ٹیگ کے محفوظات: گہر

جس سمت سے آتا ہے ادھر کیوں نہیں جاتا

خورشید کبھی راہِ دگر کیوں نہیں جاتا
جس سمت سے آتا ہے ادھر کیوں نہیں جاتا
میں سیدھے کسی راستے پر کیوں نہیں جاتا
اب کیسے بتاؤں میں سدھر کیوں نہیں جاتا
آوارگی! آوارگی! آوارگی! بتلا!
میں لوٹ کے آخر کبھی گھر کیوں نہیں جاتا
میں دھوپ میں جھلسا ہی چلا جاؤں گماں کی
اب ابرِ یقیں مجھ پہ ٹھہر کیوں نہیں جاتا
اک عمر جسے یاد کے چہرے سے ہے کھُرچا
آخر وہ مرے دل سے اتر کیوں نہیں جاتا
اے عکس مری یاد کی جھیلوں پہ پڑے عکس
تُو ٹوٹ چکا کب کا، بکھر کیوں نہیں جاتا
جب ہم سفری کا کوئی امکاں ہی نہیں ہے
تُو اپنی تو میں اپنی ڈگر کیوں نہیں جاتا
اے دشمنِ جاں چھوڑ بھی اب! جا بھی کہیں! مر!
تو بیتا ہوا پل ہے گزر کیوں نہیں جاتا
جو دل کے گلستان میں چلتا ہے ہمیشہ
جھونکا وہ سرِ راہگزر کیوں نہیں جاتا
مشکل ہو اگر حد سے زیادہ تو ہو آساں
بکھرا ہوں میں اتنا تو سنور کیوں نہیں جاتا
وہ چاند ہے اور سامنے موجود ہے میرے
پھر بحر تخیل کا بپھر کیوں نہیں جاتا
کہتے ہیں کہ ہر سیپ سے موتی نکل آئے
کیا جانیے آنکھوں سے گہر کیوں نہیں جاتا
یاور ماجد

ہوتے نہ یوں ہمارے جواں دربدر خراب

کرتے نہ ہم جو اہلِ وطن اپنا گھر خراب
ہوتے نہ یوں ہمارے جواں دربدر خراب
اعمال کو پرکھتی ہے دنیا مآل سے
اچھا نہ ہو ثمر تو ہے گویا شجر خراب
اک بار جو اتر گیا پٹٹری سے دوستو
دیکھا یہی کہ پھر وہ ہوا عمر بھر خراب
منزل تو اک طرف رہی اتنا ضرور ہے
اک دوسرے کا ہم نے کیا ہے سفر خراب
ہوتی نہیں وہ پوری طرح پھر کبھی بھی ٹھیک
ہو جائے ایک بار کوئی چیز گر خراب
اے دل مجھے پتہ ہے کہ لایا ہے تو کہاں
چل خود بھی اب خراب ہو مجھ کو بھی کر خراب
اِس کاروبارِ عشق میں ایسی ہے کیا کشش
پہلے پدر خراب ہوا پھر پسر خراب
اک دن بھی آشیاں میں نہ گزرا سکون سے
کرتے رہے ہیں مجھ کو مرے بال و پر خراب
رہ رہ کے یاد آتی ہے استاد کی یہ بات
کرتی ہے آرزوئے کمالِ ہنر خراب
اِس تیرہ خاکداں کے لیے کیا بِلا سبب
صدیوں سے ہو رہے ہیں یہ شمس و قمر خراب
لگتا ہے اِن کو زنگ کسی اور رنگ کا
کس نے کہا کہ ہوتے نہیں سیم و زر خراب
اک قدر داں ملا تو یہ سوچا کہ آج تک
ہوتے رہے کہاں مرے لعل و گہر خراب
خاموش اور اداس ہو باصرؔ جو صبح سے
آئی ہے آج پھر کوئی گھرسے خبر خراب
باصر کاظمی

رہ بہ رہ جھومتا ہر شجر دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
نشۂ سَرخوشی اَوج پر دیکھنا
رہ بہ رہ جھومتا ہر شجر دیکھنا
مٹھیوں میں شگوفوں کی زر سر بہ سر
سیپیوں میں گلوں کی گہر دیکھنا
لطف جو چشمِ تشنہ کو درکار ہے
شاخ در شاخ محوِ سفر دیکھنا
دل بہ دل آرزوؤں کے جگنو اڑے
صحن در صحن رقصِ شرر دیکھنا
جی نہ ساون کے جَل سے کہیں جَل اٹھے
تم بھی ماجدؔ ہو اہلِ خبر دیکھنا
ماجد صدیقی

تجھ سے چھینے گئے جو گہر، چھین لے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
کر کے غاصب کو زیر و زبر چھین لے
تجھ سے چھینے گئے جو گہر، چھین لے
ناز ہو ننّھی چڑیوں کے خوں پر جنہیں
اُن عقابوں سے تُو بال و پر چھین لے
جس کی بنیاد تیرے عرق سے اٹھی
اُس سپھل پیڑ سے برگ و بر چھین لے
نرم خُوئی تلک نرم خُو ہو، مگر
دستِ جارح سے تیغ و تبر چھین لے
حق ملے گا تجھے دشتِ وحشت میں کیا
چھین لے، چھین سکتا ہے گر، چھین لے
جس کا حقدار ہے تو وہ تکریمِ فن
تو بھی اے ماجدِ با ہنر! چھین لے
ماجد صدیقی

جہاں کے ہم مکیں ہیں، اُس نگر کی بات اور ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
سجل حویلیوں کی ، بام و در کی بات اور ہے
جہاں کے ہم مکیں ہیں، اُس نگر کی بات اور ہے
محال ہو گیا ہے، دھُند سے جسے نکالنا
چمن میں آرزو کے اُس شجر کی، بات اور ہے
صدف سے چشمِ تر کے، دفعتاً ٹپک پڑا ہے جو
گراں بہا نہیں ، پہ اُس گہر کی بات اور ہے
ہُوئی ہے روشنی سی، جگنوؤں کے اجتماع سے
لگی نہیں جو ہاتھ، اُس سحر کی بات اور ہے
کوئی کوئی ہے شہر بھر میں، تجھ سا ماجدِ حزیں
ہُوا جو تجھ پہ ختم ، اُس ہنر کی بات اور ہے
ماجد صدیقی

ختم ہونے ہی نہیں پاتا شجر کا انتظار

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
رگ بہ رگ پیہم لئے برگ و ثمر کا انتظار
ختم ہونے ہی نہیں پاتا شجر کا انتظار
کوئی منزل ہو ٹھہرتی ہے وہ کیوں مل کر سراب
ہر مسافر کو ہے کیوں تازہ سفر کا انتظار
رزق تک بھی روٹھنے کو جیسے ہم ایسوں سے ہے
جو بھی ہے کھلیان اُس کو ہے شرر کا انتظار
کاوشِ اظہارِ حق سے کب بہم ہو گا اِنہیں
اہلِفن کو جانے کیوں ہے سیم و زر کا انتظار
تشنہ لب خوشوں کی آنکھیں بوندیوں پر ہیں لگی
بحر کو بہرِ تموّج ہے قمر کا انتظار
اک سے اک بے جان سُورج اپنے پہلو میں لیے
ہر سحر سونپے ہمیں، اگلی سحر کا انتظار
کرب کے آنسو طرب کے آنسوؤں میں کب ڈھلیں
آنکھ کو ماجدؔ ہے کیوں پھر بھی گہر کا انتظار
ماجد صدیقی

