ٹیگ کے محفوظات: گفتار

ہمیں تو اپنے ہی افکار نے ہلاک کیا

کہاں سیاستِ اغیار نے ہلاک کیا
ہمیں تو اپنے ہی افکار نے ہلاک کیا
کسی کی موت کا باعث تھی خانہ ویرانی
کسی کو رونقِ گلزار نے ہلاک کیا
کسی کے واسطے پھولوں کی سیج موجبِ مرگ
کسی کو جادہء پُرخار نے ہلاک کیا
کسی کو شعلہء خورشید نے جلا ڈالا
کسی کو سایہء اشجار نے ہلاک کیا
سوادِ شام کسی کے لیے پیامِ اجل
کسی کو صبح کے آثار نے ہلاک کیا
کسی کی جان گئی دیکھ کر ترا جلوہ
کسی کو حسرتِ دیدار نے ہلاک کیا
کوئی شکار ہوا اپنی ہچکچاہٹ کا
کسی کو جرأتِ اظہار نے ہلاک کیا
کسی کا تختہ بچھایا نصیبِ خُفتہ نے
کسی کو طالعِ بیدار نے ہلاک کیا
وہی ہلاکو کہ جس نے کیے ہزاروں ہلاک
اُسے بھی وقت کی یلغار نے ہلاک کیا
کسی کو مار گیا اُس کا کم سخن ہونا
کسی کو کثرتِ اشعار نے ہلاک کیا
وہی خسارہ ہے سب کی طرح ہمیں درپیش
ہمیں بھی گرمیِ بازار نے ہلاک کیا
کبھی تباہ ہوئے مشورہ نہ ملنے سے
کبھی نوشتہء دیوار نے ہلاک کیا
ملی تھی جس کے لبوں سے نئی حیات ہمیں
اُسی کی شوخیِ گفتار نے ہلاک کیا
خدا کا شکر کہ پستی نہ ہم کو کھینچ سکی
ہمیں بلندیِ معیار نے ہلاک کیا
باصر کاظمی

کیوں مجھے جرأتِ گفتار دئیے دیتے ہیں

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 79
حکم بے سوچے جو سرکار دئیے دیتے ہیں
کیوں مجھے جرأتِ گفتار دئیے دیتے ہیں
خانہ بربادوں کو سائے میں بٹھانے کے لئے
آپ گرتی ہوئے دیوار دئیے دیتے ہیں
عشق اور ابروئے خمدار کا اس دل کے سپرد
آپ تو دیوانے کو تلوار دئیے دیتے ہیں
آپ اک پھول بھی دیں گے تو اس احسان کے ساتھ
جیسے گلزار کا گلزار دئیے دیتے ہیں
قمر جلالوی

جب حرف شوخ سے لب گفتار سرخ ہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 117
کہنا ہی کیا کہ شوخ کے رخسار سرخ ہیں
جب حرف شوخ سے لب گفتار سرخ ہیں
ناداری نگاہ ہے اور زرد منظری
حسرت یہ رنگ کی ہے جو نادار سرخ ہیں
اب اس متاع رنگ کا اندازہ کیجیے
شوق طلب سے جس کے خریدار سرخ ہیں
ہے بندوبست لطف مغاں، رنگ کھیلیے
میخانہ سرخ ہے مے و میخوار سرخ ہیں
جا بھی فقیہ سبز قدم ، اب یہاں سے جا
میں تیری بات پی گیا پر یار سرخ ہیں
طغیان رنگ دیکھیے اس لالہ رنگ کا
پیش از ورود ، کوچہ و بازار سرخ ہیں
بسمل ہیں جوش مستی حالت میں سینہ کوب
وہ رقص میں ہے اور در و دیوار سرخ ہیں
جون ایلیا

جاں کالبدِ صورتِ دیوار میں آوے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 229
جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
جاں کالبدِ صورتِ دیوار میں آوے
سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر
تو اس قدِ دلکش سے جو گلزار میں آوے
تب نازِ گراں مایگئ اشک بجا ہے
جب لختِ جگر دیدۂ خوں بار میں آوے
دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستمگر
کچھ تجھ کو مزہ بھی مرے آزار میں آوے
اس چشمِ فسوں گر کا اگر پائے اشارہ
طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں آوے
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب
اک آبلہ پا وادیِ پر خار میں آوے
مر جاؤں نہ کیوں رشک سے جب وہ تنِ نازک
آغوشِ خمِ حلقۂ زُنّار میں آوے
غارت گرِ ناموس نہ ہو گر ہوسِ زر
کیوں شاہدِ گل باغ سے بازار میں آوے
تب چاکِ گریباں کا مزا ہے دلِ نالاں@
جب اک نفس الجھا ہوا ہر تار میں آوے
آتش کدہ ہے سینہ مرا رازِ نہاں سے
اے وائے اگر معرضِ اظہار میں آوے
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے
@ مالک رام اور عرشی میں ہے ’دلِ ناداں‘ لیکن ’نالاں‘ ہی غالب کے اندازِ بیان کے مطابق زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔
مرزا اسد اللہ خان غالب

