دیوان ششم غزل 1838
عشق کیا ہے اس گل کا یا آفت لائے سرپرہم
جھانکتے اس کو ساتھ صباکے صبح پھریں ہیں گھر گھر ہم
روز و شب کو اپنے یارب کیونکے کریں گے روزوشب
ہاتھ رکھے رہتے ہیں دل پر بیتابی میں اکثر ہم
پوچھتے راہ شکستہ دل کی جا نکلے تھے کعبے میں
سوچ وہاں تو گذرا جی میں آئے کدھر سے کیدھر ہم
شام سے کرتا منزل آکر گھر کو ہمارے صدر نشیں
رکھتے ستارہ اس مہ وش کی چاہ میں گربد اختر ہم
برسوں خس و خاشاک پہ سوئے مدت گلخن تابی کی
بخت نہ جاگے جو اس سے ہوں ایک بھی شب ہم بستر ہم
روز بتر ہے حالت عشقی جیسے ہوں بیمار اجل
ہے نہ دوا نے کوئی معالج کیونکر ہوں گے بہتر ہم
اس کی جناب سے رحمت ہو تو جی بچتا ہے دنیا میں
اس جانب سے تو بیٹھے ہیں مرنا کرکے مقرر ہم
اب تو ہماری طرف سے اتنا دل کو پتھر مت کریو
سختی سے ایام کی اب تک جیتے رہے ہیں مرمرہم
آہ معیشت روز و شب کی ساتھ اندوہ کے ٹھہری ہے
روتے کڑھتے رہا کرتے ہیں غم سے ہوئے ہیں خوگر ہم
شعلہ ایک اٹھا تھا دل سے آہ عالم سوز کا میر
ڈھیری ہوئی ہے خاکستر کی جیسی شب میں جل کر ہم
میر تقی میر