ٹیگ کے محفوظات: گریبان

ہے دستِ فتنہ اور گریبانِ فتنہ ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 226
کیوں غم کریں جو شہر میں طوفانِ فتنہ ہے
ہے دستِ فتنہ اور گریبانِ فتنہ ہے
درمانِ فتنہ کے لئے ہے سر بہ جیب کیوں
فتنی اٹھا کہ فتنی ہی درمانِ فتنہ ہے
لب وا ہوئے کہ فتنہ فضا تا فضا پڑا
یہ جنبشِ نفس ہے کہ طغیانِ فتنہ ہے
بےجان ہیں یہ سارے بدن ہائے رقصِ شب
ہائے وہ اک بدن جو بدن جانِ فتنہ ہے
مت جا قریب پاسِ نشیب و فراز ہے
یہ پہلوئے فساد ہے، پستانِ فتنہ ہے
بھاگ اپنے سائے سے کہ بنایا گیا ہے یہ
سائے میں ایک پرتوِ پنہانِ فتنہ ہے
اس کے بدن میں کیسے اماں مل گئی تجھے
جو تشنگی کی جان ہے، جانانِ فتنہ ہے
آثار تک نہیں کسی فتنے کے دور تک
فارغ نہ بیٹھو کہ یہی آنِ فتنہ ہے
نکلا بھی جونؔ وقت پہ سورج گیا بھی ڈوب
آں سوئے کہکشاں کوئی سامانِ فتنہ ہے
جون ایلیا

تُو میری جانِ جاں سو مری جان الوداع

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 54
راس آ نہیں سکا کوئی بھی پیمان الوداع
تُو میری جانِ جاں سو مری جان الوداع
میں تیرے ساتھ بُجھ نہ سکا حد گزر گئی
اے شمع! میں ہوں تجھ سے پشیمان الوداع
میں جا رہا ہوں اپنے بیابانِ حال میں
دامان الوداع! گریبان الوداع
اِک رودِ ناشناس میں ہے ڈوبنا مجھے
سو اے کنارِ رود ، بیابان الوداع
خود اپنی اک متاعِ زبوں رہ گیا ہوں میں
سو الوداع، اے مرے سامان الوداع
سہنا تو اک سزا تھی مرادِ محال کی
اب ہم نہ مل سکیں گے ، میاں جان الوداع
اے شام گاہِ صحنِ ملالِ ہمیشگی
کیا جانے کیا تھی تری ہر اک آن ، الوداع
کِس کِس کو ہے علاقہ یہاں اپنے غیر سے
انسان ہوں میں ، تُو بھی ہے انسان الوداع
نسبت کسی بھی شہہ سے کسی شے کو یاں نہیں
ہے دل کا ذرہ ذرہ پریشان الوداع
رشتہ مرا کوئی بھی الف ، بے سے اب نہیں
امروہا الوداع سو اے بان الوداع
اب میں نہیں رہا ہوں کسی بھی گمان کا
اے میرے کفر ، اے مرے ایمان الوداع
جون ایلیا

ہو گر شریف مکہ مسلمان ہی نہیں

دیوان اول غزل 306
جو حیدری نہیں اسے ایمان ہی نہیں
ہو گر شریف مکہ مسلمان ہی نہیں
وہ ترک صید پیشہ مرا قصد کیا کرے
دبلے پنے سے تن میں مرے جان ہی نہیں
خال و خط ایسے فتنے نگاہیں یہ آفتیں
کچھ اک بلا وہ زلف پریشان ہی نہیں
ہیں جزو خاک ہم تو غبار ضعیف سے
سر کھینچنے کا ہم کنے سامان ہی نہیں
دیکھی ہو جس نے صورت دلکش وہ ایک آن
پھر صبر اس سے ہو سکے امکان ہی نہیں
خورشید و ماہ و گل سبھی اودھر رہے ہیں دیکھ
اس چہرے کا اک آئینہ حیران ہی نہیں
یکساں ہے تیرے آگے جو دل اور آرسی
کیا خوب و زشت کی تجھے پہچان ہی نہیں
سجدہ اس آستاں کا نہ جس کے ہوا نصیب
وہ اپنے اعتقاد میں انسان ہی نہیں
کیا تجھ کو بھی جنوں تھا کہ جامے میں تیرے میر
سب کچھ بجا ہے ایک گریبان ہی نہیں
میر تقی میر