دودِ شمعِ کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 113
آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست
دودِ شمعِ کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست
اے دلِ ناعاقبت اندیش! ضبطِ شوق کر
کون لا سکتا ہے تابِ جلوۂ دیدارِ دوست
خانہ ویراں سازئ حیرت! تماشا کیجیئے
صورتِ نقشِ قدم ہوں رفتۂ رفتارِ دوست
عشق میں بیدادِ رشکِ غیر نے مارا مجھے
کُشتۂ دشمن ہوں آخر، گرچہ تھا بیمارِ دوست
چشمِ ما روشن، کہ اس بے درد کا دل شاد ہے
دیدۂ پر خوں ہمارا ساغرِ سرشارِ دوست
غیر یوں کرتا ہے میری پرسش اس کے ہجر میں
بے تکلّف دوست ہو جیسے کوئی غم خوارِ دوست
تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک
مجھ کو دیتا ہے پیامِ وعدۂ دیدارِ دوست
جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعفِ دماغ
سَر کرے ہے وہ حدیثِ زلفِ عنبر بارِ دوست
چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر
ہنس کے کرتا ہے بیانِ شوخئ گفتارِ دوست
مہربانی ہائے دشمن کی شکایت کیجیئے
یا بیاں کیجے سپاسِ لذّتِ آزارِ دوست
یہ غزل اپنی، مجھے جی سے پسند آتی ہےآپ
ہے ردیف شعر میں غالب! ز بس تکرارِ دوست
مرزا اسد اللہ خان غالب

دیر لیکن ہے قیامت ابھی دیدار کے بیچ

دیوان دوم غزل 791
جھوٹ ہر چند نہیں یار کی گفتار کے بیچ
دیر لیکن ہے قیامت ابھی دیدار کے بیچ
کس کی خوبی کے طلبگار ہیں عزت طلباں
خرقے بکنے کو چلے آتے ہیں بازار کے بیچ
خضر و عیسیٰ کے تئیں نام کو جیتا سن لو
جان ہے ورنہ کب اس کے کسو بیمار کے بیچ
اگلے کیا پیچ تمھارے نہ تھے بس عاشق کو
بال جو اور گھر سنے لگے دستار کے بیچ
عشق ہے جس کو ترا اس سے تو رکھ دل کو جمع
زندگی کی نہیں امید اس آزار کے بیچ
ہم بھی اب ترک وفا ہی کریں گے کیا کریے
جنس یہ کھپتی نہیں آپ کی سرکار کے بیچ
دیدنی دشت جنوں ہے کہ پھپھولے پا کے
میں نے موتی سے پرو رکھے ہیں ہر خار کے بیچ
پردہ اٹھتا ہے تو پھر جان پر آ بنتی ہے
خوبی عاشق کی نہیں عشق کے اظہار کے بیچ
اس زمیں میں غزل اک اور بھی موزوں کر میر
پاتے ہیں زور ہی لذت تری گفتار کے بیچ
میر تقی میر

جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ

دیوان اول غزل 429
کیا موافق ہو دوا عشق کے بیمار کے ساتھ
جی ہی جاتے نظر آئے ہیں اس آزار کے ساتھ
رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
مر گئے پر بھی کھلی رہ گئیں آنکھیں اپنی
کون اس طرح موا حسرت دیدار کے ساتھ
شوق کا کام کھنچا دور کہ اب مہر مثال
چشم مشتاق لگی جائے ہے طومار کے ساتھ
راہ اس شوخ کی عاشق سے نہیں رک سکتی
جان جاتی ہے چلی خوبی رفتار کے ساتھ
وے دن اب سالتے ہیں راتوں کو برسوں گذرے
جن دنوں دیر رہا کرتے تھے ہم یار کے ساتھ
ذکر گل کیا ہے صبا اب کہ خزاں میں ہم نے
دل کو ناچار لگایا ہے خس و خار کے ساتھ
کس کو ہر دم ہے لہو رونے کا ہجراں میں دماغ
دل کو اک ربط سا ہے دیدئہ خونبار کے ساتھ
میری اس شوخ سے صحبت ہے بعینہ ویسی
جیسے بن جائے کسو سادے کو عیار کے ساتھ
دیکھیے کس کو شہادت سے سر افراز کریں
لاگ تو سب کو ہے اس شوخ کی تلوار کے ساتھ
بے کلی اس کی نہ ظاہر تھی جو تو اے بلبل
دم کش میر ہوئی اس لب و گفتار کے ساتھ
میر تقی میر

