ٹیگ کے محفوظات: گری

سَو کھوٹ جہاں تیرے اِک بات کھری میری

کھَلتی ہے تجھے دنیا کیوں ہم سَفَری میری
سَو کھوٹ جہاں تیرے اِک بات کھری میری
سُنتا ہُوں سُکوں سے ہیں سب اہلِ فَلَک جب سے
سیکھی ہے دُعاؤں نے بے بال و پَری میری
رونق ہیں سب اِس بزمِ افکار و حوادث کی
سرمستی و سرشاری آشفتہ سری میری
روتا ہے ہر اِک دریا آلام و مصائب کا
رَستا ہی نہیں دیتی یہ بے خَبَری میری
ہر دُکھ ہے یہاں سُکھ سے، ہر زخم سُکوں سے ہے
آ کر تو کبھی دیکھو تم چارہ گری میری
یہ گردشِ روز و شب کیوں اِتنی پریشاں ہے
کیا اِس نے نہیں دیکھی ہے در بَدَری میری
گلشن کا بھروسا ہے نے شاخ و نشیمن کا
لے آئی کَہاں مجھ کو کوتہ نظری میری
آنکھوں کا تحیّر بھی پہنچا نہ سکا دل تک
کس کام کی ہے ضامنؔ! یہ نامہ بَری میری
ضامن جعفری

لے دے کے فقط ساتھ ہے بے بال و پَری کا

اب دَور کہاں عشوہ گری خوش نَظَری کا
لے دے کے فقط ساتھ ہے بے بال و پَری کا
تزئینِ در و بامِ مہ و سال ہے جاری
ہر زخم چراغاں ہے مری بارہ دَری کا
ہر داغِ تمنّا ہے کسی بت کا تعارف
ہر زخم قصیدہ ہے کسی چارہ گری کا
سمجھے ہی نہیں اہلِ خرد کیفِ جنوں کو
کچھ ذائقہ چکھتے تَو سہی بے خَبَری کا
کیوں حُسن نے برپا کیا ہنگامۂ محشر؟
مقصد ہے تماشا مری آشفتہ سَری کا
فردوسَبدَر جب سے ہُوئے حضرتِ ضامنؔ
معیار زمانے میں ہُوئے در بَدَری کا
ضامن جعفری

دل کی افسردگی کچھ کم تو ہوئی ہم نفسو شکر کرو

چہرہ افروز ہوئی پہلی جھڑی ہم نفسو شکر کرو
دل کی افسردگی کچھ کم تو ہوئی ہم نفسو شکر کرو
آؤ پھر یادِ عزیزاں ہی سے میخانہِ جاں گرم کریں
دیر کے بعد یہ محفل تو جمی ہم نفسو شکر کرو
آج پھر دیر کی سوئی ہوئی ندی میں نئی لہر آئی
دیر کے بعد کوئی ناؤ چلی ہم نفسو شکر کرو
رات بھر شہر میں بجلی سی چمکتی رہی ہم سوئے رہے
وہ تو کہیے کہ بلا سر سے ٹلی ہم نفسو شکر کرو
درد کی شاخِ تہی کا سہ میں اشکوں کے نئے پھول کھلے
دل جلی شام نے پھر مانگ بھری ہم نفسو شکر کرو
آسماں لالہِ خونیں کی نواؤں سے جگر چاک ہوا
قصرِ بیداد کی دیوار گری ہم نفسو شکر کرو
ناصر کاظمی

کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

دل میں اِک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
شور برپا ہے خانہِ دل میں
کوئی دِیوار سی گری ہے ابھی
بھری دُنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
تو شریکِ سخن نہیں ہے تو کیا
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آ رہی ہے ابھی
شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زِندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی
سو گئے لوگ اُس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی
تم تو یارو ابھی سے اُٹھ بیٹھے
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی
کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی
اور یہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
ناصر کاظمی

ہاتھ سے چاہے زندگی جائے

بات جو دل میں ہے کہی جائے
ہاتھ سے چاہے زندگی جائے
دل سے جانا تری محبت کا
جیسے آنکھوں سے روشنی جائے
شوق کہتا ہے مجھ کو پر لگ جائیں
اور طبیعت کہ بس گری جائے
خامشی بے سبب نہیں اپنی
ہے کوئی جس سے بات کی جائے
اس قدر بھی قریب مت آؤ
کہ جدائی نہ پھر سہی جائے
باصر کاظمی

