ٹیگ کے محفوظات: کے

شہر کی سیر کے لیے نکلا

پاؤں میں آبلے لیے نکلا
شہر کی سیر کے لیے نکلا
گھپ اندھیرا تھا اور اک جگنو
نور کے قافلے لیے نکلا
ڈھل گئی انتظار کی ظلمت
آج سورج کسے لیے نکلا
گھومتی کائنات میں یاؔور
پاؤں کے دائرے لیے نکلا
یاور ماجد

مجھ سے مجھ ہی میں ڈھل کے بات کرو

رُخ ہَوا کا بدل کے بات کرو
مجھ سے مجھ ہی میں ڈھل کے بات کرو
تم اگر "میں ” ہو، کچھ ثبوت بھی دو
آئینے سے نکل کے بات کرو
حشر میں حُسنِ کُل کا سامنا ہے
تم مرے ساتھ چل کے بات کرو
دل تو چاہا کہ پھَٹ پڑوں غم پر
عقل بولی سنبھل کے بات کرو
کبھی دیکھو تَو مِل کے ضامنؔ سے
دیکھنا کیا ہے بلکہ بات کرو
ضامن جعفری

جی میں ہیں کیسے کیسے پھول

ہنستے گاتے روتے پھول
جی میں ہیں کیسے کیسے پھول
اور بہت کیا کرنے ہیں
کافی ہیں یہ تھوڑے پھول
وقت کی پھلواری میں نہیں
دامن میں ہیں اَیسے پھول
اس دھرتی کی رَونق ہیں
میرے کانٹے تیرے پھول
کیسے اندھے ہیں وہ ہاتھ
جن ہاتھوں نے توڑے پھول
اُن پیاسوں پر میرا سلام
جن کی خاک سے نکلے پھول
ایک ہری کونپل کے لیے
میں نے چھوڑے کتنے پھول
اُونچے اُونچے لمبے پیڑ
ساوے پتے پیلے پھول
مٹی ہی سے نکلے تھے
مٹی ہو گئے سارے پھول
مٹی کی خوشبو لینے
نیل گگن سے اُترے پھول
چادر اوڑھ کے شبنم کی
نکلے آنکھیں ملتے پھول
شام ہوئی اب گلیوں میں
دیکھو چلتے پھرتے پھول
سونا جسم سفید قمیص
گورے ہاتھ سنہرے پھول
کچی عمریں کچے رنگ
ہنس مکھ بھولے بھالے پھول
آنکھ آنکھ میں بھیگی نیند
ہونٹ ہونٹ سے جھڑتے پھول
گورے گورے ننگے پیر
جھلمل جھلمل کرتے پھول
جیسا بدن ویسا ہی لباس
جیسی مٹی وَیسے پھول
مہک اُٹھی پھر دل کی کتاب
یاد آئے یہ کب کے پھول
شام کے تارے تو ہی بتا
آج کدھر سے گزرے پھول
کانٹے چھوڑ گئی آندھی
لے گئی اچھے اچھے پھول
دھیان میں پھرتے ہیں ناصر
اچھی آنکھوں والے پھول
ناصر کاظمی

ترا دل گداز ہو کس طرح یہ ترے مزاج کی لے نہیں

تو اسیرِ بزم ہے ہم سخن تجھے ذوقِ نالہِ نے نہیں
ترا دل گداز ہو کس طرح یہ ترے مزاج کی لے نہیں
ترا ہر کمال ہے ظاہری ترا ہر خیال ہے سرسری
کوئی دل کی بات کروں تو کیا ترے دل میں آگ تو ہے نہیں
جسے سن کے رُوح مہک اُٹھے جسے پی کے درد چہک اُٹھے
ترے ساز میں وہ صدا نہیں ترے میکدے میں وہ مے نہیں
کہاں اب وہ موسمِ رنگ و بو کہ رگوں میں بول اُٹھے لہو
یونہی ناگوار چبھن سی ہے کہ جو شاملِ رگ وپے نہیں
ترا دل ہو درد سے آشنا تو یہ نالہ غور سے سن ذرا
بڑا جاں گسل ہے یہ واقعہ یہ فسانہِ جم و کے نہیں
میں ہوں ایک شاعرِ بے نوا مجھے کون چاہے مرے سوا
میں امیرِ شام و عجم نہیں میں کبیرِ کوفہ و رَے نہیں
یہی شعر ہیں مری سلطنت اِسی فن میں ہے مجھے عافیت
مرے کاسہِ شب و روز میں ترے کام کی کوئی شے نہیں
ناصر کاظمی