تر ہیں سب سرکے لہو سے در و دیوار ہنوز

دیوان اول غزل 233
مر گیا میں پہ مرے باقی ہیں آثار ہنوز
تر ہیں سب سرکے لہو سے در و دیوار ہنوز
دل بھی پر داغ چمن ہے پر اسے کیا کیجے
جی سے جاتی ہی نہیں حسرت دیدار ہنوز
بہ کیے عمر ہوئی ابر بہاری کو ولے
لہو برسا رہے ہیں دیدئہ خوں بار ہنوز
بد نہ لے جائیو پوچھوں ہوں تجھی سے یہ طبیب
بہ ہوا کوئی بھی اس درد کا بیمار ہنوز
نا امیدی میں تو مر گئے پہ نہیں یہ معلوم
جیتے ہیں کون سی امید پہ ناچار ہنوز
بارہا چل چکی تلوار تری چال پہ شوخ
تو نہیں چھوڑتا اس طرز کی رفتار ہنوز
ایک دن بال فشاں ٹک ہوئے تھے خوش ہوکر
ہیں غم دل کی اسیری میں گرفتار ہنوز
کوئی تو آبلہ پا دشت جنوں سے گذرا
ڈوبا ہی جائے ہے لوہو میں سر خار ہنوز
منتظر قتل کے وعدے کا ہوں اپنے یعنی
جیتا مرنے کو رہا ہے یہ گنہگار ہنوز
اڑ گئے خاک ہو کتنے ہی ترے کوچے سے
باز آتے نہیں پر تیرے ہوادار ہنوز
ایک بھی زخم کی جا جس کے نہ ہو تن پہ کہیں
کوئی دیتا ہے سنا ویسے کو آزار ہنوز
ٹک تو انصاف کر اے دشمن جان عاشق
میان سے نکلی پڑے ہے تری تلوار ہنوز
میر کو ضعف میں میں دیکھ کہا کچھ کہیے
ہے تجھے کوئی گھڑی قوت گفتار ہنوز
ابھی اک دم میں زباں چلنے سے رہ جاتی ہے
درد دل کیوں نہیں کرتا ہے تو اظہار ہنوز
آنسو بھر لا کے بہت حزن سے یہ کہنے لگا
کیا کہوں تجھ کو سمجھ اس پہ نہیں یار ہنوز
آنکھوں میں آن رہا جی جو نکلتا ہی نہیں
دل میں میرے ہے گرہ حسرت دیدار ہنوز
میر تقی میر