کہ ہے نخلِ گل کاتو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 108
مجھے باغباں سے گلہ یہ ہے کہ چمن سے بے خبری رہی
کہ ہے نخلِ گل کاتو ذکر کیا کوئی شاخ تک نہ ہری رہی
مرا حال دیکھ کے ساقیا کوئی بادہ خوار نہ پی سکا
ترا جام خالی نہ ہو سکے مری چشمِ تر نہ بھر رہی
میں قفس کو توڑ کے کیا کروں مجھ رات دن یہ خیال ہے
یہ بہار بھی یوں ہی جائے گی جو یہی شکستہ پری رہی
مجھے علم میں تیرے جمال کا نہ خبر ہے ترے جلال کی
یہ کلیم جانے کہ طور پر تری کیسی جلوہ گری رہی
میں ازل سے آیا تو کیا ملا جو میں جاؤں گا تو ملے گا کیا
مری جب بھی دربدری رہی مری اب بھی دربدری رہی
یہی سوچتا ہوں شبِ الم کہ نہ آئے وہ تو ہوا ہے کیا
وہاں جا سکی نہ مری فغاں کہ فغاں کی بے اثری رہی
شبِ وعدہ جو نہ آسکے تو قمر کہوں گا چرخ سے
ترے تارے بھی گئے رائیگاں تری چاندنی بھی دھری رہی
قمر جلالوی

گل کون تراشے ہے چراغِ سحری کا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 16
ارماں ہو مجھے نزع میں کیا چارہ گری کا
گل کون تراشے ہے چراغِ سحری کا
اِک وہ بھی ہے بیمار تری کم نظر کا
مر جائے مگر نام نہ لے چارہ گری کا
برہم ہوئے کیوں سن کے مرا حالِ محبت
شِکوہ نہ تھا آپ کی بیداد گری کا
بیگانۂ احساس یہاں تک ہوں جنوں میں
اب گھر کی خبر ہے نہ پتہ دربدری کا
اور اس کے سوا پھول کی تعریف ہی کیا ہے
احسان فراموش نسیمِ سحری کا
دنیا پہ قمر داغِ جگر ہے مرا روشن
لیکن نہ لیا نام کبھی چارہ گری کا
قمر جلالوی

یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی ، بھول گئے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 169
مستیء حال کبھی تھی ، کہ نہ تھی ، بھول گئے
یاد اپنی کوئی حالت نہ رہی ، بھول گئے
یوں مجھے بھیج کے تنہا سر بازار فریب
کیا میرے دوست میری سادہ دلی بھول گئے
میں تو بے حس ہوں ، مجھے درد کا احساس نہیں
چارہ گر کیوں روش چارہ گری بھول گئے؟
اب میرے اشک محبت بھی نہیں آپ کو یاد
آپ تو اپنے ہی دامن کی نمی بھول گئے
اب مجھے کوئی دلائے نہ محبت کا یقیں
جو مجھے بھول نہ سکتے تھے وہی بھول گئے
اور کیا چاہتی ہے گردش ایام کہ ہم
اپنا گھر بھول گئے ، ان کی گلی بھول گئے
کیا کہیں کتنی ہی باتیں تھیں جو اب یاد نہیں
کیا کریں ہم سے بڑی بھول ہوئی ، بھول گئے
جون ایلیا

میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 45
ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا
میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا
ذات در ذات ہم سفر رہ کر
اجنبی، اجنبی کو بھول گیا
صبح تک وجہِ جانکنی تھی جو بات
میں اسے شام ہی کو بھول گیا
عہدِ وابستگی گزار کے میں
وجہ وابستگی کو بھول گیا
سب دلیلیں تو مجھ کو یاد رہیں
بحث کیا تھی، اسی کو بھول گیا
کیوں نہ ہو ناز اس ذہانت پر
ایک میں، ہر کسی کو بھول گیا
سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی، آدمی کو بھول گیا
قہقہہ مارتے ہی دیوانہ
ہر غمِ زندگی کو بھول گیا
خواب ہا خواب جس کو چاہا تھا
رنگ ہا رنگ اسی کو بھول گیا
کیا قیامت ہوئی اگر اک شخص
اپنی خوش قسمتی کو بھول گیا
سوچ کر اس کی خلوت انجمنی
واں میں اپنی کمی کو بھول گیا
سب برے مجھ کو یاد رہتے ہیں
جو بھلا تھا اسی کو بھول گیا
ان سے وعدہ تو کر لیا لیکن
اپین کم فرصتی کو بھول گیا
بستیو! اب تو راستہ دے دو
اب تو میں اس گلی کو بھول گیا
اس نے گویا مجھی کو یاد رکھا
میں بھی گویا اسی کو بھول گیا
یعنی تم وہ ہو، واقعی؟ حد ہے
میں تو سچ مچ سبھی کو بھول گیا
آخری بت خدا نہ کیوں ٹھہرے
بت شکن، بت گری کو بھول گیا
اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بھول گیا
اس کی خوشیوں سے جلنے والا جونؔ
اپنی ایذا دہی کو بھول گیا
جون ایلیا

