ٹیگ کے محفوظات: گئے

ظلمت میں اور ڈوب گئے بستیوں کے لوگ

جب بھی چراغ لے کے اٹھے بستیوں کے لوگ
ظلمت میں اور ڈوب گئے بستیوں کے لوگ
جنگل جلے تو ان کو خبر تک نہ ہوسکی
چھائی گھٹا تو جُھوم اٹھے بستیوں کے لوگ
پُروا چلی تو اور سلگنے لگے بدن،
پل بھر بھی رات سو نہ سکے بستیوں کے لوگ
بپھرے ہوئے بھنور نے سفینہ نگل لیا
ساحل سے دیکھتے ہی رہے بستیوں کے لوگ
خوشبو کی اِک لپٹ پہ کِھنچے آرہے تھے ہم
کانٹوں کے ہار لے کر بڑھے بستیوں کے لوگ
بھٹکے ہوئے غریب مسافر پہ، اے شکیبؔ
رَہ زَن سمجھ کے ٹوٹ پڑے بستیوں کے لوگ
شکیب جلالی

شکم کی پرورش میں دیکھیئے مجرم ہوئے ہم بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
طلب پر مُنصفوں کی لو، عدالت میں چلے ہم بھی
شکم کی پرورش میں دیکھیئے مجرم ہوئے ہم بھی
بس اِتنی سی خطا پر، کھوجتے ہیں رزق کیوں اپنا
نگاہوں میں خداوندوں کی کیا کیا کچھ گرے ہم بھی
رگڑتے ایڑیاں، عزّت کی روزی تک پہنچنے میں
نہیں کیا کیا کہیں روکے، کہیں نوچے گئے ہم بھی
پرندوں سا یہ بّچے پالنا بھی، عیب ٹھہرا ہے
بنائیں دشت میں جا کر کہیں اَب گھونسلے ہم بھی
کہیں بے روزگاری پر وظیفے، اور کہیں دیکھو
یہ ہم جو خود کماؤُ ہیں، گئے ہیں دھر لئے ہم بھی
اَب اِس سے بڑھ کے ماجدؔ اور دوزخ دیکھنا کیسا
کہ ادراکِ حقائق سے نہیں کیا کچھ جلے ہم بھی
ماجد صدیقی

دل کو بے چین کر گئے نغمے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
لب پہ آئے، بکھر گئے نغمے
دل کو بے چین کر گئے نغمے
جنبشِ لب سے وا ہوئے غنچے
صورتِ گل نکھر گئے نغمے
دُور تک تیرا ساتھ قائم تھا
دُور تک ہم سفر گئے نغمے
دھڑکنوں کی زباں سے نکلے تھے
پتّھروں تک بکھر گئے نغمے
اُڑ گئے جیسے اوس کے ہمراہ
تھے جو ماجدؔ سحر سحر نغمے
ماجد صدیقی

فرد فرد

تعلق کو نبھانے کے بہت دُکھ سہہ چکے ہم
سو باقی عمر اپنے ساتھ رہنا چاہتے ہیں
ایک ملال تو ہونے کا ہے، ایک نہ ہونے کا غم ہے
شہرِ وجود سے بابِ عدم تک، ایک سا ہُو کا عالم ہے
تحیر خیز موجیں ہیں نہ پُر ہیبت تلاطم
عجب اک بے تغیر بے کرانی رہ گئی ہے
تکمیل تو زوال کا پہلا پڑائو ہے
خود کو اسی سبب سے مکمل نہیں کیا
بے رنگ ترے در سے کب، خاک بسر اٹھے
یا پیراہنِ گُل میں، یا خون میں تر اٹھے
چلے آئے ہیں آنکھوں میں کسی کا عکس پا کر
یہ آنسو آج پھر کوئی تماشا چاہتے ہیں
جس دن سے روزگار کو سب کچھ سمجھ لیا
راتیں خراب ہو گئیں اور دن سنور گئے
کچھ آنکھ بھی ہے سطح سے آگے کی کھوج میں
کچھ دل بھی اک خیال میں ڈوبا ہوا سا ہے
بے رونقی سے کوچہ و بازار بھر گئے
آوارگانِ شہر کہاں جا کے مر گئے
ہمیں بھی سودا کہاں تھا ایسا کہ اپنے دل میں ملا ل رکھتے
اگر تُو اپنا خیال رکھتا تو ہم بھی اپنا خیال رکھتے
بہارِ جاں سے تجھے باریاب کر دیں گے
نظر اٹھائیں گے چہرہ گلاب کر دیں گے
خیالِ ترکِ تعلق جو ہو، تو مل لینا
کسی دعا کو ترا ہم رکاب کر دیں گے
اک عکس کھو گیا ہے مرے دن کے پیچ میں
اک خواب میری رات سے الجھا ہوا ساہے
قدم جما نہ سکا رہگزارِ وقت پہ میں
میں اک اُچٹتا سا لمحہ، مری کہانی کیا
زندگی ہم سے ہی روشن ہے یہ آئینہ ترا
ہم جو مشّاطۂ وحشت کے سنوارے ہوئے ہیں
بڑھ کے آغوش میں بھر لے ہمیں اے روحِ وصال
آج ہم پیرہنِ خاک اتارے ہوئے ہیں
متفرق اشعار
عرفان ستار

