ٹیگ کے محفوظات: گلستاں

زخموں کی طرح سِینہِ سوزاں میں رہے پُھول

شاخوں پہ رہے اور نہ داماں میں رہے پُھول
زخموں کی طرح سِینہِ سوزاں میں رہے پُھول
دوشیزگیِ رنگ کے لُٹ جانے کا ڈر تھا
سہمے ہوئے آغوشِ بہاراں میں رہے پھول
کیا کم ہے یہ احسان ترا یادِ بہاراں !
ہمراہ مِرے گوشہِ زنداں میں رہے پُھول
شُعلہ صفت و بَرق شعار و شفق انداز
کیا کیا نہ مِرے دیدہِ حیراں میں رہے پھول
اک موجِ بلاخیز بہا لے گئی آخر
کچھ دیر تو کنجِ خسِ مِژگاں میں رہے پُھول
اک طرفہ تماشا تھی بدلتی ہوئی رُت بھی
غیروں کی طرح اپنے گلستاں میں رہے پُھول
شکیب جلالی

بہر صورت نمایاں گلستاں در گلستاں ہم ہیں

کبھی حُسنِ گُل و لالہ، کبھی رنگِ خزاں ہم ہیں
بہر صورت نمایاں گلستاں در گلستاں ہم ہیں
نرالا ہے زمانے ہی سے ذوقِ رہ روی اپنا
امیرِ کارواں ہم ہیں، نہ گردِ کارواں ہم ہیں
حوادث کی کشاکش ہے، وہ ساحل ہے، یہ طوفاں ہے
زمانہ جن سے بچتا ہے انھیں کے درمیاں ہم ہیں
ہمارا ذوقِ خودبینی یہاں پر جلوہ ساماں ہے
اگر سچ پوچھیے تو رونقِ بزمِ جہاں ہم ہیں
جنوں میں ایک سجدہ وُسعتِ عالم پہ حاوی ہے
شکیبؔ، اس درجہ گویا بے نیازِ آستاں ہم ہیں
شکیب جلالی

دیوانوں کی تکراروں سے، خاموشیِ بیاباں ٹوٹ گئی

وحشت کے ان معماروں سے، بنیادِ ایواں ٹوٹ گئی
دیوانوں کی تکراروں سے، خاموشیِ بیاباں ٹوٹ گئی
اے عزمِ جواں شورش کیسی، اب تک تو یہ سنتے آئے ہیں
دو نازک سی پتواروں سے، ہر جرأتِ طوفاں ٹوٹ گئی
تخیئل کی دَرپردہ ضربیں، وحشی کا سہارا بن ہی گئیں
زنجیروں کی جھنکاروں سے، پابندیِ زنداں ٹوٹ گئی
زنداں کی اندھیری راتوں میں، جینے کا سہارا ختم ہُوا
افسوس کہ ان بے چاروں سے، تصویرِ گلستاں ٹوٹ گئی
دیوانوں نے آخر گلشن، رو رو کے بیاباں کر ڈالا
آنکھوں کے لرزتے پاروں سے، دیوارِ گلستاں ٹوٹ گئی
قسمت کی کرشمہ سازی تھی یا لُطف و کرم ملّاحوں کا
ٹکرا کر خشک کناروں سے پروردہِ طوفاں ٹوٹ گئی
دکھ درد کے ماروں کا ہر غم، ساغر کی کھنک میں ڈوب گیا
پیمانوں کی جھنکاروں سے فکرِ غمِ دوراں ٹوٹ گئی
بارِ غمِ اُلفت اُٹھ نہ سکا، کم ظرفوں کی نبضیں چھوٹ گئیں
افسوس ہے ان بیماروں سے، توقیرِ غمِ جاں ٹوٹ گئی
ہستیِ شکیبؔ زار کو، رنج و غم کے ہی چرکے کافی تھے
ان نازک سی دیواروں سے تعمیرِ دل و جاں ٹوٹ گئی
شکیب جلالی

داغِ جگر کو رشکِ گُلستاں بنا دیا

گلہائے صبر و ضبط کا خواہاں بنا دیا
داغِ جگر کو رشکِ گُلستاں بنا دیا
پابندیوں نے موت کا ساماں بنا دیا
قلبِ حزیں کو تلخیِ زنداں بنا دیا
جلووں نے ان کی دید کا ساماں بنا دیا
میرے تصوّرات کو عُریاں بنا دیا
منظور تھی جو شانِ کریمی کو بندگی
خالق نے مُشتِ خاک کو انساں بنا دیا
مایوسیوں نے دل کا سَفینہ ڈبو کے آج
افسوس ایک موج کو طوفاں بنا دیا
اللہ رے فریبِ تصوّر کی خوبیاں
دشواریِ فراق کو آساں بنا دیا
دیکھا شکیبؔ! نقطے جما کر بنائے حَرف
حَرفوں سے شعر، شعر سے دیواں بنا دیا
شکیب جلالی

ہر طرف حدِّ نظَر تک ہے بیاباں جاناں

کس طرف جائیں ترے بے سر و ساماں جاناں
ہر طرف حدِّ نظَر تک ہے بیاباں جاناں
ہوتا جاتا ہے ہر اِک شہرِ محبّت تاراج
اہرمن سُنتا ہے کچھ اَور نہ یزداں جاناں
سَفَرِ عشق میں اب شرطِ وفا ختم ہُوئی
جنسِ دل ہو گئی اب اَور بھی ارزاں جاناں
کہا کہیَں کیفیتِ قلب و گذرگاہِ خیال
بستیوں کی طرح رستے بھی ہیں ویراں جاناں
دشتِ وحشت میں ہے سرمستیِ وحشت معدوم
چشمِ آہُو ہے نہ وہ لعلِ بدخشاں جاناں
پھر قزح رنگ گلستاں میں نہ آیا کوئی
پھیکا پھیکا ہے بہت رنگِ گلستاں جاناں
جس طرف دیکھتے ہیں دیکھتے رہ جاتے ہیں
اب ہے نرگس بھی ہمیں دیکھ کے حیراں جاناں
تیرے دیوانے کو بہلانے کے ساماں ہیں بہم
کُنجِ تنہائی ہے اور یادوں کے طوفاں جاناں
یوں ہی بے حال رہے ہجر کی راتوں میں اگر
اب کے کس طرح سے گزرے گا زمستاں جاناں
دیکھ! بن جائیں گے ضامنؔ کی غزل کی پہچان
زخم تَو زخم ہیں وہ لاکھ ہَوں پنہاں جاناں
ضامن جعفری

لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ

رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ
لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ
اب کی فصلِ بہار سے پہلے
رنگ تھے گلستاں میں کیا کیا کچھ
کیا کہوں اب تمھیں خزاں والو!
جل گیا آشیاں میں کیا کیا کچھ
دل ترے بعد سو گیا ورنہ
شور تھا اس مکاں میں کیا کیا کچھ
ناصر کاظمی

قفس میں ہوتے ہیں آزاد گلستاں میں اسیر

مزاج اپنا غلامی سے یہ بنا ہے کہ ہم
قفس میں ہوتے ہیں آزاد گلستاں میں اسیر
ہدف ہے گرچہ نشانے پہ ایک مدت سے
میں کیا کروں کہ مرا تیر ہے کماں میں اسیر
نہ کر سکا جو فراہم قفس مجھے صیاد
تو کر دیا مجھے میرے ہی آشیاں میں اسیر
رہا تو کر انہیں پھر دیکھ معجزے باصِرؔ
جو قوتیں ہیں تری خاکِ ناتواں میں اسیر
باصر کاظمی

