ٹیگ کے محفوظات: گوتم

دیکھنا دل میں خوشی آئی، کوئی غم تو نہیں؟

درد کے پُھولوں کا آیا ابھی موسم تو نہیں
دیکھنا دل میں خوشی آئی، کوئی غم تو نہیں؟
ایڑیاں رگڑی ہیں اور داد طلب پھرتا ہوں
اشک ہی پھوٹے ہیں اس سے، کوئی زمزم تو نہیں!
یہ جو سب وعدۂ جنّت پہ مرے جاتے ہیں
زندگی کا یہی اک پہلُو جہنم تو نہیں
دن ہوا قتل، لہُو کتنا اُفق میں اترا
جو مری آنکھوں میں اترا ہے مگر، کم تو نہیں
یہ ملن تیرا تو اب جان مری لینے لگا
جس کو تریاق سمجھ بیٹھا تھا میں، سَم تو نہیں؟
دل کا یہ درد کہ بڑھتا ہی چلا جاتا ہے
کونسا ہے یہ مہینہ؟ یہ مُحرّم تو نہیں
میرا بن باس تو لوگوں میں ہی رہنا ٹھہرا
میں کہ بس پیکرِ اخلاص ہوں، گوتم تو نہیں
یاور ماجد

افلاک پہ بھی شامِ محرم ہے عجب ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 608
قاتل بھی شریکِ صفِ ماتم ہے عجب ہے
افلاک پہ بھی شامِ محرم ہے عجب ہے
بہتے ہیں کئی طرح کے افسوس نظر سے
یہ آنکھ بھی دریاؤں کا سنگم ہے عجب ہے
پھولوں کے مراسم ہیں کہیں آتشیں لب سے
شعلوں کی مصاحب کہیں شبنم ہے عجب ہے
کل تک وہی شداد تھا نمرود تھا لیکن
اب وہی مسیحاوہی گوتم ہے عجب ہے
منظر ہے وہی لوگ مگر اور کوئی ہیں
دیکھو وہی دریا وہی شیشم ہے عجب ہے
وہ جس نے نکالا تھا بہشت آباد سے ہم کو
خوابوں میں وہی دانہ ء گندم ہے عجب ہے
ہم ڈھونڈتے نکلے تھے جسے عرشِ بریں پر
گلیوں میں وہی حسنِ مجسم ہے عجب ہے
منصور مجھے چھوڑا ہے اک شخص نے لیکن
ہر آنکھ میں انکار کا موسم ہے عجب ہے
منصور آفاق