ٹیگ کے محفوظات: گماں

اک ابرِ جاوداں سے پانی برس رہا ہے

آنکھوں سے اک زماں سے پانی برس رہا ہے
اک ابرِ جاوداں سے پانی برس رہا ہے
قدرت بھی رو پڑی ہے، اس رخنہ سائباں پر
خوں ہے کہ آسماں سے پانی برس رہا ہے؟
پہلے تو ایک کونے سے چھت ٹپک رہی تھی
اور اب کہاں کہاں سے پانی برس رہا ہے
بادل نہیں نظر میں اور ہو رہی ہے بارش
شاید کہ لامکاں سے پانی برس رہا ہے
ان پختہ بستیوں میں سبزہ اُگے گا اک دن
شاید اسی گماں سے، پانی برس رہا ہے
بادل ہیں اور فلک پر قوسِ قزح نہیں ہے
سو چشمِ ضو فشاں سے پانی برس رہا ہے
بادل تو برسے بن ہی کب کا چلا گیا تھا
اب ابر کے گماں سے پانی برس رہا ہے
وہ آنسوؤں کی بارش تو تھم چکی تھی یاؔور
پر جانے اب کہاں سے پانی برس رہا ہے
یاور ماجد

آگ جب دل میں سلگتی تھی‘ دھواں کیوں نہ ہوا

غمِ اُلفت مرے چہرے سے عیاں کیوں نہ ہُوا
آگ جب دل میں سلگتی تھی‘ دھواں کیوں نہ ہوا
سیلِ غم رُکتا نہیں ضبط کی دیواروں سے
جوشِ گریہ تھا تو میں گریہ کُناں کیوں نہ ہُوا
کہتے ہیں ‘ حُسن خدوخال کا پابند نہیں
ہر حَسیں شے پہ مجھے تیرا گماں کیوں نہ ہُوا
دشت بھی اس کے مکیں ‘ شہر بھی اس میں آباد
تو جہاں آن بسے دل وہ مکاں کیوں نہ ہوا
تو وہی ہے جو مرے دل میں چُھپا بیٹھا ہے
اک یہی راز کبھی مجھ پہ عیاں کیوں نہ ہُوا
یہ سمجھتے ہوئے‘ مقصودِ نظر ہے تُو ہی
میں ترے حُسن کی جانب نگراں کیوں نہ ہُوا
ا س سے پہلے کہ ترے لمس کی خوشبو کھو جائے
تجھ کو پالینے کا ارمان جواں کیوں نہ ہُوا
تپتے صحرا تو مری منزلِ مقصود نہ تھے
میں کہیں ہمسفرِ اَبرِرواں کیوں نہ ہُوا
اجنبی پر تو یہاں لطف سِوا ہوتا ہے
میں بھی اس شہر میں بے نام و نشاں کیوں نہ ہُوا
نارسائی تھی مرے شوق کا حاصل تو‘ شکیبؔ
حائلِ راہ کوئی سنگِ گراں کیوں نہ ہُوا
شکیب جلالی

کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے

یہ زمیں اور آسماں نہ رہے
کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے
میں ہی اول بھی اور آخر بھی
کوئی بھی میرے درمیاں نہ رہے
بس معانی ہوں، لفظ کھو جائیں
روح رہ جائے، جسم و جاں نہ رہے
میری یکسوئی میں پڑے نہ خلل
"میں رہوں اور یہ جہاں نہ رہے”
مہرباں آج مجھ پہ ہے جو نظر
عین ممکن ہے کل کلاں نہ رہے
ہاں بلا سے مری، رہے نہ وجود
نہیں رہتا عدم بھی، ہاں نہ رہے
سوچتا ہوں خموش ہو جاؤں
اور یہ حرفِ رائگاں نہ رہے
کاش چھا جائے ایک ابرِ اماں
اور کوئی بھی بے اماں نہ رہے
اک سہارا۔ ہے بے یقینوں کا
کیا کریں وہ اگر گماں نہ رہے
بات کیسی جو سننے والا نہ ہو
راز کیسا جو رازداں نہ رہے
وہی ہوتا ہے رائگاں کہ جو ہو
نہ رہوں میں تو یہ زیاں نہ رہے
زخم تو سارے بھر ہی جاتے ہیں
بات تب ہے اگر نشاں نہ رہے
ہے وہاں ماں، یہاں مرے بچے
اب رہے دل کہاں، کہاں نہ رہے
زخمِ دل کو زبان مل جائے
درد ناقابلِ بیاں نہ رہے
کیا خبر کس گھڑی چلے آندھی
اور سر پر یہ سائباں نہ رہے
شہرِ دام و درم کی تم جانو
اہلِ دل تو کبھی وہاں نہ رہے
ان دنوں ہے یہاں، مگر عرفان
بس چلے تو کبھی یہاں نہ رہے
عرفان ستار

جہاں پہ تُو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے

بہت خجل ہیں کہ ہم رائگاں بھی زندہ رہے
جہاں پہ تُو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے
عجیب شرط ہے اس بے یقیں مزاج کی بھی
کہ تُو بھی پاس ہو تیرا گماں بھی زندہ رہے
تجھے یہ ضد ہے مگر اس طرح نہیں ہوتا
کہ تُو بھی زندہ رہے داستاں بھی زندہ رہے
وہ کون لوگ تھے جن کا وجود جسم سے تھا
یہ کون ہیں جو پسِ جسم و جاں بھی زندہ رہے
جو یہ نہ ہو تو سخن کا کوئی جواز نہیں
ضمیر زندہ رہے تو زباں بھی زندہ رہے
یہ کائنات فقط منفعت کا نام نہیں
یہاں پہ کوئی برائے زیاں بھی زندہ رہے
عدم میں جو بھی نہیں تھا وہ سب وجود میں تھا
یہ ہم ہی تھے جو کہیں درمیاں بھی زندہ رہے
عرفان ستار

لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

تمہارا نام سرِ لوحِ جاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے
لہو سے تر ہے ورق در ورق بیاضِ سخن
حسابِ دل زدگاں سب یہاں لکھا ہوا ہے
نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟
فصیلِ شہر پہ شہرِ اماں لکھا ہوا ہے
ملی ہے اہلِ جنوں کو جہاں بشارتِ اجر
وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے
زمیں بھی تنگ ہوئی، رزق بھی، طبیعت بھی
مرے نصیب میں کیا آسماں لکھا ہوا ہے؟
یہ کیسی خام امیدوں پہ جی رہے ہو میاں؟
پڑھو تو، لوحِ یقیں پر گماں لکھا ہوا ہے
تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے؟
ذرا ہمیں بھی دکھاوٗ، کہاں لکھا ہوا ہے؟
یہ کائنات سراسر ہے شرحِ رازِ ازل
کلامِ حق تو سرِ کہکشاں لکھا ہوا ہے
میں سوچتا ہوں تو کیا کچھ نہیں عطائے وجود
میں دیکھتا ہوں تو بس رائگاں لکھا ہوا ہے
جو چاہتا تھا میں جس وقت، وہ کبھی نہ ہُوا
کتابِ عمر میں سب ناگہاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہوا نہیں کچھ بھی بنامِ خوابِ وجود
نبود و بود کے سب درمیاں لکھا ہوا ہے
عدو سے کوئی شکایت نہیں ہمیں عرفان
حسابِ رنج پئے دوستاں لکھا ہوا ہے
عرفان ستار

دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے

ایسا احوال محبت میں کہاں تھا پہلے
دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے
ایک امکان میں روپوش تھا سارا عالم
میں بھی اُس گردِ تحیّر میں نہاں تھا پہلے
ایک خوشبو سی کیے رہتی تھی حلقہ میرا
یعنی اطراف کوئی رقص کناں تھا پہلے
اُس نے مجھ سا کبھی ہونے نہ دیا تھا مجھ کو
کیا تغیّر مری جانب نگراں تھا پہلے
اب فقط میرے سخن میں ہے جھلک سی باقی
ورنہ یہ رنگ تو چہرے سے عیاں تھا پہلے
کون مانے گا کہ مجھ ایسا سراپا تسلیم
سربرآوردۂ آشفتہ سراں تھا پہلے
کون یہ لوگ ہیں نا واقفِ آداب و لحاظ
تیرا کوچہ تو رہِ دل زدگاں تھا پہلے
اب تو اک دشتِ تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں
کیسا قلزم میرے سینے میں رواں تھا پہلے
اب کہیں جا کے یہ گیرائی ہوئی ہے پیدا
تجھ سے ملنا تو توجہ کا زیاں تھا پہلے
میں نے جیسے تجھے پایا ہے وہ میں جانتا ہوں
اب جو تُو ہے یہ فقط میرا گماں تھا پہلے
جانے ہے کس کی اداسی مری وحشت کی شریک
مجھ کو معلوم نہیں کون یہاں تھا پہلے
دل ترا راز کسی سے نہیں کہنے دیتا
ورنہ خود سے یہ تعلق بھی کہاں تھا پہلے
اب جو رہتا ہے سرِ بزمِ سخن مہر بہ لب
یہی عرفانؔ عجب شعلہ بیاں تھا پہلے
عرفان ستار

تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی

تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی
تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی
حرمتِ حرف نہیں ہے سو یہ ارزانی ہے
ورنہ وہ دن بھی تھے جب خوابِ گراں تھے ہم بھی
ہم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر
مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی
اب کہیں کیا، کہ وہ سب قصہءِ پارینہ ہُوا
رونقِ محفلِ شیریں سخناں تھے ہم بھی
وقت کا جبر ہی ایسا ہے کہ خاموش ہیں اب
ورنہ تردیدِ صفِ کجکلہاں تھے ہم بھی
رنج مت کر، کہ تجھے ضبط کا یارا نہ رہا
کس قدر واقفِ آدابِ فغاں تھے ہم بھی
تُو بھی کردار کہانی سے الگ تھا کوئی
اپنے قصے میں حدیثِ دگراں تھے ہم بھی
کیسی حیرت، جو کہیں ذکر بھی باقی نہ رہا
تُو بھی تحریر نہ تھا، حرفِ بیاں تھے ہم بھی
ہم کہ رکھتے تھے یقیں اپنی حقیقت سے سِوا
اب گماں کرنے لگے ہیں کہ گماں تھے ہم بھی
رائگاں ہوتا رہا تُو بھی پئے کم نظراں
ناشناسوں کے سبب اپنا زیاں تھے ہم بھی
تُو بھی کس کس کے لیے گوش برآواز رہا
ہم کو سنتا تو سہی، نغمہءِ جاں تھے ہم بھی
ہم نہیں ہیں، تو یہاں کس نے یہ محسوس کیا؟
ہم یہاں تھے بھی تو ایسے، کہ یہاں تھے ہم بھی
عرفان ستار

میں کہ ٹھہرا گدائے دیارِ سخن مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی

