ٹیگ کے محفوظات: گلی
تا ابد دھوم مچ گئی میری
جس کا ڈر تھا یہ وہ گھڑی ہے میاں
کچھ تو بتا کیا بات ہوئی ہے
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو
سوتے سوتے آنکھ ملی پھر
ہم پہ ممنوع پھر وہ گلی ہو گئی
مظہر ہے چمن کی تشنگی کا
ذات اپنی ہی دے اُٹھی خوشبُو
پھر محبت اسی سے مشکل ہے
تا ابد دھوم مچ گئی میری
یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی ، بھول گئے
گماں گماں سی مہک خود کو ڈھونڈتی ہی رہی
ہم اب کہیں بھی رہیں، جب تری گلی نہ رہی
شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی
یہ میرا طورِ زندگی ہی نہیں
یاد آئے گی اب تری کب تک
میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا
میں جل رہا ہوں اسی روشنی میں پہلے سے
یعنی ہمیں تلاش تمہاری گلی کی تھی
دکھ ہمیں بھی ہوتا ہے آدمی تو ہم بھی ہیں
تیرا وعدہ تری گلی اور میں
شاید یہ زندگی کی جادو گری ہے خواب
کیا ہے جو دیکھتا ہوں پچھلی گلی کے خواب
رستہ کوئی جا تیری گلی سے نہیں ملتا
گلی
یہاں پر روشنی
ہر روز مقدارِ مقرر میں اترتی ہے
یہاں پر زندگی کو نالیوں کے فحش پانی کی نمی
سیراب کرتی ہے
دھوئیں کے شامیانے میں
یہاں لڑکے غروبِ شام سے ہی کرنے لگتے ہیں
تھکن کی دھول میں تیاریاں سپنوں کے میلوں کی۔۔۔۔
ابھی چلتے ہوئے ہو گا
اُسے احساس سانسوں کے ذرا سے گرم ہونے کا
کسی در پر لٹکتے ٹاٹ کے اُدھڑے کنارے پر
گلابی انگلیوں کا پھول مہکے گا
سکینہ مسکرائے گی
فضائے دل میں جینے کی تمنا گنگنائے گی۔۔۔۔
ابھی دہلیز تک آکر
اُسے ماں اپنی ناداری
کے عالم میں دعا دے گی
وہ گھر سے رِزق کے کھلیان کی جانب
ہوا میں تیرتا۔۔۔۔ ہرےالیاں چُننے نکل جائے گا
ڈھلتی دھوپ کے آنگن میں آکر
مژدہءِفردا سنائے گا
سنو ماں! سبز خوشحالی کا موسم آنے والا ہے۔۔۔
یہاں خشتِ شکستہ کی کسی دہلیز پر بیٹھے
وہ ہم عمروں کی سنگت میں
سناتا اور سنتا ہے
کہانا اُس دلاور شاہزادے کی
جو دیوِ جبر کو تسخیر کرتا ہے
یہاں وہ بچپنے سے نیم عمری تک
ہزیمت کے سفر میں
رفتہ رفتہ یہ گلی اپنے بدن کی خاک میں تعمیر کرتا ہے
اچانک خواب سے اٹھ کر
وہ اپنے خوں میں پلتی زرد بیزاری میں کہتا ہے
میں مرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