کوئی بھی زعم، کوئی بھی دعوٰی نہیں رہا
خود پر مجھے کسی کا بھی دھوکا نہیں رہا
ایسا نہ ہو کہ آؤ تو سننے کو یہ ملے
اب آئے، جب وہ دیکھنے والا نہیں رہا
میری دعا ہے تجھ سے یہ دنیا وفا کرے
میرا تو تجربہ کوئی اچھا نہیں رہا
ماحول میرے گھر کا بدلتا رہا، سو اب
میرے مزاج کا تو ذرا سا نہیں رہا
کہتے نہ تھے ہمیشہ رہے گا نہ اتنا رنج
گزرے ہیں چند سال ہی، دیکھا، نہیں رہا
کیا سانحہ ہوا ہے یہ آنکھوں کو کیا خبر
منظر نہیں رہا، کہ اجالا نہیں رہا
کیوں دل جلائیں کرکے کسی سے بھی اب سخن
جب گفتگو کا کوئی سلیقہ نہیں رہا
دھندلا سا ایک نقش ہے، جیسے کہ کچھ نہ ہو
موہوم سا خیال ہے، گویا نہیں رہا
ویسے تو اب بھی خوبیاں مجھ میں ہیں ان گنت
جیسا اُسے پسند تھا، ویسا نہیں رہا
میں چاہتا ہوں دل بھی حقیقت پسند ہو
سو کچھ دنوں سے میں اسے بہلا نہیں رہا
عرفان، دن پھریں گے ترے، یوں نہ رنج کر
کیا، میری بات کا بھی بھروسہ نہیں رہا؟
عرفان ستار