مری کم مائیگی کو ترے ذوق نے دولتِ حرفِ تازہ بیاں سونپ دی
میں کہ ٹھہرا گدائے دیارِ سخن مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی
قاصدِ شہرِ دل نے مرے خیمۂ خواب میں آ کے مجھ سے کہا جاگ جا
بادشاہِ جنوں نے تجھے آج سے لشکرِ اہلِ غم کی کماں سونپ دی
میرا ذوقِ سفر یوں بھی منزل سے بڑھ کر کسی ہمرہی کا طلب گار تھا
اس لیے وصل کے موڑ پر ہجر کو اُس نے رہوارِ دل کی عناں سونپ دی
تشنگی کو مرے شوق کی لہر نے کس سرابِ نظر کے حوالے کیا
کیسے بنجر یقیں کو مرے خواب نے اپنی سر سبز فصلِ گماں سونپ دی
احتیاطِ نظر اور وضعِ خرد کے تقاضوں کی تفصیل رہنے ہی دے
یہ مجھے بھی خبر ہے کہ میں نے تجھے اپنی وارفتگی رائگاں سونپ دی
اپنے ذوقِ نظر سے تری چشمِ حیراں کو تازہ بہ تازہ مناظر دیے
تیرے پہلو میں دھڑکن جگانے کی خاطر ترے جسم کو اپنی جاں سونپ دی
رازداری کی مہلت زیادہ نہ ملنے پہ احباب سب مجھ سے ناراض ہیں
قصہ گو مجھ سے خوش ہیں کہ میں اُنہیں ایک پُر ماجرا داستاں سونپ دی
میری وحشت پسندی کو آرائشِ زلف و رخسار و ابرو کی فرصت کہاں
تُو نے کس بے دلی سے یہ امید کی یہ کسے خدمتِ مہ وشاں سونپ دی
دل پہ جب گُل رُخوں اور عشوہ طرازوں کی یلغار کا زور بڑھنے لگا
میں نے گھبرا کے آخر تری یاد کو اپنی خلوت گہِ بے اماں سونپ دی
کار گاہِ زمانہ میں جی کو لگانے سے آخر خسارہ ہی مقدور تھا
یہ بھی اچھا ہوا میں نے یہ زندگی تیرے غم کو برائے زیاں سونپ دی
اُس نے ذوقِ تماشا دیا عشق کو خوشبوئوں کو صبا کے حوالے کیا
مجھ رفاقت طلب کو نگہبانیٔ دشتِ وحشت کراں تا کراں سونپ دی
مجھ میں میرے سوا کوئی تھا جو ہوس کے تقاضے نبھانے پہ مائل بھی تھا
میں نے بھی تنگ آ کر اُسی شخص کو ناز برداریٔ دلبراں سونپ دی
ایک امکان کیا گنگنایا مرے چند اشعار میں حرفِ اظہار میں
میں یہ سمجھا خدائے سخن نے مجھے مسندِ بزمِ آئندگاں سونپ دی
عرفان ستار

کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عمر گزر گئی

یونہی بے یقیں یونہی بے نشاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کبھی سائباں نہ تھا بہم، کبھی کہکشاں تھی قدم قدم
کبھی بے مکاں کبھی لا مکاں، مری آدھی عمر گزر گئی
ترے وصل کی جو نوید ہے، وہ قریب ہے کہ بعید ہے
مجھے کچھ خبر تو ہو جانِ جاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کبھی مجھ کو فکرِ معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے
کوئی گُر بتا مرے نکتہ داں، مری آدھی عمر گزر گئی
کبھی ذکرِ حرمتِ حرف میں، کبھی فکرِ آمد و صرف میں
یونہی رزق و عشق کے درمیاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کوئی طعنہ زن مری ذات پر، کوئی خندہ زن کسی بات پر
پئے دل نوازیٔ دوستاں، مری آدھی عمر گزر گئی
ابھی وقت کچھ مرے پاس ہے، یہ خبر نہیں ہے قیاس ہے
کوئی کر گلہ مرے بد گماں، مری آدھی عمر گزر گئی
اُسے پا لیا اُسے کھو دیا، کبھی ہنس دیا کبھی رو دیا
بڑی مختصر سی ہے داستاں، مری آدھی عمر گزر گئی
تری ہر دلیل بہت بجا، مگر انتظار بھی تا کجا
ذرا سوچ تو مرے رازداں، مری آدھی عمر گزر گئی
کہاں کائنات میں گھر کروں، میں یہ جان لوں تو سفر کروں
اسی سوچ میں تھا کہ ناگہاں، مری آدھی عمر گزر گئی
عرفان ستار

نہ کر ملال کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں

زمیں کسی کی نہیں آسماں کسی کا نہیں
نہ کر ملال کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں
بھلا یہ لفظ کہاں، اور کربِ ذات کہاں
بقدرِ رنج غزل میں بیاں کسی کا نہیں
عدم وجود میں ہے، اور وجود ہے ہی نہیں
یقیں کسی کا نہیں ہے، گماں کسی کا نہیں
ہمیں جو کہنا ہے اک دوسرے سے کہہ لیں گے
سو کام تیرے مرے درمیاں کسی کا نہیں
بہت سے لوگوں کا ہے نفع میرے ہونے میں
مرے نہ ہونے میں لیکن زیاں کسی کا نہیں
مرے سوا بھی بہت لوگ جل رہے ہیں یہاں
اگرچہ ایسا چمکتا دھواں کسی کا نہیں
ہمیشہ گونجتا رہتا ہے یہ کہیں نہ کہیں
میں جانتا ہوں سخن رائگاں کسی کا نہیں
عرفان ستار

عجب یقین پسِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں

نہیں ہے جو، وہی موجود و بے کراں ہے یہاں
عجب یقین پسِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں
نہ ہو اداس، زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی
خوشی سے جھوم، ابھی سر پہ آسماں ہے یہاں
یہاں سخن جو فسانہ طراز ہو، وہ کرے
جو بات سچ ہے وہ ناقابلِ بیاں ہے یہاں
نہ رنج کر، کہ یہاں رفتنی ہیں سارے ملال
نہ کر ملال، کہ ہر رنج رائیگاں ہے یہاں
زمیں پلٹ تو نہیں دی گئی ہے محور پر؟
نمو پذیر فقط عہدِ رفتگاں ہے یہاں
یہ کارزارِ نفس ہے، یہاں دوام کسے
یہ زندگی ہے مری جاں، کسے اماں ہے یہاں
ہم اور وصل کی ساعت کا انتظار کریں؟
مگر وجود کی دیوار درمیاں ہے یہاں
چلے جو یوں ہی ابد تک، تو اِس میں حیرت کیا؟
ازل سے جب یہی بے ربط داستاں ہے یہاں
جو ہے وجود میں، اُس کو گماں کی نذر نہ کر
یہ مان لے کہ حقیقت ہی جسم و جاں ہے یہاں
کہا گیا ہے جو وہ مان لو، بلا تحقیق
کہ اشتباہ کی قیمت تو نقدِجاں ہے یہاں
عرفان ستار

اب نہ رہیں گے ہم یہاں، پھر بھی یہاں کی خیر ہو

مجلسِ دل بکھر چکی، مجلسیاں کی خیر ہو
اب نہ رہیں گے ہم یہاں، پھر بھی یہاں کی خیر ہو
راحتِ جاں نہ مل سکی، ہم کو اماں نہ مل سکی
خیر ہماری خیر ہے، جائے اماں کی خیر ہو
باغ چہک نہیں رہا، رنگ مہک نہیں رہا
سانس اُکھڑ گیا مرا، ہم نفساں کی خیر ہو
ہجر ہے یا وصال ہے، اصل میں اک خیال ہے
یعنی یقیں سے ہو مفر، گویا گماں کی خیر ہو
کتنا عجیب وقت ہے، خواب گروں پہ سخت ہے
رنج کا بندوبست ہے، دل زدگاں کی خیر ہو
ایک ہجومِ بد نگاہ، بے ہنروں کی اک سپاہ
پردہ دری سے بچ کے چل، رازِ نہاں کی خیر ہو
اے مرے قلبِ ناصبور، خواہشِ وصل دُور دُور
ملتفتوں سے کر حذر، شوقِ زیاں کی خیر ہو
ایک سا شورِ ہاؤ ہُو، پھیل گیا ہے چار سُو
نعرہ زنوں کی بھیڑ میں، خلوتیاں کی خیر ہو
عارض و لب کھِلے رہیں، چاکِ جنوں سلے رہیں
شیریں مقال زندہ باد، ماہ وشاں کی خیر ہو
عشق سے دشمنی کے دن، حرف کی جاں کنی کے دن
شہرِ سخن کے شور میں، کم سخناں کی خیر ہو
وحشتِ دل کے محرماں، میرے سخن کے نکتہ داں
آج بھی چند ہیں یہاں، خوش نظراں کی خیر ہو
لطف و سرور بے کراں، نشہ و کیف جاوداں
میکدہ_جنوں ترے، پیر_مغاں کی خیر ہو
بزم_طرب سجی رہی، بس یہ ہما ہمی رہے
آہ مری دبی رہے، زمزمہ خواں کی خیر ہو
اوجِ کمالِ دل کشی، اے مرے طرزِ شاعری
عمر دراز ہو تری، حسنِ بیاں کی خیر ہو
ختم ہوا سفر یہاں، چل پڑو سوئے لامکاں
راہ روو سفر بخیر، بزم_ جہاں کی خیر ہو
درد کا ہم نشیں کوئی، کوچہ_غم کہیں کوئی
اچھا کہیں نہیں کوئی، ماتمیاں کی خیر ہو
عرفان ستار

مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا

یہاں جو ہے کہاں اُس کا نشاں باقی رہے گا
مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا
سفر ہو گا سفر کی منزلیں معدوم ہوں گی
مکاں باقی نہ ہو گا لا مکاں باقی رہے گا
کبھی قریہ بہ قریہ اور کبھی عالم بہ عالم
غبارِ ہجرتِ بے خانماں باقی رہے گا
ہمارے ساتھ جب تک درد کی دھڑکن رہے گی
ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا
بہت بے اعتباری سے گزر کر دل ملے ہیں
بہت دن تک تکلف درمیاں باقی رہے گا
رہے گا آسماں جب تک زمیں باقی رہے گی
زمیں قائم ہے جب تک آسماں باقی رہے گا
یہ دنیا حشر تک آباد رکھی جا سکے گی
یہاں ہم سا جو کوئی خوش بیاں باقی رہے گا
جنوں کو ایسی عمرِ جاوداں بخشی گئی ہے
قیامت تک گروہِ عاشقاں باقی رہے گا
تمدن کو بچا لینے کی مہلت اب کہاں ہے
سر گرداب کب تک بادباں باقی رہے گا
کنارہ تا کنارہ ہو کوئی یخ بستہ چادر
مگر تہہ میں کہیں آبِ رواں باقی رہے گا
ہمارا حوصلہ قائم ہے جب تک سائباں ہے
خدا جانے کہاں تک سائباں باقی رہے گا
تجھے معلوم ہے یا کچھ ہمیں اپنی خبر ہے
سو ہم مر جائیں گے تُو ہی یہاں باقی رہے گا
عرفان ستار

لغتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں

یہ حَسیں جس کو مِرا عجزِ بیاں کہتے ہیں
لغتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں
اتنے محتاط ہیں ہم پھر بھی شکایت ہم سے
گفتنی ہو بھی تَو ہم بات کہاں کہتے ہیں
چشمِ پُر آب کی کیا اُن سے وضاحت کیجے
اس کو محرومِ نظارہ کی زباں کہتے ہیں
وہ حقیقت ہے گماں کہتے ہیں ہم جس کو مگر
مصلحت ہے جو حقیقت کو گماں کہتے ہیں
تُم جسے سمجھے ہو خاموش نگاہی ضامنؔ
ہم سخن فہم اُسے سحرِ بیاں کہتے ہیں
ضامن جعفری

حالِ دِل پھِر ہَم نے محتاجِ بیاں رہنے دِیا

وعدۂ فَردا کو زیبِ داستاں رہنے دِیا
حالِ دِل پھِر ہَم نے محتاجِ بیاں رہنے دِیا
کون سی چھَت کیسی دیواریں کَہاں کے بام و دَر
سَر چھُپانے کو تھا جیسا بھی مکاں رہنے دِیا
مُدَّتَوں سے اِک خُدائی ہے وہ اَب جیسی بھی ہے
سِلسِلہ ہم نے بھی تا حَدِ گُماں رہنے دِیا
بہرِ تسکینِ غرورِ اِختیار و اقتدار
کِس نے یہ شورِ صَدائے اَلاماں رہنے دِیا
کون ہے پَردے کے پیچھے! ہے بھی کوئی یا نہیں !
ہر گماں ہم نے پَسِ پَردہ نِہاں رہنے دِیا
حیَف! یہ دعوائے ہَم آہَنگیٔ عِلم و ہُنَر!
لوگ اِس پَر خُوش ہیں سَر پَر آسماں رہنے دِیا
وَقت نے بھَر تَو دِئیے سَب زَخمِ یادِ عندلیب
شاخِ گُل پر ایک ہَلکا سا نشاں رہنے دِیا
جِس کو ضامنؔ آشیانہ پھُونکتے دیکھا تھا کَل
تُم نے حیَرَت ہے اُسی کو باغباں رہنے دِیا
ضامن جعفری

کَہیِں بھی رہ، تُو مِرے دِل سے جا، یَہاں سے نکل

سُن اے ہجومِ تَمَنّا! اَب اِس مَکاں سے نکل
کَہیِں بھی رہ، تُو مِرے دِل سے جا، یَہاں سے نکل
بَتا دِیا تھا کہ کھُل جائے گا یقیں کا بھَرَم
کَہا تھا عَقل سے مَت حَلقَہِ گُماں سے نکل
یہ کائنات سَنبھَل جائے گی پَہ شَرط یہ ہے
اِدھَر مَکاں سے میں نکلوں تُو لامکاں سے نکل
خِرَد پُکاری جو دیکھا مُجھے حضورِ جنوں
یہ تیرے بَس کا نہیں ہے اِس اِمتحاں سے نکل
چَمَن میں اَب تُو اَکیلا نہیں ہے بَرق بھی ہے
یہ باغ و غُنچَہ و گُل چھوڑ! آشیاں سے نکل
قَدَم نَہ چَپقَلِشِ خَیر و شَر میں رَکھ ضامنؔ
کَہیِں کا بھی نَہ رَہے گا تُو دَرمیاں سے نکل
ضامن جعفری

ہم جسے سُود سمجھتے تھے زِیاں ہے صاحب

زندگی تحفَہِ یَک بارِ گراں ہے صاحب
ہم جسے سُود سمجھتے تھے زِیاں ہے صاحب
آگ میخانہِ ہستی میں لگائی کِس نے؟
کوئی کہتا تھا کہ خُود پیِرِ مُغاں ہے صاحب
زِیست اِک خواب سا ہے عالَمِ بیداری کا
وہ بھی کیا کہیے یقیں ہے کہ گُماں ہے صاحب
مُنتَشَر ہو گئے اَربابِ کَرَم اَور احباب
پُوچھتے پِھرتے ہیں ہم کون کہاں ہے صاحب
دِیدہ و دِل کی بَظاہر تَو خَطا ہے لیکن
حُسن کا ذِکر اَبھی مُحتاجِ بیاں ہے صاحب
عِشق آئینہِ ہَستی کی جِلا ہے ضامنؔ
گَردِ تاریخ کی ہَر تہ میں نہاں ہے صاحب
ضامن جعفری

وہ ٹَہَر جائیں تو پھر وقت رواں کیسے ہو

دل ہی مدہوش ہے احساسِ زیاں کیسے ہو
وہ ٹَہَر جائیں تو پھر وقت رواں کیسے ہو
اُن سے ہر کیفیتِ کون و مکاں کر کے بیاں
اب پریشاں ہوں محبت کا بیاں کیسے ہو
روٹھ کر بھی جو سدا میری خبر رکھتا ہے
مجھ کو اُس شخص پہ نفرت کا گماں کیسے ہو
تو ہی بتلا دے ہر اِک سانس میں بسنے والے
اِس طرح سے تو کوئی کارِ جہاں کیسے ہو
دل شکستہ ہے کوئی، کوئی نظر نیچی ہے
کس کا نقصان سِوا ہے یہ عیاں کیسے ہو
اُن کو لگتی تو ہیں اچھی تری غزلیں ضامنؔ
رازِ دل اَور بھلا کھُل کے بیاں کیسے ہو
ضامن جعفری

آہِ سوزاں دیکھ! زخمِ دل دُھواں ہو جائے گا

حاصلِ عشقِ بتاں سب رایگاں ہو جائے گا
آہِ سوزاں دیکھ! زخمِ دل دُھواں ہو جائے گا
لے تَو لوں بوسہ تری دہلیز کا آ کر مگر
مرجعِ عشّاقِ عالم آستاں ہو جائے گا
خاک میری مائلِ پرواز ہے بن کر غبار
ہے یقیں اِس کو تُو اِک دن آسماں ہو جائے گا
بیٹھ کر تنہا تجھے سوچُوں مگر ہو گا یہی
ہمسَفَر یادوں کا پھر اِک کارواں ہو جائے گا
عشق ہے اِک نقشِ محکم، عشق ہے نقشِ جلی
حُسن ہے اِمروز، کل وہم و گماں ہو جائے گا
بے وفائی کا گِلہ کس سے کریں کیونکر کریں
جب جدا خود استخواں سے استخواں ہو جائے گا
ہر گھڑی لب پر غزل، ضامنؔ! یہ باتیں چھوڑ دو
’’ایسی باتوں سے وہ کافر بد گماں ہو جائے گا‘‘
ضامن جعفری

برق میرے بھی آشیاں سے چلی

جب کبھی میری آسماں سے چلی
برق میرے بھی آشیاں سے چلی
عشق اَور آرزوئے عشق کی بات
حُسنِ خود بین و خوش گماں سے چلی
اُس نے پوچھا تَو کہہ دیا میں نے
رَوِشِ خونِ دل یہاں سے چلی
حُسنِ خودبیں کی رسمِ نخوت و ناز
عشق کی سعیِ رایگاں سے چلی
یادِ ماضی سے روز کہتا ہُوں
ٹھیَر جا! تُو ابھی کہاں سے چلی
آج فکرِ غزل مری ضامنؔ
کہکشاؤں کے درمیاں سے چلی
ضامن جعفری

لُغّتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں

پیشِ حُسن آپ جسے عجزِ بیاں کہتے ہیں
لُغّتِ عشق میں حیرت کی زباں کہتے ہیں
اتنے محتاط ہیں ہم پھر بھی شکایت ہم سے
گفتنی ہو بھی تَو ہم بات کہاں کہتے ہیں
چشمِ پُر آب کی کیا اُن سے وضاحت کیجے
اس کو محرومِ نظارہ کی زباں کہتے ہیں
وہ حقیقت ہے گماں کہتے ہیں ہم جس کو مگر
مصلحت ہے جو حقیقت کو گماں کہتے ہیں
تُم جسے سمجھے ہو خاموش نگاہی ضامنؔ
ہم سخن فہم اُسے سحرِ بیاں کہتے ہیں
ضامن جعفری

ہر لمحہ وہ رقصِ دل و جاں بھول گئے کیا

آغازِ محبت کا سماں بھول گئے کیا
ہر لمحہ وہ رقصِ دل و جاں بھول گئے کیا
چہرے کی تب و تاب وہ آہٹ پہ ہماری
ہر پل وہ سوئے دَر نِگَراں بھول گئے کیا
کیا حرفِ محبت کو تکلّم کی ضرورت
آنکھوں میں ہے جو حُسنِ بیاں بھول گئے کیا
وہ حسن و جوانی کے لپکتے ہوئے شعلے
اور اُن میں سکونِ دو جہاں بھول گئے کیا
ہر چیز اہم تھی، نظر و لہجہ و الفاظ
ہر چیز پہ سو سو تھے گماں بھول گئے کیا
یوں یاد دِلاتا ہوں اُنہیں وعدۂ فردا
میں آپ کے صدقے مری جاں بھول گئے کیا
ہے کوئی جو اُن سے یہ ذرا پوچھ کے آئے
قدریں وہ بزرگوں کی میاں بھول گئے کیا
شیرینیٔ گفتار ہے ضامنؔ جو تمہاری
ہے صدقۂ شیریں دہناں بھول گئے کیا
ضامن جعفری

ہوتے ہیں غمِ دل کے بیاں اور طرح کے

قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے
ہوتے ہیں غمِ دل کے بیاں اور طرح کے
تھی اور ہی کچھ بات کہ تھا غم بھی گوارا
حالات ہیں اب درپے جاں اور طرح کے
اے راہروِ راہِ وفا دیکھ کے چلنا
اس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے
کھٹکا ہے جدائی کا نہ ملنے کی تمنا
دل کو ہیں مرے وہم و گماں اور طرح کے
پر سال تو کلیاں ہی جھڑی تھیں مگر اب کے
گلشن میں ہیں آثارِ خزاں اور طرح کے
دُنیا کو نہیں تاب مرے درد کی یارب
دے مجھ کو اسالیبِ فغاں اور طرح کے
ہستی کا بھرم کھول دیا ایک نظر نے
اب اپنی نظر میں ہیں جہاں اور طرح کے
لشکر ہے نہ پرچم ہے نہ دَولت ہے نہ ثروت
ہیں خاک نشینوں کے نشاں اور طرح کے
مرتا نہیں اب کوئی کسی کے لیے ناصر
تھے اپنے زمانے کے جواں اور طرح کے
ناصر کاظمی