یہاں بھی دل جلے گا اور وہاں بھی

نہیں کچھ فرق اب رہیے جہاں بھی
یہاں بھی دل جلے گا اور وہاں بھی
بیاباں کی شکایت کیسی یارو
ہوا پرخار اب تو گُلستاں بھی
معلق ہو گئے باصرِؔ فضا میں
زمیں چھوٹی تو روٹھا آسماں بھی
باصر کاظمی

پر شہِ بے پیرہن کو میں نے عریاں کہہ دیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
خلق نے تو اس کو ایسے میں بھی ذی شاں کہہ دیا
پر شہِ بے پیرہن کو میں نے عریاں کہہ دیا
رزق نے جس کے مجھے پالا ہے جس کا رزق ہوں
کہہ دیا اس خاک کو میں نے رگِ جاں کہہ دیا
اِس تمنّا پر کہ ہاتھ آ جائے نخلستاں کوئی
خود غرض نے دیکھ صحرا کو گلستاں کہہ دیا
ہمزبانِ شاہ وہ بھی تھے جنہوں نے آز میں
رات تک کو، یار کی زلفِ پریشاں کہہ دیا
میں وہ خوش خُو جس نے دو ٹانگوں پہ چلتا دیکھ کر
شہر کے بن مانسوں تک کو بھی انساں کہہ دیا
کیا کہوں کیوں میں نے سادہ لوح چڑیوں کی طرح
وقفۂ شب کو بھی تھا صبحِ درخشاں کہہ دیا
اس کے ناطے، درگزر جو محض عُجلت میں ہوئی
گرگ کو بھی بھیڑ نے ماجدؔ پشیماں کہہ دیا
ماجد صدیقی

گھروندا بے نشاں ہونے لگا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 80
بس اتنا سا زیاں ہونے لگا ہے
گھروندا بے نشاں ہونے لگا ہے
غبارہ پھٹ کے رہ جانے کا قّصہ
ہماری داستاں ہونے لگا ہے
وُہ بھگدڑ کارواں میں ہے کہ جیسے
لُٹیرا پاسباں ہونے لگا ہے
رُکا تھا لفظ جو ہونٹوں پہ آ کر
وُہ اَب زخمِ زباں ہونے لگا ہے
نظر میں جو بھی منظر ہے سکوں کا
بکھرتا آشیاں ہونے لگا ہے
جو تھا منسوب کل تک گیدڑوں سے
اَب اندازِ شہاں ہونے لگا ہے
نظر میں تھا جو چنگاری سا ماجدؔ
وُہ گل اَب گلستاں ہونے لگا ہے
ماجد صدیقی

تن گیا آسماں کماں جیسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
ابروئے چشم دشمناں جیسا
تن گیا آسماں کماں جیسا
جبر کے موسموں سے زنگ آلود
جو بھی تھا برگ، تھا زباں جیسا
بھُولنے پر بھی دھیان جابر کا
پاس رہتا ہے پاسباں جیسا
جو بھی ہوتا ہے دن طلوع یہاں
سر پہ آتا ہے امتحاں جیسا
ہے نظر میں جو خواب سا ماجدؔ
ہے کوئی سروِ گلستاں جیسا
ماجد صدیقی

مدار جس کا ہماری کٹی زباں پر تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
معاملہ ہی رہائی کا اُس بیاں پر تھا
مدار جس کا ہماری کٹی زباں پر تھا
مثالِ ریگ ہوا نے اُسے بکھیرا ہے
جو لختِ ابر کبھی اپنے گلستاں پر تھا
یہ کربِ عجز تو ماتھا ہی جانتا ہے مرا
گُہر مراد کا کس کس کے آستاں پر تھا
ثمر تو تھے ہی مگر سنگ بھی تھے شاخوں پر
وُہ جن کا بوجھ مسلسل شجر کی جاں پر تھا
نشیبِ خاک سے کیا اُس کی پیروی کرتے
مقدّمہ ہی ہمارا جب آسماں پر تھا
لُٹے بھی گر تو زباں پر نہ ہم کبھی لائے
وہ اِتّہام کہ ہر دَور میں خزاں پر تھا
بھُلا سکے نہ وہ پل اُس کے قُرب کا ماجدؔ!
جب اپنا ہاتھ اندھیرے میں پرنیاں پر تھا
ماجد صدیقی

جان لیجے کہ وہ جہاں سے گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 149
اُٹھ کے جو اُس کے آستاں سے گیا
جان لیجے کہ وہ جہاں سے گیا
چھیڑتے کیوں ہو تذکرے اس کے
جو مرے وہم سے گماں سے گیا
یوں مری داستاں سے نکلا وہ
باب جیسے ہو درمیاں سے گیا
اب یہ آنکھیں اُسے نہ دیکھیں گی
حسن جو ابکے گلستاں سے گیا
آنے پایا نہ اختیار میں وہ
تیر اک بار جو کماں سے گیا
کیا وہ من موہنا خزانہ تھا
شخص جو ہند میں سواں سے گیا
بن کے بندہ غرض کا ماجدؔ بھی
دیکھ لو بزمِ دوستاں سے گیا
ماجد صدیقی

تو ہے عنوانِ دل، بیاں ہیں ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
گل ہیں خوشبُو ہیں کہکشاں ہیں ہم
تو ہے عنوانِ دل، بیاں ہیں ہم
کل بھی تھا ساتھ ولولوں کا ہجوم
آج بھی میرِ کارواں ہیں ہم
اِک تمنّا کا ساتھ بھی تو نہیں
کس بھروسے پہ یوں رواں ہیں ہم
دل میں سہمی ہے آرزوئے حیات
کن بگولوں کے درمیاں ہیں ہم
جانتی ہیں ہمیں ہری شاخیں
زرد پتّوں کے ترجمان ہیں ہم
دل کا احوال کیا کہیں ماجدؔ
گو بظاہر تو گلستاں ہیں ہم
ماجد صدیقی

آپ تو بالکل مرے مرنے کا ساماں کر چلے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 124
اپنی زلفیں کیوں سرِ بالیں پریشاں کر چلے
آپ تو بالکل مرے مرنے کا ساماں کر چلے
دیکھ اے صیاد چھینٹے خوں کے ہر تیلی پر ہیں
ہم ترے کنجِ قفس کو بھی گلستاں کر چلے
دل میں ہم شرما رہے ہیں شکوۂ محشر کے بعد
پیشِ حق کیوں آئے کیوں ان کو پشیماں کر چلے
اے چمن والو! جنوں کی عظمت دیکھ لی
اِن گلوں کو واقفِ چاکِ گریباں کر چلے
اپنے دیوانوں کو تم روکو بہاریں آ گئیں
اب کنارہ بابِ زنداں سے نگہباں کر چلے
اے قمر حالِ شبِ فرقت نہ ہم سے چھپ سکا
داغِ دِل سارے زمانے میں نمایاں کر چلے
قمر جلالوی