آنکھوں کی سیپیوں میں گہر ڈھونڈنے پڑے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
موتی پئے جمال ہنر ڈھونڈنے پڑے
آنکھوں کی سیپیوں میں گہر ڈھونڈنے پڑے
جنگل میں طائروں کی چہک، آہوؤں کا رم
کیا کیا نہ ہمرہانِ سفر ڈھونڈنے پڑے
آئے گا کل کے بعد جو دن، اُس کو پاٹنے
کیا کیا جتن نہ شام و سحر ڈھونڈنے پڑے
اپنے ہی جسم و جان کی پیہم کرید سے
ماجد ہمیں خزائنِ زر ڈھونڈنے پڑے
ماجد صدیقی

ہاتھ دستِ یزید میں جو نہ دے حق سرائی میں اپنا سر دے دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
خلق چاہے اُسے حسین کوئی، وقت با صورتِ دگر دے دے
ہاتھ دستِ یزید میں جو نہ دے حق سرائی میں اپنا سر دے دے
اہلِ حق کو جو فتحِ مکہ دے اے خدا تجھ سے کچھ بعید نہیں
اشک ہیں جس طرح کے آنکھوں میں دامنوں کو وہی گہر دے دے
ہوں بھسم آفتوں کے پرکالے بُوندیوں میں بدل چلیں ژالے
جو بھی واماندگانِ گلشن ہیں رُت انہیں پھر سے بال و پر دے دے
لَوث جس کونہ چھُو کے گزری ہو جس میں خُو خضرِ دستگیر کی ہو
جس کے چہرے پہ لَو ضمیر کی ہو کوئی ایسا بھی رہبر دے دے
ہو مبارک ستم عقابوں کو کرگسوں کو نصیب آز رہے
فاختاؤں کو جو بہم ہے یہاں زندہ رہنے کا وہ ہُنر دے دے
ماجد صدیقی

آنکھوں میں آنسوؤں کے گُہر، لے کے آ گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
مَیں اُس سے چاہتوں کا ثمر، لے کے آ گیا
آنکھوں میں آنسوؤں کے گُہر، لے کے آ گیا
دیکھو تو کیسے چاند کی اُنگلی، پکڑ کے مَیں
اُس شوخ سے ملن کی سحر، لے کے آ گیا
کس زعم میں نجانے، منانے گیا اُسے
تہمت سی ایک، اپنے ہی سر، لے کے آ گیا
قصّہ ہی جس سے کشتِ تمّنا کا، ہو تمام
خرمن کے واسطے وُہ شرر، لے کے آ گیا
اَب سوچتا ہوں اُس سے، طلب میں نے کیا کیا
ماجدؔ یہ مَیں کہ زخمِ نظر لے کے آ گیا
ماجد صدیقی

وقت نجانے اور ابھی کیا کیا منظر دکھلائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
سچ کہنے پر شہر بدر ہوتے، بُوذرؓ دکھلائے گا
وقت نجانے اور ابھی کیا کیا منظر دکھلائے گا
اِک اِک گوشۂ شہر سے تو ہم خاک جبیں پر مَل لائے
خواہش کا عفریت ہمیں اَب کون سا در دکھلائے گا
سُورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ دمکتے اِک جیسے
کون مُبارک دن ایسا، جو سارے نگر دکھلائے گا
راہبروں کی سنگ دلی سے بچ نہ سکا جو دبنے سے
کون سا ایسا عزم ہمیں مائل بہ سفر دکھلائے گا
ہم بھاڑے کے وُہ مزدور ہیں پیٹ کا یہ تنّور جنہیں
دریاؤں کی تہہ میں چھپُا اِک ایک گہر دکھلائے گا
دُور لگے وُہ وقت ابھی جب ٹھہری رات کے آنگن میں
پھیکا پڑ کے چاند ہمیں آثارِ سحر دکھلائے گا
ہاں وُہ شہر کہ جس کا اِک اِک باسی اُونچا سُنتا ہو
ماجدؔ ایسے شہر میں تو کیا رنگِ ہُنر دکھلائے گا
ماجد صدیقی

چمن سے شور اُٹھا ’’الحذر‘‘ کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
ہوا نے یُوں بدن نوچا شجر کا
چمن سے شور اُٹھا ’’الحذر‘‘ کا
اترنا اشک کا نوکِ مژہ پر
سرِ میزان تُلنا ہے گہر کا
ہم ایسوں سے سلوک اُس کا ہے جیسے
تعلق مفلسوں سے اہلِ زر کا
نشیمن ہی نہیں اِک نُچنے والا
لگا ہے اب تو کھٹکا بال و پر کا
ہمیں احوال سن کر کارواں کا
ہُوا ماجدؔ نہ یارا ہی سفر کا
ماجد صدیقی

بے برگ شجر دیکھوں بکھرے ہوئے پر دیکھوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
منظر سے ذرا ہٹ کر پل بھر جو ادھر دیکھوں
بے برگ شجر دیکھوں بکھرے ہوئے پر دیکھوں
جلتے ہیں، اگر ان کے ٹخنے بھی کوئی چھولے
قامت میں بہت چھوٹے سب اہلِ نظر دیکھوں
لگتا ہے پرندوں سا بکھرا ہوا رزق اپنا
بیٹھوں بھی تو پیروں کو مصروفِ سفر دیکھوں
کس ابر سے نیساں کے آنکھیں ہیں نم آلودہ
کیا کیا ہیں صدف جن میں بے نام گہر دیکھوں
آتا ہے نظر ماجدؔ! کیا کچھ نہ جبینوں پر
ایسے میں بھلا کس کے مَیں قلب و جگر دیکھوں
ماجد صدیقی

کب نصیبوں میں اپنے سحر دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
گُل تمنّاؤں کے شاخ پر دیکھنا
کب نصیبوں میں اپنے سحر دیکھنا
دیکھنا نطق کلیوں سے چھَنتا ہوا
بے زباں باغ میں ہر شجر دیکھنا
شرط ٹھہری ہے گلشن میں اپنے لئے
کوئی منظر ہو با چشمِ تر دیکھنا
آب جذبوں کی آنکھوں میں سمٹی ہوئی
سیپیوں میں دمکتے گہر دیکھنا
دے گئی اُڑ کے تتلی سکوں کی ہمیں
کُو بہ کُو جھانکنا، در بہ در دیکھنا
دیکھ لینے پہ تجھ عید کے چاند کو
ہم پہ لازم ے بارِ دگر دیکھنا
لوگ ماجدؔ! ہیں معتوب ایسے سبھی
دیکھنا! تم بھی ہو باہنر، دیکھنا
ماجد صدیقی

