ٹیگ کے محفوظات: کیسا

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کررہے ہیں

غموں میں کچھ کمی یا کچھ اضافہ کر رہے ہیں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کررہے ہیں
جو آتا ہے نظر میں اُس کو لے آتے ہیں دل میں
نئی ترکیب سے ہم خود کو تنہا کررہے ہیں
نظر کرتے ہیں یوں جیسے بچھڑنے کی گھڑی ہو
سخن کرتے ہیں ایسے جیسے گریہ کررہے ہیں
تمہارے ہی تعلق سے تو ہم ہیں اس بدن میں
تمہارے ہی لیے تو یہ تماشا کررہے ہیں
زوال آمادگی اب گونجتی ہے دھڑکنوں میں
سو دل سے خواہشوں کا بوجھ ہلکا کررہے ہیں
سخن تم سے ہو یا احباب سے یا اپنے دل سے
یہی لگتا ہے ہم ہر بات بے جا کررہے ہیں
تمہاری آرزو ہونے سے پہلے بھی تو ہم تھے
سو جیسے بن پڑے اب بھی گزارا کررہے ہیں
ذرا پوچھے کوئی معدوم ہوتے ان دکھوں سے
ہمیں کس کے بھروسے پر اکیلا کررہے ہیں
ہمیں روکے ہوئے ہے پاسِ ناموسِ محبت
یہ مت سمجھو کہ ہم دنیا کی پروا کررہے ہیں
بجز سینہ خراشی کچھ نہیں آتا ہے لیکن
ذرا دیکھو تو ہم یہ کام کیسا کررہے ہیں
ہمیں اس کام کی مشکل کا اندازہ ہے صاحب
بڑے عرصے سے ہم بھی ترکِ دنیا کررہے ہیں
جو ہو گی صبح تو تقسیم ہوجائیں گے پھر ہم
ڈھلی ہے شام تو خود کو اکھٹا کررہے ہیں
جنوں سے اتنا دیرینہ تعلق توڑ دیں گے؟
ارے توبہ کریں عرفان، یہ کیا کررہے ہیں؟
عرفان ستار

میں اک پاؤں پہ پورا ناچتا ہوں

پکڑ کر ہاتھ تیرا ناچتا ہوں
میں اک پاؤں پہ پورا ناچتا ہوں
خدائےحسن کو چھونے سے پہلے
میں کمرے میں اکیلا ناچتا ہوں
فرشتے آسماں سے جھانکتے ہیں
میں رنج و غم میں ایسا ناچتا ہوں
خدا جانے میں کتنا تھک چکا ہوں؟
خدا جانے میں کیسا ناچتا ہوں؟؟
مرا بھی ذکر محفل میں ہوا تھا
تو کیا اب میں بھی اچھا ناچتا ہوں!!!
افتخار فلک

بھیڑیوں کی دھاڑ سے ہے دشت بھر دِبکا لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
ذِی نفس جو بھی ہے اُس کو جان کا کھٹکا لگا
بھیڑیوں کی دھاڑ سے ہے دشت بھر دِبکا لگا
اِس طرح کرنے سے اُٹّھے گی عمارت اور بھی
سرفرازی چاہیے تو اور بھی پیسا لگا
جان لے اخلاق سے ہٹ کر بھی کچھ آداب ہیں
مختصر یہ ہے کہ جتنا ہو سکے مسکا لگا
نرخ اِس یوسف کے اَنٹی سے بھی ارزاں ہو گئے
آدمی ہی جس طرف دیکھا ہمیں سستا لگا
لُو چلی تو، وہ کہ منکر تندیِ موسم کے تھے
چیخنا اُن کا ہم اہلِ دل کو بھی اچّھا لگا
کر کے اک قتلِ مسلسل سے ہمیں دو چار وہ
پُوچھتا ہے وار خنجر کا کہو، کیسا لگا
دیکھ کر دھندلا گیا جس کو بدکتا چاند بھی
اب کے یوں روئے سحر ماجد ہے کچھ اُترا لگا
ماجد صدیقی

