ٹیگ کے محفوظات: کیا

پتھر بدن، صبا کی ادا کاٹتی رہی

مجھ کو مرے چمن کی فضا کاٹتی رہی
پتھر بدن، صبا کی ادا کاٹتی رہی
عُمرِ اُداس صدیوں سے کیا کاٹتی رہی
پیہم سفر، سفر سے سوا کاٹتی رہی
میری بصارتیں تو مرے دل میں تھیں نہاں
اشکوں کی دھار! تُو بھی یہ کیا کاٹتی رہی؟
اظہار کے جنوں نے نہ جینے کبھی دیا
اک پھانس تھی الگ، جو گلا کاٹتی رہی
آتے ہوئے زمانوں سے جب گفتگو ہوئی
میری ہر ایک بات ہوا کاٹتی رہی
آنسو نے میرے کتنے گگن رنگ سے بھرے
اک بوند ہر کرن کا گلا کاٹتی رہی
صدیوں سے میَں نہ کاٹ سکا عمرِ ناتمام
اِک پل کی عمر مُجھ کو سدا کاٹتی رہی
تکمیل کی طلب نے ادھورا کیا مجھے
لکھا ہر ایک شعر مرا کاٹتی رہی
یاور ماجد

خود کو اتنا سمجھ کے بھول گئے

اک معمّا سمجھ کے بھول گئے
خود کو اتنا سمجھ کے بھول گئے
مرنے والے جہانِ رنگیں کو
اک تماشا سمجھ کے بھول گئے
میری آنکھوں کی التجاؤں کو
آپ شکوہ سمجھ کے بھول گئے
یاد، میری بلا کرے ان کو
وہ مجھے کیا سمجھ کے بھول گئے!
یوں تو غیروں پہ بھی عنایت ہے
مجھ کو اپنا سمجھ کے بھول گئے
بے سہارا سمجھ کے یاد کیا
رسمِ دنیا سمجھ کے بھول گئے
ان کا بخشا ہوا الم بھی، شکیبؔ
لطفِ بے جا سمجھ کے بھول گئے
شکیب جلالی

رہتا ہے اپنے نور میں سورج چُھپا ہُوا

وہ سامنے تھا پھر بھی کہاں سامنا ہُوا
رہتا ہے اپنے نور میں سورج چُھپا ہُوا
اے روشنی کی لہر‘ کبھی تو پلٹ کے آ
تجھ کو بُلا رہا ہے دریچہ کُھلا ہُوا
سیراب کس طرح ہو زمیں دور دور کی
ساحل نے ہے ندی کو مقیّد کیا ہُوا
اے دوست! چشمِ شوق نے دیکھا ہے بارہا
بجلی سے تیرا نام گھٹا پر لکھا ہُوا
پہچانتے نہیں اسے محفل میں دوست بھی
چہرہ ہو جس کا گردِ اَلَم سے اَٹا ہُوا
اس دَور میں خلوص کا کیا کام اے شکیبؔ
کیوں کر چلے! بساط پہ مہرہ پِٹا ہُوا
شکیب جلالی

کاش میں پیڑوں کا سایہ ہوتا

جلتے صحراؤں میں پھیلا ہوتا
کاش میں پیڑوں کا سایہ ہوتا
تو جو اس راہ سے گزرا ہوتا
تیرا ملبوس بھی کالا ہوتا
میں گھٹا ہوں، نہ پَون ہوں، نہ چراغ
ہم نشیں میرا کوئی کیا ہوتا
زخم عریاں تو نہ دیکھے کوئی
میں نے کچھ بھیس ہی بدلا ہوتا
کیوں سفینے میں چھپاتا دریا
گر تجھے پار اترنا ہوتا
بن میں بھی ساتھ گئے ہیں سائے
میں کسی جا تو اکیلا ہوتا
مجھ سے شفّاف ہے سینہ کس کا
چاند اس جھیل میں اترا ہوتا
اور بھی ٹوٹ کے آتی تری یاد
میں جو کچھ دن تجھے بھولا ہوتا
راکھ کر دیتے جلا کر شعلے
یہ دھواں دل میں نہ پھیلا ہوتا
کچھ تو آتا مری باتوں کا جواب
یہ کنواں اور جو گہرا ہوتا
نہ بکھرتا جو فضا میں نغمہ
سینہِ نَے میں تڑپتا ہوتا
اور کچھ دور تو چلتے مرے ساتھ
اور اک موڑ تو کاٹا ہوتا
تھی مقدّر میں خزاں ہی تو شکیبؔ
میں کسی دشت میں مہکا ہوتا
شکیب جلالی

مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
نہ اتنی تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتّا دکھائی دیتا ہے
برا نہ مانیے لوگوں کی عیب جوئی کا
انہیں تو دن کو بھی سایا دکھائی دیتا ہے
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
وہیں پہنچ کے گرائیں گے بادباں اپنے
وہ دور کوئی جزیرہ دکھائی دیتا ہے
وہ الوداع کا منظر، وہ بھیگتی پلکیں
پسِ غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے
مری نگاہ سے چھپ کر کہاں رہے گا کوئی
کہ اب تو سنگ بھی شیشہ دکھائی دیتا ہے
سمٹ کے رہ گئے آخر پہاڑ سے قدم بھی
زمیں سے ہر کوئی اونچا دکھائی دیتا ہے
کھلی ہے دل میں کسی کے بدن کی دھوپ شکیبؔ
ہر ایک پھول سنہرا دکھائی دیتا ہے
شکیب جلالی

مہک اُداسی ہے، بادِ صبا اُداسی ہے

عجب ہے رنگِ چمن، جا بجا اُداسی ہے
مہک اُداسی ہے، بادِ صبا اُداسی ہے
نہیں نہیں، یہ بھلا کس نے کہہ دیا تم سے؟
میں ٹھیک ٹھاک ہوں، ہاں بس ذرا اُداسی ہے
میں مبتلا کبھی ہوتا نہیں اُداسی میں
میں وہ ہوں جس میں کہ خود مبتلا اُداسی ہے
طبیب نے کوئی تفصیل تو بتائی نہیں
بہت جو پوچھا تو اتنا کہا، اُداسی ہے
گدازِ قلب خوشی سے بھلا کسی کو ملا؟
عظیم وصف ہی انسان کا اُداسی ہے
شدید درد کی رو ہے رواں رگِ جاں میں
بلا کا رنج ہے، بے انتہا اُداسی ہے
فراق میں بھی اُداسی بڑے کمال کی تھی
پسِ وصال تو اُس سے سِوا اُداسی ہے
تمہیں ملے جو خزانے، تمہیں مبارک ہوں
مری کمائی تو یہ بے بہا اُداسی ہے
چھپا رہی ہو مگر چھپ نہیں رہی مری جاں
جھلک رہی ہے جو زیرِ قبا اُداسی ہے
مجھے مسائلِ کون و مکاں سے کیا مطلب
مرا تو سب سے بڑا مسئلہ اُداسی ہے
فلک ہے سر پہ اُداسی کی طرح پھیلا ہُوا
زمیں نہیں ہے مرے زیرِ پا، اُداسی ہے
غزل کے بھیس میں آئی ہے آج محرمِ درد
سخن کی اوڑھے ہوئے ہے ردا، اُداسی ہے
عجیب طرح کی حالت ہے میری بے احوال
عجیب طرح کی بے ماجرا اُداسی ہے
وہ کیفِ ہجر میں اب غالباً شریک نہیں
کئی دنوں سے بہت بے مزا اُداسی ہے
وہ کہہ رہے تھے کہ شاعر غضب کا ہے عرفان
ہر ایک شعر میں کیا غم ہے، کیا اُداسی ہے
عرفان ستار

جو تھا، نہیں ہے، اور نہ تھا، ہے، یہ عشق ہے

اپنی خبر، نہ اُس کا پتہ ہے، یہ عشق ہے
جو تھا، نہیں ہے، اور نہ تھا، ہے، یہ عشق ہے
پہلے جو تھا، وہ صرف تمہاری تلاش تھی
لیکن جو تم سے مل کے ہُوا ہے، یہ عشق ہے
تشکیک ہے، نہ جنگ ہے مابینِ عقل و دل
بس یہ یقین ہے کہ خدا ہے، یہ عشق ہے
بے حد خوشی ہے، اور ہے بے انتہا سکون
اب درد ہے، نہ غم، نہ گلہ ہے، یہ عشق ہے
کیا رمز جاننی ہے تجھے اصلِ عشق کی؟
جو تجھ میں اس بدن کے سوا ہے، یہ عشق ہے
شہرت سے تیری خوش جو بہت ہے، یہ ہے خرد
اور یہ جو تجھ میں تجھ سے خفا ہے، یہ عشق ہے
زیرِ قبا جو حسن ہے، وہ حسن ہے خدا
بندِ قبا جو کھول رہا ہے، یہ عشق ہے
ادراک کی کمی ہے سمجھنا اسے مرض
اس کی دعا، نہ اس کی دوا ہے، یہ عشق ہے
شفّاف و صاف، اور لطافت میں بے مثال
سارا وجود آئینہ سا ہے، یہ عشق ہے
یعنی کہ کچھ بھی اُس کے سِوا سوجھتا نہیں؟
ہاں تو جناب، مسئلہ کیا ہے؟ یہ عشق ہے
جو عقل سے بدن کو ملی تھی، وہ تھی ہوس
جو روح کو جنوں سے ملا ہے، یہ عشق ہے
اس میں نہیں ہے دخل کوئی خوف و حرص کا
اس کی جزا، نہ اس کی سزا ہے، یہ عشق ہے
سجدے میں ہے جو محوِ دعا، وہ ہے بے دلی
یہ جو دھمال ڈال رہا ہے، یہ عشق ہے
ہوتااگر کچھ اور تو ہوتا انا پرست
اِس کی رضا شکستِ انا ہے، یہ عشق ہے
عرفان ماننے میں تاٗمل تجھے ہی تھا
میں نے تو یہ ہمیشہ کہا ہے، یہ عشق ہے
عرفان ستار