یہ انجمن ہے راز کی باتیں یہاں نہیں

اے جذبِ دل سمجھ مرے منہ میں زباں نہیں
یہ انجمن ہے راز کی باتیں یہاں نہیں
بلبل کے بعد پوچھتی پھرتی ہے یہ صبا
اتنے بڑے چمن میں کوئی خوش بیاں نہیں
ہر لمحہ دل سے آتی ہے امید کی صدا
دنیا میں کوئی بات بعید از گماں نہیں
ساری صدائیں میری صدا کی ہیں بازگشت
اہلِ چمن میں کون مرا ہم زباں نہیں
شکوے کا کیا جواز ہے باصرِؔ تمہارے پاس
وہ مہرباں ہی کب تھے جو اب مہرباں نہیں
باصر کاظمی

اے لرزتے زرد پتّے مت خزاں کی بات کر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
خاک میں ملنے پہ در آتے زماں کی بات کر
اے لرزتے زرد پتّے مت خزاں کی بات کر
تیرنے کو ہیں یہ نیّائیں فراتِ زیست میں
بات کر ایقان کی یا تُو گماں کی بات کر
ہاں وہی جو ہم نے حفظِ جاں کو حاصل کی نہیں
اور ہمیں پر جو تنی ہے اُس کماں کی بات کر
جس کے فیض و غیض ہر دو میں دوگونہ لطف ہے
چھوڑ سارے مخمصے اُس جانِ جاں کی بات کر
ہم فرشتے تو نہیں،نوری ہوں کیا خاکی سے ہم
اے زمیں زادے! نہ ہر دم آسماں کی بات کر
غیر ہیں جو گنبد و مِینار ماجِد کیا ہیں وُہ
دیس سے نکلا ہے اپنے آستاں کی بات کر
ماجد صدیقی

کِیا ہے چاک ہواؤں نے بادباں کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
رہِ سفر میں ہوئیں ہم پہ سختیاں کیا کیا
کِیا ہے چاک ہواؤں نے بادباں کیا کیا
نہ احتساب ہی بس میں، نہ احتجاج اُن کے
عوام اپنے یہاں کے ہیں بے زباں کیا کیا
فساد و فتنہ و شر کے ہم اہلِ مشرق کو
دِکھا رہا ہے نئے رنگ آسماں کیا کیا
وہ جسکے ہاتھ میں کرتب ہیں اُس کی چالوں سے
لٹیں گے اور بھی ہم ایسے خوش گماں کیا کیا
ہم ایسے اڑتے پرندوں کو کیا خبر ماجدؔ
دکھائے اور ہنر حرص کی کماں کیا کیا
ماجد صدیقی

نہ کچھ کہا تو سُلگنے لگی زباں کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
کہا تو دل میں رہی ہیبتِ شہاں کیا کیا
نہ کچھ کہا تو سُلگنے لگی زباں کیا کیا
یہ اُن حروف سے پوُچھو، ہوئے جو خاک بہ سر
اُڑی ہیں عہدِ مُروّت کی دھجّیاں کیا کیا
زمیں کی بات اُٹھائی تھی، اِک ذرا اس سے
نجانے ٹوٹ پڑا ہم پہ، آسماں کیا کیا
وُہ جس کے ہاتھ میں کرتب ہیں اُس کی چالوں سے
لُٹیں گے اور بھی ہم ایسے خوش گُماں کیا کیا
ہم ایسے اُڑتے پرندوں کو کیا خبر ماجدؔ
ہُنر دکھائے ابھی حرص کی کماں کیا کیا
ماجد صدیقی

جس سے مرے پیکر پہ بھی سائل کا گماں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
دیکھو تو یہ کیا لفظ مرے زیبِ زباں ہے
جس سے مرے پیکر پہ بھی سائل کا گماں ہے
رکھنے کو مرے کاسۂ اُمید کو خالی
جس سمت بھی جاتا ہوں وہیں شورِ سگاں ہے
یہ کیسا غضب ہے کہ جو خوشبو سا سبک تھا
وُہ خون بھی رگ رگ میں رُکا سنگِ گراں ہے
چھینی مرے قدموں سے یہ کس رُت نے روانی
قامت پہ یہ کیوں برف کے تودے سا گُماں ہے
کیا بزم میں مَیں حالِ دلِ زار چھپاؤں
ہونٹوں میں دباؤں بھی تو آنکھوں سے عیاں ہے
ماجد صدیقی

دکھائے گا وہ اندازِ شہاں آہستہ آہستہ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 72
تنے گی اُس کے ابرو کی کماں آہستہ آہستہ
دکھائے گا وہ اندازِ شہاں آہستہ آہستہ
جو کونپل سبز تھی دو چارہے اَب زردیوں سے بھی
مرتب ہو رہی ہے داستاں آہستہ آہستہ
لہو میں چھوڑنے پر آ گیا اَب تو شرارے سے
بدل کر خوف میں اک اک گماں آہستہ آہستہ
سجا رہتا تھا ہر دم آئنوں میں آنسوؤں کے جو
کنول وُہ بھی ہُوا اَب بے نشاں آہستہ آہستہ
اکھڑنا تھا زمیں سے اپنے قدموں کا کہ سر سے بھی
سرکنے لگ پڑا ہے آسماں آہستہ آہستہ
بکھر کر رہ گئیں بادِمخالفت کے تھپیڑوں سے
تمنّاؤں کی ساریاں تتلیاں آہستہ آہستہ
سخنور ہم بھی ماجدؔ رات بھر میں تو نہیں ٹھہرے
ملی ہے دل کے جذبوں کو زباں آہستہ آہستہ
ماجد صدیقی

ایسا بھی کبھی حشر گلستاں میں کہاں تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 74
تھا جو بھی شجر عرش نشاں، فرش نشاں تھا
ایسا بھی کبھی حشر گلستاں میں کہاں تھا
کانٹوں پہ لرزتی تھی تمنّاؤں کی شبنم
چھالا سا ہر اِک لفظ سرِ نوکِ زباں تھا
ہونٹوں نے بھی لو، زہرِ خموشی سے چٹخ کر
سیکھا وُہی انداز جو مرغوبِ شہاں تھا
باز آئے گھٹانے سے نہ جو رزقِ گدا کو
اَب کے بھی سرِ شہر وُہی شورِ سگاں تھا
توصیف کا ہر حرف مثالِ خس و خاشاک
دیکھا ہے جہاں بھی پسِ شہ زور رواں تھا
غافل نظر آیا نہ کبھی وار سے اپنے
وُہ خوف کا خنجر جو قریبِ رگ جاں تھا
مجروح پرندوں سی جو پیوندِ زمیں ہے
ماجدؔ نگہِ شوق پہ کب ایسا گماں تھا
ماجد صدیقی

جان لیجے کہ وہ جہاں سے گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 149
اُٹھ کے جو اُس کے آستاں سے گیا
جان لیجے کہ وہ جہاں سے گیا
چھیڑتے کیوں ہو تذکرے اس کے
جو مرے وہم سے گماں سے گیا
یوں مری داستاں سے نکلا وہ
باب جیسے ہو درمیاں سے گیا
اب یہ آنکھیں اُسے نہ دیکھیں گی
حسن جو ابکے گلستاں سے گیا
آنے پایا نہ اختیار میں وہ
تیر اک بار جو کماں سے گیا
کیا وہ من موہنا خزانہ تھا
شخص جو ہند میں سواں سے گیا
بن کے بندہ غرض کا ماجدؔ بھی
دیکھ لو بزمِ دوستاں سے گیا
ماجد صدیقی

پھر وُہی اندھا کُنواں ہے اور ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 52
سر پہ لختِ آسماں ہے اور ہم
پھر وُہی اندھا کُنواں ہے اور ہم
ہَیں لبوں پر خامشی کی کائیاں
زنگ آلودہ زباں ہے اور ہم
دُھند میں لپٹی ہوئی بینائیاں
دَر بدَر اُٹھتا دُھواں ہے اور ہم
منہدم بُنیاد ہر ایقان کی
نرغۂ وہم و گماں ہے اور ہم
ہر سخن ماجدؔ یہاں بے آبُرو
بے اثر طرز فغاں ہے اور ہم
ماجد صدیقی

گنگ ہے کیوں مری غزل کی زباں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
چھن گیا کیوں قلم سے حرفِ رواں
گنگ ہے کیوں مری غزل کی زباں
کس خدا کی پناہ میں ہوں کہ میں
بُھولتا جا رہا ہوں جورِ بتاں
کوئی جنبش تو سطح پر بھی ہو
کس طرح کا ہوں میں بھی آبِ رواں
پیلے پتّوں کو سبز کون کرے
کس سے رُک پائے گا یہ سیلِ خزاں
اب یہی روگ لے کے بیٹھے ہیں
ہم کہ تھا شغل جن کا جی کا زیاں
ہم کہ سیماب وار جیتے تھے
اب ہمیں پر ہے پتّھروں کا گماں
اب وہ چبھنا بھی اپنا خاک ہوا
ہم کہ تھے ہر نظر میں نوکِ سناں
ہے تکلم مرے پہ خندہ بہ لب
گونجتی خامشی کراں بہ کراں
یہ تو خدشہ ہمیں نہ تھا ماجدؔ
نرغۂ غم میں گھر گئے ہو کہاں
ماجد صدیقی

کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 100
یہ زمیں اور آسماں نہ رہے
کچھ بھی میرے سِوا یہاں نہ رہے
میں ہی اول بھی اور آخر بھی
کوئی بھی میرے درمیاں نہ رہے
بس معانی ہوں، لفظ کھو جائیں
روح رہ جائے، جسم و جاں نہ رہے
میری یکسوئی میں پڑے نہ خلل
"میں رہوں اور یہ جہاں نہ رہے”
مہرباں آج مجھ پہ ہے جو نظر
عین ممکن ہے کل کلاں نہ رہے
ہاں بلا سے مری، رہے نہ وجود
نہیں رہتا عدم بھی، ہاں نہ رہے
سوچتا ہوں خموش ہو جاؤں
اور یہ حرفِ رائگاں نہ رہے
کاش چھا جائے ایک ابرِ اماں
اور کوئی بھی بے اماں نہ رہے
اک سہارا۔ ہے بے یقینوں کا
کیا کریں وہ اگر گماں نہ رہے
بات کیسی جو سننے والا نہ ہو
راز کیسا جو رازداں نہ رہے
وہی ہوتا ہے رائگاں کہ جو ہو
نہ رہوں میں تو یہ زیاں نہ رہے
زخم تو سارے بھر ہی جاتے ہیں
بات تب ہے اگر نشاں نہ رہے
ہے وہاں ماں، یہاں مرے بچے
اب رہے دل کہاں، کہاں نہ رہے
زخمِ دل کو زبان مل جائے
درد ناقابلِ بیاں نہ رہے
کیا خبر کس گھڑی چلے آندھی
اور سر پر یہ سائباں نہ رہے
شہرِ دام و درم کی تم جانو
اہلِ دل تو کبھی وہاں نہ رہے
ان دنوں ہے یہاں، مگر عرفان
بس چلے تو کبھی یہاں نہ رہے
عرفان ستار