فرد فرد

متفرق اشعار
خُوشبو بتا رہی ہے کہ وہ راستے میں ہے
موجِ ہَوا کے ہاتھ میں اس کا سُراغ ہے

ہمیں خبر ہے ،ہَوا کا مزاج رکھتے ہو
مگر یہ کیا ، کہ ذرا دیر کو رُکے بھی نہیں

تو بدلتا ہے تو بے ساختہ میری آنکھیں
میرے ہاتھوں کی لکیروں سے اُلجھ جاتی ہیں

میں جب بھی چاہوں ، اُسے چھُو کے دیکھ سکتی ہوں
مگر وہ شخص کہ لگتا ہے اب بھی خواب ایسا

ہمارے عہد میں شاعر کے نرخ کیوں نہ بڑھیں
امیرِ شہر کو لاحق ہُوئی سخن فہمی

گھر کی ویرانی کی دوست
دیواروں پر اُگتی گھاس

حال پوُچھا تھا اُس نے ابھی
اور آنسو رواں ہو گئے

لو! میں آنکھیں بند کیے لیتی ہوں ، اب تم رخصت ہو
دل تو جانے کیا کہتا ہے،لیکن دل کا کہنا کیا
پروین شاکر

وہ سب سمے جو ترے دھیان سے نہیں گزرے

مجید امجد ۔ غزل نمبر 68
کبھی تو سوچ، ترے سامنے نہیں گزرے
وہ سب سمے جو ترے دھیان سے نہیں گزرے
یہ اور بات کہ ہوں ان کے درمیاں میں بھی
یہ واقعے کسی تقریب سے نہیں گزرے
ان آئینوں میں جلے ہیں ہزارعکسِ عدم
دوامِ درد، ترے رتجگے نہیں گزرے
سپردگی میں بھی اک رمزِ خود نگہ داری
وہ میرے دِل سے مرے واسطے نہیں گزرے
بکھرتی لہروں کے ساتھ ان دنوں کے تنکے بھی تھے
جو دل میں بہتے ہوئے رک گئے، نہیں گزرے
انھیں حقیقتِ دریا کی کیا خبر امجد
جو اپنی روح کی منجدھار سے نہیں گزرے
مجید امجد

پھر اس کے بعد کسی دن بدل گئے ہم بھی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 472
اسے بدلتے ہوئے دیکھتے رہے ہم بھی
پھر اس کے بعد کسی دن بدل گئے ہم بھی
اکیلے رہنے کی عادت نہ تھی سو عرصے تک
بغیر اس کے پریشاں بہت رہے ہم بھی
سمیٹ رکھے تھے بارش کے اشک پتوں نے
کچھ ایسا پارک کا موسم تھا رو پڑے ہم بھی
لپیٹ رکھی ہے پت چھڑ کی شال برسوں سے
کبھی بہارمیں ہوتے ہرے بھرے ہم بھی
قریب ہوتے گئے ایک خالی رستے پر
ملول وہ بھی بہت تھی اداس تھے ہم بھی
اسے بھی نیند سے شاید کوئی عداوت تھی
پرانے جاگنے والے تھے رات کے ہم بھی
وہ آتے جاتے ہمیں دیکھنے لگی منصور
پھر اس کے بارے میں کچھ سوچنے لگے ہم بھی
منصور آفاق

