ٹیگ کے محفوظات: گھبرانے

بارے سب روزے تو گذرے مجھے میخانے میں

دیوان سوم غزل 1210
اب کے ماہ رمضاں دیکھا تھا پیمانے میں
بارے سب روزے تو گذرے مجھے میخانے میں
جیسے بجلی کے چمکنے سے کسو کی سدھ جائے
بے خودی آئی اچانک ترے آجانے میں
وہ تو بالیں تئیں آیا تھا ہماری لیکن
سدھ بھی کچھ ہم کو نہ تھی جانے کے گھبرانے میں
آج سنتے ہیں کہ فردا وہ قدآرا ہو گا
دیر کچھ اتنی قیامت کے نہیں آنے میں
حق جو چاہے تو بندھی مٹھی چلا جائوں میر
مصلحت دیکھی نہ میں ہاتھ کے پھیلانے میں
میر تقی میر

یک رمق جی تھا بدن میں سو بھی گھبرانے لگا

دیوان سوم غزل 1074
رات سے آنسو مری آنکھوں میں پھر آنے لگا
یک رمق جی تھا بدن میں سو بھی گھبرانے لگا
وہ لڑکپن سے نکل کر تیغ چمکانے لگا
خون کرنے کا خیال اب کچھ اسے آنے لگا
لعل جاں بخش اس کے تھے پوشیدہ جوں آب حیات
اب تو کوئی کوئی ان ہونٹوں پہ مر جانے لگا
حیف میں اس کے سخن پر ٹک نہ رکھا گوش کو
یوں تو ناصح نے کہا تھا دل نہ دیوانے لگا
حبس دم کے معتقد تم ہو گے شیخ شہر کے
یہ تو البتہ کہ سن کر لعن دم کھانے لگا
گرم ملنا اس گل نازک طبیعت سے نہ ہو
چاندنی میں رات بیٹھا تھا سو مرجھانے لگا
عاشقوں کی پائمالی میں اسے اصرار ہے
یعنی وہ محشر خرام اب پائوں پھیلانے لگا
چشمک اس مہ کی سی دلکش دید میں آئی نہیں
گو ستارہ صبح کا بھی آنکھ جھپکانے لگا
کیونکر اس آئینہ رو سے میر ملیے بے حجاب
وہ تو اپنے عکس سے بھی دیکھو شرمانے لگا
میر تقی میر

دل جو یہ ہے تو ہم آرام نہیں پانے کے

دیوان دوم غزل 989
کتنے روزوں سے نہ سونے کے ہیں نے کھانے کے
دل جو یہ ہے تو ہم آرام نہیں پانے کے
ہائے کس خوبی سے آوارہ رہا ہے مجنوں
ہم بھی دیوانے ہیں اس طور کے دیوانے کے
عزم ہے جزم کہ اب کے حرکت شہر سے کر
ہوجے دل کھول کے ساکن کسو ویرانے کے
آہ کیا سہل گذر جاتے ہیں جی سے عاشق
ڈھب کوئی سیکھ لے ان لوگوں سے مرجانے کے
جمع کرتے ہو جو گیسوے پریشاں کو مگر
ہو تردد میں کوئی تازہ بلا لانے کے
کاہے کو آنکھ چھپاتے ہو یہی ہے گر چال
ایک دو دن میں نہیں ہم بھی نظر آنے کے
ہاتھ چڑھ جائیو اے شیخ کسو کے نہ کبھو
لونڈے سب تیرے خریدار ہیں میخانے کے
خاک سے چرخ تلک اب تو رکا جاتا ہے
ڈول اچھے نہیں کچھ جان کے گھبرانے کے
لے بھی اے غیرت خورشید کہیں منھ پہ نقاب
مقتضی دن نہیں اب منھ کے یہ دکھلانے کے
لالہ و گل ہی کے مصروف رہو ہو شب و روز
تم مگر میر جی سید ہو گلستانے کے
میر تقی میر