صاحب ہی نے ہمارے یہ بندہ پروری کی

دیوان چہارم غزل 1500
جنگل میں چشم کس سے بستی کی رہبری کی
صاحب ہی نے ہمارے یہ بندہ پروری کی
شب سن کے شور میرا کچھ کی نہ بے دماغی
اس کی گلی کے سگ نے کیا آدمی گری کی
کرتے نہیں ہیں دل خوں اس رنگ سے کسو کا
ہم دل شدوں کی ان نے کیا خوب دلبری کی
اللہ رے کیا نمک ہے آدم کے حسن میں بھی
اچھی لگی نہ ہم کو خوش صورتی پری کی
ہے اپنی مہرورزی جانکاہ و دل گدازاں
اس رنج میں نہیں ہے امید بہتری کی
رفتار ناز کا ہے پامال ایک عالم
اس خودنما نے کیسی خودرائی خودسری کی
اے کاش اب نہ چھوڑے صیاد قیدیوں کو
جی ہی سے مارتی ہے آزادی بے پری کی
اس رشک مہ سے ہر شب ہے غیر سے لڑائی
بخت سیہ نے بارے ان روزوں یاوری کی
کھٹ پچریاں ہی کی ہیں صراف کے نے ہم سے
پیسے دے بیروئی کی پھر لے گئے کھری کی
گذرے بسان صرصر عالم سے بے تامل
افسوس میر تم نے کیا سیر سرسری کی
میر تقی میر

مانا ہے حضور اس کے چراغ سحری سے

دیوان دوم غزل 979
کیا خور ہو طرف یار کے روشن گہری سے
مانا ہے حضور اس کے چراغ سحری سے
سبزان چمن ہوویں برابر ترے کیوں کر
لگتا ہے ترے سائے کو بھی ننگ پری سے
ہشیار کہ ہے راہ محبت کی خطرناک
مارے گئے ہیں لوگ بہت بے خبری سے
ایک آن میں رعنائیاں تیری تو ہیں سو سو
کب عہدہ برآئی ہوئی اس عشوہ گری سے
زنجیر تو پائوں میں لگی رہنے ہمارے
کیا اور ہو رسوا کوئی آشفتہ سری سے
جب لب ترے یاد آتے ہیں آنکھوں سے ہماری
تب ٹکڑے نکلتے ہیں عقیق جگری سے
عشق آنکھوں کے نیچے کیے کیا میر چھپے ہے
پیدا ہے محبت تری مژگاں کی تری سے
میر تقی میر

اثبات ہوا جرم محبت کا اسی سے

دیوان دوم غزل 978
تابوت مرا دیر اٹھا اس کی گلی سے
اثبات ہوا جرم محبت کا اسی سے
تم چھیڑتے ہو بزم میں مجھ کو تو ہنسی سے
پر مجھ پہ جو ہو جائے ہے پوچھو مرے جی سے
آتش بہ جگر اس در نایاب سے سب ہیں
دریا بھی نظر آئے اسی خشک لبی سے
گر ٹھہرے ملک آگے انھوں کے تو عجب ہے
پھرتے ہیں پڑے دلی کے لونڈے جو پری سے
نکلا جو کوئی واں سے تو پھر مر ہی کے نکلا
اس کوچے سے جاتے ہوئے دیکھا کسے جی سے
ہمسائے مجھے رات کو رویا ہی کرے ہیں
سوتے نہیں بے چارے مری نالہ کشی سے
تم نے تو ادھر دیکھنے کی کھائی ہے سوگند
اب ہم بھی لڑا بیٹھتے ہیں آنکھ کسی سے
چھاتی کہیں پھٹ جائے کہ ٹک دل بھی ہوا کھائے
اب دم تو لگے رکنے ہماری خفگی سے
اس شوخ کا تمکین سے آنا ہے قیامت
اکتانے لگے ہم نفساں تم تو ابھی سے
نالاں مجھے دیکھے ہیں بتاں تس پہ ہیں خاموش
فریاد ہے اس قوم کی فریاد رسی سے
تالو سے زباں رات کو مطلق نہیں لگتی
عالم ہے سیہ خانہ مری نوحہ گری سے
بے رحم وہ تجھ پاس لگا بیٹھنے جب دیر
ہم میر سے دل اپنے اٹھائے تھے تبھی سے
میر تقی میر