کام آئے فراق میں اے یار

دیوان اول غزل 211
دل دماغ و جگر یہ سب اک بار
کام آئے فراق میں اے یار
کیوں نہ ہو ضعف غالب اعضا پر
مر گئے ہیں قشون کے سردار
گل پژمردہ کا نہیں ممنون
ہم اسیروں کا گوشۂ دستار
مت نکل گھر سے ہم بھی راضی ہیں
دیکھ لیں گے کبھو سر بازار
سینکڑوں حرف ہیں گرہ دل میں
پر کہاں پایئے لب اظہار
سیر کر دشت عشق کا گلشن
غنچے ہو ہورہے ہیں سو سو خار
روز محشر ہے رات ہجراں کی
ایسی ہم زندگی سے ہیں بیزار
بحث نالہ بھی کیجیو بلبل
پہلے پیدا تو کر لب گفتار
چاک دل پر ہیں چشم صد خوباں
کیا کروں یک انار و صد بیمار
شکر کر داغ دل کا اے غافل
کس کو دیتے ہیں دیدئہ بیدار
گو غزل ہو گئی قصیدہ سی
عاشقوں کا ہے طول حرف شعار
ہر سحر لگ چلی تو ہے تو نسیم
اے سیہ مست ناز ٹک ہشیار
شاخسانے ہزار نکلیں گے
جو گیا اس کی زلف کا اک تار
واجب القتل اس قدر تو ہوں
کہ مجھے دیکھ کر کہے ہے پکار
یہ تو آیا نہ سامنے میرے
لائو میری میاں سپر تلوار
آ زیارت کو قبر عاشق پر
اک طرح کا ہے یاں بھی جوش بہار
نکلے ہے میری خاک سے نرگس
یعنی اب تک ہے حسرت دیدار
میر صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار
سہل سی زندگی پہ کام کے تیں
اپنے اوپر نہ کیجیے دشوار
چار دن کا ہے مجہلہ یہ سب
سب سے رکھیے سلوک ہی ناچار
کوئی ایسا گناہ اور نہیں
یہ کہ کیجے ستم کسی پر یار
واں جہاں خاک کے برابر ہے
قدر ہفت آسمان ظلم شعار
یہی درخواست پاس دل کی ہے
نہیں روزہ نماز کچھ درکار
در مسجد پہ حلقہ زن ہو تم
کہ رہو بیٹھ خانۂ خمار
جی میں آوے سو کیجیو پیارے
لیک ہوجو نہ درپئے آزار
حاصل دو جہان ہے یک حرف
ہو مری جان آگے تم مختار
میر تقی میر

نالہ مرا چمن کی دیوار تک نہ پہنچا

دیوان اول غزل 96
پیغام غم جگر کا گلزار تک نہ پہنچا
نالہ مرا چمن کی دیوار تک نہ پہنچا
اس آئینے کے مانند زنگار جس کو کھاوے
کام اپنا اس کے غم میں دیدار تک نہ پہنچا
جوں نقش پا ہے غربت حیران کار اس کی
آوارہ ہو وطن سے جو یار تک نہ پہنچا
لبریز شکوہ تھے ہم لیکن حضور تیرے
کار شکایت اپنا گفتار تک نہ پہنچا
لے چشم نم رسیدہ پانی چوانے کوئی
وقت اخیر اس کے بیمار تک نہ پہنچا
یہ بخت سبز دیکھو باغ زمانہ میں سے
پژمردہ گل بھی اپنی دستار تک نہ پہنچا
مستوری خوبروئی دونوں نہ جمع ہوویں
خوبی کا کام کس کی اظہار تک نہ پہنچا
یوسف سے لے کے تاگل پھر گل سے لے کے تا شمع
یہ حسن کس کو لے کر بازار تک نہ پہنچا
افسوس میر وے جو ہونے شہید آئے
پھر کام ان کا اس کی تلوار تک نہ پہنچا
میر تقی میر

ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 22
فکر دلداریء گلزار کروں یا نہ کروں
ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں
قصہء سازشِ اغیار کہوں یانہ کہوں
شکوہء یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں
جانے کیا وضع ہے اب رسمِ وفا کی اے دل
وضعِ دیرینہ پہ اصرار کروں یا نہ کروں
جانے کس رنگ میں تفسیر کریں اہلِ ہوس
مدحِ زلف و لب و رخسار کروں یا نہ کروں
یوں بہار آئی ہے امسال کہ گلشن میں صبا
پوچھتی ہے گزر اس بار کروں یا نہ کروں
گویا اس سوچ میں ہے دل میں لہو بھر کے گلاب
دامن و جیب کو گلنار کروں یا نہ کروں
ہے فقط مرغِ غزلخواں کہ جسے فکر نہیں
معتدل گرمیء گفتار کروں یا نہ کروں
نذرِ سودا
فیض احمد فیض

فریاد ہم بہت پسِ دیوار کرتے ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 182
عرضِ وفا تو فرض ہے ناچار کرتے ہیں
فریاد ہم بہت پسِ دیوار کرتے ہیں
دو چار حرف لکھ کے ہم اپنے گمان میں
اس کو شریکِ لذت آزار کرتے ہیں
میرے خیال‘ اب ترا بچنا محال ہے
لوگوں کے لفظ ذہن پہ یلغار کرتے ہیں
اپنے سوا بھی رنج تماشا کریں‘ تو چل
کچھ دیر سیرِ کوچہ و بازار کرتے ہیں
خود ہی اسے ضرورتِ بیعت نہیں رہی
اب آپ کیا ارادۂ انکار کرتے ہیں
تجھ سے ملے تو ہم نے یہ جانا کہ آجکل
آہو شکاریوں کو گرفتار کرتے ہیں
کچھ دن پرند پرورشِ بال و پر کریں
بے صرفہ کیوں ہواؤں سے پیکار کرتے ہیں
آشفتگاں کو رمز و اشارت کا کیا دماغ
یہ لوگ کس زبان میں گفتار کرتے ہیں
عرفان صدیقی