کافر لگے ہوئے ہیں مسلماں کے ساتھ ساتھ

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 84
گیسو ہیں ان کے عارضِ تاباں کے ساتھ ساتھ
کافر لگے ہوئے ہیں مسلماں کے ساتھ ساتھ
سامان خاک آیا تھا انساں کے ساتھ ساتھ
صرف ایک روح تھی تنِ عریاں کے ساتھ ساتھ
اے ناخدا وہ حکمِ خدا تھا جو بچ گئی
کشتی کو اب تو چھوڑ دے دے طوفاں کے ساتھ ساتھ
اے باغباں گلوں پہ ہی بجلی نہیں گری
ہم بھی لٹے ہیں تیرے گلستاں کے ساتھ ساتھ
جب لطف ہو جنوں تو کہیں زنداں سے لے اڑے
وہ ڈھونڈتے پھریں مجھے درباں کے ساتھ ساتھ
دو چار ٹانکے اور لگے ہاتھ بخیر گر
دامن بھی کچھ پھٹا ہے گریباں کے ساتھ ساتھ
تم میرا خوں چھپا تو رہے ہو خبر بھی ہے
دو دو فرشتے رہتے ہیں انساں کے ساتھ ساتھ
اہلِ قفس کا اور تو کچھ بس نہ چل سکا
آہیں بھریں نسیمِ گلستاں کے ساتھ ساتھ
دیوانے شاد ہیں کہ وہ آئے ہیں دیکھنے
تقدیر کھل گئے درِ زنداں کے ساتھ ساتھ
واعظ مٹے گا تجھ سے غمِ روزگار کیا
ساغر چلے گا گردشِ دوراں کے ساتھ ساتھ
اک شمع کیا کوئی شبِ فرقت نہیں قمر
تارے بھی چھپ گئے ہیں مہِ تاباں کے ساتھ ساتھ
قمر جلالوی

وسعتیں ایک ایک ذرے کی بیاباں ہو گئیں

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 63
منزلیں غربت میں مجھ کو آفتِ جاں ہو گئیں
وسعتیں ایک ایک ذرے کی بیاباں ہو گئیں
چارہ گر کیونکر نکالے دل میں پنہاں ہو گئیں
ٹوٹ کر نوکیں ترے تیروں کی ارماں ہو گئیں
کیا کروں جو آہیں رسوائی کا ساماں ہو گئیں
مشکلیں ایسی مجھے کیوں دیں جو آساں ہو گئیں
ہم نفس صیاد کی عادت کو میں سمجھتا نہ تھا
بھول کر نظریں مری سوئے گلستاں ہو گئیں
آشیاں اپنا اٹھاتے ہیں سلام اے باغباں
بجلیاں اب دشمنِ جانِ گلستاں ہو گئیں
میری حسرت کی نظر سے رازِ الفت کھل گیا
آرزوئیں اشک بن بن کر نمایا ہو گئیں
کیا نہیں معلوم کون آیا عیادت کے لئے
اسی بند آنکھیں تری بیمارِ ہجراں ہو گئیں
بلبلِ ناشاد ہی منحوس نالے بند کر
پھول غارت ہو گئے برباد کلیں ہو گئیں
وہ اٹھی عاشق کی میت لے مبارک ہو تجھے
اب تو پوری حسرتیں او دشمنِ جاں ہو گئیں
کائناتِ دل ہی کیا تھی چار بوندیں خون کی
دو غذائے غم ہوئیں دو نذرِ پیکاں ہو گئیں
آسماں پر ڈھونڈتا ہوں ان دعاؤں کو قمر
صبح کو جو ڈوبتے تاروں میں پنہاں ہو گئیں
قمر جلالوی

کہ جس طرح کسی کافر کو ہو اذاں سے گریز

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 47
خدا کی شان تجھے یوں مری فغاں سے گریز
کہ جس طرح کسی کافر کو ہو اذاں سے گریز
وہ چاہے سجدہ کیا ہو نہ دیر و کعبہ میں
مگر ہوا نہ کبھی تیرے آستاں سے گریز
دلِ شکستہ سے جا رہی ہے ان کی یاد
مکیں کو جیسے ہو ٹوٹے ہوئے مکاں سے گریز
جہاں بھی چاہیں وہاں شوق سے شریک ہوں آپ
مگر حضور ذرا بزمِ دشمناں سے گریز
کچھ اس میں سازشِ بادِ خلاف تھی ورنہ
مرے ریاض کے تنکے اور آشیاں سے گریز
خطا معاف وہ دیوانگی کا عالم تھا
جسے حور سمجھتے ہیں آستاں سے گریز
خطا بہار میں کچھ باغباں کی ہو تو کہوں
مرے نصیب میں لکھا تھا گلستاں سے گریز
جہاں وہ چاہیں قمر شوق سے ہمیں رکھیں
زمیں سے ہم کو گریز اور نہ آسماں سے گریز
قمر جلالوی

خس کم جہاں پاک غمِ آشیاں سے دور

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 43
فکریں تمام ہو گئیں برقِ تپاں سے دور
خس کم جہاں پاک غمِ آشیاں سے دور
مژگاں کہاں ہیں ابروئے چشمِ بتاں سے دور
یہ تیر وہ ہیں جو نہیں ہوتے کماں سے دور
یادِ شباب یوں ہے دلِ ناتواں سے دور
جیسے کوئی غریب مسافر مکاں سے دور
دیر و حرم میں شیخ و برہمن سے پوچھ لے
سجدے اگر کئے ہوں ترے آستاں سے دور
اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہوں کسے راہ میں غبار
کوئی شکستہ پا تو نہیں کارواں سے دور
جب گھر سے چل کھڑے ہوئے پھر پوچھنا ہی کیا
منزل کہاں ہے پاس پڑے گی کہاں سے دور
ہو جاؤ آج کل کے وعدے سے منحرف
یہ بھی نہیں حضور تمھاری زباں سے دور
خوشبو کا ساتھ چھٹ نہ سکا تا حیات گل
لے بھی گئی شمیم تو کیا گلستاں سے دور
شعلے نظر نہ آئے یہ کہنے کی بات ہے
اتنا تو آشیانہ تھا باغباں سے دور
دیر و حرم سے ان کا برابر ہے فاصلہ
جتنے یہاں سے دور ہیں اتنے وہاں سے دور
صیاد یہ جلے ہوئے تنکے کہاں ہیں
بجلی اگر گری ہے میرے آشیاں سے دور
مجھ پر ہی اے قمر نہیں پابندیِ فلک
تارے بھی جا سکے نہ حدِ آسماں سے دور
قمر جلالوی

میرے آنے تک تھا سارا گلستاں اچھی طرح

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 39
پھول سب اچھی طرح تھے باغباں اچھی طرح
میرے آنے تک تھا سارا گلستاں اچھی طرح
ان کے دھوکے میں نہ دے آنا کس ی دشمن کو خط
یاد کر نامہ بر نام و نشان اچھی طرح
کیا کہا یہ تو نے اے صیاد تنکا تک نہیں
چھوڑ کر آیا ہوں اپنا آشیاں اچھی طرح
پھر خدا جانے رہائی ہو قفس سے یا نہ ہو
دیکھ لوں صیاد اپنا آشیاں اچھی طرح
صبح کو آئی تھی گلشن میں دبے پاؤں نسیم
دیکھ لے نا غنچہ و گل باغباں اچھی طرح
دیکھیئے قسمت کہ ان کو شام سے نیند آ گئی
وہ نہ سننے پائیں میری داستاں اچھی طرح
دیکھ کر مجھ کو اتر آئے قمر وہ بام سے
دیکھنے پائیں نہ سیرِ آسمان اچھی طرح
قمر جلالوی

تھا کماں تک تیر دل میں آ کے ارماں ہو گیا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 34
کیا سے کیا یہ او دشمن جاں تیرا پیکاں ہو گیا
تھا کماں تک تیر دل میں آ کے ارماں ہو گیا
باغباں کیوں سست ہے غنچہ و گل کی دعا
اک مرے جانے سے کیا خالی گلستان ہو گیا
کیا خبر تھی یہ بلائیں سامنے آ جائیں گی
میری شامت مائلِ زلفِ پریشاں ہو گیا
کچھ گلوں کو ہیں نہیں میری اسیری کا الم
سوکھ کر کانٹا ہر اک خارِ گلستاں ہو گیا
ہیں یہ بت خانے میں بیٹھا کر رہا کیا قمر
ہم تو سنتے تھے تجھے ظالم مسلماں ہو گیا
قمر جلالوی