تری گلی سے جو نکلے تو پھر رہے نہ کہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 403
کسی کے جسم سے مل کر کبھی بہے نہ کہیں
تری گلی سے جو نکلے تو پھر رہے نہ کہیں
عجیب رابطہ اپنے وجود رکھتے تھے
نکل کے تجھ سے تو خود میں بھی ہم رہے نہ کہیں
اسے تو پردے کے پیچھے بھی خوف ہے کہ مری
نظر نقاب پہ چہرہ لکیر لے نہ کہیں
بس اس خیال سے منزل پہن لی پاؤں نے
ہمارے غم میں زمانہ سفر کرے نہ کہیں
تمام عمر نہ دیکھا بری نظر سے اسے
یہ سوچتے ہوئے دنیا برا کہے نہ کہیں
اے آسمان! ذرا دیکھنا کہ دوزخ میں
گرے پڑے ہوں زمیں کے مراسلے نہ کہیں
ڈرا دیا کسی خودکُش خیال نے اتنا
ٹکٹ خرید رکھے تھے مگر گئے نہ کہیں
کئی دنوں سے اداسی ہے اپنے پہلو میں
ہمارے بیچ چلے آئیں دوسرے نہ کہیں
ہر اک مقام پہ بہکی ضرور ہیں نظریں
تری گلی کے علاوہ قدم رکے نہ کہیں
ہم اپنی اپنی جگہ پر سہی اکائی ہیں
ندی کے دونوں کنارے کبھی ملے نہ کہیں
ترے جمال پہ حق ہی نہیں تھا سو ہم نے
کیے گلاب کے پھولوں پہ تبصرے نہ کہیں
کبھی کبھار ملاقات خود سے ہوتی ہے
تعلقات کے پہلے سے سلسلے نہ کہیں
ہر ایک آنکھ ہمیں کھینچتی تھی پانی میں
بھلا یہ کیسے تھا ممکن کہ ڈوبتے نہ کہیں
اداس چاندنی ہم سے کہیں زیادہ تھی
کھلے دریچے ترے انتظار کے نہ کہیں
بس ایک زندہ سخن کی ہمیں تمنا ہے
بنائے ہم نے کتابوں کے مقبرے نہ کہیں
بدن کو راس کچھ اتنی ہے بے گھری اپنی
کئی رہائشیں آئیں مگر رہے نہ کہیں
دھواں اتار بدن میں حشیش کا منصور
یہ غم کا بھیڑیا سینہ ہی چیر دے نہ کہیں
منصور آفاق

کچھ پرانے ہیں کچھ نئے ہیں سانپ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 244
آستیں سے نکل پڑے ہیں سانپ
کچھ پرانے ہیں کچھ نئے ہیں سانپ
آ رہی ہیں جو اونی بھیڑیں ہیں
جا رہے ہیں جو وہ راستے ہیں سانپ
ہم لکیروں کو پیٹنے والے
جا رہے ہیں جہاں گئے ہیں سانپ
آسماں سے پہن کے تیرا روپ
دیکھ قوسِ قزح گرے ہیں سانپ
میرے پہلو میں جو پنپتے ہیں
یہ ترے انتظار کے ہیں سانپ
چل رہے ہیں سنپولیے ہمراہ
ہم بھی محسوس ہو رہے ہیں سانپ
شہر میں محترم نہیں ہم لوگ
صاحبِ عز و جہ ہوئے ہیں سانپ
اپنے جیون کی شاخِ جنت پر
موسم آیا تو کھل اٹھے ہیں سانپ
لالہ و گل کے روپ میں منصور
زندگی میں کئی ملے ہیں سانپ
منصور آفاق

کیسے وہ پھر رہی ہے جدا مجھ سے بے سبب

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 135
شاید وہ مانگتی ہے ملن کے نئے سبب
کیسے وہ پھر رہی ہے جدا مجھ سے بے سبب
کچھ اس کے کار ہائے نمایاں بھی کم نہیں
دل نے بھی کچھ بگاڑے ہیں بنتے ہوئے سبب
روشن ہے میرے صحن میں امید کا درخت
پچھلی گلی میں جلتے ہوئے بلب کے سبب
دیکھی کبھی نہیں تھیں یہ گلیاں بہار کی
جب چل پڑا تو راہ میں بنتے گئے سبب
کیا کیا نکالتی ہو بہانے لڑائی کے
آنسو کبھی سبب تو کبھی قہقہے سبب
منصور اتفاق سے ملتی ہیں منزلیں
بے رہروی کبھی تو کبھی راستے سبب
منصور آفاق