ٹیگ کے محفوظات: گزراں

خامشی آکے سرِ خلوتِ جاں بولتی ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 340
زیرِ محراب نہ بالائے مکاں بولتی ہے
خامشی آکے سرِ خلوتِ جاں بولتی ہے
یہ مرا وہم ہے یا مجھ کو بلاتے ہیں وہ لوگ
کان بجتے ہیں کہ موجِ گزراں بولتی ہے
لو سوالِ دہنِ بستہ کا آتا ہے جواب
تیر سرگوشیاں کرتے ہیں کماں بولتی ہے
ایک میں ہوں کہ اس آشوبِ نوا میں چپ ہوں
ورنہ دُنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے
ہوُ کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں
ہم تو سنتے تھے کہ زنجیرِ گراں بولتی ہے
درد کے باب میں تمثال گری ہے خاموش
بن بھی جاتی ہے تو تصویر کہاں بولتی ہے
عرفان صدیقی

ناوکِ کور کماں کس کی طرف دیکھتا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 314
اے مرے طائر جاں کس کی طرف دیکھتا ہے
ناوکِ کور کماں کس کی طرف دیکھتا ہے
ہم کسے اپنے سوا عشق میں گردانتے ہیں
دلِ بے مایہ یہاں کس کی طرف دیکھتا ہے
بانوئے ناقہ نشیں دیکھ کے چہرہ تیرا
بندۂ خاک نشاں کس کی طرف دیکھتا ہے
میں تو اک منظرِ رفتہ ہوں مجھے کیا معلوم
اب جہانِ گزراں کس کی طرف دیکھتا ہے
ہم سب آئینہ در آئینہ در آئینہ ہیں
کیا خبر کون‘ کہاں‘ کس کی طرف دیکھتا ہے
اس کے بسمل ہیں سو ہم دیکھتے ہیں اس کی طرف
وہ شہِ چارہ گراں کس کی طرف دیکھتا ہے
عرفان صدیقی

ساتھ ہے کوئی تو عمر گزراں ہے جاناں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 132
موج گل ہے نہ کہیں آب رواں ہے جاناں
ساتھ ہے کوئی تو عمر گزراں ہے جاناں
ابھی آتا ہے نظر چاند میں چہرہ تیرا
ایک دو پل میں یہ منظر بھی دھواں ہے جاناں
تو جو بولے تو سنوں میں تری آواز کا سچ
ہر طرف خاموشی وہم و گماں ہے جاناں
موسم ہجر سے اس درجہ سبک سار ہے دل
اس پہ اب حرف محبت بھی گراں ہے جاناں
آج تک جو نہ کیا اس کی تلافی کے لیے
اب یہ ذکر لب و رخسار بتاں ہے جاناں
ہم کچھ اس طرح سناتے ہیں کہانی اپنی
کوئی سمجھے کہ حدیث دگراں ہے جاناں
جو کبھی تونے کہا اور نہ کبھی ہم نے سنا
وہی اک لفظ تو سرنامۂ جاں ہے جاناں
عرفان صدیقی

کون ہے جس کے لیے نامۂ جاں لکھتے ہو

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 123
تم جو عرفانؔ یہ سب دردِ نہاں لکھتے ہو
کون ہے جس کے لیے نامۂ جاں لکھتے ہو
جانتے ہو کہ کوئی موج مٹا دے گی اسے
پھر بھی کیا کیا سرِ ریگِ گزراں لکھتے ہو
جس کے حلقے کا نشاں بھی نہیں باقی کوئی
اب تک اس رشتے کو زنجیرِ گراں لکھتے ہو
یہ بھی کہتے ہو کہ احوال لکھا ہے جی کا
اور یہ بھی کہ حدیثِ دگراں لکھتے ہو
یہ بھی لکھتے ہو کہ معلوم نہیں ان کا پتا
اور خط بھی طرفِ گمشدگاں لکھتے ہو
سایہ نکلے گا جو پیکر نظر آتا ہے تمہیں
وہم ٹھہرے گا جسے سروِ رواں لکھتے ہو
اتنی مدت تو سلگتا نہیں رہتا کچھ بھی
اور کچھ ہو گا جسے دل کا دھواں لکھتے ہو
کوئی دلدار نہیں تھا تو جتاتے کیا ہو
کیا چھپاتے ہو اگر اس کا نشاں لکھتے ہو
تم جو لکھتے ہو وہ دُنیا کہیں ملتی ہی نہیں
کون سے شہر میں رہتے ہو‘ کہاں لکھتے ہو
عرفان صدیقی

خانۂ شیر دہاں ہے یہ جہاں بھی شاید

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 88
اب نہ مل پائیں مرے ہم نفساں بھی شاید
خانۂ شیر دہاں ہے یہ جہاں بھی شاید
تن پہ یہ خاک گزر دیکھ کے یاد آتا ہے
ساتھ میں تھی کوئی موج گزراں بھی شاید
کیا عجب ہے میں اس آشوب میں زندہ رہ جاؤں
وہم ہو تیرا یقیں میرا گماں بھی شاید
ان کمندوں سے زیادہ ہو مری وحشت جاں
اور میں صید نہ ہو پاؤں یہاں بھی شاید
کوئی آواز نہیں ہے پس دیوار سخن
عشق نے چھوڑ دیا ہے یہ مکاں بھی شاید
رتجگے کرتے ہوئے دیکھ رہی ہو گی مجھے
اسی جنگل میں صف رہزناں بھی شاید
عرفان صدیقی

انداز جہان گزراں دیکھ رہے ہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 134
اخلاص کو مجبور فغاں دیکھ رہے ہیں
انداز جہان گزراں دیکھ رہے ہیں
ہم زیست کی راہوں میں دئیے غم کے جلا کر
گزرے ہوئے لمحوں کے نشاں دیکھ رہے ہیں
کیا جرات بے باک ہے یہ دل، یہ محبت
قطرے میں سمندر کو نہاں دیکھ رہے ہیں
کیا دور سے اک ساغر گل رنگ دکھا کر
وہ کش مکش بادہ کشاں دیکھ رہے ہیں
حالات نے اس طرح جکڑ رکھا ہے باقیؔ
جو کچھ بھی دکھاتا ہے جہاں دیکھ رہے ہیں
باقی صدیقی

پھر جہان گزراں یاد آیا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 64
سود یاد آیا، زیاں یاد آیا
پھر جہان گزراں یاد آیا
ہوش آنے لگا دیوانے کو
عقل کا سنگ گراں یاد آیا
جرس غم نے پکارا ہم کو
کاروان دل و جاں یاد آیا
اک نہ اک زخم رہا پیش نظر
تم نہ یاد آئے جہاں یاد آیا
نیند چبھنے لگی بند آنکھوں میں
جب چراغوں کا دھواں یاد آیا
کوئی ہنگامۂ روز و شب میں
یاد آ کر بھی کہاں یاد آیا
دیکھ کر صورت منزل باقیؔ
دعویٔ ہمسفراں یاد آیا
باقی صدیقی