صبح بلبل کی روش ہمدمِ افغاں دیکھا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 25
رات واں گل کی طرح سے جسے خنداں دیکھا
صبح بلبل کی روش ہمدمِ افغاں دیکھا
کوئی بے جان جہاں میں نہیں جیتا لیکن
تیرے مہجور کو جیتے ہوئے بے جاں دیکھا
میں نے کیا جانئے کس ذوق سے دی جاں دمِ قتل
کہ بہت اس سے ستم گر کو پشیماں دیکھا
نہ ہوا یہ کہ کبھی اپنے گلے پر دیکھیں
یوں تو سو بار ترا خنجرِ براں دیکھا
اس طرف کو بھی نگہ تا سرِ مژگاں آئی
بارے کچھ کچھ اثرِ گریۂ پنہاں دیکھا
پانی پانی ہوئے مرقد پہ مرے آ کے وہ جب
شمع کو نعش پہ پروانے کی، گریاں دیکھا
غم غلط کرنے کو احباب ہمیں جانبِ باغ
لے گئے کل تو عجب رنگِ گلستاں دیکھا
وَرد میں خاصیتِ اخگرِ سوزاں پائی
نسترن میں اثرِ خارِ مغیلاں دیکھا
ایک نالے میں ستم ہائے فلک سے چھوٹے
جس کو دشوار سمجھتے تھے سو آساں دیکھا
کون کہتا ہے کہ ظلمت میں کم آتا ہے نظر
جو نہ دیکھا تھا سو ہم نے شبِ ہجراں دیکھا
شیفتہ زلفِ پری رو کا پڑا سایہ کہیں
میں نے جب آپ کو دیکھا تو پریشاں دیکھا
مصطفٰی خان شیفتہ

از زمیں تا بہ آسماں خوں ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 220
زیرِ محراب ابرواں خوں ہے
از زمیں تا بہ آسماں خوں ہے
ایک بسمل کا رقصِ رنگ تھا آج
سرِ مقتل جہاں تہاں خوں ہے
زخم کے خرمنوں کا مژدہ ہو
آب۔ کشت بلا کشاں خوں ہے
سادہ پوشانِ عیدِ شوق، نوید
آبِ حوض نمازیاں خوں ہے
باب ہے حسرتوں کی محنت گاہ
دل یارانہ خوں فشاں خوں ہے
زخم انگیز ہے خراشِ امید
ہے دیدار۔ گل رخاں خوں ہے
ہو گئے باریاب اہل غرض
روئے دہلیز و آسماں خوں ہے
دل خونیں ہے میزباں
عمدہ خوانِ میزبان خوں ہے
فصل آئی ہے رنگِ مستوں کی
تابہ دیوارِ گلستاں خوں ہے
ہر تماشائی مدعی ٹھہرا
پر تو زخمِ خوں چکا خوں ہے
میں ہوں بے داغ دامناں محتاط
نفسِ خوں گرفتگاں خوں ہے
غنچہ ہا زخم، زخم ہا الماس
شبنم باغ امتحاں خوں ہے
اس طرف کوہکن ادھر شیریں
اور دونوں کے درمیاں خوں ہے
بے دلوں کو نہ چھیڑیو کہ یہ قوم
امتِ شوق رائیگاں خوں ہے
جون ایلیا

جوشِ قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 211
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے
کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کئے ہوئے
پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کئے ہوئے
پھر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفَس
مدت ہوئی ہے سیرِ چراغاں کئے ہوئے
پھر پرسشِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق
سامانِ صد ہزار نمک داں کئے ہوئے
پھر بھر رہا ہوں@ خامۂ مژگاں بہ خونِ دل
سازِ چمن طرازئ داماں کئے ہوئے
باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب
نظارہ و خیال کا ساماں کئے ہوئے
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کئے ہوئے
دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کئے ہوئے
پھر چاہتا ہوں نامۂ دلدار کھولنا
جاں نذرِ دلفریبئِ عنواں کئے ہوئے
مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس
زلفِ سیاہ رخ پہ پریشاں کئے ہوئے
چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کئے ہوئے
اک نوبہارِ ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کئے ہوئے
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بارِ منتِ درباں کئے ہوئے
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، کہ@ رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کئے ہوئے
غالب ہمیں نہ چھیڑ، کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیّۂ طوفاں کئے ہوئے
@نسخۂ مہر میں ” ہے” @ نسخۂ مہر میں ” کہ”
مرزا اسد اللہ خان غالب

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 71
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
وائے دیوانگئ شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں@ ہونا
جلوہ از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہے
جوہرِ آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا
عشرتِ قتل گہِ اہل تمنا، مت پوچھ
عیدِ نظّارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
لے گئے خاک میں ہم داغِ تمنائے نشاط
تو ہو اور آپ بہ صد رنگِ گلستاں ہونا
عشرتِ پارۂ دل، زخمِ تمنا کھانا
لذت ریشِ جگر، غرقِ نمکداں ہونا
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب!
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
@ نسخۂ طاہر میں ” پریشاں”
مرزا اسد اللہ خان غالب

سب جیسے اڑ گئی ہے رنگینی گلستاں کی

دیوان ششم غزل 1916
گلبرگ سی زباں سے بلبل نے کیا فغاں کی
سب جیسے اڑ گئی ہے رنگینی گلستاں کی
مطلوب گم کیا ہے تب اور بھی پھرے ہے
بے وجہ کچھ نہیں ہے گردش یہ آسماں کی
مائل ستم کے ہونا جور و جفا بھی کرنا
انصاف سے یہ کہنا یہ رسم ہے کہاں کی
ہے سبزئہ لب جو اس لطف سے چمن میں
جوں بھیگتی مسیں ہوں کوئی سرو نوجواں کی
میں گھر جہاں میں اپنے لڑکوں کے سے بنائے
جب چاہا تب مٹایا بنیاد کیا جہاں کی
صوم و صلوٰۃ یکسو میخانے میں جو تھے ہم
آواز بھی نہ آئی کانوں میں یاں اذاں کی
جب سامنے گئے ہم ہم نے اسے دعا دی
شکل ان نے دیکھتے ہی غصہ کیا زباں کی
دیکھیں تو میر کیونکر ہجراں میں ہم جیے ہیں
ہے اضطراب دل کا بے طاقتی ہے جاں کی
میر تقی میر

اب کیسے لوگ آئے زمیں آسماں کے بیچ

دیوان چہارم غزل 1370
آگے تو رسم دوستی کی تھی جہاں کے بیچ
اب کیسے لوگ آئے زمیں آسماں کے بیچ
میں بے دماغ عشق اٹھا سو چلا گیا
بلبل پکارتی ہی رہی گلستاں کے بیچ
تحریک چلنے کی ہے جو دیکھو نگاہ کر
ہیئت کو اپنی موجوں میں آب رواں کے بیچ
کیا میل ہو ہما کی پس از مرگ میری اور
ہے جاے گیر عشق کی تب استخواں کے بیچ
کیا جانوں لوگ کہتے ہیں کس کو سرور قلب
آیا نہیں یہ لفظ تو ہندی زباں کے بیچ
طالع سے بن گئی کہ ہم اس مہ کنے گئے
بگڑی تھی رات اس کے سگ و پاسباں کے بیچ
اتنی جبین رگڑی کہ سنگ آئینہ ہوا
آنے لگا ہے منھ نظر اس آستاں کے بیچ
خوگر ہوئے ہیں عشق کی گرمی سے خار و خس
بجلی پڑی رہی ہے مرے آشیاں کے بیچ
اس روے برفروختہ سے جی ڈرے ہے میر
یہ آگ جا لگے گی کسو دودماں کے بیچ
میر تقی میر

