جون ایلیا ۔ غزل نمبر 226
کیوں غم کریں جو شہر میں طوفانِ فتنہ ہے
ہے دستِ فتنہ اور گریبانِ فتنہ ہے
درمانِ فتنہ کے لئے ہے سر بہ جیب کیوں
فتنی اٹھا کہ فتنی ہی درمانِ فتنہ ہے
لب وا ہوئے کہ فتنہ فضا تا فضا پڑا
یہ جنبشِ نفس ہے کہ طغیانِ فتنہ ہے
بےجان ہیں یہ سارے بدن ہائے رقصِ شب
ہائے وہ اک بدن جو بدن جانِ فتنہ ہے
مت جا قریب پاسِ نشیب و فراز ہے
یہ پہلوئے فساد ہے، پستانِ فتنہ ہے
بھاگ اپنے سائے سے کہ بنایا گیا ہے یہ
سائے میں ایک پرتوِ پنہانِ فتنہ ہے
اس کے بدن میں کیسے اماں مل گئی تجھے
جو تشنگی کی جان ہے، جانانِ فتنہ ہے
آثار تک نہیں کسی فتنے کے دور تک
فارغ نہ بیٹھو کہ یہی آنِ فتنہ ہے
نکلا بھی جونؔ وقت پہ سورج گیا بھی ڈوب
آں سوئے کہکشاں کوئی سامانِ فتنہ ہے
جون ایلیا