جہاں پہ تُو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 99
بہت خجل ہیں کہ ہم رائگاں بھی زندہ رہے
جہاں پہ تُو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے
عجیب شرط ہے اس بے یقیں مزاج کی بھی
کہ تُو بھی پاس ہو تیرا گماں بھی زندہ رہے
تجھے یہ ضد ہے مگر اس طرح نہیں ہوتا
کہ تُو بھی زندہ رہے داستاں بھی زندہ رہے
وہ کون لوگ تھے جن کا وجود جسم سے تھا
یہ کون ہیں جو پسِ جسم و جاں بھی زندہ رہے
جو یہ نہ ہو تو سخن کا کوئی جواز نہیں
ضمیر زندہ رہے تو زباں بھی زندہ رہے
یہ کائنات فقط منفعت کا نام نہیں
یہاں پہ کوئی برائے زیاں بھی زندہ رہے
عدم میں جو بھی نہیں تھا وہ سب وجود میں تھا
یہ ہم ہی تھے جو کہیں درمیاں بھی زندہ رہے
عرفان ستار

لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 78
تمہارا نام سرِ لوحِ جاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے
لہو سے تر ہے ورق در ورق بیاضِ سخن
حسابِ دل زدگاں سب یہاں لکھا ہوا ہے
نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟
فصیلِ شہر پہ شہرِ اماں لکھا ہوا ہے
ملی ہے اہلِ جنوں کو جہاں بشارتِ اجر
وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے
زمیں بھی تنگ ہوئی، رزق بھی، طبیعت بھی
مرے نصیب میں کیا آسماں لکھا ہوا ہے؟
یہ کیسی خام امیدوں پہ جی رہے ہو میاں؟
پڑھو تو، لوحِ یقیں پر گماں لکھا ہوا ہے
تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے؟
ذرا ہمیں بھی دکھاوٗ، کہاں لکھا ہوا ہے؟
یہ کائنات سراسر ہے شرحِ رازِ ازل
کلامِ حق تو سرِ کہکشاں لکھا ہوا ہے
میں سوچتا ہوں تو کیا کچھ نہیں عطائے وجود
میں دیکھتا ہوں تو بس رائگاں لکھا ہوا ہے
جو چاہتا تھا میں جس وقت، وہ کبھی نہ ہُوا
کتابِ عمر میں سب ناگہاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہوا نہیں کچھ بھی بنامِ خوابِ وجود
نبود و بود کے سب درمیاں لکھا ہوا ہے
عدو سے کوئی شکایت نہیں ہمیں عرفان
حسابِ رنج پئے دوستاں لکھا ہوا ہے
عرفان ستار

دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 70
ایسا احوال محبت میں کہاں تھا پہلے
دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے
ایک امکان میں روپوش تھا سارا عالم
میں بھی اُس گردِ تحیّر میں نہاں تھا پہلے
ایک خوشبو سی کیے رہتی تھی حلقہ میرا
یعنی اطراف کوئی رقص کناں تھا پہلے
اُس نے مجھ سا کبھی ہونے نہ دیا تھا مجھ کو
کیا تغیّر مری جانب نگراں تھا پہلے
اب فقط میرے سخن میں ہے جھلک سی باقی
ورنہ یہ رنگ تو چہرے سے عیاں تھا پہلے
کون مانے گا کہ مجھ ایسا سراپا تسلیم
سربرآوردۂ آشفتہ سراں تھا پہلے
کون یہ لوگ ہیں نا واقفِ آداب و لحاظ
تیرا کوچہ تو رہِ دل زدگاں تھا پہلے
اب تو اک دشتِ تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں
کیسا قلزم میرے سینے میں رواں تھا پہلے
اب کہیں جا کے یہ گیرائی ہوئی ہے پیدا
تجھ سے ملنا تو توجہ کا زیاں تھا پہلے
میں نے جیسے تجھے پایا ہے وہ میں جانتا ہوں
اب جو تُو ہے یہ فقط میرا گماں تھا پہلے
جانے ہے کس کی اداسی مری وحشت کی شریک
مجھ کو معلوم نہیں کون یہاں تھا پہلے
دل ترا راز کسی سے نہیں کہنے دیتا
ورنہ خود سے یہ تعلق بھی کہاں تھا پہلے
اب جو رہتا ہے سرِ بزمِ سخن مہر بہ لب
یہی عرفانؔ عجب شعلہ بیاں تھا پہلے
عرفان ستار

تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 61
تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی
تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی
حرمتِ حرف نہیں ہے سو یہ ارزانی ہے
ورنہ وہ دن بھی تھے جب خوابِ گراں تھے ہم بھی
ہم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر
مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی
اب کہیں کیا، کہ وہ سب قصہءِ پارینہ ہُوا
رونقِ محفلِ شیریں سخناں تھے ہم بھی
وقت کا جبر ہی ایسا ہے کہ خاموش ہیں اب
ورنہ تردیدِ صفِ کجکلہاں تھے ہم بھی
رنج مت کر، کہ تجھے ضبط کا یارا نہ رہا
کس قدر واقفِ آدابِ فغاں تھے ہم بھی
تُو بھی کردار کہانی سے الگ تھا کوئی
اپنے قصے میں حدیثِ دگراں تھے ہم بھی
کیسی حیرت، جو کہیں ذکر بھی باقی نہ رہا
تُو بھی تحریر نہ تھا، حرفِ بیاں تھے ہم بھی
ہم کہ رکھتے تھے یقیں اپنی حقیقت سے سِوا
اب گماں کرنے لگے ہیں کہ گماں تھے ہم بھی
رائگاں ہوتا رہا تُو بھی پئے کم نظراں
ناشناسوں کے سبب اپنا زیاں تھے ہم بھی
تُو بھی کس کس کے لیے گوش برآواز رہا
ہم کو سنتا تو سہی، نغمہءِ جاں تھے ہم بھی
ہم نہیں ہیں، تو یہاں کس نے یہ محسوس کیا؟
ہم یہاں تھے بھی تو ایسے، کہ یہاں تھے ہم بھی
عرفان ستار

میں کہ ٹھہرا گدائے دیارِ سخن مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 57
مری کم مائیگی کو ترے ذوق نے دولتِ حرفِ تازہ بیاں سونپ دی
میں کہ ٹھہرا گدائے دیارِ سخن مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی
قاصدِ شہرِ دل نے مرے خیمۂ خواب میں آ کے مجھ سے کہا جاگ جا
بادشاہِ جنوں نے تجھے آج سے لشکرِ اہلِ غم کی کماں سونپ دی
میرا ذوقِ سفر یوں بھی منزل سے بڑھ کر کسی ہمرہی کا طلب گار تھا
اس لیے وصل کے موڑ پر ہجر کو اُس نے رہوارِ دل کی عناں سونپ دی
تشنگی کو مرے شوق کی لہر نے کس سرابِ نظر کے حوالے کیا
کیسے بنجر یقیں کو مرے خواب نے اپنی سر سبز فصلِ گماں سونپ دی
احتیاطِ نظر اور وضعِ خرد کے تقاضوں کی تفصیل رہنے ہی دے
یہ مجھے بھی خبر ہے کہ میں نے تجھے اپنی وارفتگی رائگاں سونپ دی
اپنے ذوقِ نظر سے تری چشمِ حیراں کو تازہ بہ تازہ مناظر دیے
تیرے پہلو میں دھڑکن جگانے کی خاطر ترے جسم کو اپنی جاں سونپ دی
رازداری کی مہلت زیادہ نہ ملنے پہ احباب سب مجھ سے ناراض ہیں
قصہ گو مجھ سے خوش ہیں کہ میں اُنہیں ایک پُر ماجرا داستاں سونپ دی
میری وحشت پسندی کو آرائشِ زلف و رخسار و ابرو کی فرصت کہاں
تُو نے کس بے دلی سے یہ امید کی یہ کسے خدمتِ مہ وشاں سونپ دی
دل پہ جب گُل رُخوں اور عشوہ طرازوں کی یلغار کا زور بڑھنے لگا
میں نے گھبرا کے آخر تری یاد کو اپنی خلوت گہِ بے اماں سونپ دی
کار گاہِ زمانہ میں جی کو لگانے سے آخر خسارہ ہی مقدور تھا
یہ بھی اچھا ہوا میں نے یہ زندگی تیرے غم کو برائے زیاں سونپ دی
اُس نے ذوقِ تماشا دیا عشق کو خوشبوئوں کو صبا کے حوالے کیا
مجھ رفاقت طلب کو نگہبانیٔ دشتِ وحشت کراں تا کراں سونپ دی
مجھ میں میرے سوا کوئی تھا جو ہوس کے تقاضے نبھانے پہ مائل بھی تھا
میں نے بھی تنگ آ کر اُسی شخص کو ناز برداریٔ دلبراں سونپ دی
ایک امکان کیا گنگنایا مرے چند اشعار میں حرفِ اظہار میں
میں یہ سمجھا خدائے سخن نے مجھے مسندِ بزمِ آئندگاں سونپ دی
عرفان ستار

کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عمر گزر گئی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 54
یونہی بے یقیں یونہی بے نشاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کبھی سائباں نہ تھا بہم، کبھی کہکشاں تھی قدم قدم
کبھی بے مکاں کبھی لا مکاں، مری آدھی عمر گزر گئی
ترے وصل کی جو نوید ہے، وہ قریب ہے کہ بعید ہے
مجھے کچھ خبر تو ہو جانِ جاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کبھی مجھ کو فکرِ معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے
کوئی گُر بتا مرے نکتہ داں، مری آدھی عمر گزر گئی
کبھی ذکرِ حرمتِ حرف میں، کبھی فکرِ آمد و صرف میں
یونہی رزق و عشق کے درمیاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کوئی طعنہ زن مری ذات پر، کوئی خندہ زن کسی بات پر
پئے دل نوازیٔ دوستاں، مری آدھی عمر گزر گئی
ابھی وقت کچھ مرے پاس ہے، یہ خبر نہیں ہے قیاس ہے
کوئی کر گلہ مرے بد گماں، مری آدھی عمر گزر گئی
اُسے پا لیا اُسے کھو دیا، کبھی ہنس دیا کبھی رو دیا
بڑی مختصر سی ہے داستاں، مری آدھی عمر گزر گئی
تری ہر دلیل بہت بجا، مگر انتظار بھی تا کجا
ذرا سوچ تو مرے رازداں، مری آدھی عمر گزر گئی
کہاں کائنات میں گھر کروں، میں یہ جان لوں تو سفر کروں
اسی سوچ میں تھا کہ ناگہاں، مری آدھی عمر گزر گئی
عرفان ستار