برسنا مینھ کا داخل ہے اس بن تیر باراں میں

دیوان سوم غزل 1193
چمکنا برق کا کرتا ہے کار تیغ ہجراں میں
برسنا مینھ کا داخل ہے اس بن تیر باراں میں
بھرے رہتے ہیں سارے پھول ہی جس کے گریباں میں
وہ کیا جانے کہ ٹکڑے ہیں جگر کے میرے داماں میں
کہیں شام و سحر رویا تھا مجنوں عشق لیلیٰ میں
ہنوز آشوب دونوں وقت رہتا ہے بیاباں میں
خیال یار میں آگے ہے یک مہ پارہ یاں ہر دم
اگر ہجراں میں زندانی ہوں پر ہوں یوسفستاں میں
رکھا عرصہ جنوں پر تنگ مشتاقوں کی دوری سے
کسے مارا ہے اس گھتیے نے سنمکھ ہوکے میداں میں
جہاں سے دیکھیے اک شعر شور انگیز نکلے ہے
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں
جو دیکھو تو نہیں یہ حال اپنا حسن سے خالی
دمک الماس کی سی ہے ہماری چشم حیراں میں
خرابی آگئی دینوں میں ملت گئی اسے دیکھے
ملے سے اس کے رخنے پڑ گئے لوگوں کے ایماں میں
نکل آتا ہے گھر سے ہر گھڑی ننگے بدن باہر
برا یہ آپڑا ہے عیب اس آسائش جاں میں
ستم کے تیر اس کے میرے سینے میں بہت ٹوٹے
کیا جاتا ہے مشکل فرق اب دل اور پیکاں میں
ہواے ابر میں کیا میر ہنستا باغ میں وہ تھا
گری پڑتی ہے بجلی آج کچھ صحن گلستاں میں
میر تقی میر

ساتھ اس کارواں کے ہم بھی ہیں

دیوان سوم غزل 1185
رفتگاں میں جہاں کے ہم بھی ہیں
ساتھ اس کارواں کے ہم بھی ہیں
شمع ہی سر نہ دے گئی برباد
کشتہ اپنی زباں کے ہم بھی ہیں
ہم کو مجنوں کو عشق میں مت بوجھ
ننگ اس خانداں کے ہم بھی ہیں
جس چمن زار کا ہے تو گل تر
بلبل اس گلستاں کے ہم بھی ہیں
نہیں مجنوں سے دل قوی لیکن
یار اس ناتواں کے ہم بھی ہیں
بوسہ مت دے کسو کے در پہ نسیم
خاک اس آستاں کے ہم بھی ہیں
گو شب اس در سے دور پہروں پھریں
پاس تو پاسباں کے ہم بھی ہیں
وجہ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
مر گئے مر گئے نہیں تو نہیں
خاک سے منھ کو ڈھانکے ہم بھی ہیں
اپنا شیوہ نہیں کجی یوں تو
یار جی ٹیڑھے بانکے ہم بھی ہیں
اس سرے کی ہے پارسائی میر
معتقد اس جواں کے ہم بھی ہیں
میر تقی میر

سو ہی بات آئی اٹھے اس پاس سے جاں سے گئے

دیوان دوم غزل 1013
ہم نہ کہتے تھے رہے گا ہم میں کیا یاں سے گئے
سو ہی بات آئی اٹھے اس پاس سے جاں سے گئے
کیا بخود رہنا ہمارا کچھ رکھے ہے اعتبار
آپ میں آئے کبھو اب ہم تو مہماں سے گئے
جب تلک رہنا بنا دل تنگ غنچے سے رہے
دیکھیے کیا گل کھلے گا اب گلستاں سے گئے
کیا غزالوں ہی کو ہم بن وحشت بسیار ہے
کوہ بھی نالاں رہے جب ہم بیاباں سے گئے
لائی آفت خانقاہ و مسجد اوپر وہ نگاہ
صوفیاں دیں سے گئے سب شیخ ایماں سے گئے
دور کر خط کو کیا چہرہ کتابی ان نے صاف
اب قیامت ہے کہ سارے حرف قرآں سے گئے
جی تو اس کی زلف میں دل کا کل پیچاں میں میر
جا بھی نکلے اس کنے تو ہم پریشاں سے گئے
میر تقی میر

وہی اک جنس ہے اس کارواں میں

دیوان دوم غزل 866
نہ نکلا دوسرا ویسا جہاں میں
وہی اک جنس ہے اس کارواں میں
کیا منھ بند سب کا بات کہتے
بلا کچھ سحر ہے اس کی زباں میں
اگر وہ بت نہ جانے تو نہ جانے
ہمیں سب جانے ہیں ہندوستاں میں
نیا آناً فآناً اس کو دیکھا
جدا تھی شان اس کی ہر زماں میں
کھنچی رہتی ہے اس ابروے خم سے
کوئی کیا شاخ نکلی ہے کماں میں
جبیں پر چین رہتی ہے ہمیشہ
بلا کینہ ہے اپنے مہرباں میں
نیا ہے کیا شگوفہ یہ کہ اکثر
رہا ہے پھول پڑتا گلستاں میں
کوئی بجلی کا ٹکڑا اب تلک بھی
پڑا ہو گا ہمارے آشیاں میں
پھرے ہے چھانتا ہی خاک اے میر
ہوس کیا ہے مزاج آسماں میں
میر تقی میر

جی رندھ گیا ہے ظالم اب رحم کر کہاں تک

دیوان دوم غزل 844
سو خونچکاں گلے ہیں لب سے مری زباں تک
جی رندھ گیا ہے ظالم اب رحم کر کہاں تک
ملنے میں میرے گاہے ٹک تن دیا نہ ان نے
حاضر رہا ہوں میں تو اپنی طرف سے جاں تک
ہر چند میں نے سر پر اس رہ کی خاک ڈالی
لیکن نہ پہنچیں آنکھیں اس پائوں کے نشاں تک
ان ہڈیوں کا جلنا کوئی ہما سے پوچھو
لاتا نہیں ہے منھ وہ اب میرے استخواں تک
اس کی گلی کے سگ سے کی ہے موافقت میں
اس راہ سے بھی پہنچیں شاید کہ پاسباں تک
ابربہار نے شب دل کو بہت جلایا
تھا برق کا چمکنا خاشاک آشیاں تک
اس مہ کے گوش تک تو ہرگز نہیں پہنچتی
گو آہ بے سرایت جاتی ہے آسماں تک
قید قفس میں مرنا کب شوق کا ہے مانع
پہنچیں گے مشت پر بھی اڑ کر یہ گلستاں تک
ہونا جہاں کا اپنی آنکھوں میں ہے نہ ہونا
آتا نظر نہیں کچھ جاوے نظر جہاں تک
جاتی ہیں خط کے پیچھے جوں مہر آنکھیں میری
اب کارشوق میرا پہنچا ہے میر یاں تک
میر تقی میر

آتی نہیں ہے تو بھی شکایت زباں تلک

دیوان دوم غزل 840
حالانکہ کام پہنچ گیا کب کا جاں تلک
آتی نہیں ہے تو بھی شکایت زباں تلک
اس رشک مہ کے دل میں نہ مطلق کیا اثر
ہرچند پہنچی میری دعا آسماں تلک
جو آرزو کی اس سے سو دل میں ہی خوں ہوئی
نومید یوں بسر کرے کوئی کہاں تلک
کھینچا کیے وہ دور بہت آپ کو سدا
ہمسائے ہم موا کیے آئے نہ یاں تلک
بلبل قفس میں اس لب و لہجہ پہ یہ فغاں
آواز ایک ہو رہی ہے گلستاں تلک
پچھتائے اٹھ کے گھر سے کہ جوں نو دمیدہ پر
جانا بنا نہ آپ کو پھر آشیاں تلک
ہم صحبتی یار کو ہے اعتبار شرط
اپنی پہنچ تو میر نہیں پاسباں تلک
میر تقی میر