ذرا ملال نہ ہو تُو نہ گَر کہے کچھ بھی

ہمارے ساتھ زمانہ کیا کرے کچھ بھی
ذرا ملال نہ ہو تُو نہ گَر کہے کچھ بھی
وہ اور وقت تھے جب انتخاب ممکن تھا
کریں گے اہلِ ہُنر کام اب ملے کچھ بھی
نہیں ہے وقت مِرے پاس ہر کسی کے لیے
مری بَلا سے وہ ہوتے ہوں آپ کے کچھ بھی
جو میرا حق ہے مجھے وہ تو دیجیے صاحب
طلب کیا نہیں میں نے جناب سے کچھ بھی
ذرا سی بات پہ تیرا یہ حال ہے باصرِؔ
ابھی تو میں نے بتایا نہیں تجھے کچھ بھی
باصر کاظمی

دشت دشت گھومیے آبلے شکاریے

استخارہ کیجیے راستے شکاریے
دشت دشت گھومیے آبلے شکاریے
دل پہ حکمرانی کا ایک ہی طریقہ ہے
مسکرا کے ماریے، مار کے شکاریے
روک ٹوک ہوتی ہے، روک ٹوک چھوڑیے
ہونٹ کاٹ کھائیے، ذائقے شکاریے
احترام کاہے کا، احتیاط کس لیے؟
خودغرض خداؤں کو ہانکیے، شکاریے
جانے کتنے سال سے منتظر ہوں باخدا
ہاتھ پاؤں باندھیے، آئیے شکاریے!!
کوئی فائدہ نہیں حجتی! لڑائی کا
بحث کو سمیٹیے! فاصلے شکاریے
افتخار فلک

کرتے بھی کیا اور کہ سہہ گئے سینہ تان کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 94
برسے دِل پر تیر جو تیر تھے کڑی کمان کے
کرتے بھی کیا اور کہ سہہ گئے سینہ تان کے
جُڑتے ہیں کب دوستو جھڑتے پتّے شاخ سے
کیا کر لیں گے آپ بھی حال ہمارا جان کے
پھیلے دام نہ دیکھ کر آہو ہوئے اسیر جو
نکلے ہونگے دشت میں جی میں کیا کچھ ٹھان کے
لب پر ڈیرے آہ کے بکھرے تار نگاہ کے
کیسے ہوئے ملول ہیں ہم بھی دیکھو آن کے
دل سے اٹُھے درد کو ممکن تھا کب روکنا
ٹپکے آخر آنکھ سے چھالے مری زبان کے
نرم خرامی ابر سی، دریاؤں سا زور بھی
کیا کیا کچھ انداز ہیں ماجدؔ ترے بیان کے
ماجد صدیقی

کچھ آگ بھری ہوئی ہے نے میں

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 73
کچھ درد ہے مطربوں کی لے میں
کچھ آگ بھری ہوئی ہے نے میں
کچھ زہر اگل رہی ہے بلبل
کچھ زہر ملا ہوا مے میں
بدمست جہان ہو رہا ہے
ہے یار کی بو ہر ایک شے میں
ہیں ایک ہی گل کی سب بہاریں
فروردیں میں اور فصلِ دَے میں
ہے مستئ نیم خام کا ڈر
اصرار ہے جامِ پے بہ پے میں
مے خانہ نشیں قدم نہ رکھیں
بزمِ جم و بارگاہِ کے میں
اب تک زندہ ہے نام واں کا
گزرا ہے حسین ایک جے میں
ہوتی نہیں طے حکایتِ طے
گزرا ہے کریم ایک طے میں
کچھ شیفتہ یہ غزل ہے آفت
کچھ درد ہے مطربوں کی لے میں
مصطفٰی خان شیفتہ