اس ماہرو کے آگے کیا تاب مشتری کی

دیوان اول غزل 471
کس حسن سے کہوں میں اس کی خوش اختری کی
اس ماہرو کے آگے کیا تاب مشتری کی
رکھنا نہ تھا قدم یاں جوں باد بے تامل
سیر اس جہاں کی رہرو پر تونے سرسری کی
شبہا بحال سگ میں اک عمر صرف کی ہے
مت پوچھ ان نے مجھ سے جو آدمی گری کی
پاے گل اس چمن میں چھوڑا گیا نہ ہم سے
سر پر ہمارے اب کے منت ہے بے پری کی
پیشہ تو ایک ہی تھا اس کا ہمارا لیکن
مجنوں کے طالعوں نے شہرت میں یاوری کی
گریے سے داغ سینہ تازہ ہوئے ہیں سارے
یہ کشت خشک تونے اے چشم پھر ہری کی
یہ دور تو موافق ہوتا نہیں مگر اب
رکھیے بناے تازہ اس چرخ چنبری کی
خوباں تمھاری خوبی تاچند نقل کریے
ہم رنجہ خاطروں کی کیا خوب دلبری کی
ہم سے جو میر اڑ کر افلاک چرخ میں ہیں
ان خاک میں ملوں کی کاہے کو ہمسری کی
میر تقی میر

کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

دیوان اول غزل 11
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
شرمندہ ترے رخ سے ہے رخسار پری کا
چلتا نہیں کچھ آگے ترے کبک دری کا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا
ہر زخم جگر داور محشر سے ہمارا
انصاف طلب ہے تری بے داد گری کا
اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو
آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا
صد موسم گل ہم کو تہ بال ہی گذرے
مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پری کا
اس رنگ سے جھمکے ہے پلک پر کہ کہے تو
ٹکڑا ہے مرا اشک عقیق جگری کا
کل سیر کیا ہم نے سمندر کو بھی جاکر
تھا دست نگر پنجۂ مژگاں کی تری کا
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا
ٹک میر جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسا ہے چراغ سحری کا
میر تقی میر

دھوکے دئیے کیا کیا ہمیں بادِ سحری نے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 36
ہر سَمت پریشاں تری آمد کے قرینے
دھوکے دئیے کیا کیا ہمیں بادِ سحری نے
ہر منزلِ غربت پہ گماں ہوتا ہے گھر کا
بہلایا ہے ہر گام بہت در بدری نے
تھے بزم میں سب دودِ سرِ بزم سے شاداں
بیکار جلایا ہمیں روشن نظری نے
مَے خانے میں عاجز ہُوئے آزُردہ دِلی سے
مسجد کا نہ رکھا ہمیں آشفتہ سری نے
یہ جامۂ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا
مہلت ہی نہ دی فیض، کبھی بخیہ گری نے
فیض احمد فیض

اب عشق تو اس بے ہنری کو نہیں کہتے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 261
اُس شمع سے ہم شب بسری کو نہیں کہتے
اب عشق تو اس بے ہنری کو نہیں کہتے
اک عرض ہے یہ پیرہن ناز سیامت
وحشی سے کبھی بخیہ گری کو نہیں کہتے
تو موج گریزاں ہے تو کچھ دُور تک آجا
ہم دیر تلک ہمسفری کو نہیں کہتے
عرفان صدیقی

تری توصیف اک احسان میری شاعری پر ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 615
مجھے کیا اعتماد الفاظ کی جادوگری پر ہے
تری توصیف اک احسان میری شاعری پر ہے
ترے دربار سے کچھ مانگنا گر کفر ٹھہرا ہے
تو میں کافر ہوں مجھ کو ناز اپنی کافری پر ہے
تری رفعت تفکر کی حدودِ فہم سے بالا
ترا عرفان طنزِ مستقل دانش وری پر ہے
سراپا ناز ہو کر بھی نیازِ عشق کے سجدے
خدا کو فخر بس تیرے خلوصِ دلبری پر ہے
صلائے عام ہے وہ نبضِ ہستی تھام لے آ کر
جو کوئی معترض آقا تری چارہ گری پر ہے
مجھے تسخیرِ یزداں کا عمل معلوم ہے منصور
کرم خاکِ مدنیہ کا مری دیدہ وری پر ہے
منصور آفاق