لیکن نہ زبانوں پر تم رنجِ سفر لانا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 65
سمٹی ہے پروں میں جو اُس شب کی سحر لانا
لیکن نہ زبانوں پر تم رنجِ سفر لانا
بھائے نہ اُنہیں کچھ بھی جُز کلمۂ تر لانا
اور ہم کہ ہمیں آئے ہونٹوں پہ شرر لانا
سینچی ہے گلستاں نے جو شاخِ شجر اس پر
لازم نہ بھلا کیونکر ہو برگ و ثمرلانا
پنجرے میں صبا لا کر خوشبو، یہی کہتی ہے
مشکل ہے گلستاں سے کچھ اور خبر لانا
موسم کی تمازت پر ہے فرض کہ ہرنوں کو
جو گھاٹ کہ مقتل ہو صحرا میں، اُدھر لانا
بھاڑے ہی پہ کرنا ہے یہ کام ہمیں ماجدؔ
دریا میں اترنا ہے اور ساتھ گہر لانا
ماجد صدیقی

اُداس شام مگر ایک ہی کے گھر اُترے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 68
سحر تو ایک سی گُرگ و غزال پر اُترے
اُداس شام مگر ایک ہی کے گھر اُترے
سنی پکار نہ آئی صدا سسکنے کی
نجانے کون سی گھاٹی میں ہم سفر اُترے
نکل کے چاند سے کیوں راہ بھول جاتی ہے
وُہ چاندنی کہ جو بیوہ کے بام پر اُترے
انہی پہ سانپ نگلتے ہیں ناتوانوں کو
سفیر بن کے سکوں کے ہیں گو شجر اُترے
مری بھی رُوح کا ساگر ہُوا کرم فرما
مری بھی آنکھ میں دیکھو تو ہیں گہر اُترے
سمیٹ لائے جہاں بھر کے رتجگے ماجدؔ
وہ ذہن جس پہ فلک سے کوئی ہُنر اُترے
ماجد صدیقی

بے اماں ہیں مرے نگر کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 69
سنسناتے ہیں بام و در کیا کیا
بے اماں ہیں مرے نگر کیا کیا
تجھ سے بچھڑے تو دیکھنا یہ ہے
آنکھ اُگلے گی اب گہر کیا کیا
آنچ ہی سے بدلتے موسم کی
سہم جانے لگے شجر کیا کیا
دیکھنے کو مآل خواہش کا
دل کو درپیش ہیں سفر کیا کیا
چہچہوں کے بلند ہوتے ہی
کاگ جھپٹے ہیں شاخ پر کیا کیا
اذن پرواز کو ترستے ہیں
گرد خوردہ یہ بال و پر کیا کیا
ہم سے کہنے میں حالِ دل ماجدؔ
ہچکچاتا ہے نامہ بر کیا کیا
ماجد صدیقی

اچھا ہے نہ پوچھو ابھی احوال سفر کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
ہو جائے گا کچھ اور ہرا زخم، نظر کا
اچھا ہے نہ پوچھو ابھی احوال سفر کا
مجھ کو بھی تمازت کی جو پہچان ہوئی ہے
احساں ہے تری راہ کے اک ایک شجر کا
لمحے مجھے صدیاں ہیں، برس ثانیے تجھ کو
کہتے ہیں یہی فرق ہے اندازِ نظر کا
سنتا ہوں تہہِ خاک سے غنچوں کی چٹک بھی
آتا ہے نظر عکس جو قطرے میں گہر کا
شامل ہوئی کس شب کی سیاہی مرے خوں میں
آتا ہی نہیں لب پہ کبھی نام سحر کا
ماجد کہیں اس شہر میں ٹھکرائے نہ جاؤ
تحفہ لئے پھرتے ہو کہاں دیدۂ تر کا
ماجد صدیقی

طاقت ہمیں کہاں کہ شبِ غم سحر کریں

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 72
مانا سحر کو یار اسے جلوہ گر کریں
طاقت ہمیں کہاں کہ شبِ غم سحر کریں
تزئین میری گور کی لازم ہے خوب سی
تقریبِ سیر ہی سے وہ شاید گزر کریں
اب ایک اشک ہے دُرِ نایاب، وہ کہاں
تارِ نظر جو گریہ سے سلکِ گہر کریں
وہ دوست ہیں انہیں جو اثر ہو گیا تو کیا
نالے ہیں وہ جو غیر کے دل میں اثر کریں
آئے تو ان کو رنج، نہ آئے تو مجھ کو رنج
مرنے کی میرے کاش نہ ان کو خبر کریں
ہے جی میں سونگھیں نکہتِ گل جا کے باغ میں
بس کب تک التجائے نسیمِ سحر کریں
اب کے ارادہ ملکِ عدم کا ہے شیفتہ
گھبرا گئے کہ ایک جگہ کیا بسر کریں
شب وصل کی بھی چین سے کیوں کر بسر کریں
جب یوں نگاہبانیِ مرغِ سحر کریں
محفل میں اک نگاہ اگر وہ ادھر کریں
سو سو اشارے غیر سے پھر رات بھر کریں
طوفانِ نوح لانے سے اے چشم فائدہ؟
دو اشک بھی بہت ہیں، اگر کچھ اثر کریں
آز و ہوس سے خلق ہوا ہے یہ نامراد
دل پر نگاہ کیا ہے، وہ مجھ پر نظر کریں
کچھ اب کے ہم سے بولے تو یہ جی میں ہے کہ پھر
ناصح کو بھی رقیب سے آزردہ تر کریں
واں ہے وہ نغمہ جس سے کہ حوروں کے ہوش جائیں
یاں ہے وہ نالہ جس سے فرشتے حذر کریں
اہلِ زمانہ دیکھتے ہیں عیب ہی کو بس
کیا فائدہ جو شیفتہ عرضِ ہنر کریں
مصطفٰی خان شیفتہ

غنچے کو جیسے موجۂ بادِ سحر سے فیض

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 54
ہے دل کو یوں ترے دمِ اعجاز اثر سے فیض
غنچے کو جیسے موجۂ بادِ سحر سے فیض
عشاق سے نگاہ نہ رکھو دریغ تم
پاتے ہیں لوگ خدمتِ اہلِ نظر سے فیض
ہے عالمِ کبیر میں بھی یوں ہی جس طرح
دل سے جگر کو فیض ہے، دل کو جگر سے فیض
آزردہ جفائے "دے” و "تیر” کو نہیں
یک ذرہ آب و آتشِ لعل و گہر سے فیض
اپنی نہاد میں نہیں احساں فرامشی
پایا ہے ہم نے صاعقے کا ابرِ تر سے فیض
زر کسب کر کہ عشرتِ خسرو نصیب ہو
فرہاد کو سنا ہے، ہوا جو ہنر سے فیض؟
لگتے ہیں اس کے سینہ و بر سے مدام ہم
ہوتا ہے ہم کو روز مہِ سیم بر سے فیض
اربابِ خانقاہ ہیں محتاجِ اغنیا
کافی ہے ہم کو پیرِ مغاں! تیرے در سے فیض
بلبل ہمارے گھر وہ خود آتے ہیں رحم سے
افزوں ہے بے پری میں یہاں بال و پر سے فیض
خرم نہادِ مے کش و زاہد شگفتہ دل
ہے شیفتہ ہر ایک کو وقتِ سحر سے فیض
مصطفٰی خان شیفتہ

کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 175
یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں
وہ آئیں@ گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
نظر لگے نہ کہیں اُس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں
ترے جواہرِ طرفِ کُلہ کو کیا دیکھیں
ہم اوجِ طالعِ لعل و گہر کو دیکھتے ہیں
@نسخۂ نظامی میں ’آئے‘
مرزا اسد اللہ خان غالب

جن لوگوں کی تھی درخورِ عقدِ گہر انگشت

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 114
افسوس کہ دنداں@ کا کیا رزق فلک نے
جن لوگوں کی تھی درخورِ عقدِ گہر انگشت
کافی ہے نشانی تری چھلّے کا نہ دینا
خالی مجھے دکھلا کے بوقتِ سفر انگشت
لکھتا ہوں اسدؔ سوزشِ دل سے سخنِ گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت
@نسخۂ نظامی میں اگرچہ ’دیداں‘ ہے لیکن معانی کے لحاظ سے ’دنداں‘ مناسب ہے، دیداں سہوِ کتابت ممکن ہے۔ دیداں دودہ کا جمع ہے اس سے مراد کیڑے ہیں۔ تب اس کا مطلب بنتا ہے کہ انگلیوں کو قبر کی کیڑوں کا خوراک بنا دیا۔ نسخۂ مہر اور نسخہ علامہ آسی میں لفظ دیداں ہی آیا ہے ہاں البتہ نسخہ حمیدیہ میں لفظ دندان آیا ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

کچھ یار کے آنے کی مگر گرم خبر ہے

دیوان پنجم غزل 1726
آنکھوں کی طرف گوش کی در پردہ نظر ہے
کچھ یار کے آنے کی مگر گرم خبر ہے
یہ راہ و روش سرو گلستاں میں نہ ہو گی
اس قامت دلچسپ کا انداز دگر ہے
یہ بادیۂ عشق ہے البتہ ادھر سے
بچ کر نکل اے سیل کہ یاں شیر کا ڈر ہے
وہ ناوک دلدوز ہے لاگو مرے جی کا
تو سامنے ہو ہمدم اگر تجھ کو جگر ہے
کیا پھیل پڑی مدت ہجراں کو نہ پوچھو
مہ سال ہوا ہم کو گھڑی ایک پہر ہے
کیا جان کہ جس کے لیے منھ موڑیے تم سے
تم آؤ چلے داعیہ کچھ تم کو اگر ہے
تجھ سا تو سوار ایک بھی محبوب نہ نکلا
جس دلبر خودکام کو دیکھا سو نفر ہے
شب شور و فغاں کرتے گئی مجھ کو تو اب تو
دم کش ہو ٹک اے مرغ چمن وقت سحر ہے
سوچے تھے کہ سوداے محبت میں ہے کچھ سود
اب دیکھتے ہیں اس میں تو جی ہی کا ضرر ہے
شانے پہ رکھا ہار جو پھولوں کا تو لچکی
کیا ساتھ نزاکت کے رگ گل سی کمر ہے
کر کام کسو دل میں گئی عرش پہ تو کیا
اے آہ سحرگاہ اگر تجھ میں اثر ہے
پیغام بھی کیا کریے کہ اوباش ہے ظالم
ہر حرف میاں دار پہ شمشیر و سپر ہے
ہر بیت میں کیا میر تری باتیں گتھی ہیں
کچھ اور سخن کر کہ غزل سلک گہر ہے
میر تقی میر

سو پر وا ہوئے نہ قفس کے بھی در پر

دیوان پنجم غزل 1609
بھروسا اسیری میں تھا بال و پر پر
سو پر وا ہوئے نہ قفس کے بھی در پر
سواران شائستہ کشتے ہیں تیرے
نہ تیغ ستم کر علم ہر نفر پر
کھلا پیش دنداں نہ اس کا گرہچہ
کنھوں نے بھی تھوکا نہ سلک گہر پر
جلے کیوں نہ چھاتی کہ اپنی نظر ہے
کسو شوخ پرکار رعنا پسر پر
نہ محشر میں چونکا مرا خون خفتہ
وہی تھا یہ خوابیدہ اس شور و شر پر
کئی زخم کھا کر تڑپتا رہا دل
تسلی تھی موقوف زخم دگر پر
سنا تھا اسے پاس لیکن نہ پایا
چلے دور تک ہم گئے اس خبر پر
سرشب کہے تھا بہانہ طلب وہ
گھڑی ایک رات آئی ہو گی پہر پر
کوئی پاس بیٹھا رہے کب تلک یوں
کہو ہو گی رخصت گئے اب سحر پر
جہاں میں نہ کی میر اقامت کی نیت
کہ مشعر تھا آنا مرا یاں سفر پر
میر تقی میر

تاثیر ہے گی اہل وفا کے ہنر کے بیچ

دیوان چہارم غزل 1371
صورت پھرے نہ یار کی کیوں چشم تر کے بیچ
تاثیر ہے گی اہل وفا کے ہنر کے بیچ
خوش سیرتی ہے جس سے کہ ہوتا ہے اعتبار
ہے چوب خشک بو جو نہ ہووے اگر کے بیچ
اس کے سمند ناز کا پامال تو رہوں
اے کاش میری گور کریں رہگذر کے بیچ
منھ اس کا دیکھ رہیے کہ رفتار ناز کو
سرتا قدم ہے لطف ہی اس خوش پسر کے بیچ
ہر دانۂ سرشک میں تار نگاہ ہے
اس رشتے کی روش کہ جو ہووے گہر کے بیچ
کیا دل کو خوں کیا کہ تڑپنے لگا جگر
یکتاے روزگار ہیں ہم اس ہنر کے بیچ
ایسا ہوا ہے قیمہ کہ اب ہے حساب پاک
کہیے جو کچھ بھی باقی ہو اپنے جگر کے بیچ
ہے اپنے خانوادے میں اپنا ہی شور میر
بلبل بھی اک ہی بولتا ہوتا ہے گھر کے بیچ
میر تقی میر

یہ کانٹے کھٹکتے جگر میں بھی ہیں

دیوان سوم غزل 1188
تری پلکیں چبھتی نظر میں بھی ہیں
یہ کانٹے کھٹکتے جگر میں بھی ہیں
رہے پھرتے دریا میں گرداب سے
وطن میں بھی ہیں ہم سفر میں بھی ہیں
کہاں سے کہ مجنوں بھی ہم سا ہی تھا
غلط کے شوائب نظر میں بھی ہیں
نہ بھولو نزاکت لچک ہی نہیں
چھپے خنجر اس کی کمر میں بھی ہیں
جھمک سطح رخ کی سی اس کے کہاں
صفا و ضیا تو گہر میں بھی ہیں
دل و دلی دونوں اگر ہیں خراب
پہ کچھ لطف اس اجڑے گھر میں بھی ہیں
چلو میر کے تو تجسس کے بعد
کہ وے وحشی تو اپنے گھر میں بھی ہیں
میر تقی میر