اس کی گلی کا ساکن ہرگز ادھر نہ جھانکے

دیوان دوم غزل 987
خوبی کی اپنی جنت کیسی ہی ڈینگیں ہانکے
اس کی گلی کا ساکن ہرگز ادھر نہ جھانکے
ایک ایک بات اوپر ہیں پیچ و تاب سو سو
رہتے نہیں ہیں سیدھے یہ لونڈے ٹیڑھے بانکے
سر کو اس آستاں پر رکھے رہیں تو بہتر
اٹھیے جو اس کے در سے تو ہوجیے کہاں کے
گردش سے روسیہ کی کیا کیا بلائیں آئیں
جانے ہی کے ہیں لچھن سارے اس آسماں کے
مشتاق ہم جو ایسے سو ہم ہی سے ہے پردہ
جب اس طرف سے نکلے تب منھ کو اپنے ڈھانکے
ہے پرغبار عالم جانا ہی یاں سے اچھا
اس خاکداں میں رہ کر کیا کوئی خاک پھانکے
کل باغ میں گئے تھے روئے چمن چمن ہم
کچھ سرو میں جو پائے انداز اس جواں کے
جاناں کی رہ سے آنکھیں جس تس کی لگ رہی ہیں
رفتہ ہیں لوگ سارے ان پائوں کے نشاں کے
خمیازہ کش رہے ہے اے میر شوق سے تو
سینے کے زخم کے کہہ کیونکر رہیں گے ٹانکے
میر تقی میر

دور ایک بانسری پہ یہ دھن: ’پھر کب آؤ گے؟‘

مجید امجد ۔ غزل نمبر 189
صبحوں کی وادیوں میں گلوں کے پڑاؤ تھے
دور ایک بانسری پہ یہ دھن: ’پھر کب آؤ گے؟‘
اک بات رہ گئی کہ جو دل میں نہ لب پہ تھی
اس اک سخن کے وقت کے سینے پہ گھاؤ تھے
کھلتی کلی کھلی کسی تاکید سے نہیں
ان سے وہ ربط ہے جو الگ ہے لگاؤ سے
عیب اپنی خوبیوں کے چنے اپنے غیب میں
جب کھنکھنائے قہقہوں میں من گھناؤنے
کاغذ کے پانیوں سے جو ابھرے تو دور تک
پتھر کی ایک لہر پہ تختے تھے ناؤ کے
کیا رو تھی جو نشیبِ افق سے مری طرف
تیری پلٹ پلٹ کے ندی کے بہاؤ سے
امجد جہاں بھی ہوں میں، سب اس کے دیار ہیں
کنجن سہاؤنے ہوں کہ جھنگڑ ڈوراؤنے
مجید امجد

پھر اس کے بعد کسی دن بدل گئے ہم بھی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 472
اسے بدلتے ہوئے دیکھتے رہے ہم بھی
پھر اس کے بعد کسی دن بدل گئے ہم بھی
اکیلے رہنے کی عادت نہ تھی سو عرصے تک
بغیر اس کے پریشاں بہت رہے ہم بھی
سمیٹ رکھے تھے بارش کے اشک پتوں نے
کچھ ایسا پارک کا موسم تھا رو پڑے ہم بھی
لپیٹ رکھی ہے پت چھڑ کی شال برسوں سے
کبھی بہارمیں ہوتے ہرے بھرے ہم بھی
قریب ہوتے گئے ایک خالی رستے پر
ملول وہ بھی بہت تھی اداس تھے ہم بھی
اسے بھی نیند سے شاید کوئی عداوت تھی
پرانے جاگنے والے تھے رات کے ہم بھی
وہ آتے جاتے ہمیں دیکھنے لگی منصور
پھر اس کے بارے میں کچھ سوچنے لگے ہم بھی
منصور آفاق