اب تو بس معلوم کرنا ہے کہ کیا موجود ہے

یہ خبر ہے، مجھ میں کچھ میرے سِوا موجود ہے
اب تو بس معلوم کرنا ہے کہ کیا موجود ہے
ایک میں ہوں، جس کا ہونا ہو کے بھی ثابت نہیں
ایک وہ ہے جو نہ ہو کر جابجا موجود ہے
ہاں خدا ہے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں
اس سے تم یہ مت سمجھ لینا خدا موجود ہے
حل کبھی ہوتا نہیں یہ جسم سے چھوٹے بغیر
میں ابھی زندہ ہوں سو یہ مسئلہ موجود ہے
تاب آنکھیں لا سکیں اُس حسن کی، ممکن نہیں
میں تو حیراں ہوں کہ اب تک آئینہ موجود ہے
رات کٹتی ہے مزے میں چین سے ہوتی ہے صبح
چاندنی موجود ہے بادِ صبا موجود ہے
روشنی سی آرہی ہے اِس طرف چھنتی ہوئی
اور وہ حدۤت بھی جو زیرِ قبا موجود ہے
ایک پل فرصت کہاں دیتے ہیں مجھ کو میرے غم
ایک کو بہلا دیا تو دوسرا موجود ہے
درد کی شدۤت میں بھی چلتی ہے میرے دل کے ساتھ
اک دھڑکتی روشنی جو ہر جگہ موجود ہے
معتبر تو قیس کا قصہ بھی ہے اس ضمن میں
اس حوالے سے مرا بھی واقعہ موجود ہے
خواب میں اک زخم دیکھا تھا بدن پر جس جگہ
صبح دیکھا تو وہاں اک داغ سا موجود ہے
ایک ہی شعلہ سے جلتے آرہے ہیں یہ چراغ
میر سے مجھ تک وہی اک سلسلہ موجود ہے
یوں تو ہے عرفان ہر احساس ہی محدود سا
اک کسک سی ہے کہ جو بے انتہا موجود ہے
عرفان ستار

میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے

مرے خواب سے اوجھل اُس کا چہرہ ہو گیا ہے
میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے
تعلق اب یہاں کم ہے ملاقاتیں زیادہ
ہجومِ شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے
تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی
مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے
جو باغِ آرزو تھا اب وہی ہے دشتِ وحشت
یہ دل کیا ہونے والا تھا مگر کیا ہو گیا ہے
میں سمجھا تھا سیئے گی آگہی چاکِ جنوں کو
مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے
میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے
ترے آنے سے آیا کون سا ایسا تغیر
فقط ترکِ مراسم کا مداوا ہو گیا ہے
مرا عالم اگر پوچھیں تو اُن سے عرض کرنا
کہ جیسا آپ فرماتے تھے ویسا ہو گیا ہے
میں کیا تھا اور کیا ہوں اور کیا ہونا ہے مجھ کو
مرا ہونا تو جیسے اک تماشا ہو گیا ہے
یقینا ہم نے آپس میں کوئی وعدہ کیا تھا
مگر اس گفتگو کو ایک عرصہ ہو گیا ہے
اگرچہ دسترس میں آ گئی ہے ساری دنیا
مگر دل کی طرف بھی ایک در وا ہو گیا ہے
یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن
بقدرِ عمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے
مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز
چلو عرفانؔ اٹھ جاؤ سویرا ہو گیا ہے
عرفان ستار