طرحیں بدل گئیں پر ان نے ادھر نہ دیکھا

دیوان سوم غزل 1101
چاہت کے طرح کش ہو کچھ بھی اثر نہ دیکھا
طرحیں بدل گئیں پر ان نے ادھر نہ دیکھا
خالی بدن جیوں سے یاں ہو گئے ولیکن
اس شوخ نے ادھر کو بھر کر نظر نہ دیکھا
کس دن سرشک خونیں منھ پر نہ بہ کر آئے
کس شب پلک کے اوپر لخت جگر نہ دیکھا
یاں شہر شہر بستی اوجڑ ہی ہوتے پائی
اقلیم عاشقی میں بستا نگر نہ دیکھا
اب کیا کریں کہ آیا آنکھوں میں جی ہمارا
افسوس پہلے ہم نے ٹک سوچ کر نہ دیکھا
لاتے نہیں فرو سر ہرگز بتاں خدا سے
آنکھوں سے اپنی تم نے ان کا گہر نہ دیکھا
سوجھا نہ چاہ میں کچھ برباد کر چکے دل
میر اندھے ہو رہے تھے اپنا بھی گھر نہ دیکھا
میر تقی میر

پردے میں چشم ڈھکنے دیوار و در بنے ہے

دیوان دوم غزل 1054
عبرت سے دیکھ جس جا یاں کوئی گھر بنے ہے
پردے میں چشم ڈھکنے دیوار و در بنے ہے
ہیں دل گداز جن کے کچھ چیز مال وے ہیں
ہوتے ہیں ملتفت تو پھر خاک زر بنے ہے
شب جوش غم سے جس دم لگتا ہے دل تڑپنے
ہر زخم سینہ اس دم یک چشم تر بنے ہے
یاں ہر گھڑی ہماری صورت بگڑتی ہے گی
چہرہ ہی واں انھوں کا دو دو پہر بنے ہے
ٹک رک کے صاف طینت نکلے ہے اور کچھ ہو
پانی گرہ جو ہووے تو پھر گہر بنے ہے
ہے شعبدے کے فن میں کیا دست مے کشوں کو
زاہد انھوں میں جاکر آدم سے خر بنے ہے
نکلے ہے صبح بھی یاں صندل ملے جبیں کو
عالم میں کام کس کا بے درد سر بنے ہے
سارے دکھوں کی اے دل ہوجائے گی تلافی
صحبت ہماری اس کی ٹک بھی اگر بنے ہے
ہر اک سے ڈھب جدا ہے سارے زمانے کا بھی
بنتی ہے جس کسو کی یک طور پر بنے ہے
برسوں لگی رہے ہیں جب مہر و مہ کی آنکھیں
تب کوئی ہم سا صاحب صاحب نظر بنے ہے
یاران دیر و کعبہ دونوں بلا رہے ہیں
اب دیکھیں میر اپنا جانا کدھر بنے ہے
میر تقی میر

قدرت سے اس کے دل کی کل پھیر دے ادھر کو

دیوان دوم غزل 929
لا میری اور یارب آج ایک خوش کمر کو
قدرت سے اس کے دل کی کل پھیر دے ادھر کو
بے طاقتی میں شب کی پوچھو نہ ضبط میرا
ہاتھوں میں دل کو رکھا دانتوں تلے جگر کو
پھولا پھلا نہ اب تک ہرگز درخت خواہش
برسوں ہوئے کہ دوں ہوں خون دل اس شجر کو
ہے روزگار میرا ایسا سیہ کہ یارو
مشکل ہے فرق کرنا ٹک شام سے سحر کو
ہرچند ہے سخن کو تشبیہ در سے لیکن
باتیں مری سنو تو تم پھینک دو گہر کو
نزدیک ہے کہ جاویں ہم آپ سے اب آئو
ملتے ہیں دوستوں سے جاتے ہوئے سفر کو
کب میر ابر ویسا برساوے کر اندھیری
جیسا کہ روتے ہم نے دیکھا ہے چشم تر کو
میر تقی میر

جان کے دینے کو جگر چاہیے

دیوان اول غزل 484
عشق میں نے خوف و خطر چاہیے
جان کے دینے کو جگر چاہیے
قابل آغوش ستم دیدگاں
اشک سا پاکیزہ گہر چاہیے
حال یہ پہنچا ہے کہ اب ضعف سے
اٹھتے پلک ایک پہر چاہیے
کم ہے شناساے زر داغ دل
اس کے پرکھنے کو نظر چاہیے
سینکڑوں مرتے ہیں سدا پھر بھی یاں
واقعہ اک شام و سحر چاہیے
عشق کے آثار ہیں اے بوالہوس
داغ بہ دل دست بسر چاہیے
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیے
جیسے جرس پارہ گلو کیا کروں
نالہ و افغاں میں اثر چاہیے
خوف قیامت کا یہی ہے کہ میر
ہم کو جیا بار دگر چاہیے
میر تقی میر

پرواز خواب ہو گئی ہے بال و پر خیال

دیوان اول غزل 266
کیسا چمن اسیری میں کس کو ادھر خیال
پرواز خواب ہو گئی ہے بال و پر خیال
مشکل ہے مٹ گئے ہوئے نقشوں کی پھر نمود
جو صورتیں بگڑ گئیں ان کا نہ کر خیال
مو کو عبث ہے تاب کلی یوں ہی تنگ ہے
اس کا دہن ہے وہم و گمان و کمر خیال
رخسار پر ہمارے ڈھلکنے کو اشک کے
دیکھے ہے جو کوئی سو کرے ہے گہر خیال
کس کو دماغ شعر و سخن ضعف میں کہ میر
اپنا رہے ہے اب تو ہمیں بیشتر خیال
میر تقی میر

تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف

دیوان اول غزل 251
جو دیکھو مرے شعر تر کی طرف
تو مائل نہ ہو پھر گہر کی طرف
کوئی داد دل آہ کس سے کرے
ہر اک ہے سو اس فتنہ گر کی طرف
محبت نے شاید کہ دی دل کو آگ
دھواں سا ہے کچھ اس نگر کی طرف
لگیں ہیں ہزاروں ہی آنکھیں ادھر
اک آشوب ہے اس کے گھر کی طرف
بہت رنگ ملتا ہے دیکھو کبھو
ہماری طرف سے سحر کی طرف
بخود کس کو اس تاب رخ نے رکھا
کرے کون شمس و قمر کی طرف
نہ سمجھا گیا ابر کیا دیکھ کر
ہوا تھا مری چشم تر کی طرف
ٹپکتا ہے پلکوں سے خوں متصل
نہیں دیکھتے ہم جگر کی طرف
مناسب نہیں حال عاشق سے صبر
رکھے ہے یہ دارو ضرر کی طرف
کسے منزل دلکش دہر میں
نہیں میل خاطر سفر کی طرف
رگ جاں کب آتی ہے آنکھوں میں میر
گئے ہیں مزاج اس کمر کی طرف
میر تقی میر