تری گلی سے جو نکلے تو پھر رہے نہ کہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 403
کسی کے جسم سے مل کر کبھی بہے نہ کہیں
تری گلی سے جو نکلے تو پھر رہے نہ کہیں
عجیب رابطہ اپنے وجود رکھتے تھے
نکل کے تجھ سے تو خود میں بھی ہم رہے نہ کہیں
اسے تو پردے کے پیچھے بھی خوف ہے کہ مری
نظر نقاب پہ چہرہ لکیر لے نہ کہیں
بس اس خیال سے منزل پہن لی پاؤں نے
ہمارے غم میں زمانہ سفر کرے نہ کہیں
تمام عمر نہ دیکھا بری نظر سے اسے
یہ سوچتے ہوئے دنیا برا کہے نہ کہیں
اے آسمان! ذرا دیکھنا کہ دوزخ میں
گرے پڑے ہوں زمیں کے مراسلے نہ کہیں
ڈرا دیا کسی خودکُش خیال نے اتنا
ٹکٹ خرید رکھے تھے مگر گئے نہ کہیں
کئی دنوں سے اداسی ہے اپنے پہلو میں
ہمارے بیچ چلے آئیں دوسرے نہ کہیں
ہر اک مقام پہ بہکی ضرور ہیں نظریں
تری گلی کے علاوہ قدم رکے نہ کہیں
ہم اپنی اپنی جگہ پر سہی اکائی ہیں
ندی کے دونوں کنارے کبھی ملے نہ کہیں
ترے جمال پہ حق ہی نہیں تھا سو ہم نے
کیے گلاب کے پھولوں پہ تبصرے نہ کہیں
کبھی کبھار ملاقات خود سے ہوتی ہے
تعلقات کے پہلے سے سلسلے نہ کہیں
ہر ایک آنکھ ہمیں کھینچتی تھی پانی میں
بھلا یہ کیسے تھا ممکن کہ ڈوبتے نہ کہیں
اداس چاندنی ہم سے کہیں زیادہ تھی
کھلے دریچے ترے انتظار کے نہ کہیں
بس ایک زندہ سخن کی ہمیں تمنا ہے
بنائے ہم نے کتابوں کے مقبرے نہ کہیں
بدن کو راس کچھ اتنی ہے بے گھری اپنی
کئی رہائشیں آئیں مگر رہے نہ کہیں
دھواں اتار بدن میں حشیش کا منصور
یہ غم کا بھیڑیا سینہ ہی چیر دے نہ کہیں
منصور آفاق

عمر کی جیپ کے ٹائر تلے آئے ہوئے ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 382
جسم پر نقش گئے وقت کے آئے ہوئے ہیں
عمر کی جیپ کے ٹائر تلے آئے ہوئے ہیں
ہم سمجھتے ہیں بہت، لہجے کی تلخی کو مگر
تیرے کمرے میں کسی کام سے آئے ہوئے ہیں
دیکھ مت بھیج یہ میسج ہمیں موبائل پر
ہم کہیں دور بہت روٹھ کے آئے ہوئے ہیں
ہم نہیں جانتے روبوٹ سے کچھ وصل وصال
ہم ترے چاند پہ شاید نئے آئے ہوئے ہیں
پھر پگھلنے کو ہے بستی کوئی ایٹم بم سے
وقت کی آنکھ میں کچھ سانحے آئے ہوئے ہیں
ڈھونڈنے کے لیے گلیوں میں کوئی عرش نشیں
تیرے جیسے تو فلک سے بڑے آئے ہوئے ہیں
ہم سے چرواہوں کو تہذیب سکھانے کے لیے
دشت میں شہر سے کچھ بھیڑیے آئے ہوئے ہیں
کیا کریں اپنی رندھی ، زرد ، فسردہ آواز
غول کے غول یہاں بھونکنے آئے ہوئے ہیں
تجھ سے کچھ لینا نہیں ، دیکھ ! پریشان نہ ہو
ہم یہاں گزری رتیں دیکھنے آئے ہوئے ہیں
تھوڑی تھوڑی سی خوشی بانٹنے والے شاید
کوئی تبدیلی بڑی روکنے آئے ہوئے ہیں
اتنا کافی ہے تجھے بات سمجھنے کیلئے
ہم یہاں آئے نہیں ہیں بھلے آئے ہوئے ہیں
ہم محبت کے کھلاڑی ہیں سنوکر کے نہیں
کھیل منصور یونہی کھیلنے آئے ہوئے ہیں
منصور آفاق