بھیج دے کیوں نہ زلیخا اسے کنعان کے بیچ

دیوان اول غزل 191
فائدہ مصر میں یوسفؑ رہے زندان کے بیچ
بھیج دے کیوں نہ زلیخا اسے کنعان کے بیچ
تو نہ تھا مردن دشوار میں عاشق کے آہ
حسرتیں کتنی گرہ تھیں رمق اک جان کے بیچ
چشم بد دور کہ کچھ رنگ ہے اب گریہ پر
خون جھمکے ہے پڑا دیدئہ گریان کے بیچ
حال گلزار زمانہ کا ہے جیسے کہ شفق
رنگ کچھ اور ہی ہوجائے ہے اک آن کے بیچ
تاک کی چھائوں میں جوں مست پڑے سوتے ہوں
اینڈتی ہیں نگہیں سایۂ مژگان کے بیچ
جی لیا بوسۂ رخسار مخطط دے کر
عاقبت ان نے ہمیں زہر دیا پان کے بیچ
دعوی خوش دہنی اس سے اسی منھ پر گل
سر تو ٹک ڈال کے دیکھ اپنے گریبان کے بیچ
کرتے ململ کے پہن آتے تو ہو رندوں میں
شیخ صاحب نہ کہیں جفتے پڑیں شان کے بیچ
کان رکھ رکھ کے بہت درد دل میر کو تم
سنتے تو ہو پہ کہیں درد نہ ہو کان کے بیچ
میر تقی میر

یاد وہ بھی نہیں آتا ہے پریشان جو ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 173
کچھ نہ کچھ بھول تو ہوجاتی ہے انسان جو ہیں
یاد وہ بھی نہیں آتا ہے پریشان جو ہیں
صرف اتنا کہ بڑی چیز ہے ملنا دل کا
ہم کوئی بات سمجھتے نہیں ناداں جو ہیں
رونقِ شہر سے مایوس نہ ہو بانوئے شہر
خاک اڑانے کو ترے بے سرو سامان جو ہیں
خیر دُنیا مری وحشت کے لیے تنگ سہی
اور یہ عرصۂ باطن میں بیابان جو ہیں
اے شبِ دربدری آنکھ میں روشن کیا ہے
کچھ ستارے کہ سرِ مطلعِ امکان جو ہیں
اگلے موسم میں ہماری کوئی پہچان تو ہو
ان کو محفوظ رکھیں تارِ گریبان جو ہیں
رات کی رات فقیروں کی بھی دلداری کر
دائم آباد زمیں، ہم ترے مہمان جو ہیں
عرفان صدیقی

میرے لہو نے سب سر و سامان کر دیا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 64
زرتاب ترا قریۂ ویران کر دیا
میرے لہو نے سب سر و سامان کر دیا
اس بار یوں ہوا کہ اندھیروں کی فوج کو
دو چار جگنوؤں نے پریشان کر دیا
کمزور طائروں کو لہو کی ترنگ نے
شاہیں بچوں سے دست و گریبان کر دیا
دست ستم کا دل پہ کوئی بس نہ چل سکا
تھوڑا سا مریے جسم کا نقصان کر دیا
سینے پہ نیزہ، پشت پہ دیوار سنگ تھی
تنگ آکے ہم نے جنگ کا اعلان کر دیا
وہ آفتیں پڑیں کہ خدا یاد آگیا
ان حادثوں نے مجھ کو مسلمان کر دیا
وہ درد ہے کہ دل سے نکلتا نہیں سو آج
ہم نے سپرد خانہ بہ مہمان کر دیا
عرفانؔ ، بزم بادہ و گل تھی زمین شعر
تم نے تو اس کو حشر کا میدان کر دیا
عرفان صدیقی