ٹیگ کے محفوظات: گسار

ہم غمِ بے کنار کھو بیٹھے

آپ کی یادگار کھو بیٹھے
ہم غمِ بے کنار کھو بیٹھے
اب بہاریں ہوں لاکھ جلوہ کناں
جوہرِ اعتبار کھو بیٹھے
ان کے جلووں کو زندگی کہہ کر
ہم نظر کا وقار کھو بیٹھے
آپ سے مل کے ہم نے کیا پایا
اپنے دل کا قرار کھو بیٹھے
خارزاروں سے اس طرح اُلجھے
ہم خلوصِ بہار کھو بیٹھے
غم کی تشنہ لَبی تو قائم ہے
آپ سا غم گُسار کھو بیٹھے
ان سے ہم اس قدر قریب ہوئے
زندگی کا وقار کھو بیٹھے
ہر حقیقت فریب لگتی ہے
جب کوئی اعتبار کھو بیٹھے
جس پہ نازاں ہیں قُربتیں بھی، شکیبؔ
وہ شبِ انتظار کھو بیٹھے
شکیب جلالی

ہوا کہیں کی ہو سینہ فگار اپنا ہے

کسی کا درد ہو دل بیقرار اپنا ہے
ہوا کہیں کی ہو سینہ فگار اپنا ہے
ہو کوئی فصل مگر زخم کھل ہی جاتے ہیں
سدا بہار دلِ داغدار اپنا ہے
بلا سے ہم نہ پیئیں میکدہ تو گرم ہوا
بقدرِ تشنگی رنجِ خمار اپنا ہے
جو شاد پھرتے تھے کل آج چھپ کے روتے ہیں
ہزار شکر غمِ پائیدار اپنا ہے
اسی لیے یہاں کچھ لوگ ہم سے جلتے ہیں
کہ جی جلانے میں کیوں اختیار اپنا ہے
نہ تنگ کر دلِ محزوں کو اے غمِ دُنیا
خدائی بھر میں یہی غم گسار اپنا ہے
کہیں ملا تو کسی دن منا ہی لیں گے اُسے
وہ زُود رنج سہی پھر بھی یار اپنا ہے
وہ کوئی اپنے سوا ہو تو اس کا شکوہ کروں
جدائی اپنی ہے اور انتظار اپنا ہے
نہ ڈھونڈ ناصرِ آشفۃ حال کو گھر میں
وہ بوئے گل کی طرح بے قرار اپنا ہے
ناصر کاظمی

اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 63
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتاا
اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا
غم اگر چہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا، کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
یہ مسائل تصّوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے ،جو نہ بادہ خوار ہوتا
مرزا اسد اللہ خان غالب

تری رہ میں کرتے تھے سر طلب ، سرِ رہگزار چلے گئے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 20
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے
تری رہ میں کرتے تھے سر طلب ، سرِ رہگزار چلے گئے
تری کج ادائی سے ہار کے شبِ انتظار چلی گئی
مرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر مرے غم گسار چلے گئے
نہ سوالِ وصل ، نہ عرضِ غم ، نہ حکایتیں نہ شکایتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے
نہ رہا جنونِ رُخِ وفا، یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے
فیض احمد فیض