ایک چہرے کے پسِ منظر میں چہرے سینکڑوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 274
پل صراطِ آسماں پر چل رہے تھے سینکڑوں
ایک چہرے کے پسِ منظر میں چہرے سینکڑوں
جمع ہیں نازل شدہ انوار کتنے شیلف میں
معجزے حاصل ہوئے لا حاصلی کے سینکڑوں
چاند پہ ٹھہرو، کرو اپنے ستارے پر قیام
رات رہنے کے لیے سورج پہ خیمے سینکڑوں
صفر سے پہلا عدد معلوم ہونا ہے ابھی
ہیں ریاضی میں ابھی موجود ہندسے سینکڑوں
میں کہاں لاہور بھر میں ڈھونڈنے جاؤں اسے
لال جیکٹ میں حسین ملبوس ہوں گے سینکڑوں
شہر کی ویراں سڑک پر میں اکیلا رتجگا
سو رہے ہیں اپنی شب گاہوں میں جوڑے سینکڑوں
مال و زر، نام و نسب، حسن و ادا، دوشیزگی
میں بڑا بے نام سا، تیرے حوالے سینکڑوں
کیوں بھٹکتی پھر رہی ہے میرے پتواروں کی چاپ
خامشی ! تیرے سمندر کے کنارے سینکڑوں
کوئی بھی آیا نہیں چل کر گلی کے موڑ تک
دیکھنے والوں نے کھولے ہیں دریچے سینکڑوں
منصور آفاق

کچھ پرانے ہیں کچھ نئے ہیں سانپ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 244
آستیں سے نکل پڑے ہیں سانپ
کچھ پرانے ہیں کچھ نئے ہیں سانپ
آ رہی ہیں جو اونی بھیڑیں ہیں
جا رہے ہیں جو وہ راستے ہیں سانپ
ہم لکیروں کو پیٹنے والے
جا رہے ہیں جہاں گئے ہیں سانپ
آسماں سے پہن کے تیرا روپ
دیکھ قوسِ قزح گرے ہیں سانپ
میرے پہلو میں جو پنپتے ہیں
یہ ترے انتظار کے ہیں سانپ
چل رہے ہیں سنپولیے ہمراہ
ہم بھی محسوس ہو رہے ہیں سانپ
شہر میں محترم نہیں ہم لوگ
صاحبِ عز و جہ ہوئے ہیں سانپ
اپنے جیون کی شاخِ جنت پر
موسم آیا تو کھل اٹھے ہیں سانپ
لالہ و گل کے روپ میں منصور
زندگی میں کئی ملے ہیں سانپ
منصور آفاق

کیسے وہ پھر رہی ہے جدا مجھ سے بے سبب

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 135
شاید وہ مانگتی ہے ملن کے نئے سبب
کیسے وہ پھر رہی ہے جدا مجھ سے بے سبب
کچھ اس کے کار ہائے نمایاں بھی کم نہیں
دل نے بھی کچھ بگاڑے ہیں بنتے ہوئے سبب
روشن ہے میرے صحن میں امید کا درخت
پچھلی گلی میں جلتے ہوئے بلب کے سبب
دیکھی کبھی نہیں تھیں یہ گلیاں بہار کی
جب چل پڑا تو راہ میں بنتے گئے سبب
کیا کیا نکالتی ہو بہانے لڑائی کے
آنسو کبھی سبب تو کبھی قہقہے سبب
منصور اتفاق سے ملتی ہیں منزلیں
بے رہروی کبھی تو کبھی راستے سبب
منصور آفاق