جلا ہی پڑا ہے ہمارا تو گھر بار

دیوان اول غزل 212
لبوں پر ہے ہر لحظہ آہ شرر بار
جلا ہی پڑا ہے ہمارا تو گھر بار
ہوئیں کس ستم دیدہ کے پاس یک جا
نگاہیں شرر ریز پلکیں جگر بار
کہو کوئی دیکھے اسے سیر کیونکر
کہ ہے اس تن نازک اوپر نظر بار
حلاوت سے اپنی جو آگاہ ہوں تو
چپک جائیں باہم وے لعل شکر بار
سبک کر دیا دل کی بے طاقتی نے
نہ جانا تھا اس کی طرف ہم کو ہر بار
گدھا سا لدا پھرتا ہے شیخ ہر سو
کہ جبہ ہے یک بار و عمامہ سر بار
مرے نخل ماتم پہ ہے سنگ باراں
نہایت کو لایا عجب یہ شجر بار
ہمیں بار اس درپہ کثرت سے کیا ہو
لگا ہی رہے ہے سدا واں تو دربار
یہ آنکھیں گئیں ایسی ہوکر در افشاں
کہ دیکھے سے آیا تر ابر گہربار
کب اس عمر میں آدمی شیخ ہو گا
کتابیں رکھیں ساتھ گو ایک خربار
جہاں میر رہنے کی جاگہ نہیں ہے
چلا چاہیے یاں سے اسباب کر بار
میر تقی میر

بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 12
ہم مسافر یونہی مصروفِ سفر جائیں گے
بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے
کس قدر ہو گا یہاں مہر و وفا کا ماتم
ہم تری یاد سے جس روز اتر جائیں گے
جوہری بند کیے جاتے ہیں بازارِ سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے
نعمتِ زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں، مر جائیں گے
شاید اپنا بھی کوئی بیت حُدی خواں بن کر
ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں گے
فیض آتے ہیں رہِ عشق میں جو سخت مقام
آنے والوں سے کہو ہم تو گزر جائیں گے
فیض احمد فیض

گہرے سمندروں کا سفر بھی اسی کا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 321
دست عصائے معجزہ گر بھی اسی کا ہے
گہرے سمندروں کا سفر بھی اسی کا ہے
میرے جہاز اسی کی ہواؤں سے ہیں رواں
میری شناوری کا ہنر بھی اسی کا ہے
لشکر زمیں پہ جس نے اتارے ہیں رات کے
کھلتا ہوا نشان قمر بھی اسی کا ہے
آب رواں اسی کے اشارے سے ہے سراب
بادل کے پاس گنجِ گہر بھی اسی کا ہے
وہ خشک ٹہنیوں سے اگاتا ہے برگ و بار
موسم تمام اس کے شجر بھی اسی کا ہے
منظر میں جتنے رنگ ہیں نیرنگ اسی کے ہیں
حیرانیوں میں ذوق نظر بھی اسی کا ہے
بس اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں لوگ
ورنہ سناں بھی اس کی ہے سر بھی اسی کا ہے
تیغِ ستم کو جس نے عطا کی ہیں مہلتیں
فریاد کشتگاں میں اثر بھی اسی کا ہے
تیرا یقین سچ ہے مری چشم اعتبار
سب کچھ فصیلِ شب کے ادھر بھی اسی کا ہے
مجرم ہوں اور خرابۂ جاں میں اماں نہیں
اب میں کہاں چھپوں کہ یہ گھر بھی اسی کا ہے
خود کو چراغ راہ گزر جانتا ہوں میں
لیکن چراغِ راہ گزر بھی اسی کا ہے
عرفان صدیقی

پانیوں میں راستہ شعلوں میں گھر کرنا مجھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 293
ہو چکا جو کچھ وہی بار دگر کرنا مجھے
پانیوں میں راستہ شعلوں میں گھر کرنا مجھے
تجھ کو اک جادو دکھانا پیچ و تابِ خاک کا
اک تماشا اے ہوائے رہ گزر کرنا مجھے
دھیرے دھیرے ختم ہونا سر کا سودا، دل کا درد
رفتہ رفتہ ہر صدف کو بے گہر کرنا مجھے
اپنے چاروں سمت دیواریں اُٹھانا رات دِن
رات دِن پھر ساری دیواروں میں در کرنا مجھے
اِک خرابہ دِل میں ہے، اِک آب جوُ آنکھوں میں ہے
میں تمہیں لینے کہاں آؤں خبر کرنا مجھے
عرفان صدیقی

مسافتوں کی ہوائے سحر سلام تجھے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 290
ہوئی ہے شاخ نوا تازہ تر، سلام تجھے
مسافتوں کی ہوائے سحر سلام تجھے
شعاع نور نہیں ہے حصار کی پابند
سو اے چراغ مکان دگر سلام تجھے
کھلا کہ میں ہی مراد کلام ہوں اب تک
اشارۂ سخن مختصر سلام تجھے
یہ فاصلوں کے کڑے کوس مملکت میری
مرے غبار، مرے تاج سر سلام تجھے
ندی کی تہہ میں اُترنا تجھی سے سیکھا ہے
خزینۂ صدف بے گہر سلام تجھے
فضا میں زندہ ہے پچھلی اُڑان کی آواز
مری شکستگئ بال و پر سلام تجھے
عرفان صدیقی

ہم جس میں جی رہے تھے وہ گھر بند کر دیا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 65
اس سے بچھڑ کے بابِ ہنر بند کر دیا
ہم جس میں جی رہے تھے وہ گھر بند کر دیا
شاید خبر نہیں ہے غزالانِ شہر کو
اب ہم نے جنگلوں کا سفر بند کر دیا
اپنے لہو کے شور سے تنگ آچکا ہوں میں
کس نے اسے بدن میں نظر بند کر دیا
اب ڈھونڈ اور قدرشناسانِ رنگ و بو
ہم نے یہ کام اے گلِ تر بند کر دیا
اک اسمِ جاں پہ ڈال کے خاکِ فرامشی
اندھے صدف میں ہم نے گہر بند کر دیا
عرفان صدیقی

