ٹیگ کے محفوظات: گار

بس اک نگاہِ کرم کا اُمیدوار ہوں میں

تمھارے عشق میں مجبور و بے قرار ہوں میں
بس اک نگاہِ کرم کا اُمیدوار ہوں میں
مسرّتیں ہیں زمانے کو، اور الَم مجھ کو
کسی نرالے مصوّر کا شاہکار ہوں میں
کسی کی شانِ کریمی کی لاج رہ تو گئی
گُنَہ نہ کرنے کا بے شک گناہ گار ہوں میں
ستم ظریفیِ دوراں، ارے معاذ اللہ
گُلوں کی طرح سے اک قلبِ داغ دار ہوں میں
تری نگاہِ کرم نے شگفتگی دے دی
وگرنہ دیر کی اُجڑی ہوئی بہار ہوں میں
چلے بھی آئیں خدارا کہ وقتِ آخر ہے
ازل سے آپ کی تصویرِ انتظار ہوں میں
نہ جانے لوگ مجھے کیوں شکیبؔ کہتے ہیں
کسی کی یاد میں ہر وقت بے قرار ہوں میں
شکیب جلالی

ہم اہلِ حرف لگاتار خواب دیکھتے ہیں

یہ بات اور کہ بے کار خواب دیکھتے ہیں
ہم اہلِ حرف لگاتار خواب دیکھتے ہیں
ہمارے خواب کبھی ٹوٹ ہی نہیں سکتے
کہ ہم تو پہلے سے مسمار خواب دیکھتے ہیں
ہم اور شب یونہی اک خواب پر نثار رکریں
سو حسبِ خواہش و معیار خواب دیکھتے ہیں
تمہارے خیمے تمہاری ہی ذمؔہ داری ہیں
نگاہ دار و عمل دار خواب دیکھتے ہیں
گمان تک نہ ہو جس پر سِوا حقیقت کے
ہم ایسے کامل و تیار خواب دیکھتے ہیں
امید و رنج کے رشتے کی سب ہمیں ہے سمجھ
سو جان بوجھ کے دشوار خواب دیکھتے ہیں
درندگی کا تماشا تو روز ہوتا ہے
یہ رنج چھوڑ، چل آ یار، خواب دیکھتے ہیں
یہ خود اذیؔتی شامل سرشت میں ہے سو ہم
بہ صد اذیؔت و آزار خواب دیکھتے ہیں
ہم ایسے لوگ ہمیشہ ہی ٹوٹتے ہیں میاں
ہم ایسے لوگ گراں بار خواب دیکھتے ہیں
پھر اِس کے بعد ابد تک عدم ہے، صرف عدم
ابھی وجود کے دوچار خواب دیکھتے ہیں
تھکا ہُوا ہے بدن، رات ہے، سو بستر سے
ہٹاؤ یاد کا انبار، خواب دیکھتے ہیں
ہمیں تباہ کیا صرف اِس نصیحت نے
کہ آگہی کے طلب گار خواب دیکھتے ہیں
تمہیں ہے کس لیے پرخاش ہم فقیروں سے
جو بے نیاز و سروکار خواب دیکھتے ہیں
ہے اپنی نیند بہت قیمتی کہ ہم عرفان
بہت ہی نادر و شہکار خواب دیکھتے ہیں
عرفان ستار

کہ دم بہ دم ہے بہاروں کا انتظار ہمیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
چمن پہ ہے تو بس اِتنا سا اختیار ہمیں
کہ دم بہ دم ہے بہاروں کا انتظار ہمیں
مچلتی لُو کا فلک سے برستے ژالوں کا
نہ جانے کون سا موسم ہو ساز گار ہمیں
ہر اِک قدم پہ وہی تجربہ سکندر سا
کسی بھی خضر پہ کیا آئے اعتبار ہمیں
ذرا سا سر جو اٹھا بھی تو سیل آلے گا
یہی خبر ہے سُنائے جو، اِنکسار ہمیں
مہک تلک نہ ہماری کسی پہ کھُلنے دے
کِیا سیاستِ درباں نے یوں شکار ہمیں
جو نقش چھوڑ چلے ہم اُنہی کے ناطے سے
عزیز، جان سے جانیں گے تاجدار ہمیں
بپا جو ہو بھی تو ہو بعدِ زندگی ماجد
یہ حشر کیا ہے جلائے جو، بار بار ہمیں
ماجد صدیقی