کہہ اے نسیم صبح گلستاں کی کیا خبر

دیوان دوم غزل 816
مجھ کو قفس میں سنبل و ریحاں کی کیا خبر
کہہ اے نسیم صبح گلستاں کی کیا خبر
رہتا ہے ایک نشہ انھیں جن کو ہے شناخت
ہے زاہدوں کو مستی و عرفاں کی کیا خبر
ٹک پوچھتے جو آن نکلتا کوئی ادھر
اب بعد مرگ قیس بیاباں کی کیا خبر
برباد جائے یاں کوئی دولت تو کیا عجب
آئی ہے تم کو ملک سلیماں کی کیا خبر
آیا ہے ایک شہر غریباں سے تازہ تو
میر اس جوان حال پریشاں کی کیا خبر
میر تقی میر

سو کاروان مصر سے کنعاں تلک گئے

دیوان اول غزل 559
یعقوبؑ کے نہ کلبۂ احزاں تلک گئے
سو کاروان مصر سے کنعاں تلک گئے
بارے نسیم ضعف سے کل ہم اسیر بھی
سناہٹے میں جی کے گلستاں تلک گئے
رہنے نہ دیں گے دشت میں مجنوں کو چین سے
گر ہم جنوں کے مارے بیاباں تلک گئے
کو موسم شباب کہاں گل کسے دماغ
بلبل وہ چہچہے انھیں یاراں تلک گئے
کچھ آبلے دیے تھے رہ آورد عشق نے
سو رفتہ رفتہ خار مغیلاں تلک گئے
پھاڑا تھا جیب پی کے مئے شوق میں نے میر
مستانہ چاک لوٹتے داماں تلک گئے
میر تقی میر

اب کار شوق اپنا پہنچا ہے یاں تلک تو

دیوان اول غزل 409
اجرت میں نامہ کی ہم دیتے ہیں جاں تلک تو
اب کار شوق اپنا پہنچا ہے یاں تلک تو
آغشتہ میرے خوں سے اے کاش جاکے پہنچے
کوئی پر شکستہ ٹک گلستاں تلک تو
واماندگی نے مارا اثناے رہ میں ہم کو
معلوم ہے پہنچنا اب کارواں تلک تو
افسانہ غم کا لب تک آیا ہے مدتوں میں
سو جائیو نہ پیارے اس داستاں تلک تو
آوارہ خاک میری ہو کس قدر الٰہی
پہنچوں غبار ہوکر میں آسماں تلک تو
آنکھوں میں اشک حسرت اور لب پہ شیون آیا
اے حرف شوق تو بھی آیا زباں تلک تو
اے کاش خاک ہی ہم رہتے کہ میر اس میں
ہوتی ہمیں رسائی اس آستاں تلک تو
میر تقی میر

کہ بھر جھولی نہ یاں سے لے گئی گل ہاے حرماں کو

دیوان اول غزل 378
نسیم مصر کب آئی سواد شہر کنعاں کو
کہ بھر جھولی نہ یاں سے لے گئی گل ہاے حرماں کو
زبان نوحہ گر ہوں میں قضا نے کیا ملایا تھا
مری طینت میں یارب سودئہ دل ہاے نالاں کو
کوئی کانٹا سررہ کا ہماری خاک پر بس ہے
گل گلزار کیا درکار ہے گور غریباں کو
یہ کیا جانوں ہوا سینے میں کیا اس دل کو اب ناصح
سحر خوں بستہ تو دیکھا تھا میں نے اپنی مژگاں کو
گل و سنبل ہیں نیرنگ قضا مت سرسری گذرے
کہ بگڑے زلف و رخ کیا کیا بناتے اس گلستاں کو
صداے آہ جیسے تیرجی کے پار ہوتی ہے
کسو بیدرد نے کھینچا کسو کے دل سے پیکاں کو
کریں بال ملک فرش رہ اس ساعت کہ محشر میں
لہو ڈوبا کفن لاویں شہید ناز خوباں کو
کیا سیر اس خرابے کا بہت اب چل کے سو رہیے
کسو دیوار کے سائے میں منھ پر لے کے داماں کو
بہاے سہل پر دیتے ہیں کس محبوب کو کف سے
قلم اس جرم پر کرنا ہے دست گل فروشاں کو
تری ہی جستجو میں گم ہوا ہے کہہ کہاں کھویا
جگر خوں گشتہ دل آزردہ میر اس خانہ ویراں کو
میر تقی میر

دیتا ہے آگ رنگ ترا گلستاں کے تیں

دیوان اول غزل 358
تکلیف باغ کن نے کی تجھ خوش دہاں کے تیں
دیتا ہے آگ رنگ ترا گلستاں کے تیں
تنکا بھی اب رہا نہیں شرمندگی ہے جو
گر پڑ کے برق پاوے مرے آشیاں کے تیں
آئے عدم سے ہستی میں تس پر نہیں قرار
ہے ان مسافروں کا ارادہ کہاں کے تیں
سناہٹے سے باغ سے کچھ اٹھتے ہیں نسیم
مرغ چمن نے خوب متھا ہے فغاں کے تیں
بے رحم ٹک تو پائوں تو چھاتی پہ رکھے رہ
مارا بھی ہے کبھی تیں کسی خستہ جاں کے تیں
اک گردش اے فلک کہ ہو اثناے راہ سے
کنعاں کی اور راہ غلط کارواں کے تیں
تو اک زباں پہ چپکی نہیں رہتی عندلیب
رکھتا ہے منھ میں غنچۂ گل سو زباں کے تیں
دیکھے کہاں ہیں زلف تری مردمان شہر
سودا ہوا ہے کہنے لگے اس جواں کے تیں
ہم تو ہوئے تھے میر سے اس دن ہی ناامید
جس دن سنا کہ ان نے دیا دل بتاں کے تیں
میر تقی میر

القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا

دیوان اول غزل 25
شکوہ کروں میں کب تک اس اپنے مہرباں کا
القصہ رفتہ رفتہ دشمن ہوا ہے جاں کا
گریے پہ رنگ آیا قید قفس سے شاید
خوں ہو گیا جگر میں اب داغ گلستاں کا
لے جھاڑو ٹوکرا ہی آتا ہے صبح ہوتے
جاروب کش مگر ہے خورشید اس کے ہاں کا
دی آگ رنگ گل نے واں اے صبا چمن کو
یاں ہم جلے قفس میں سن حال آشیاں کا
ہر صبح میرے سر پر اک حادثہ نیا ہے
پیوند ہو زمیں کا شیوہ اس آسماں کا
ان صید افگنوں کا کیا ہو شکار کوئی
ہوتا نہیں ہے آخر کام ان کے امتحاں کا
تب تو مجھے کیا تھا تیروں سے صید اپنا
اب کرتے ہیں نشانہ ہر میرے استخواں کا
فتراک جس کا اکثر لوہو میں تر رہے ہے
وہ قصد کب کرے ہے اس صید ناتواں کا
کم فرصتی جہاں کے مجمع کی کچھ نہ پوچھو
احوال کیا کہوں میں اس مجلس رواں کا
سجدہ کریں ہیں سن کر اوباش سارے اس کو
سید پسر وہ پیارا ہے گا امام بانکا
ناحق شناسی ہے یہ زاہد نہ کر برابر
طاعت سے سو برس کی سجدہ اس آستاں کا
ہیں دشت اب یہ جیتے بستے تھے شہر سارے
ویرانۂ کہن ہے معمورہ اس جہاں کا
جس دن کہ اس کے منھ سے برقع اٹھے گا سنیو
اس روز سے جہاں میں خورشید پھر نہ جھانکا
ناحق یہ ظلم کرنا انصاف کہہ پیارے
ہے کون سی جگہ کا کس شہر کا کہاں کا
سودائی ہو تو رکھے بازار عشق میں پا
سر مفت بیچتے ہیں یہ کچھ چلن ہے واں کا
سو گالی ایک چشمک اتنا سلوک تو ہے
اوباش خانہ جنگ اس خوش چشم بدزباں کا
یا روئے یا رلایا اپنی تو یوں ہی گذری
کیا ذکر ہم صفیراں یاران شادماں کا
قید قفس میں ہیں تو خدمت ہے نالگی کی
گلشن میں تھے تو ہم کو منصب تھا روضہ خواں کا
پوچھو تو میر سے کیا کوئی نظر پڑا ہے
چہرہ اتر رہا ہے کچھ آج اس جواں کا
میر تقی میر