اچانک جی اٹھیں وہ بام و در ایسا نہیں ہو گا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 40
خرابہ ایک دن بن جائے گھر ایسا نہیں ہو گا
اچانک جی اٹھیں وہ بام و در ایسا نہیں ہو گا
وہ سب اک بجھنے والے شعلۂ جاں کا تماشا تھا
دوبارہ ہو وہی رقصِ شرر ایسا نہیں ہو گا
وہ ساری بستیاں وہ سارے چہرے خاک سے نکلیں
یہ دُنیا پھر سے ہو زیر و زبر ایسا نہیں ہو گا
مرے گم گشتگاں کو لے گئی موجِ رواں کوئی
مجھے مل جائے پھر گنجِ گہر ایسا نہیں ہو گا
خرابوں میں اب ان کی جستجو کا سلسلہ کیا ہے
مرے گردوں شکار آئیں ادھر ایسا نہیں ہو گا
ہیولے رات بھر محراب و در میں پھرتے رہتے ہیں
میں سمجھا تھا کہ اپنے گھر میں ڈر ایسا نہیں ہو گا
میں تھک جاؤں تو بازوئے ہوا مجھ کو سہارا دے
گروں تو تھام لے شاخِ شجر ایسا نہیں ہو گا
کوئی حرفِ دُعا میرے لیے پتوار بن جائے
بچا لے ڈوبنے سے چشمِ تر ایسا نہیں ہو گا
کوئی آزار پہلے بھی رہا ہو گا مرے دل کو
رہا ہو گا مگر اے چارہ گر ایسا نہیں ہو گا
بحدِ وسعتِ زنجیر گردش کرتا رہتا ہوں
کوئی وحشی گرفتارِ سفر ایسا نہیں ہو گا
بدایوں تیری مٹّی سے بچھڑ کر جی رہا ہوں میں
نہیں اے جانِ من، بارِ دگر ایسا نہیں ہو گا
عرفان صدیقی

اب دیکھنے کو دیدۂ تر، کچھ نہیں بچا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 32
طوفاں میں تا بہ حد نظر کچھ نہیں بچا
اب دیکھنے کو دیدۂ تر، کچھ نہیں بچا
کچھ خاک تھی سو وقت کی آندھی میں اُڑ گئی
آخر نشان سوز جگر کچھ نہیں بچا
ہر شئے کو ایک سیل بلاخیز لے گیا
سودا نہ سر، چراغ نہ در، کچھ نہیں بچا
سب جل گیا جو تھا ہمیں پیارا جہان میں
خوشبو نہ گل، صدف نہ گہر، کچھ نہیں بچا
مٹی بھی نذر حسرت تعمیر ہو گئی
گھر میں سوائے برق و شرر کچھ نہیں بچا
اُس پار ساحلوں نے سفینے ڈبو دیے
سب کچھ بچا لیا تھا مگر کچھ نہیں بچا
یا بازوئے ستم میں ہے یہ تیغ آخری
یا دست کشتگاں میں ہنر کچھ نہیں بچا
ڈرتے رہے تو موج ڈراتی رہی ہمیں
اَب ڈوب جائیے کہ خطر کچھ نہیں بچا
کچھ نقدِ جاں سفر میں لٹانا بھی ہے ضرور
کیا کیجئے کہ زادِ سفر کچھ نہیں بچا
یہ کاروبارِ عرضِ تمنا فضول ہے
دل میں لہو، دُعا میں اثر کچھ نہیں بچا
اب اور کوئی راہ نکالو کہ صاحبو
جس سمت جا رہے تھے اُدھر کچھ نہیں بچا
یہ کون چیختا ہے اگر مر گیا ہوں میں
یہ کیا تڑپ رہا ہے اگر کچھ نہیں بچا
عرفان صدیقی

عکس در عکس ہے کیا چیز، نظر ہو تو کہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 292
آئینہ کون ہے کچھ اپنی خبر ہو تو کہوں
عکس در عکس ہے کیا چیز، نظر ہو تو کہوں
اُس تجلی پہ کوئی نظم کوئی تازہ غزل
مہرباں قوسِ قزح بار دگر ہو تو کہوں
درد کے طے یہ مراحل تو ہوئے ہیں لیکن
قطرہ پہ گزری ہے کیا، قطرہ گہر ہو تو کہوں
ہمسفر میرا پتہ پوچھتے کیا ہو مجھ سے
کوئی بستی، کوئی چوکھٹ، کوئی در ہو تو کہوں
کوئی شہ نامہء شب، کوئی قصیدئہ ستم
معتبر کوئی کہیں صاحبِ زر ہو تو کہوں
قیس صحرا میں مجھے ساتھ تو لے جائے گا
آتشِ غم کا کوئی زادِ سفر ہو تو کہوں
کیسے لگتی ہے مجھے چلتی ہوئی بادِ سحر
کبھی برفائی ہوئی رات بسر ہو تو کہوں
یہ پرندے تو ہیں گل پوش رتوں کے ساتھی
موسمِ زرد میں آباد شجر ہو تو کہوں
کون بے چہرگیِ وقت پہ تنقید کرے
سر بریدہ ہے یہ دنیا، مرا سر ہو تو کہوں
رات آوارہ مزاجی کا سبب پوچھتی ہے
کیا کروں کوئی ٹھکانہ کوئی گھر ہو تو کہوں
کشتیاں کیوں بھری آتی ہیں بجھے گیتوں سے
کیا ہے اس پار مجھے کوئی خبر ہو تو کہوں
ایک ہی پیڑ بہت ہے ترے صحرا میں مجھے
کوئی سایہ سا، کوئی شاخِ ثمر ہو تو کہوں
دہر پھولوں بھری وادی میں بدل سکتا ہے
بامِ تہذیب پہ امکانِ سحر ہو تو کہوں
زندگی رنگ ہے خوشبو ہے لطافت بھی ہے
زندہ رہنے کا مرے پاس ہنر ہو تو کہوں
میں تماشا ہوں تماشائی نہیں ہو سکتا
آئینہ خانہ سے کوئی مجھے ڈر ہو تو کہوں
سچ کے کہنے سے زباں آبلہ لب ہوتی ہے
سینہء درد میں پتھر کا جگر ہو تو کہوں
میری افسردہ مزاجی بھی بدل سکتی ہے
دل بہاروں سے کبھی شیر و شکر ہو تو کہوں
تُو بجھا سکتی ہے بس میرے چراغوں کو ہو ا
کوئی مہتاب ترے پیشِ نظر ہو تو کہوں
رائیگانی کا کوئی لمحہ میرے پاس نہیں
رابطہ ہجر کا بھی زندگی بھر ہو تو کہوں
پھر بلایا ہے کسی نیلے سمندر نے مجھے
کوئی گرداب کہیں کوئی بھنور ہو تو کہوں
پھر تعلق کی عمارت کو بنا سکتا ہوں
کوئی بنیاد کہیں کوئی کھنڈر ہو تو کہوں
عید کا چاند لے آیا ہے ستم کے سائے
یہ بلائیں ہیں اگر ماہِ صفر ہو تو کہوں
اس پہ بھی ترکِ مراسم کی قیامت گزری
کوئی سسکاری کوئی دیدئہ تر ہو تو کہوں
ایک مفروضہ جسے لوگ فنا کہتے ہیں
"یہ تو وقفہ ہے کوئی ، ان کو خبر ہو تو کہوں
کتنے جانکاہ مراحل سے گزر آئی ہے
نرم و نازک کوئی کونپل جو ثمر ہو تو کہوں
یہ محبت ہے بھری رہتی ہے بھونچالوں سے
جو اُدھر ہے وہی تخریب اِدھر ہو تو کہوں
مجھ کو تاریخ کی وادی میں سدا رہنا ہے
موت کے راستے سے کوئی مفر ہو تو کہوں
آسماں زیرِ قدم آ گئے میرے لیکن
قریہء وقت کبھی زیر و زبر ہو تو کہوں
ختم نقطے کا ابھی دشت نہیں کر پایا
خود کو شاعر کبھی تکمیلِ ہنر ہو تو کہوں
اہل دانش کو ملا دیس نکالا منصور
حاکمِ شہر کوئی شہر بدر ہو تو کہوں
زندگی ایسے گزر سکتی نہیں ہے منصور
میری باتوں کا کوئی اس پہ اثر ہو تو کہوں
پوچھتے کیا ہو ازل اور ابد کا منصور
ان زمانوں سے کبھی میرا گزر ہو تو کہوں
منصور آفاق

