ٹیگ کے محفوظات: گھٹایا

مرے قد کو گھٹایا جا رہا ہے

مجھے شیشہ دِکھایا جا رہا ہے
مرے قد کو گھٹایا جا رہا ہے
مرا ویران مے خانہ گِرا کر
مجھے مسجد میں لایا جا رہا ہے
میں باغی ہو گیا ہوں اس لیے بھی
مجھے پارا پِلایا جا رہا ہے
نہ جانے کس خوشی میں شہر کے سب
ملنگوں کو نچایا جا رہا ہے
بتا اے جوتشی! کس کس حسیں کو
مرے پیچھے لگایا جا رہا ہے
یہ کیسا فائدہ ہے جس کی خاطر
ہمیں خود سے لڑایا جا رہا ہے
چراغاں کا بہانہ کر کے یارو!
مرے گھر کو جلایا جا رہا ہے
افتخار فلک

گھر جلا سامنے پر ہم سے بجھایا نہ گیا

دیوان اول غزل 66
دل کے تیں آتش ہجراں سے بچایا نہ گیا
گھر جلا سامنے پر ہم سے بجھایا نہ گیا
دل میں رہ دل میں کہ معمار قضا سے اب تک
ایسا مطبوع مکاں کوئی بنایا نہ گیا
کبھو عاشق کا ترے جبہے سے ناخن کا خراش
خط تقدیر کے مانند مٹایا نہ گیا
کیا تنک حوصلہ تھے دیدہ و دل اپنے آہ
ایک دم راز محبت کا چھپایا نہ گیا
دل جو دیدار کا قاتل کے بہت بھوکا تھا
اس ستم کشتہ سے اک زخم بھی کھایا نہ گیا
میں تو تھا صید زبوں صید گہ عشق کے بیچ
آپ کو خاک میں بھی خوب ملایا نہ گیا
شہر دل آہ عجب جاے تھی پر اس کے گئے
ایسا اجڑا کہ کسی طرح بسایا نہ گیا
آج رکتی نہیں خامے کی زباں رکھیے معاف
حرف کا طول بھی جو مجھ سے گھٹایا نہ گیا
میر تقی میر