احمد فراز ۔ غزل نمبر 110
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیںبہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے
جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے
اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے
احمد فراز