عشق کو حسن ساز گار نہیں

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 82
دل انھیں کیا دیا قرار نہیں
عشق کو حسن ساز گار نہیں
دل کے اوپر نگاہِ یار نہیں
تیر منت کشِ شکار نہیں
اب انھیں انتظار ہے میرا
جب مجھے ان کا انتظار نہیں
شکوۂ بزمِ غیر ان سے عبث
اب انھیں اپنا اعتبار نہیں
منتظرِ شام کے رہو نہ قمر
ان کے آنے کا اعتبار نہیں
قمر جلالوی

ایک ہنگامہ ہے اے یار ترے کوچے میں

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 75
روز خوں ہوتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
ایک ہنگامہ ہے اے یار ترے کوچے میں
فرشِ رہ ہیں جو دل افگار ترے کوچے میں
خاک ہو رونقِ گلزار ترے کوچے میں
سرفروش آتے ہیں اے یار ترے کوچے میں
گرم ہے موت کا بازار ترے کوچے میں
شعر بس اب نہ کہوں گا کہ کوئی پڑھتا تھا
اپنے حالی مرے اشعار ترے کوچے میں
نہ ملا ہم کو کبھی تیری گلی میں آرام
نہ ہوا ہم پہ جز آزار ترے کوچے میں
ملک الموت کے گھر کا تھا ارادہ اپنا
لے گیا شوقِ غلط کار ترے کوچے میں
تو ہے اور غیر کے گھر جلوہ طرازی کی ہوس
ہم ہیں اور حسرتِ دیدار ترے کوچے میں
ہم بھی وارستہ مزاجی کے ہیں اپنی قائل
خلد میں روح، تنِ زار ترے کوچے میں
کیا تجاہل سے یہ کہتا ہے "کہاں رہتے ہو؟”
ترے کوچے میں ستم گار! ترے کوچے میں
شیفتہ ایک نہ آیا تو نہ آیا کیا ہے
روز آ رہتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
مصطفٰی خان شیفتہ

عبث محفل آرائے رفتار ہیں ہم

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 135
رسیدن گلِ باغ واماندگی ہے
عبث محفل آرائے رفتار ہیں ہم
تماشائے گلشن تماشائے چیدن
بہار آفرینا! گنہ گار ہیں ہم
نہ ذوقِ گریباں، نہ پروائے داماں
نگاہ آشنائے گل و خار ہیں ہم
اسدؔ شکوہ کفرِ دعا ناسپاسی
ہجومِ تمنّا سے لاچار ہیں ہم
مرزا اسد اللہ خان غالب

ہے بے خبری اس کو خبردار رہو تم

دیوان سوم غزل 1170
میر آج وہ بدمست ہے ہشیار رہو تم
ہے بے خبری اس کو خبردار رہو تم
جی جائے کسی کا کہ رہے تم کو قسم ہے
مقدور تلک درپئے آزار رہو تم
وہ محو جمال اپنی ہی پروا نہیں اس کو
خواہاں رہو تم اب کہ طلب گار رہو تم
اس معنی کے ادراک سے حیرت ہی ہے حاصل
آئینہ نمط صورت دیوار رہو تم
یک بار ہوا دل کی تسلی کا وہ باعث
یہ کیا کہ اسی طور پہ ہر بار رہو تم
ہو لطف اسی کا تو کوئی کام کو پہنچے
تسبیح گلے ڈال کے زنار رہو تم
کیا میر بری چال سے جینے کی چلے ہے
بہتر ہے کہ اپنے تئیں اب مار رہو تم
میر تقی میر

دل کہاں وقت کہاں عمر کہاں یار کہاں

دیوان دوم غزل 896
باغ گو سبز ہوا اب سر گلزار کہاں
دل کہاں وقت کہاں عمر کہاں یار کہاں
تم تو اب آنے کو پھر کہہ چلے ہو کل لیکن
بے کل ایسا ہی رہا شب تو یہ بیمار کہاں
دل کی خواہش ہو کسو کو تو کمی دل کی نہیں
اب یہی جنس بہت ہے پہ خریدار کہاں
خاک یاں چھانتے ہی کیوں نہ پھرو دل کے لیے
ایسا پہنچے ہے بہم پھر کوئی غم خوار کہاں
دم زدن مصلحت وقت نہیں اے ہمدم
جی میں کیا کیا ہے مرے پر لب اظہار کہاں
شیخ کے آنے ہی کی دیر ہے میخانے میں پھر
سبحہ سجادہ کہاں جبہ و دستار کہاں
ہم سے ناکس تو بہت پھرتے ہیں جی دیتے ولے
زخم تیغ اس کے اٹھانے کا سزاوار کہاں
تونے بھی گرد رخ سرخ نکالا خط سبز
باغ شاداب جہاں میں گل بے خار کہاں
خبط نے عقل کے سر رشتے کیے گم سارے
اب جو ڈھونڈو تو گریباں میں کوئی تار کہاں
گوکہ گردن تئیں یاں کوئی لہو میں بیٹھے
ہاتھ اٹھاتا ہے جفا سے وہ ستم گار کہاں
ڈوبا لوہو میں پڑا تھا ہمگی پیکر میر
یہ نہ جانا کہ لگی ظلم کی تلوار کہاں
میر تقی میر