کون اس فوج کا سالار ہے میں کیا جانوں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 134
میں تو اک بکھری ہوئی صف کا پیادہ ٹھہرا
کون اس فوج کا سالار ہے میں کیا جانوں
تو فرستادۂ سرکار نہیں ہے نہ سہی
ہاتھ میں محضرِ سرکار ہے میں کیا جانوں
شحنۂ شہر کی خدمت میں لگے ہیں سب لوگ
کون غالب کا طرفدار ہے میں کیا جانوں
اک نیا رنگ ہویدا ہے مری آنکھوں میں
آج کیا سرخئ اخبار ہے میں کیا جانوں
تجھ کو سیلاب کے آنے کی خبر دے دی ہے
تیرا در ہے تری دیوار ہے میں کیا جانوں
میں نمو کرنے پہ راضی نہیں بے موجِ بہار
موسمِ دَرہم و دِینار ہے میں کیا جانوں
سرِ پندار تو مجھ کو بھی نظر آتا ہے
اور کیا کیا تہہِ دستار ہے میں کیا جانوں
قحط میں کب سے دکاں میری پڑی ہے خالی
عشق سے گرمئ بازار ہے میں کیا جانوں
ہے کہیں صبحِ خوش آثار بھی لیکن فی الحال
میرے آگے تو شبِ تار ہے میں کیا جانوں
مجھ کو آتی ہے ترے حرف سے احساس کی آنچ
سب تری گرمئ گفتار ہے میں کیا جانوں
عرفان صدیقی

سمندر جیسی آنکھیں تھی گل و گلزار چہرہ تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 99
کنارِ صبحِ امکاں اک تبسم بار چہرہ تھا
سمندر جیسی آنکھیں تھی گل و گلزار چہرہ تھا
مری نظریں اٹھیں تو پھر پلٹ کر ہی نہیں آئیں
عجب سندر سی آنکھیں تھی عجب دلدار چہرہ تھا
سنا ہے اس لیے اس نے تراشے خال و خد میرے
اسے پہچان کو اپنی کوئی درکار چہرہ تھا
ہوا کی آیتوں جیسی تکلم کی بہشتیں تھیں
شراب و شہد بہتے تھے وہ خوش گفتار چہرہ تھا
جہاں پر دھوپ کھلتی تھی وہیں بادل برستے تھے
جہاں پُر خواب آنکھیں تھیں وہیں بیدار چہرہ تھا
شفق کی سر خ اندامی لب و رخسار جیسی تھی
چناروں کے بدن پر شام کا گلنار چہرہ تھا
جسے بتیس برسوں سے مری آنکھیں تلاشے ہیں
بس اتنا جانتا ہوں وہ بہت شہکار چہرہ تھا
جہاں پر شمع داں رکھا ہوا ہے یاد کا منصور
یہاں اس طاقچے میں کوئی پچھلی بار چہرہ تھا
منصور آفاق

کوئی مل گیا گر ہمیں یار واعظ

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 29
نکل آئے گی مے کشی کی بھی حلَت
کوئی مل گیا گر ہمیں یار واعظ
نہ چھوڑے گا زیور گھروں میں نہ زر تو
یہی ہے اگر حسن گفتار واعظ
مسلماں نہ ہم کاش حالیؔ کو کہتے
ہوئے بات کہہ کر گنہگار واعظ
الطاف حسین حالی

جام ہے، مے ہے، رسن ہے، دار ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 235
اہل دل فرمائیں کیا درکار ہے
جام ہے، مے ہے، رسن ہے، دار ہے
خار کو کوئی کلی کہتا نہیں
نرم ہو،نازک ہو پھر بھی خار ہے
کچھ کہیں تو آپ ہوتے ہیں خفا
چپ رہیں تو زندگی دشوار ہے
لوریاں دیتی رہی دنیا بہت
پھر بھی جو بیدار تھا، بیدار ہے
کاش ہوتے اتنے اچھے آپ بھی
جتنی اچھی آپ کی گفتار ہے
کل کہاں تھی آج ہے باقیؔ کہاں
زندگی کتنی سبک رفتار ہے
باقی صدیقی