ سائباں نہ رہے
شہرِ دام و درم کی تم جانو
اہلِ دل تو کبھی وہاں نہ رہے
ان دنوں ہے یہاں، مگر عرفان
بس چلے تو کبھی یہاں نہ رہے
عرفان ستار

لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 78
تمہارا نام سرِ لوحِ جاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے
لہو سے تر ہے ورق در ورق بیاضِ سخن
حسابِ دل زدگاں سب یہاں لکھا ہوا ہے
نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟
فصیلِ شہر پہ شہرِ اماں لکھا ہوا ہے
ملی ہے اہلِ جنوں کو جہاں بشارتِ اجر
وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے
زمیں بھی تنگ ہوئی، رزق بھی، طبیعت بھی
مرے نصیب میں کیا آسماں لکھا ہوا ہے؟
یہ کیسی خام امیدوں پہ جی رہے ہو میاں؟
پڑھو تو، لوحِ یقیں پر گماں لکھا ہوا ہے
تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے؟
ذرا ہمیں بھی دکھاوٗ، کہاں لکھا ہوا ہے؟
یہ کائنات سراسر ہے شرحِ رازِ ازل
کلامِ حق تو سرِ کہکشاں لکھا ہوا ہے
میں سوچتا ہوں تو کیا کچھ نہیں عطائے وجود
میں دیکھتا ہوں تو بس رائگاں لکھا ہوا ہے
جو چاہتا تھا میں جس وقت، وہ کبھی نہ ہُوا
کتابِ عمر میں سب ناگہاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہوا نہیں کچھ بھی بنامِ خوابِ وجود
نبود و بود کے سب درمیاں لکھا ہوا ہے
عدو سے کوئی شکایت نہیں ہمیں عرفان
حسابِ رنج پئے دوستاں لکھا ہوا ہے
عرفان ستار

کس نے عذاب جاں سہا کون عذاب جاں میں ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 222
ایک گماں کا حال ہے اور فقط گماں میں ہے
کس نے عذاب جاں سہا کون عذاب جاں میں ہے
لمحہ بہ لمحہ دم بہ دم آن بہ آن رم بہ رم
میں بھی گزشتگاں میں ہوں تو بھی گزشتگاں میں ہے
آدم و ذات کبریا کرب میں ہیں جدا جدا
کیا کہوں ان کا ماجرا جو بھی ہے امتحاں میں ہے
شاخ سے اڑ گیا پرند ہے دل شام درد مند
صحن میں ہے ملال سا حزن سا آسماں میں ہے
خودمیں بھی بےاماں ہوں میں،تجھ میں بھی بےاماں ہوں میں
کون سہے گا اس کا غم وہ جو مری اماں میں ہے
کیسا حساب کیا حساب حالت حال ہے عذاب
زخم نفس نفس میں ہے زہر زماں زماں میں ہے
اس کا فراق بھی زیاں اس کا وصال بھی زیاں
ایک عجیب کشمکش حلقہ بے دلاں میں ہے
بود نبود کا حساب میں نہیں جانتا مگر
سارے وجود کی نہیں میرے عدم کی ہاں میں ہے
جون ایلیا

زندگی اک زیاں کا دفتر ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 217
نہ تو دل کا نہ جاں کا دفتر ہے
زندگی اک زیاں کا دفتر ہے
پڑھ رہا ہوں میں کاغذاتِ وجود
اور نہیں اور ہاں کا دفتر ہے
کوئی سوچے تو سوزِ کربِ جاں
سارا دفتر گماں کا دفتر ہے
ہم میں سے کوئی تو کرے اصرار
کہ زمیں، آسماں کا دفتر ہے
ہجر تعطیلِ جسم و جاں ہے میاں
وصل، جسم اور جاں کا دفتر ہے
ہے جو بود اور نبود کا دفتر
آخرش یہ کہاں کا دفتر ہے
جو حقیقت ہے دم بدم کی یاد
وہ تو اک داستاں کا دفتر ہے
ہو رہا ہے گزشتگاں کا حساب
اور آئیندگاں کا دفتر ہے
جون ایلیا

میاں یہاں کی نہیں اور ہاں سے چل نکلو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 69
حساب داریِ سودوزیاں سے چل نکلو
میاں یہاں کی نہیں اور ہاں سے چل نکلو
میری سُنو زمان و مکاں میں رہتے ہوئے
بہ صد سلیقہ زمان و مکاں سے چل نکلو
یہ تیرے لوگ نہیں ہیں یہ تیرا شہر نہیں
یہ مشورہ ہے مرا تو یہاں سے چل نکلو
یہ جو بھی کچھ ہے نہیں کچھ بھی جُز فریبائی
یقیں کو چھوڑ دو یعنی گماں سے چل نکلو
شبِ گزشتہ خراباتیوں میں تھا یہ سوال
کہاں کا رُخ کرو آخر کہاں سے چل نکلو
نفس نفس ہے وجود و عدم میں اک پیکار
ہے مشورہ یہ میرا درمیاں سے چل نکلو
جون ایلیا

نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 146
کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں@
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو
کِیا غم خوار نے رسوا، لگے آگ اس محبّت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی، وہ میرا راز داں کیوں ہو
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
یہ کہہ سکتے ہو "ہم دل میں نہیں ہیں” پر یہ بتلاؤ
کہ جب دل میں تمہیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو
غلط ہے جذبِ دل کا شکوہ دیکھو جرم کس کا ہے
نہ کھینچو گر تم اپنے کو، کشاکش درمیاں کیوں ہو
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں
عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو
کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی
بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو
@ کچھ نسخوں میں ’وضع کیوں بدلیں‘ ہے۔
مرزا اسد اللہ خان غالب

کرتے ہیں مَحبّت تو گزرتا ہے گماں اور

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 120
ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں مَحبّت تو گزرتا ہے گماں اور
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ابرو سے ہے کیا اس نگہِ ناز کو پیوند
ہے تیر مقرّر مگر اس کی ہے کماں اور
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم، جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور
ہر چند سُبُک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں، تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور
ہے خوںِ جگر جوش میں دل کھول کے روتا
ہوتے جو کئی دیدۂ خو نبانہ فشاں اور
مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے
جلاّد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ’ہاں اور‘
لوگوں کو ہے خورشیدِ جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغِ نہاں اور
لیتا، نہ اگر دل تمھیں دیتا، کوئی دم چین
کرتا، جو نہ مرتا، کوئی دن آہ و فغاں اور
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رُکتی ہے مری طبع، تو ہوتی ہے رواں اور
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھّے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
مرزا اسد اللہ خان غالب

آئے ہیں پھر کے یارو اب کے خدا کے ہاں سے

دیوان دوم غزل 976
کعبے میں جاں بہ لب تھے ہم دوری بتاں سے
آئے ہیں پھر کے یارو اب کے خدا کے ہاں سے
تصویر کے سے طائر خاموش رہتے ہیں ہم
جی کچھ اچٹ گیا ہے اب نالہ و فغاں سے
جب کوندتی ہے بجلی تب جانب گلستاں
رکھتی ہے چھیڑ میرے خاشاک آشیاں سے
کیا خوبی اس کے منھ کی اے غنچہ نقل کریے
تو تو نہ بول ظالم بو آتی ہے دہاں سے
آنکھوں ہی میں رہے ہو دل سے نہیں گئے ہو
حیران ہوں یہ شوخی آئی تمھیں کہاں سے
سبزان باغ سارے دیکھے ہوئے ہیں اپنے
دلچسپ کاہے کو ہیں اس بے وفا جواں سے
کی شست و شو بدن کی جس دن بہت سی ان نے
دھوئے تھے ہاتھ میں نے اس دن ہی اپنی جاں سے
خاموشی ہی میں ہم نے دیکھی ہے مصلحت اب
ہر یک سے حال دل کا مدت کہا زباں سے
اتنی بھی بدمزاجی ہر لحظہ میر تم کو
الجھائو ہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے
میر تقی میر

ہو جو زخمی کبھو برہم زدن مژگاں کا

دیوان اول غزل 86
کیا عجب پل میں اگر ترک ہو اس سے جاں کا
ہو جو زخمی کبھو برہم زدن مژگاں کا
اٹھتے پلکوں کے گرے پڑتے ہیں لاکھوں آنسو
ڈول ڈالا ہے مری آنکھوں نے اب طوفاں کا
جلوئہ ماہ تہ ابر تنک بھول گیا
ان نے سوتے میں دوپٹے سے جو منھ کو ڈھانکا
لہو لگتا ہے ٹپکنے جو پلک ماروں ہوں
اب تو یہ رنگ ہے اس دیدئہ اشک افشاں کا
ساکن کو کو ترے کب ہے تماشے کا دماغ
آئی فردوس بھی چل کر نہ ادھر کو جھانکا
اٹھ گیا ایک تو اک مرنے کو آبیٹھے ہے
قاعدہ ہے یہی مدت سے ہمارے ہاں کا
کار اسلام ہے مشکل ترے خال و خط سے
رہزن دیں ہے کوئی دزد کوئی ایماں کا
چارئہ عشق بجز مرگ نہیں کچھ اے میر
اس مرض میں ہے عبث فکر تمھیں درماں کا
میر تقی میر

القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا

دیوان اول غزل 25
شکوہ کروں میں کب تک اس اپنے مہرباں کا
القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا
گریے پہ رنگ آیا قید قفس سے شاید
خوں ہو گیا جگر میں اب داغ گلستاں کا
لے جھاڑو ٹوکرا ہی آتا ہے صبح ہوتے
جاروب کش مگر ہے خورشید اس کے ہاں کا
دی آگ رنگ گل نے واں اے صبا چمن کو
یاں ہم جلے قفس میں سن حال آشیاں کا
ہر صبح میرے سر پر اک حادثہ نیا ہے
پیوند ہو زمیں کا شیوہ اس آسماں کا
ان صید افگنوں کا کیا ہو شکار کوئی
ہوتا نہیں ہے آخر کام ان کے امتحاں کا
تب تو مجھے کیا تھا تیروں سے صید اپنا
اب کرتے ہیں نشانہ ہر میرے استخواں کا
فتراک جس کا اکثر لوہو میں تر رہے ہے
وہ قصد کب کرے ہے اس صید ناتواں کا
کم فرصتی جہاں کے مجمع کی کچھ نہ پوچھو
احوال کیا کہوں میں اس مجلس رواں کا
سجدہ کریں ہیں سن کر اوباش سارے اس کو
سید پسر وہ پیارا ہے گا امام بانکا
ناحق شناسی ہے یہ زاہد نہ کر برابر
طاعت سے سو برس کی سجدہ اس آستاں کا
ہیں دشت اب یہ جیتے بستے تھے شہر سارے
ویرانۂ کہن ہے معمورہ اس جہاں کا
جس دن کہ اس کے منھ سے برقع اٹھے گا سنیو
اس روز سے جہاں میں خورشید پھر نہ جھانکا
ناحق یہ ظلم کرنا انصاف کہہ پیارے
ہے کون سی جگہ کا کس شہر کا کہاں کا
سودائی ہو تو رکھے بازار عشق میں پا
سر مفت بیچتے ہیں یہ کچھ چلن ہے واں کا
سو گالی ایک چشمک اتنا سلوک تو ہے
اوباش خانہ جنگ اس خوش چشم بدزباں کا
یا روئے یا رلایا اپنی تو یوں ہی گذری
کیا ذکر ہم صفیراں یاران شادماں کا
قید قفس میں ہیں تو خدمت ہے نالگی کی
گلشن میں تھے تو ہم کو منصب تھا روضہ خواں کا
پوچھو تو میر سے کیا کوئی نظر پڑا ہے
چہرہ اتر رہا ہے کچھ آج اس جواں کا
میر تقی میر

برف کے لوگ کوئی بات کہاں سنتے ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 386
جمع ہو جاتے ہیں سورج کا جہاں سنتے ہیں
برف کے لوگ کوئی بات کہاں سنتے ہیں
ایک آسیب ہے اس شخص کی رعنائی بھی
خوشبوئیں بولتی ہیں رنگ وہاں سنتے ہیں
ایک ویرانہ ہے، قبریں ہیں ، خموشی ہے مگر
دل یہ کہتا ہے کہ کچھ لوگ یہاں سنتے ہیں
زندگی ان کی شہیدوں کی طرح ہے شاید
آنکھ رکھتے ہیں شجر، بات بھی، ہاں ! سنتے ہیں
تخت گرتے ہیں تو یاد آتی ہے اپنی ورنہ
ہم فقیروں کی کہاں شاہ جہاں سنتے ہیں
بیٹھ کر ہم بھی ذرا ذاتِ حرا میں منصور
وہ جو آواز ہے سینے میں نہاں ، سنتے ہیں
منصور آفاق

بن آئیگی نہ درد کا درماں کئے بغیر

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 15
گوہ شفا سے یاس پہ جب تک ہے دم میں دم
بن آئیگی نہ درد کا درماں کئے بغیر
بگڑی ہوئی بہت ہے کچھ اسباغ کی ہوا
یہ باغ کو رہے گی نہ ویراں کئے بغیر
مشکل بہت ہے گو کہ مٹانا سلف کا نام
مشکل کو ہم ٹلیں گے نہ آساں کئے بغیر
گو مے ہ تندو تلخ پہ ساقی ہے دلربا
اے شیخ بن پڑے گی نہ کچھ ہاں کئے بغیر
تکفیر جو کہ کرتے ہیں ابنائے وقت کی
چھوڑے گا وقت انہیں نہ مسلماں کئے بغیر
الطاف حسین حالی

کون بچھڑا تھا وہاں یاد نہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 139
چشمک ہم سفراں یاد نہیں
کون بچھڑا تھا وہاں یاد نہیں
دل شوریدہ سے الجھا تھا کوئی
تم تھے یا درد جہاں یاد نہیں
ہم تھے شاکی کہ جہاں تھا شاکی
کون تھا کس پہ گراں یاد نہیں
زندگی چال نہ چل جائے کہیں
کوئی بھی اپنا نشاں یاد نہیں
ہم کہاں ہیں کہ ہمیں اب کچھ بھی
جز حدیث دگراں یاد نہیں
آگ گلشن میں لگی تھی باقیؔ
فصل گل تھی کہ خزاں یاد نہیں
باقی صدیقی