شوخیِ رنگِ گلستاں ہے وہی

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 11
شاخ پر خونِ گل رواں ہے وہی
شوخیِ رنگِ گلستاں ہے وہی
سروہی ہے تو آستاں ہے وہی
جاں وہی ہے تو جانِ جاں‌ہے وہی
اب جہاں مہرباں نہیں کوئی
کوچہء یارِ مہرباں ہے وہی
برق سو بار گر کے خاک ہوئی
رونقِ خاکِ آشیاں ہے وہی
آج کی شب وصال کی شب ہے
دل سے ہر روز داستاں ہے وہی
چاند تارے ادھر نہیں آتے
ورنہ زنداں میں‌ آسماں ہے وہی
منٹگمری جیل
فیض احمد فیض

کوئی دلچسپی، کوئی ربطِ دل و جاں جاناں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 266
صحبتِ قوسِ قزح کا کوئی امکاں جاناں
کوئی دلچسپی، کوئی ربطِ دل و جاں جاناں
میرے اندازِ ملاقات پہ ناراض نہ ہو
مجھ پہ گزرا ہے ابھی موسمِ ہجراں جاناں
جو مرے نام کو دنیا میں لیے پھرتے ہیں
تیری بخشش ہیں یہ اوراقِ پریشاں جاناں
آ مرے درد کے پہلو میں دھڑک کہ مجھ میں
بجھتی جاتی ہے تری یادِ فروزاں جاناں
تیری کھڑکی کہ کئی دن سے مقفل مجھ پر
جیسے کھلتا نہیں دروازئہ زنداں جاناں
تیری گلیاں ہیں ترا شہر ہے تیرا کوچہ
میں ، مرے ساتھ ترا وعدہ و پیماں جاناں
پھر کوئی نظم لٹکتی ہے ترے کعبہ پر
پھر مرے صبر کی بے چارگی عنواں جاناں
ہجر کا ایک تعلق ہے اسے رہنے دے
میرے پہلو میں تری یاد ہراساں جاناں
ہم فرشتوں کی طرح گھر میں نہیں رہ سکتے
ہاں ضروری ہے بہت رشتہء انساں جاناں
زخم آیا تھا کسی اور کی جانب سے مگر
میں نے جو غور کیا تیرا تھا احساں جاناں
اس تعلق میں کئی موڑ بڑے نازک ہیں
اور ہم دونوں ابھی تھوڑے سے ناداں جاناں
دشت میں بھی مجھے خوشبو سے معطر رکھے
دائم آباد رہے تیرا گلستاں جاناں
ویسا الماری میں لٹکا ہے عروسی ملبوس
بس اسی طرح پڑا ہے ترا ساماں جاناں
مجھ کو غالب نے کہا رات فلک سے آ کر
تم بھی تصویر کے پردے میں ہو عریاں جاناں
وہ جو رُوٹھی ہوئی رت کو بھی منا لیتے ہیں
بس وہی شعرِ فراز اپنا دبستاں جاناں
روشنی دل کی پہنچ پائی نہ گھر تک تیرے
میں نے پلکوں پہ کیا کتنا چراغاں جاناں
کیا کہوں ہجر کہاں وصل کہاں ہے مجھ میں
ایک جیسے ہیں یہاں شہر و بیاباں جاناں
چھت پہ چڑھ کے میں تمہیں دیکھ لیا کرتا تھا
تم نظر آتی تھی بچپن سے نمایاں جاناں
اک ذرا ٹھہر کہ منظر کو گرفتار کروں
کیمرہ لائے ابھی دیدئہ حیراں جاناں
مانگ کر لائے ہیں آنسو مری چشمِ نم سے
یہ جو بادل ہیں ترے شہر کے مہماں جاناں
لڑکیاں فین ہیں میری انہیں دشنام نہ دے
تتلیاں پھول سے کیسے ہوں گریزاں جاناں
آگ سے لختِ جگر اترے ہیں تازہ تازہ
خانہء دل میں ہے پھر دعوتِ مژگاں جاناں
زخم در زخم لگیں دل کی نمائش گاہیں
اور ہر ہاتھ میں ہے ایک نمکداں جاناں
تھم نہیں سکتے بجز تیرے کرم کے، مجھ میں
کروٹیں لیتے ہوئے درد کے طوفاں جاناں
بلب جلتے رہیں نیلاہٹیں پھیلاتے ہوئے
میرے کمرے میں رہے تیرا شبستاں جاناں
رات ہوتے ہی اترتا ہے نظر پر میری
تیری کھڑکی سے کوئی مہرِ درخشاں جاناں
تُو کہیں بستر کمخواب پہ لیٹی ہو گی
پھر رہا ہوں میں کہیں چاک گریباں جاناں
نذرِ احمد فراز
منصور آفاق

پھر اسی باغ سے یہ میرا دبستاں نکلا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 42
پیڑ پر شام کھلی، شاخ سے ہجراں نکلا
پھر اسی باغ سے یہ میرا دبستاں نکلا
رات نکلی ہیں پرانی کئی چیزیں اس کی
اور کچھ خواب کے کمرے سے بھی ساماں نکلا
نقش پا دشت میں ہیں میرے علاوہ کس کے
کیا کوئی شہر سے پھر چاک گریباں نکلا
خال و خد اتنے مکمل تھے کسی چہرے کے
رنگ بھی پیکرِ تصویر سے حیراں نکلا
لے گیا چھین کے ہر شخص کا ملبوس مگر
والیء شہر پناہ ، بام پہ عریاں نکلا
صبح ہوتے ہی نکل آئے گھروں سے پھر لوگ
جانے کس کھوج میں پھر شہرِ پریشاں نکلا
وہ جسے رکھا ہے سینے میں چھپا کر میں نے
اک وہی آدمی بس مجھ سے گریزاں نکلا
زخمِ دل بھرنے کی صورت نہیں کوئی لیکن
چاکِ دامن کے رفو کا ذرا امکاں نکلا
تیرے آنے سے کوئی شہر بسا ہے دل میں
یہ خرابہ تو مری جان ! گلستاں نکلا
زخم کیا داد وہاں تنگیء دل کی دیتا
تیر خود دامنِ ترکش سے پُر افشاں نکلا
رتجگے اوڑھ کے گلیوں کو پہن کے منصور
جو شبِ تار سے نکلا وہ فروزاں نکلا
منصور آفاق

