دیوان سوم غزل 1210
اب کے ماہ رمضاں دیکھا تھا پیمانے میں
بارے سب روزے تو گذرے مجھے میخانے میں
جیسے بجلی کے چمکنے سے کسو کی سدھ جائے
بے خودی آئی اچانک ترے آجانے میں
وہ تو بالیں تئیں آیا تھا ہماری لیکن
سدھ بھی کچھ ہم کو نہ تھی جانے کے گھبرانے میں
آج سنتے ہیں کہ فردا وہ قدآرا ہو گا
دیر کچھ اتنی قیامت کے نہیں آنے میں
حق جو چاہے تو بندھی مٹھی چلا جائوں میر
مصلحت دیکھی نہ میں ہاتھ کے پھیلانے میں
میر تقی میر