نہ کر ملال کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 48
زمیں کسی کی نہیں آسماں کسی کا نہیں
نہ کر ملال کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں
بھلا یہ لفظ کہاں، اور کربِ ذات کہاں
بقدرِ رنج غزل میں بیاں کسی کا نہیں
عدم وجود میں ہے، اور وجود ہے ہی نہیں
یقیں کسی کا نہیں ہے، گماں کسی کا نہیں
ہمیں جو کہنا ہے اک دوسرے سے کہہ لیں گے
سو کام تیرے مرے درمیاں کسی کا نہیں
بہت سے لوگوں کا ہے نفع میرے ہونے میں
مرے نہ ہونے میں لیکن زیاں کسی کا نہیں
مرے سوا بھی بہت لوگ جل رہے ہیں یہاں
اگرچہ ایسا چمکتا دھواں کسی کا نہیں
ہمیشہ گونجتا رہتا ہے یہ کہیں نہ کہیں
میں جانتا ہوں سخن رائگاں کسی کا نہیں
عرفان ستار

عجب یقین پسِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 27
نہیں ہے جو، وہی موجود و بے کراں ہے یہاں
عجب یقین پسِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں
نہ ہو اداس، زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی
خوشی سے جھوم، ابھی سر پہ آسماں ہے یہاں
یہاں سخن جو فسانہ طراز ہو، وہ کرے
جو بات سچ ہے وہ ناقابلِ بیاں ہے یہاں
نہ رنج کر، کہ یہاں رفتنی ہیں سارے ملال
نہ کر ملال، کہ ہر رنج رائیگاں ہے یہاں
زمیں پلٹ تو نہیں دی گئی ہے محور پر؟
نمو پذیر فقط عہدِ رفتگاں ہے یہاں
یہ کارزارِ نفس ہے، یہاں دوام کسے
یہ زندگی ہے مری جاں، کسے اماں ہے یہاں
ہم اور وصل کی ساعت کا انتظار کریں؟
مگر وجود کی دیوار درمیاں ہے یہاں
چلے جو یوں ہی ابد تک، تو اِس میں حیرت کیا؟
ازل سے جب یہی بے ربط داستاں ہے یہاں
جو ہے وجود میں، اُس کو گماں کی نذر نہ کر
یہ مان لے کہ حقیقت ہی جسم و جاں ہے یہاں
کہا گیا ہے جو وہ مان لو، بلا تحقیق
کہ اشتباہ کی قیمت تو نقدِجاں ہے یہاں
عرفان ستار

مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 9
یہاں جو ہے کہاں اُس کا نشاں باقی رہے گا
مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا
سفر ہو گا سفر کی منزلیں معدوم ہوں گی
مکاں باقی نہ ہو گا لا مکاں باقی رہے گا
کبھی قریہ بہ قریہ اور کبھی عالم بہ عالم
غبارِ ہجرتِ بے خانماں باقی رہے گا
ہمارے ساتھ جب تک درد کی دھڑکن رہے گی
ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا
بہت بے اعتباری سے گزر کر دل ملے ہیں
بہت دن تک تکلف درمیاں باقی رہے گا
رہے گا آسماں جب تک زمیں باقی رہے گی
زمیں قائم ہے جب تک آسماں باقی رہے گا
یہ دنیا حشر تک آباد رکھی جا سکے گی
یہاں ہم سا جو کوئی خوش بیاں باقی رہے گا
جنوں کو ایسی عمرِ جاوداں بخشی گئی ہے
قیامت تک گروہِ عاشقاں باقی رہے گا
تمدن کو بچا لینے کی مہلت اب کہاں ہے
سر گرداب کب تک بادباں باقی رہے گا
کنارہ تا کنارہ ہو کوئی یخ بستہ چادر
مگر تہہ میں کہیں آبِ رواں باقی رہے گا
ہمارا حوصلہ قائم ہے جب تک سائباں ہے
خدا جانے کہاں تک سائباں باقی رہے گا
تجھے معلوم ہے یا کچھ ہمیں اپنی خبر ہے
سو ہم مر جائیں گے تُو ہی یہاں باقی رہے گا
عرفان ستار

زندگی اک زیاں کا دفتر ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 217
نہ تو دل کا نہ جاں کا دفتر ہے
زندگی اک زیاں کا دفتر ہے
پڑھ رہا ہوں میں کاغذاتِ وجود
اور نہیں اور ہاں کا دفتر ہے
کوئی سوچے تو سوزِ کربِ جاں
سارا دفتر گماں کا دفتر ہے
ہم میں سے کوئی تو کرے اصرار
کہ زمیں، آسماں کا دفتر ہے
ہجر تعطیلِ جسم و جاں ہے میاں
وصل، جسم اور جاں کا دفتر ہے
ہے جو بود اور نبود کا دفتر
آخرش یہ کہاں کا دفتر ہے
جو حقیقت ہے دم بدم کی یاد
وہ تو اک داستاں کا دفتر ہے
ہو رہا ہے گزشتگاں کا حساب
اور آئیندگاں کا دفتر ہے
جون ایلیا

رہیو بہم خود میں یہاں، شہر بگولوں کا ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 214
اے نفس آشفتگاں! شہر بگولوں کا ہے
رہیو بہم خود میں یہاں، شہر بگولوں کا ہے
دھول ہے ساری زمیں، دھند ہے سب آسماں
شکل کی صورت کہاں؟ شہر بگولوں کا ہے
گرد کی شکلیں سی دو ہونے کو ہیں ہمکنار
بیچ میں ہیں آندھیاں، شہر بگولوں کا ہے
گرد ہیں تعمیر کی ساری فلک بوسیاں
گرد میں ہوُ کا مکاں، شہر بگولوں کا ہے
ہیں اسی دم رُوبرُو، پھر نہ کوئی میں نہ توُ
اُس پہ وعدے بھی جاں ؟ شہر بگولوں کا ہے
اب سے ہے جو اب تلک، سود میں ہے وہ پلک
کس کا زیاں، کیا زیاں، شہر بگولوں کا ہے
ایک نفس ہی سہی، اس کی ہوس ہی سہی
رشتہ ہو اک درمیاں، شہر بگولوں کا ہے
دھند ہے بکھراو ہے، دھول ہے اندھیاو ہے
خود سے لگا چل میاں، شہر بگولوں کا ہے
ہائیں یہ آشفتگی، پائے نہ جاو گے پھر
شہر یہ آشفتگاں، شہر بگولوں کا ہے
وہم گماں کا گماں، عیشِ یقیں ہے یہاں
یہ بھی گماں ہے گماں، شہر بگولوں کا ہے
جون ایلیا

غم تو جانے تھے رائیگاں اُن کے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 186
خود سے رشتے رہے کہاں اُن کے
غم تو جانے تھے رائیگاں اُن کے
مست اُن کو گماں میں رہنے دے
خانہ برباد ہیں گماں اُن کے
یار سُکھ نیند ہو نصیب اُن کو
دُکھ یہ ہے دُکھ ہیں بے اماں اُن کے
کتنی سر سبز تھی زمیں اُن کی
کتنے نیلے تھے آسماں اُن کے
نوحہ خوانی ہے کیا ضرور انہیں
ان کے نغمے ہیں نوحہ خواں اُن کے
جون ایلیا

زمزمہ خواں گزر گئے ، رقص کناں گزر گئے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 168
خوش گذران شہر غم ، خوش گذراں گزر گئے
زمزمہ خواں گزر گئے ، رقص کناں گزر گئے
وادی غم کے خوش خرام ، خوش نفسان تلخ جام
نغمہ زناں ، نوازناں ، نعرہ زناں گزر گئے
سوختگاں کا ذکر کیا، بس یہ سمجھ کہ وہ گروہ
صر صر بے اماں کے ساتھ ، دست فشاں گزر گئے
زہر بہ جام ریختہ، زخم بہ کام بیختہ
عشرتیان رزق غم ، نوش چکاں گزر گئے
اس در نیم وا سے ہم حلقہ بہ حلقہ صف بہ صف
سینہ زناں گزر گئے ، جامہ وراں گزر گئے
ہم نے خدا کا رد لکھا نفی بہ نفی لا بہ لا!
ہم ہی خدا گزیدگاں تم پہ گراں گزر گئے
اس کی وفاکے باوجود اس کو نہ پا کے بد گماں
کتنے یقیں بچھڑ گئے ، کتنے گماں گزر گئے
مجمع مہ وشاں سے ہم زخم طلب کے باوجود
اپنی کلاہ کج کیے ، عشوہ کناں گزر گئے
خود نگران دل زدہ ، دل زدگان خود نگر!
کوچہ ءِ التفات سے خود نگراں گزر گئے
اب یہی طے ہوا کہ ہم تجھ سے قریب تر نہیں
آج ترے تکلفات دل پہ گراں گزر گئے
رات تھی میرے سامنے فرد حساب ماہ و سال
دن ، مری سرخوشی کے دن، جانے کہاں گزر گئے
کیا وہ بساط الٹ گئی، ہاں وہ بساط الٹ گئی
کیا وہ جواں گزر گئے ؟ ہاں وہ جواں گزر گئے
جون ایلیا

جانِ جاں ، جانانِ جاں ، افسوس میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 108
سود ہے میرا زیاں ، افسوس میں
جانِ جاں ، جانانِ جاں ، افسوس میں
رائگانی میں نے سونپی ہے تجھے
اے مری عمرِ رواں ، افسوس میں
اے جہانِ بے گمان و صد گماں
میں ہوں اوروں کا گماں ، افسوس میں
نا بہ ہنگامی ہے میری زندگی
میں ہوں ہر دم نا گہاں ، افسوس میں
زندگی ہے داستاں افسوس کی
میں ہوں میرِ داستاں ، افسوس میں
اپنے برزن اپنے ہی بازار میں
اپنے حق میں ہوں گراں ، افسوس میں
گم ہوا اور بے نہائت گم ہوا
مجھ میں ہے میرا سماں ، افسوس میں
میرے سینے میں چراغِ زندگی
میری انکھوں میں دھواں ، افسوس میں
مجھ کو جز پرواز کوئی چارہ نہیں
ہوں میں اپنا آشیاں ، افسوس میں
ہے وہ مجھ میں بے اماں ، افسوس وہ
ہوں میں اس میں بے اماں ، افسوس میں
خود تو میں ہوں یک نفس کا ماجرا
میرا غم ہے جاوداں ، افسوس میں
ایک ہی تو باغِ حسرت ہے میرا
ہوں میں اس کی ہی خزاں ، افسوس میں
اے زمین و آسماں ،، افسوس تم
اے زمین و آسماں ، افسوس میں
جون ایلیا

