ٹیگ کے محفوظات: گہی

دل کواب دل دہی سے خطرہ ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 224
عیشِ اُمید ہی سے خطرہ ہے
دل کواب دل دہی سے خطرہ ہے
ہے کچھ ایسا کہ اس کی جلوت میں
ہمیں اپنی کمی سے خطرہ ہے
جس کے آغوش کا ہوں دیوانہ
اس کے آغوش ہی سے خطرہ ہے
یاد کی دھوپ تو ہے روز کی بات
ہاں مجھے چاندنی سے خطرہ ہے
ہے عجب کچھ معاملہ درپیش
عقل کو آ گہی سے خطرہ ہے
شہر غدار جان لے کہ تجھے
ایک امروہوی سے خطرہ ہے
ہے عجب طورِ حالتِ گریہ
کہ مژہ کو نمی سے خطرہ ہے
حال خوش لکھنو کا دلّی کا
بس انہیں مصحفی سے خطرہ ہے
آسمانوں میں ہے خدا تنہا
اور ہر آدمی سے خطرہ ہے
میں کہوں کس طرح یہ بات اس سے
تجھ کو جانم مجھی سے خطرہ ہے
آج بھی اے کنارِ بان مجھے
تیری اک سانولی سے خطرہ ہے
ان لبوں کا لہو نہ پی جاؤں
اپنی تشنہ لبی سے خطرہ ہے
جون ہی تو ہے جون کے درپے
میر کو میر ہی سے خطرہ ہے
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
جون ایلیا

شام کو میری سر خوشی ہے شراب

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 46
شام تک میری بے کلی ہے شراب
شام کو میری سر خوشی ہے شراب
جہل واعظ کا اُس کو راس آئے
صاحبو! میری آ گہی ہے شراب
رَنگ رَس ہے میری رگوں میں رواں
بخدا میری زندگی ہے شراب
ناز ہے اپنی دلبری پہ مجھے
میرا دل ، میری دلبری ہے شراب
ہے غنیمت جو ہوش میں نہیں میں
شیخ! میری بے حسی ہے شراب
حِس جو ہوتی تو جانے کیا کرتا
مفیتو! میری بےحسی ہے شراب
جون ایلیا