یہ جنس ہے گراں مگر ارزاں خریدئیے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 260
جاں دے کے اک تبسم جاناں خریدئیے
یہ جنس ہے گراں مگر ارزاں خریدئیے
نظروں کے سامنے ہیں شب غم کے مرحلے
کچھ خون ہے تو صبح درخشاں خریدئیے
یوں بھی نہ کھل سکا نہ کوئی زندگی کا راز
دل دے کے کیوں نہ دیدہ حیراں خریدئیے
مرنا ہے تو نظر رکھیں اپنے مآل پر
جینا ہے تو حیات کا ساماں خریدئیے
جو کہہ سکیں تو کیجئے یہ کاروبار زیست
جو کہہ رہا ہے یہ دل ناداں خریدئیے
جو روح کو حیات دے، دل کو سکون دے
یہ بھیڑ دے کے ایک وہ انساں خریدئیے
زخموں کی تاب ہے نہ تبسم کا حوصلہ
ہم کیا کریں گے آپ گلستاں خریدئیے
کرنا پڑے ہے جس کے لئے غیر کا طواف
وہ غم نہ لیجئے نہ وہ ارماں خریدئیے
باقیؔ اسی میں حضرت انساں کی خیر ہے
سارا جہان دے کے اک ایماں خریدئیے
باقی صدیقی

جانے یہ سلسلہ کہاں تک ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 252
آپ تک ہے نہ غم جہاں تک
جانے یہ سلسلہ کہاں تک ہے
اشک شبنم ہوں یا تبسم گل
ابھی ہر راز گلستاں تک ہے
ان کی پرواز کا ہے شور بہت
گرچہ اپنے ہی آشیاں تک ہے
پھول ہیں اس کے باغ ہے اس کا
دسترس جس کی باغباں تک ہے
پوچھتے ہیں وہ حال دل باقیؔ
یہ بھی گویا مرے بیاں تک ہے
باقی صدیقی

کچھ نہ کچھ نذر جہاں کرنا پڑے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 226
دل کا یا جی کا زیاں کرنا پڑے
کچھ نہ کچھ نذر جہاں کرنا پڑے
دل کو ہے پھر چند کانٹوں کی تلاش
پھر نہ سیر گلستاں کرنا پڑے
حال دل ان کو بتانے کے لئے
ایک عالم سے بیاں کرنا پڑے
پاس دنیا میں ہے اپنی بھی شکست
اور تجھے بھی بدگماں کرنا پڑے
ہوشیار اے جذب دل اب کیا خبر
تذکرہ کس کا کہاں کرنا پڑے
اب تو ہر اک مہرباں کی بات پر
ذکر دور آسماں کرنا پڑے
زیست کی مجبوریاں باقیؔ نہ پوچھ
ہر نفس کو داستاں کرنا پڑے
باقی صدیقی

کچھ مہرباں جدا ہوئے کچھ مہرباں ملے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 214
غم اور خوشی کے راستے آ کر جہاں ملے
کچھ مہرباں جدا ہوئے کچھ مہرباں ملے
جن کے طفیل بزم تمنا میں رنگ تھا
وہ لوگ تجھ کو گردش دوراں کہاں ملے
راہوں پہ آج ان کا تصور بھی ہے گراں
منزل کے پاس کل جو ہمیں کارواں ملے
اہل نظر سے دل کی مہم سر نہ ہو سکی
کچھ سرنگوں ملے ہیں تو کچھ سرگراں ملے
روداد شوق تشنۂ اظہار ہی رہی
ملنے کو ہم خیال ملے، ہم زباں ملے
خوں رو رہے تھے کل جو بہاروں کی یاد میں
وہ آج بے نیاز غم گلستاں ملے
باقیؔ نہ تھی اگرچہ فریب وفاکی تاب
پھر بھی رُکے نقوش محبت جہاں ملے
باقی صدیقی

آگے دل کی خوشی جہاں ٹھہرے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 201
ہم تو دنیا سے بدگماں ٹھہرے
آگے دل کی خوشی جہاں ٹھہرے
ہائے وہ قافلے جو لٹ کر بھی
زیر دیوار گلستاں ٹھہرے
آپ کو کارواں سے کیا مطلب
آپ تو میر کارواں ٹھہرے
زندگی چاہتی ہے ہنگامہ
اور ہم لوگ بے زباں ٹھہرے
کبھی تیری تلاش میں نکلے
کبھی بن کر ترا نشاں ٹھہرے
گردش دہر ساتھ ساتھ رہی
ہم جدھر بھی گئے، جہاں ٹھہرے
ہر قدم پر تھا اک صنم خانہ
کیا بتائیں کہاں کہاں ٹھہرے
ہر نظر سنگ راہ تھی باقیؔ
کیا بتائیں کہاں کہاں ٹھہرے
کچھ تو کج رو جہاں بھی ہے باقیؔ
اور کچھ ہم بھی قصّہ خواں ٹھہرے
باقی صدیقی

تم نہ ہوتے تو ہم کہاں ہوتے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 198
بے نشاں رہتے بے نشاں ہوتے
تم نہ ہوتے تو ہم کہاں ہوتے
مہر و مہ کو نہ یہ ضیا ملتی
آسماں بھی نہ آسماں ہوتے
تم نے تفسیر دو جہاں کی ہے
ورنہ یہ راز کب عیاں ہوتے
تم دکھاتے اگر نہ راہ حیات
جانے کس سمت ہم رواں ہوتے
ہمیں اپنی جبیں نہ مل سکتی
اتنے غیروں کے آستاں ہوتے
ایک انسان بھی نہ مل سکتا
گرچہ آباد سب مکاں ہوتے
کھل نہ سکتی کلی مسرت کی
غم ہی غم زیب داستاں ہوتے
مقصد زندگی نہ پا سکتے
اپنی ہستی سے بدگماں ہوتے
ہمیں کوئی نہ آسرا ملتا
بے اماں ہوتے ہم جہاں ہوتے
تو نے بخشی ہے روشنی ورنہ
دیدہ و دل دھواں دھواں ہوتے
باقی صدیقی

کون سے مہرباں کی بات کریں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 111
آپ کی یا جہاں کی بات کریں
کون سے مہرباں کی بات کریں
حسن خوش ہے نہ عشق آسودہ
کیا ترے آستاں کی بات کریں
ہو چکیں اس جہان کی باتیں
اب کوئی اس جہاں کی بات کریں
زندگی نام ہے بہاروں کا
گل نہیں گلستاں کی بات کریں
سب کو ساحل کا پاس ہے باقیؔ
کس سے موج رواں کی بات کریں
باقی صدیقی

سود دیکھا ہے اب زیاں دیکھو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 93
دل کے مٹنے لگے نشاں دیکھو
سود دیکھا ہے اب زیاں دیکھو
ہر کلی سے لہو ٹپکنے لگا
شوق تعمیر گلستاں دیکھو
بار صیاد ہے کہ بار ثمر
جھک گئی شاخ آشیاں دیکھو
دل کا انجام ایک قطرہ خوں
حاصل بحر بیکراں دیکھو
سائے کرنوں کے ساتھ چلتے ہیں
صبح میں شام کا سماں دیکھو
داغ آئینہ بن گئے فرسنگ
سفر شوق کے نشاں دیکھو
پڑ گئی سرد آتش احساس
جم گیا خون عاشقاں دیکھو
لو دلوں کی حدیں سمٹنے لگیں
تنگ ہے کس قدر جہاں دیکھو
تم بھی کہنے لگے خدا لگتی
لڑکھڑانے لگی زباں دیکھو
دل کا ہر زخم ہے زباں اپنی
اس پہ یہ حسرت بیاں دیکھو
آگ سے کھیلتے ہو کیوں باقیؔ
اپنا دل دیکھو اپنی جاں دیکھو
باقی صدیقی