اپنا گماں ہوں میں یا میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 104
جانے یہاں ہوں میں یا میں
اپنا گماں ہوں میں یا میں
میری دوئی ہے میرا زیاں
اپنا زیاں ہوں میں یا میں
جانے کون تھا وہ یارو
جانے کہاں ہوں میں یا میں
ہر دم اپنی زد پر ہوں
جا سے اماں ہوں میں یا میں
میں جو ہوں اک حیرت کا سماں
کیا وہ سماں ہوں میں یا میں
کون ہے مجھ میں شعلہ بجاں
شعلہ بجاں ہوں میں یا میں
آگ، مرے ہونے کی آگ
تیرا دھواں ہوں میں یا میں
جون ایلیا

سو ہیں اب کہاں؟ مگر اب کہاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 102
ہیں عجیب رنگ کی داستاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
سو ہیں اب کہاں؟ مگر اب کہاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
نہ یقیں ہیں اب نہ گماں ہیں اب، سو کہاں تھے جب سو کہاں ہیں اب
وہ یقیں یقیں، وہ گماں گماں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
مری جاں وہ پل جو گئی نکل، کوئی پل تھی وہ کہ ازل، ازل
سو گزشتگی میں ہیں بیکراں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
وہی کارواں ہے کہ ہے رواں وہی وصل و فصل ہیں درمیاں
ہیں غبارِ رفتہ ءِ کارواں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
تو مرے بدن سے جھلک بھی لے، میں ترے بدن سے مہک بھی لوں
ہمہ نارسائی ہیں جانِ جاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
گلہ ءِ فراق تو کیوں بھلا طلبِ وصال تو کیا بھلا
کسی آگ کا تھے بس اک دھواں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
جون ایلیا

میاں یہاں کی نہیں اور ہاں سے چل نکلو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 69
حساب داریِ سودوزیاں سے چل نکلو
میاں یہاں کی نہیں اور ہاں سے چل نکلو
میری سُنو زمان و مکاں میں رہتے ہوئے
بہ صد سلیقہ زمان و مکاں سے چل نکلو
یہ تیرے لوگ نہیں ہیں یہ تیرا شہر نہیں
یہ مشورہ ہے مرا تو یہاں سے چل نکلو
یہ جو بھی کچھ ہے نہیں کچھ بھی جُز فریبائی
یقیں کو چھوڑ دو یعنی گماں سے چل نکلو
شبِ گزشتہ خراباتیوں میں تھا یہ سوال
کہاں کا رُخ کرو آخر کہاں سے چل نکلو
نفس نفس ہے وجود و عدم میں اک پیکار
ہے مشورہ یہ میرا درمیاں سے چل نکلو
جون ایلیا

وہ جو ابھی یہاں تھا، وہ کون تھا، کہاں تھا؟

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 24
جانے کہاں گیا وہ، وہ جو ابھی یہاں تھا؟
وہ جو ابھی یہاں تھا، وہ کون تھا، کہاں تھا؟
تا لمحہ گزشتہ یہ جسم اور بہار آئے
زندہ تھے رائیگاں میں، جو کچھ تھا رائیگاں تھا
اب جس کی دید کا ہے سودا ہمارے سر میں
وہ اپنی ہی نظر میں اپنا ہی اک سماں تھا
کیا کیا نہ خون تھوکا میں اس گلی میں یارو
سچ جاننا وہاں تو جو فن تھا رائیگاں تھا
یہ وار کر گیا ہے پہلو سے کون مجھ پر؟
تھا میں ہی دائیں بائیں اور میں ہی درمیاں تھا
اس شہر کی حفاظت کرنی تھی جو ہم کو جس میں
آندھی کی تھیں فصلیں اور گرد کا مکاں تھا
تھی اک عجب فضا سی امکانِ خال و خد کی
تھا اک عجب مصور اور وہ مرا گماں تھا
عمریں گزر گئیں تھیں ہم کو یقیں سے بچھڑے
اور لمحہ اک گماں کا، صدیوں میں بے اماں تھا
میں ڈوبتا چلا گیا تاریکیوں کہ تہہ میں
تہہ میں تھا اک دریچہ اور اس میں آسماں تھا
جون ایلیا

کرتے ہیں مَحبّت تو گزرتا ہے گماں اور

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 120
ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں مَحبّت تو گزرتا ہے گماں اور
یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ابرو سے ہے کیا اس نگہِ ناز کو پیوند
ہے تیر مقرّر مگر اس کی ہے کماں اور
تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم، جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور
ہر چند سُبُک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں، تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور
ہے خوںِ جگر جوش میں دل کھول کے روتا
ہوتے جو کئی دیدۂ خو نبانہ فشاں اور
مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے
جلاّد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ ’ہاں اور‘
لوگوں کو ہے خورشیدِ جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغِ نہاں اور
لیتا، نہ اگر دل تمھیں دیتا، کوئی دم چین
کرتا، جو نہ مرتا، کوئی دن آہ و فغاں اور
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رُکتی ہے مری طبع، تو ہوتی ہے رواں اور
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھّے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
مرزا اسد اللہ خان غالب

کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو

دیوان اول غزل 383
اے چرخ مت حریف اندوہ بے کساں ہو
کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو
کب تک گرہ رہے گا سینے میں دل کے مانند
اے اشک شوق اک دم رخسار پر رواں ہو
ہم دور ماندگاں کی منزل رساں مگر اب
یا ہو صدا جرس کی یا گرد کارواں ہو
مسند نشین ہو گر عرصہ ہے تنگ اس پر
آسودہ وہ کسو کا جو خاک آستاں ہو
تاچند کوچہ گردی جیسے صبا زمیں پر
اے آہ صبح گاہی آشوب آسماں ہو
گر ذوق سیر ہے تو آوارہ اس چمن میں
مانند عندلیب گم کردہ آشیاں ہو
یہ جان تو کہ ہے اک آوارہ دست بردل
خاک چمن کے اوپر برگ خزاں جہاں ہو
کیا ہے حباب ساں یاں آ دیکھ اپنی آنکھوں
گر پیرہن میں میرے میرا تجھے گماں ہو
از خویش رفتہ ہر دم رہتے ہیں ہم جو اس بن
کہتے ہیں لوگ اکثر اس وقت تم کہاں ہو
پتھر سے توڑ ڈالوں آئینے کو ابھی میں
گر روے خوبصورت تیرا نہ درمیاں ہو
اس تیغ زن سے کہیو قاصد مری طرف سے
اب تک بھی نیم جاں ہوں گر قصد امتحاں ہو
کل بت کدے میں ہم نے دھولیں لگائیاں ہیں
کعبے میں آج زاہد گو ہم پہ سرگراں ہو
ہمسایہ اس چمن کے کتنے شکستہ پر ہیں
اتنے لیے کہ شاید اک بائو گل فشاں ہو
میر اس کو جان کر تو بے شبہ ملیو رہ پر
صحرا میں جو نمد مو بیٹھا کوئی جواں ہو
میر تقی میر

اڑتا ہے ابھی رنگ گل باغ جہاں کا

دیوان اول غزل 150
ہو بلبل گلگشت کہ اک دن ہے خزاں کا
اڑتا ہے ابھی رنگ گل باغ جہاں کا
ہے مجھ کو یقیں تجھ میں وفا ایسی جفا پر
گھر چاک برابر ہوئے اس میرے گماں کا
سینے میں مرے آگ لگی میرے سخن سے
جوں شمع جلایا ہوا ہوں اپنی زباں کا
آرام عدم میں نہ تھا ہستی میں نہیں چین
معلوم نہیں میرا ارادہ ہے کہاں کا
میر تقی میر

مکاں میں رہتے ہوئے بھی رہوں مکاں سے پرے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 61
وُہ بے دلی ہے کہ زندہ ہوں جسم و جاں سے پرے
مکاں میں رہتے ہوئے بھی رہوں مکاں سے پرے
خفاں کہ ایک ستارہ نہ زیرِ دام آیا
کمندِ فکر تو ڈالی تھی کہکشاں سے پرے
سماعتوں پہ جھمکے ہیں عجیب سائے سے
نکلی گیا ہوں میں شاید حدِ بیاں سے پرے
بلا سے سامنے آئے کہ بے نمود رہے
وُہ حادثہ کہ ابھی ہے مرے گماں سے پرے
ابھی سے بننے لگیں وہم کی پناہ گاہیں
ابھی تو حشر کا سورج ہے سائباں سے پرے
کچھ ایسا لطف ملا خود یہ رحم کھانے میں
گیا نہ شوقِ غزل لذت زیاں سے پرے
آفتاب اقبال شمیم

یہی لگا کہ جیسے میرے سر سے آسماں گیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 21
نظر کے شہ نشیں سے اُٹھ کے جب وُہ مہرباں گیا
یہی لگا کہ جیسے میرے سر سے آسماں گیا
بس ایک عکس دور ہی ملا سڑک کے موڑ پر
جو موتیے کے ہار بیچتا تھا وہ کہاں گیا
ہوا کا خوش نورد اپنے ساتھ گرد لے اُڑا
چلا تو تھا سبک سبک مگر گراں گراں گیا
ملا نہ اسمِ آخریں ، درِ شفا نہ وا ہوا
اگرچہ دور دور تک یقیں گیا، گماں گیا
وہی نظر کے فاصلے وہی دلوں کی دُوریاں
ملا نہ کوئی آشنا وہ اجنبی جہاں گیا
مگر یہ کیا ضرور ہے کہ پھر سے تجربہ کریں
وُہ ایک کارِ رائیگاں تھا اور رائیگاں گیا
یہ نغمۂ مراد ہے، رُکے تو پھر سے چھیڑ دے
رہے گا اپنے پاس کیا جو ذکرِ دوستاں گیا
آفتاب اقبال شمیم

ٹھہر ٹھہر کے یہ ہوتا ہے آج دل کو گماں

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 8
صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی
ٹھہر ٹھہر کے یہ ہوتا ہے آج دل کو گماں
وہ ہاتھ ڈھونڈ رہے ہیں بساطِ محفل میں
کہ دل کے داغ کہاں ہیں نشستِ درد کہاں
فیض احمد فیض

ہم لوگ بھی اے دل زدگاں عیش کریں گے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 287
سر ہونے دو یہ کارِ جہاں عیش کریں گے
ہم لوگ بھی اے دل زدگاں عیش کریں گے
کچھ عرض کریں گے تب و تابِ خس و خاشاک
آجا‘ کہ ذرا برقِ بتاں عیش کریں گے
اب دل میں شرر کوئی طلب کا‘ نہ ہوس کا
اس خاک پہ کیا خوش بدناں عیش کریں گے
کچھ دور تو بہتے چلے جائیں گے بھنور تک
کچھ دیر سرِ آبِ رواں عیش کریں گے
اس آس پہ سچائی کے دن کاٹ رہے ہیں
آتی ہے شبِ وہم و گماں عیش کریں گے
عرفان صدیقی