تھی طلب کس کو مگر ابر کہاں جا برسا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 10
تپتے صحراؤں پہ گرجا، سرِ دریا برسا
تھی طلب کس کو مگر ابر کہاں جا برسا
کتنے طوفانوں کی حامل تھی لہو کی اک بوند
دل میں اک لہر اٹھی، آنکھ سے دریا برسا
کوئی غرقاب، کوئی ماہیِ بے آب ہوا
ابرِ بے فیض جو برسا بھی تو کیسا برسا
چڑھتے دریاؤں میں طوفان اٹھانے والے
چند بوندیں ہی سرِ دامنِ صحرا برسا
طنز ہیں سوختہ جانوں پہ گرجتے بادل
یا تو گھنگھور گھٹائیں نہ اٹھا، یا برسا
ابر و باراں کے خدا، جھومتا بادل نہ سہی
آگ ہی اب سرِ گلزارِ تمنا برسا
اپنی قسمت کہ گھٹاؤں میں بھی جلتے ہیں فراز
اور جہاں وہ ہیں وہاں ابر کا سایہ برسا
احمد فراز

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کررہے ہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 47
غموں میں کچھ کمی یا کچھ اضافہ کر رہے ہیں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کررہے ہیں
جو آتا ہے نظر میں اُس کو لے آتے ہیں دل میں
نئی ترکیب سے ہم خود کو تنہا کررہے ہیں
نظر کرتے ہیں یوں جیسے بچھڑنے کی گھڑی ہو
سخن کرتے ہیں ایسے جیسے گریہ کررہے ہیں
تمہارے ہی تعلق سے تو ہم ہیں اس بدن میں
تمہارے ہی لیے تو یہ تماشا کررہے ہیں
زوال آمادگی اب گونجتی ہے دھڑکنوں میں
سو دل سے خواہشوں کا بوجھ ہلکا کررہے ہیں
سخن تم سے ہو یا احباب سے یا اپنے دل سے
یہی لگتا ہے ہم ہر بات بے جا کررہے ہیں
تمہاری آرزو ہونے سے پہلے بھی تو ہم تھے
سو جیسے بن پڑے اب بھی گزارا کررہے ہیں
ذرا پوچھے کوئی معدوم ہوتے ان دکھوں سے
ہمیں کس کے بھروسے پر اکیلا کررہے ہیں
ہمیں روکے ہوئے ہے پاسِ ناموسِ محبت
یہ مت سمجھو کہ ہم دنیا کی پروا کررہے ہیں
بجز سینہ خراشی کچھ نہیں آتا ہے لیکن
ذرا دیکھو تو ہم یہ کام کیسا کررہے ہیں
ہمیں اس کام کی مشکل کا اندازہ ہے صاحب
بڑے عرصے سے ہم بھی ترکِ دنیا کررہے ہیں
جو ہو گی صبح تو تقسیم ہوجائیں گے پھر ہم
ڈھلی ہے شام تو خود کو اکھٹا کررہے ہیں
جنوں سے اتنا دیرینہ تعلق توڑ دیں گے؟
ارے توبہ کریں عرفان، یہ کیا کررہے ہیں؟
عرفان ستار

چپ ہیں کچھ کہہ سکتے نہیں پر جی میں ہمارے کیا کیا ہے

دیوان چہارم غزل 1521
خواہش دل کی کس سے کہیے محرم تو ناپیدا ہے
چپ ہیں کچھ کہہ سکتے نہیں پر جی میں ہمارے کیا کیا ہے
ہیں متوقع پرسش اس کے ہم جو گرے ہیں بستر پر
رہنا اس بدحالی ہی سے اپنے حق میں اچھا ہے
میر جی کی بیماری دل کو کب سے ہم سب سنتے ہیں
پوچھے کوئی مزاج کو اس کے ان روزوں میں کیسا ہے
میر تقی میر