تیرے ہوتے ہوئے ہو جاتے کسی کے کیسے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 552
جام کے بادہ کے خوشبو کے کلی کے کیسے
تیرے ہوتے ہوئے ہو جاتے کسی کے کیسے
زخم مرہم کی تمنا ہی نہیں کر سکتا
ہیں یہ احسان تری چارہ گری کے کیسے
نقشِ پا تیرے نہ ہوتے تو سرِ دشتِ وفا
جاگتے بخت یہ آشفتہ سری کے کیسے
اپنے کمرے میں ہمیں قید کیا ہے تُو نے
سلسلے تیرے ہیں آزاد روی کے کیسے
اتنے ناکردہ گناہوں کی سزا باقی تھی
ہائے در کھلتے بھلا بخت وری کے کیسے
صفر میں صفر ملاتے تھے تو کچھ بنتا تھا
جمع کر لیتے تھے اعداد نفی کے کیسے
جیپ آتی تھی تو سب گاؤں نکل آتا تھا
کیا کہوں بھاگ تھے اس بھاگ بھری کے کیسے
ہجر کی رات ہمیں دیکھ رہی تھی دنیا
بند ہو جاتے درے بارہ دری کے کیسے
ڈاک کے کام میں تو کوئی رکاوٹ ہی نہیں
سلسلے ختم ہوئے نامہ بری کے کیسے
موت کی اکڑی ہوئی سرد رتوں میں جی کر
یہ کھنچے ہونٹ کھلیں ساتھ خوشی کے کیسے
کون روتا ہے شبِ ہجر کی تنہائی میں
پتے پتے پہ ہیں یہ قطرے نمی کے کیسے
موج اٹھتی ہی نہیں کوئی سرِ چشمِ وفا
یہ سمندر ہیں تری تشنہ لبی کے کیسے
موت کی شکل بنائی ہی نہیں تھی اس نے
نقش تجسیم ہوئے جان کنی کے کیسے
آ ہمیں دیکھ کہ ہم تیرے ستم پروردہ
کاٹ آئے ہیں سفر تیرہ شبی کے کیسے
بس یہی بات سمجھ میں نہیں آتی اپنی
جو کسی کا بھی نہیں ہم ہیں اسی کے کیسے
آنکھ کہ چیرتی جاتی تھی ستاروں کے جگر
موسم آئے ہوئے ہیں دیدہ وری کے کیسے
کجکلاہوں سے لڑائی ہے ازل سے اپنی
دوست ہو سکتے ہیں ہم لوگ کجی کے کیسے
ہم چٹانوں کے جگر کاٹنے والے منصور
سیکھ بیٹھے ہیں ہنر شیشہ گری کے کیسے
منصور آفاق

شاید یہ زندگی کی جادو گری ہے خواب

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 134
بہتی بہار سپنا، چلتی ندی ہے خواب
شاید یہ زندگی کی جادو گری ہے خواب
ایسا نہ ہو کہ کوئی دروازہ توڑ دے
رکھ آؤ گھر سے باہر بہتر یہی ہے خواب
تُو نے بدل لیا ہے چہرہ تو کیا کروں
میری وہی ہیں آنکھیں میرا وہی ہے خواب
میں لکھ رہا ہوں جس کی کرنوں کے سبز گیت
وہ خوبرو زمانہ شاید ابھی ہے خواب
ہر سمت سے وہ آئے قوسِ قزح کے ساتھ
لگتا ہے آسماں کی بارہ دری ہے خواب
اس کے لیے ہیں آنکھیں اس کے لیے ہے نیند
جس میں دکھائی دوں میں وہ روشنی ہے خواب
دل نے مکانِ جاں تو دہکا دیا مگر
اْس لمسِ اخگری کی آتش زنی ہے خواب
اک شخص جا رہا ہے اپنے خدا کے پاس
دیکھو زمانے والو! کیا دیدنی ہے خواب
تجھ سے جدائی کیسی ، تجھ سے کہاں فراق
تیرا مکان دل ہے تیری گلی ہے خواب
سورج ہیں مانتا ہوں اس کی نگاہ میں
لیکن شبِ سیہ کی چارہ گری ہے خواب
امکان کا دریچہ میں بند کیا کروں
چشمِ فریب خوردہ پھر بُن رہی ہے خواب
رک جا یہیں گلی میں پیچھے درخت کے
تجھ میں کسی مکاں کی کھڑکی کھلی ہے، خواب
منصور وہ خزاں ہے عہدِ بہار میں
ہنستی ہوئی کلی کی تصویر بھی ہے خواب
منصور آفاق