ٹیگ کے محفوظات: گرفتاروں

ہم جو عاشق ہیں سو ٹھہرے ہیں گنہگاروں میں

دیوان چہارم غزل 1461
اب ہوسناک ہی مردم ہیں ترے یاروں میں
ہم جو عاشق ہیں سو ٹھہرے ہیں گنہگاروں میں
کوچۂ یار تو ہے غیرت فردوس ولے
آدمی ایک نہیں اس کے ہواداروں میں
ہوکے بدحال محبت میں کھنچے آخرکار
لوگ اچھے تھے بہت یار کے بیماروں میں
جی گیا ایک دم سرد ہی کے ساتھ اپنا
ہم جو خوش زمزمہ تھے اس کے گرفتاروں میں
اب در باز بیاباں میں قدم رکھیے میر
کب تلک تنگ رہیں شہر کی دیواروں میں
میر تقی میر

پگڑی جامے بکے جس کے لیے بازاروں میں

دیوان دوم غزل 883
آپ اس جنس کے ہیں ہم بھی خریداروں میں
پگڑی جامے بکے جس کے لیے بازاروں میں
باغ فردوس کا ہے رشک وہ کوچہ لیکن
آدمی ایک نہیں اس کے ہواداروں میں
ایک کے بھی وہ برے حال میں آیا نہ کبھو
لوگ اچھے تھے بہت یار کے بیماروں میں
دوستی کس سے ہوئی آنکھ کہاں جاکے لڑی
دشمنی آئی جسے دیکھتے ہی یاروں میں
ہائے رے ہاتھ جہاں چوٹ پڑی دو ہی کیا
الغرض ایک ہے وہ شوخ ستمگاروں میں
کشمکش جس کے لیے یہ ہے شمار دم یہ
ان نے ہم کو نہ گنا اپنے گرفتاروں میں
کیسی کیسی ہے عناصر میں بھی صورت بازی
شعبدے لاکھوں طرح کے ہیں انھیں چاروں میں
مشفقو ہاتھ مرے باندھو کہ اب کے ہر دم
جا الجھتے ہیں گریبان کے دو تاروں میں
حسب قسمت سبھوں نے کھائے تری تیغ کے زخم
ناکس اک نکلے ہمیں خوں کے سزاواروں میں
اضطراب و قلق و ضعف ہیں گر میر یہی
زندگی ہو چکی تو اپنی ان آزاروں میں
میر تقی میر

تو سراپا ناز ہے میں ناز برداروں میں ہوں

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 26
یہ تو میں کیونکر کہوں تیرے خریداروں میں ہوں
تو سراپا ناز ہے میں ناز برداروں میں ہوں
وصل کیسا تیرے نادیدہ خریداروں میں ہوں
واہ رے قسمت کہ اس پر بھی گناہ گاروں میں ہوں
ناتوانی سے ہے طاقت ناز اٹھانے کی کہاں
کہہ سکوں گ کیونکر کہ تیرے ناز برداروں میں ہوں
ہائے رے غفلت نہیں ہے آج تک اتنی خبر
کون ہے مطلوب میں کس کے طلب گاروں میں ہوں
دل جگر دونوں کی لاشیں ہجر میں ہیں سامنے
میں کبھی اس کے کبھی اس کے عزا داروں میں ہوں
وقت آرائش پہن کر طوق بولا وہ حسین
اب وہ آزادی کہاں ہے میں بھی گرفتاروں میں ہوں
آ چکا تھا رحم اس کو سن کے میری بے کسی
درد ظالم بول اٹھا میں اس کے غم خواروں میں ہوں
پھول میں پھولوں میں ہوں، کانٹا ہوں کانٹوں میں امیر
یار میں یاروں میں ہوں، عیار ، عیاروں میں ہوں
امیر مینائی