ہے مزاجوں میں اپنے سودا کچھ

دیوان دوم غزل 943
کھینچتا ہے دلوں کو صحرا کچھ
ہے مزاجوں میں اپنے سودا کچھ
دل نہیں جمع چشم تر سے اب
پھیلتا سا چلا یہ دریا کچھ
شہر میں حشر کیوں نہ برپا ہو
شور ہے میرے سر میں کیسا کچھ
ویسے ظاہر کا لطف ہے چھپنا
کم تماشا نہیں یہ پردہ کچھ
خلق کی کیا سمجھ میں وہ آیا
آپ سے تو گیا نہ سمجھا کچھ
یاس سے مجھ کو بھی ہو استغنا
گو نہ ہو اس کو میری پروا کچھ
کچھ نہ دیکھا تھا ہم نے پر تو بھی
آنکھ میں آئی ہی نہ دنیا کچھ
اب تو بگڑے ہی جاتے ہیں خوباں
رنگ صحبت نہیں ہے اچھا کچھ
کچھ کہو دور ہے بہت وہ شوخ
اپنے نزدیک تو نہ ٹھہرا کچھ
وصل اس کا خدا نصیب کرے
میر دل چاہتا ہے کیا کیا کچھ
میر تقی میر

توانائی کا منھ دیکھا نہیں ان نے کہ کیسا ہے

دیوان اول غزل 518
ترا اے ناتوانی جو کوئی عالم میں رسوا ہے
توانائی کا منھ دیکھا نہیں ان نے کہ کیسا ہے
نیاز ناتواں کیا ناز سرو قد سے بر آوے
مثل مشہور ہے یہ تو کہ دست زور بالا ہے
ابھی اک عمر رونا ہے نہ کھوئو اشک آنکھو تم
کرو کچھ سوجھتا اپنا تو بہتر ہے کہ دنیا ہے
کیا اے سایۂ دیوار تونے مجھ سے رو پنہاں
مرے اب دھوپ میں جلنے ہی کا آثار پیدا ہے
بھلے کو اپنے سب دوڑے ہیں یہ اپنا برا چاہے
چلن اس دل کا تم دیکھو تو دنیا سے نرالا ہے
رہو ٹک دور ہی پھرنے دو کوچوں میں مجھے لڑکو
کروگے تنگ اسے تم اور تو نزدیک صحرا ہے
گلہ سن پیچش کاکل کا مجھ سے یوں لگا کہنے
تو اپنی فصد کر جلدی کہ تجھ کو میر سودا ہے
میر تقی میر

اک جیون ہار ڈر سا ہے ترے دل کے لیے

مجید امجد ۔ غزل نمبر 50
ان گنت امروں میں اور کیا ہے ترے دل کے لیے
اک جیون ہار ڈر سا ہے ترے دل کے لیے
رک کے اس دھارے میں کچھ سوچ اک یہ اچھا سا خیال
جو ترے حق میں ہے، کیسا ہے ترے دل کے لیے
اپنے جی میں جی، مگر اس یاد سے غافل نہ جی
جو کسی کے دل میں زندہ ہے ترے دل کے لیے
سب ضمیروں کے ثمر ہیں، پستیاں، سچائیاں
جانے تیرے ذہن میں کیا ہے ترے دل کے لیے
والہانہ رابطوں میں جبر کے پہلو بھی دیکھ
جو بھی دل ہے ایک پنجرا ہے ترے دل کے لیے
تو کہ اپنے ساتھ ہے اپنے بدن کے واسطے
کوئی تیرے ساتھ تنہا ہے ترے دل کے لیے
تیری پلکیں جھک گئیں امجد دیے جب یوں جلے
جانے کس کا ذکر چمکا ہے ترے دل کے لیے
مجید امجد