ٹیگ کے محفوظات: گنوار

شور پڑا ہے قیامت کا سا چار طرف گلزار کے بیچ

دیوان پنجم غزل 1595
اس کے رنگ کھلا ہے شاید کوئی پھول بہار کے بیچ
شور پڑا ہے قیامت کا سا چار طرف گلزار کے بیچ
رحم کرے وہ ذرا ذرا تو دیکھنے آوے دم بھر یاں
اب تو دم بھی باقی نہیں ہے اس کے کسو بیمار کے بیچ
چین نہ دے گا خاک کے نیچے ہرگز عشق کے ماروں کو
دل تو ساتھ اے کاش نہ گاڑیں ان لوگوں کے مزار کے بیچ
چشم شوخ سے اس کی یارو کیا نسبت ہے غزالوں کو
دیکھتے ہیں ہم بڑا تفاوت شہری اور گنوار کے بیچ
کون شکار رم خوردہ سے جاکے کہے ٹک پھر کر دیکھ
کوئی سوار ہے تیرے پیچھے گرد و خاک و غبار کے بیچ
رونے سے جو رود بہا تو اس کا کیا ہے یارو عجب
جذب ہوئے ہیں کیا کیا دریا اپنے جیب و کنار کے بیچ
چشمک غمزہ عشوہ کرشمہ آن انداز و ناز و ادا
حسن سواے حسن ظاہر میر بہت ہیں یار کے بیچ
میر تقی میر

پر منھ پہ آ ہی جاتی ہے بے اختیار بات

دیوان دوم غزل 783
سنتا نہیں اگرچہ ہمارا نگار بات
پر منھ پہ آ ہی جاتی ہے بے اختیار بات
بلبل کے بولنے سے ہے کیوں بے دماغ گل
آپس میں یوں تو ہوتی ہے یارو ہزار بات
منھ تک رہو جو ہو وہ فریبندہ حرف زن
اس تھوڑے سن و سال میں یہ پیچدار بات
بوسہ دے چپکے لب کا کہ تب کچھ مزہ نہیں
پاوے گی سارے شہر میں جب اشتہار بات
ہے کس کی صوت انکر اصوات واعظا
کب آدمی کی جنس کرے ہے پکار بات
آہو کو اس کی چشم سخن گو سے مت ملا
شہری سے کرسکے ہے کہیں بھی گنوار بات
یوں بار گل سے اب کے جھکے ہیں نہال باغ
جھک جھک کے جیسے کرتے ہیں دوچار یار بات
آزردہ دل کو حرف پہ لانے کا لطف کیا
کرتی ہے خونچکاں مرے لب سے گذار بات
مرجاں کوئی کہے ہے کوئی ان لبوں کو لعل
کچھ رفتہ رفتہ پا ہی رہے گی قرار بات
یوں چپکے چپکے میر تلف ہو گا کب تلک
کچھ ہووے بھڑ کر اس سے بھی کر ایک بار بات
میر تقی میر