مجھے شیشہ دِکھایا جا رہا ہے
مرے قد کو گھٹایا جا رہا ہے
مرا ویران مے خانہ گِرا کر
مجھے مسجد میں لایا جا رہا ہے
میں باغی ہو گیا ہوں اس لیے بھی
مجھے پارا پِلایا جا رہا ہے
نہ جانے کس خوشی میں شہر کے سب
ملنگوں کو نچایا جا رہا ہے
بتا اے جوتشی! کس کس حسیں کو
مرے پیچھے لگایا جا رہا ہے
یہ کیسا فائدہ ہے جس کی خاطر
ہمیں خود سے لڑایا جا رہا ہے
چراغاں کا بہانہ کر کے یارو!
مرے گھر کو جلایا جا رہا ہے
افتخار فلک