تری رہ میں کرتے تھے سر طلب ، سرِ رہگزار چلے گئے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 20
ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے
تری رہ میں کرتے تھے سر طلب ، سرِ رہگزار چلے گئے
تری کج ادائی سے ہار کے شبِ انتظار چلی گئی
مرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر مرے غم گسار چلے گئے
نہ سوالِ وصل ، نہ عرضِ غم ، نہ حکایتیں نہ شکایتیں
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے
یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی
یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے
نہ رہا جنونِ رُخِ وفا، یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے
فیض احمد فیض

ہے بوسہ زن بہار محمدﷺ کے نام پر

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 168
تہذیب کانکھار محمدﷺ کے نام پر
ہے بوسہ زن بہار محمدﷺ کے نام پر
بے عیب شاہکار ہے ربِ کریم کا
نقطہ بھی ناگوار محمدﷺ کے نام پر
لمحے اسی کے فیض کی زندہ امانتیں
یہ روز وشب نثار محمدﷺ کے نام پر
چودہ سو سال سے گل و گلزار کے تمام
موسم ہیں ساز گار محمدﷺ کے نام پر
ذرے ہوں مہر و ماہ اسی اسم کے طفیل
ذی حس ہوں ذی وقار محمدﷺ کے نام پر
منصور ان کے نام پہ مرنا عروجِ بخت
قرباں میں بار بار محمدﷺ کے نام پر
منصور آفاق

دیکھا نہ مگر اس نے ہمارا گل و گلزار

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 5
کچھ زخم دھنک خیز ہیں کچھ زخم لہو بار
دیکھا نہ مگر اس نے ہمارا گل و گلزار
کیا مانگنے آ سکتے ہیں پھر تیری گلی میں
ہم آخرِ شب، آخری سگریٹ کے طلب گار
یہ فلسفہ ہے یا کہ خرابی ہے خرد کی
ہونے سے بھی انکار ، نہ ہونے سے بھی انکار
اک زاویہ در زاویہ جذبوں کی ریاضی
اک لمس بھری قوسِ قزح ، بسترِ بیدار
رکھ ہاتھ نہ زانو پہ اے دہکے ہوئے موسم
اس وقت زیادہ ہے بہت کار کی رفتار
نازک ہے بہت، داغ نہ پڑ جائیں بدن پر
اُس حسنِ گنہ خیز کو مسواک سے مت مار
آنکھوں سے لپکتے ہیں یہاں برف کے طوفاں
ہرچند کہ مصنوعی نہیں گرمیِ بازار
بنیاد میں رکھا گیا تھا جس کو مکاں کی
منصور ہوا پھر اسی بھونچال سے مسمار
وحدت کے ازل زار یہ کثرت کے ابد زار
ہم ہی سے دھنک رنگ ہیں ہم ہی سے کرم بار
ہم عالمِ لاہوت کی خوش بخت سحر ہیں
ہم حرکتِ افلاک ہیں ہم ثابت و سیار
ہم حسنِ نزاکت کی چہکتی ہوئی تاریخ
ہم قرطبہ اور تاج محل کے در و دیوار
ہم کاسہء مجذوب ہیں ہم دھجیاں دھج کی
ہم روند کے پاؤں سے نکل آئے ہیں دستار
ہم کُن کی صدا ہیں ہمی لولاک کا نغمہ
ہم وقت کے گنبد ہمی بازیچہء اسرار
ہم لوگ سراپا ہیں کرامت کوئی منصور
ہم قربِ خداوندی کے احساس کا اظہار
منصور آفاق

حادثے کچھ پس دیوار بھی ہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 124
صبح میں شام کے آثار بھی ہیں
حادثے کچھ پس دیوار بھی ہیں
راس آتی نہیں تنہائی بھی
اور ہر شخص سے بیزار بھی ہیں
آزمائش سے بھی جاں جاتی ہے
اور ہم تیرے طلب گار بھی ہیں
پہلے اک دل پہ نظر تھی باقیؔ
سامنے اب کئی بازار بھی ہیں
باقی صدیقی