سوچئے وہ شہر کیا ہو گا جہاں میں ہی نہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 201
دیکھئے جو دشت زندہ ہے دم آہو سے ہے
سوچئے وہ شہر کیا ہو گا جہاں میں ہی نہیں
خار و خس بھی ہیں تری موج ہوا کے شکوہ سنج
باغ میں اے موسم نامہرباں میں ہی نہیں
اب ادھورا چھوڑنا ممکن نہیں اے قصہ گو
ساری دنیا سن رہی ہے داستاں میں ہی نہیں
سایۂ آسیب وحشت دوسرے گھر میں بھی ہے
تیرا قیدی اے شب وہم و گماں میں ہی نہیں
تیرے اک جانے سے یہ لشکر بھی پیاسا مر نہ جائے
تشنہ لب صحرا میں اے جوئے رواں میں ہی نہیں
MERGED آسماں کی زد میں زیر آسماں میں ہی نہیں
تو بھی ہے ظالم نشانے پر یہاں میں ہی نہیں
اختر الایمان کی اک نظم سے مجھ پر کھلا
اور بھی کم گو ہیں مجبور فغاں میں ہی نہیں
کوئی انشا کر رہا ہے مصحف آئندگاں
لکھ رہی ہیں لکھنے والی انگلیاں میں ہی نہیں
رنج اس کا ہے کہ کس کو رائیگاں کرتا ہے کون
ورنہ اس آشوب جاں میں رائیگاں میں ہی نہیں
خار و خس بھی ہیں تری زور ہوا سے پائمال
باغ میں اے موسم نامہرباں میں ہی نہیں
اب اسے انجام تک لانا تو ہو گا قصہ گو
ساری دنیا سن رہی ہے داستاں میں ہی نہیں
سایۂ آسیب کوئی دوسرے گھر میں بھی ہے
ہاں گرفتار شب وہم و گماں میں ہی نہیں
تیرے رک جانے سے یہ لشکر بھی پیاسا مر نہ جائے
تشنہ لب صحرا میں اے جوئے رواں میں ہی نہیں
عرفان صدیقی

تنگ آیا ہوں سو پیراہن جاں کھولتا ہوں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 141
لو، میں راز ہنر چارہ گراں کھولتا ہوں
تنگ آیا ہوں سو پیراہن جاں کھولتا ہوں
یہ بھی دیکھوں ترے افلاک میں رکھا کیا ہے
آج میں بال و پر وہم و گماں کھولتا ہوں
بھولتا بھی نہیں، نام اس کا بتاتا بھی نہیں
بند کرتا ہوں نہ یہ دل کی دُکاں کھولتا ہوں
MERGED تو بھی دیکھے ترے افلاک کی وسعت کیا ہے
آج میں بال و پر، ہم و گماں کھولتا ہوں
بھولتا بھی نہیں نام اس کا بتاتا بھی نہیں
نہ بڑھاتا ہوں نہ یہ دل کی دکاں کھولتا ہوں
عرفان صدیقی

ساتھ ہے کوئی تو عمر گزراں ہے جاناں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 132
موج گل ہے نہ کہیں آب رواں ہے جاناں
ساتھ ہے کوئی تو عمر گزراں ہے جاناں
ابھی آتا ہے نظر چاند میں چہرہ تیرا
ایک دو پل میں یہ منظر بھی دھواں ہے جاناں
تو جو بولے تو سنوں میں تری آواز کا سچ
ہر طرف خاموشی وہم و گماں ہے جاناں
موسم ہجر سے اس درجہ سبک سار ہے دل
اس پہ اب حرف محبت بھی گراں ہے جاناں
آج تک جو نہ کیا اس کی تلافی کے لیے
اب یہ ذکر لب و رخسار بتاں ہے جاناں
ہم کچھ اس طرح سناتے ہیں کہانی اپنی
کوئی سمجھے کہ حدیث دگراں ہے جاناں
جو کبھی تونے کہا اور نہ کبھی ہم نے سنا
وہی اک لفظ تو سرنامۂ جاں ہے جاناں
عرفان صدیقی

خانۂ شیر دہاں ہے یہ جہاں بھی شاید

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 88
اب نہ مل پائیں مرے ہم نفساں بھی شاید
خانۂ شیر دہاں ہے یہ جہاں بھی شاید
تن پہ یہ خاک گزر دیکھ کے یاد آتا ہے
ساتھ میں تھی کوئی موج گزراں بھی شاید
کیا عجب ہے میں اس آشوب میں زندہ رہ جاؤں
وہم ہو تیرا یقیں میرا گماں بھی شاید
ان کمندوں سے زیادہ ہو مری وحشت جاں
اور میں صید نہ ہو پاؤں یہاں بھی شاید
کوئی آواز نہیں ہے پس دیوار سخن
عشق نے چھوڑ دیا ہے یہ مکاں بھی شاید
رتجگے کرتے ہوئے دیکھ رہی ہو گی مجھے
اسی جنگل میں صف رہزناں بھی شاید
عرفان صدیقی

شبیہیں بناتا تھا اور ان کے اطراف نقش و نگارِ گماں کھینچتا تھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 45
میں جب تازہ تر تھا تو اکثر تصور میں عکس رخِ دیگراں کھینچتا تھا
شبیہیں بناتا تھا اور ان کے اطراف نقش و نگارِ گماں کھینچتا تھا
کسی شہرِ فردائے امن و اماں کی کرن اپنی جانب بلاتی تھی مجھ
اور اپنی طرف ایک خیمے میں روشن چراغِ شبِ درمیاں کھینچتا تھا
عجب سلسلہ تھا وہ جنگ آزما خاک پر جاں بہ لب چھوڑ جاتے تھے مجھ کو
پسِ معرکہ ایک دستِ کرم میرے سینے سے نوک سناں کھینچتا تھا
یہی شخص جو اب جہانِ مکافات میں قاتلوں سے اماں چاہتا ہے
کبھی پھینکتا تھا کمند آہوؤں پر کبھی طائروں پر کماں کھینچتا تھا
وصالِ بتاں کے لیے سوزِ جاں، عشق کا امتحاں، کچھ ضروری نہیں ہے
سو اب جا کے مجھ پر کھلا ہے کہ میں اتنے رنج و محن رائیگاں کھینچتا تھا
عرفان صدیقی

نور کے گیت کہاں تیرہ شباں سنتے ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 387
رات کا شور، اندھیروں کی زباں سنتے ہیں
نور کے گیت کہاں تیرہ شباں سنتے ہیں
ایک سقراط نے زنجیر بپا آنا ہے
دوستو آؤ عدالت میں بیاں سنتے ہیں
کیوں پلٹتی ہی نہیں کوئی صدا کوئی پکار
یہ تو طے تھا کہ مرے چارہ گراں سنتے ہیں
اب بدلنی ہے شب و روز کی تقویم کہ لوگ
شام کے وقت سویرے کی اذاں سنتے ہیں
ایسے منفی تو لب و دیدہ نہیں ہیں اس کے
کچھ زیادہ ہی مرے وہم و گماں سنتے ہیں
بات کرتی ہے ہوا میری نگہ سے منصور
اور رک رک کے مجھے آبِ رواں سنتے ہیں
منصور آفاق

گویا ہمارے سر پہ کبھی آسماں نہ تھا

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 26
ملتے ہی ان کے بھول گئیں کلفتیں تمام
گویا ہمارے سر پہ کبھی آسماں نہ تھا
رات ان کو بات بات پہ سو سو دئیے جواب
مجھ کو خود اپنی ذات سے ایسا گماں نہ تھا
رونا یہ ہے کہ آپ بھی ہنستے تھے ورنہ یاں
طعن رقیب دل پہ کچھ ایسا گراں نہ تھا
تھا کچھ نہ کچھ کہ پھانس ہی اک دل میں چبھ گئی
مانا کہ اس کے ہاتھ میں تیر و سناں نہ تھا
بزم سخن میں جی نہ لگا اپنا زینہار
شب انجمن میں حالیؔ جادو بیاں نہ تھا
الطاف حسین حالی

یقیں کتنا ہی پختہ ہو گماں تک ساتھ دیتا ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 246
خیال سود احساس زیاں تک ساتھ دیتا ہے
یقیں کتنا ہی پختہ ہو گماں تک ساتھ دیتا ہے
بدلتے جا رہے ہیں دمبدم حالات دنیا کے
تمہارا غم بھی اب دیکھیں کہاں تک ساتھ دیتا ہے
خیال ناخدا پھر بھی مسلط ہے زمانے پر
کہاں کوئی بھلا سیل رواں تک ساتھ دیتا ہے
زمانے کی حقیقت خود بخود کھُل جائے گی باقیؔ
چلا چل تو بھی وہ تیرا جہاں تک ساتھ دیتا ہے
باقی صدیقی

بغض دوستاں چہرے لطف دشمناں چہرے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 200
اردوگرد دیواریں اور درمیاں چہرے
بغض دوستاں چہرے لطف دشمناں چہرے
گردش زمانہ کا اک طویل افسانہ
یہ جلی جلی نظریں، یہ دھواں دھواں چہرے
نقش نقش پر برہم، داغ داغ پر خنداں
زندگی کی راہوں میں رہ گئے کہاں چہرے
قہقہوں کے ساغر میں ڈھل سکیں نہ وہ باتیں
موج لب سے پہلے ہی کر گئے بیاں چہرے
موسموں کی تلخی کا کچھ سراغ دیتے ہیں
شاخ جسم نازک پر برگ بے زباں چہرے
اک خیال دنیا کاکر گیا سکوں برہم
اک ہوا کے جھونکے سے ہو گئے عیاں چہرے
رنگ و بو کی تصویریں آئنے بدلتی ہیں
خار کی خلش چہرے، پھول کا گماں چہرے
رک گئے وہاں ہم بھی ایک دو گھڑی باقیؔ
جس جگہ نظر آئے چند مہرباں چہرے
باقی صدیقی

دل بھی اب چپ ہے زباں کی صورت

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 74
ہے یہ کیسی غم جاں کی صورت
دل بھی اب چپ ہے زباں کی صورت
خود پہ ہوتا ہے کسی کا دھوکا
کون سی ہے یہ گماں کی صورت
کس کی آمد ہے کہ لو دیتے ہیں
راستے کاہکشاں کی صورت
زیست کی راہ میں اکثر آیا
دل بھی اک سنگ گراں کی صورت
غم کے ہر موڑ پہ تیری باتیں
یاد آتی ہیں زیاں کی صورت
دیکھ کر صورت ساحل باقیؔ
چل دئیے موج رواں کی صورت
باقی صدیقی