گھر میں ہوں گھر سے نکل کر بھی نظر کی صورت

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 13
ایک ہے میرے حضر اور سفر کی صورت
گھر میں ہوں گھر سے نکل کر بھی نظر کی صورت
چشمِ عشاق سے پنہاں ہو نظر کی صورت
وصل سے جان چراتے ہو کمر کی صورت
ہوں وہ بلبل کہ جو صیاد نے کاٹے مرے پر
گر گئے پھول ہر اک شاخ سے پر کی صورت
تیرے چہرے کی ملاحت جو فلک نے دیکھی
پھٹ گیا مہر سے دل شیرِ سحر کی صورت
جھانک کر روزنِ دیوار سے وہ تو بھاگے
رہ گیا کھول کے آغوش میں در کی صورت
تیغ گردن پہ کہ ہے سنگ پر آہیں دمِ ذبح
خون کے قطرے نکلتے ہیں شرر کی صورت
کون کہتا ہے ملے خاک میں آنسو میرے
چھپ رہی گرد یتیمی میں گہر کی صورت
نہیں آتا ہے نظر، المدد اے خضر اجل
جادۂ راہِ عدم موئے کمر کی صورت
پڑ گئیں کچھ جو مرے گرم لہو کی چھینٹیں
اڑ گئی جوہرِ شمشیر شرر کی صورت
قبر ہی وادیِ غربت میں بنے گی اک دن
اور کوئی نظر آتی نہیں گھر کی صورت
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعِ تر کی صورت
آفت آغازِ جوانی ہی میں آئی مجھ پر
بجھ گیا شام سے دل شمعِ سحر کی صورت
جلوہ گر بام پہ وہ مہرِ لقا ہے شاید
آج خورشید سے ملتی ہے قمر کی کی صورت
دہنِ یار کی توصیف کڑی منزل ہے
چست مضمون کی بندش ہو کمر کی صورت
نو بہارِ چمنِ غم ہے عجب روز افزوں
بڑھتی جاتی ہے گرہ دل کی ثمر کی صورت
ہوں بگولے کی طرح سے میں سراپا گردش
رات دن پاؤں بھی چکر میں ہیں سر کی صورت
امیر مینائی

تیور نہیں آتے ہیں کہ چکر نہیں آتا

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 1
پرسش کو مری کون مرے گھر نہیں آتا
تیور نہیں آتے ہیں کہ چکر نہیں آتا
تم لاکھ قسم کھاتے ہو ملنے کی عدو سے
ایمان سے کہو دوں مجھے بارو نہیں آتا
ڈرتا ہے کہیں آپ نہ پڑ جائے بلا میں
کوچے میں ترے فتنہ محشر نہیں آتا
جو مجھ پر گزرتی ہے کبھی دیکھ لے ظالم
پھر دیکھوں کے رونا تجھے کیونکر نہیں آتا
کہتے ہیں یہ اچھی ہے تڑپ دل کی تمھارے
سینے سے ٹرپ کر کبھی باہر نہیں آتا
دشمن کو کبھی ہوتی ہے دل پہ مرے رقت
پر دل یہ ترا ہے کہ کبھی بھر نہیں آتا
کب آنکھ اٹھاتا ہوں کہ آتے نہیں تیور
کب یہ بیٹھ کے اٹھتا ہوں کہ چکر نہیں آتا
غربت کدۂ دہر میں صدمے سے ہیں صدمے
اس پر بھی کبھی یاد ہمیں گہر نہیں آتا
ہم جس کی ہوس میں ہیں امیر آپ سے باہر
وہ پردہ نشین گھر سے باہر نہیں آتا
امیر مینائی

یہ راہگزر بھی دیکھ لیں گے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 230
خورشید و قمر بھی دیکھ لیں گے
یہ راہگزر بھی دیکھ لیں گے
تاروں کا طلسم ٹوٹنے دو
انوار سحر بھی دیکھ لیں گے
جلتا ہوا آشیاں تو دیکھیں
ٹوٹے ہوئے پر بھی دیکھ لیں گے
یہ نیت ناخدا رہی تو
اک روز بھنور بھی دیکھ لیں گے
قانون خدا بھی ہم نے دیکھا
ترمیم بشر بھی دیکھ لیں گے
آغوش صدف کھلی تو باقیؔ
ہم آب گہر بھی دیکھ لیں گے
باقی صدیقی

رہزن کی طرح کرتے ہیں ہم لوگ سفر اب

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 73
ہر رہرو اخلاص پہ رہتی ہے نظر اب
رہزن کی طرح کرتے ہیں ہم لوگ سفر اب
پھولوں میں چھپا بیٹھا ہوں اک زخم کی صورت
کھا جاتی ہے دھوکا مری اپنی بھی نظر اب
اس طرح اٹھا دہ سے یقیں اہل جہاں کا
افواہ نظر آتی ہے سچی بھی خبر اب
جو پرسش غم کے لئے آ جائے غنیمت
کشکول کی مانند کھلا رہتا ہے در اب
نظروں میں ابھر آتا ہے ہر ڈوبتا تارا
اس طرح گزرتی ہے مرے دل سے سحر اب
دنیا کو ہے اب کانچ کے ٹکڑوں کی ضرورت
کس کے لئے دریا سے نکالو گے گہر اب
منزل سے بہت دور نکل آیا ہوں باقیؔ
بھٹکا ہوا رہرو ہی کوئی آئے ادھر اب
باقی صدیقی

تیرے جلوؤں کا اثر یاد آیا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 65
رنگ دل، رنگ نظر یاد آیا
تیرے جلوؤں کا اثر یاد آیا
وہ نظر بن گئی پیغام حیات
حلقہ شام و سحر یاد آیا
یہ زمانہ، یہ دل دیوانہ
رشتہ سنگ و گہر یاد آیا
یہ نیا شہر یہ روشن راہیں
اپنا انداز سفر یاد آیا
راہ کا روپ بنی دھوپ اپنی
کوئی سایہ نہ شجر یاد آیا
کب نہ اس شہر میں پتھر برسے
کب نہ اس شہر میں سر یاد آیا
گھر میں تھا دشت نوردی کا خیال
دشت میں آئے تو گھر یاد آیا
گرد اڑتی ہے سر راہ خیال
دل ناداں کا سفر یاد آیا
ایک ہنستی ہوئی بدلی دیکھی
ایک جلتا ہوا گھر یاد آیا
اس طرح شام کے سائے پھیلے
رات کا پچھلا پہر یاد آیا
پھر چلے گھر سے تماشا بن کر
پھر ترا روزن در یاد آیا
باقی صدیقی