میری حالت تو کوئی دیکھنے والا سمجھے

جو ہو خود ایک تماشا وہ بھلا کیا سمجھے
میری حالت تو کوئی دیکھنے والا سمجھے
مجھ میں آباد ہے اک شہر، ترے حُسن کا شہر
وہ جو باہر سے مجھے دیکھے وہ تنہا سمجھے
مجھ سے ممکن یہ نہیں ہے کہ میں کھل کر کہہ دوں
اس کے بس میں یہ نہیں ہے کہ اشارہ سمجھے
آہ ایسی، کہ سنے کوئی تو سمجھے نغمہ
اشک ایسا، کوئی دیکھے تو ستارا سمجھے
ٹھیک ہے دشت بھی ہوں، باغ بھی ہوں، دریا بھی
جس کو جیسا نظر آؤں مجھے ویسا سمجھے
لفظ پردہ ہیں، اسے کاش بتا دے کوئی
اس کو سمجھائے کہ سمجھے، مرا لہجہ سمجھے
بس یہی ہے جو میّسر ہے مرے قرب کے ساتھ
جو مرے دل میں بسے وہ اِسے دنیا سمجھے
سانحہ کرکے سنایا تھا اُسے رنجِ فراق
سُن کے بس اتنا کہا اُس نے کہ ’’اچھا۔ ۔ ۔ سمجھے‘‘
دل کسی حرفِ ملائم سے سنبھل بھی جاتا
میرے سینے میں اچھلتا ہے بگولا، سمجھے؟
وصل سے اِن کے نمو پاتی ہے اک کیفیۤت
کوئی الفاظ و معانی کا یہ رشتہ سمجھے
اتنا دشوار ہوں کیا میں جو کسی پر نہ کھلوں؟
کوئی تو ہو مجھے میرے علاوہ سمجھے
ابھی سمجھو تو میں کیا خوب سخن تم سے کروں
بعد میرے مجھے سمجھے بھی تو پھر کیا سمجھے
تُو سمجھتا ہے اُسے، شکر بجا لا عرفان
وہ جسے دیر نہ کعبہ، نہ کلیسا سمجھے
عرفان ستار

یعنی بڑے جتن سے ہم، خود سے جدا کیے گئے

خواہشیں قتل کی گئیں، خواب فنا کیے گئے
یعنی بڑے جتن سے ہم، خود سے جدا کیے گئے
جوہرِ خوش صفات کی، راکھ ہیں ممکنات کی
ٹھیک سے دیکھیے کہ ہم، کون تھے کیا کیے گئے
پیرویءِ ضمیر سے، اور تو کچھ نہیں ہُوا
کام خراب کر لیے، دوست خفا کیے گئے
رکھے گئے تھے ضبط کی، قید میں جو تمام دن
رات کو گھر پہنچ کے وہ، اشک رہا کیے گئے
قوم کے سارے شرپسند، محوِعمل تھے رات دن
جتنے بھی اہلِ خیر تھے، صرف دعا کیے گئے
ذکر کیا کرو نہ تم، اہلِ جہاں کے درد کا
تم جو نگاہ پھیر کر، ذکرِ خدا کیے گئے
ربِّ سخن سے یہ گلہ، بنتا نہیں ہے کیا کہ ہم
عہدِ منافقت میں کیوں، نغمہ سرا کیے گئے
کرتے ہو کیوں موازنہ، اہلِ ہوس کا ہم سے تم
ہم تو وہ لوگ ہیں جنھیں، شعر عطا کیے گئے
چارہ گرانِ جسم کو، روح کی کیا خبربھلا
مجھ کو نہیں تھا جو مرض، اُس کی دوا کیے گئے
خالقِ حسن کو بہت، فکر تھی تیرے حسن کی
ہم بہ مشیّتِ خدا، تجھ پہ فدا کیے گئے
ملتا نہ تھا کوئی صلہ، پاسِ وفا کا اور پھر
ہم نے یہ فکر چھوڑ دی، اور وفا کیے گئے
ایک بزرگ روح سے، پوچھی تھی رمزِآگہی
اُس نے کہا کہ عشق کر، ہم بہ رضا کیے گئے
شام وہ اختیار کی، حسن سے کیا اُدھار کی
باقی تمام عمر ہم، قرض ادا کیے گئے
عرفان ستار

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کررہے ہیں

غموں میں کچھ کمی یا کچھ اضافہ کر رہے ہیں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کررہے ہیں
جو آتا ہے نظر میں اُس کو لے آتے ہیں دل میں
نئی ترکیب سے ہم خود کو تنہا کررہے ہیں
نظر کرتے ہیں یوں جیسے بچھڑنے کی گھڑی ہو
سخن کرتے ہیں ایسے جیسے گریہ کررہے ہیں
تمہارے ہی تعلق سے تو ہم ہیں اس بدن میں
تمہارے ہی لیے تو یہ تماشا کررہے ہیں
زوال آمادگی اب گونجتی ہے دھڑکنوں میں
سو دل سے خواہشوں کا بوجھ ہلکا کررہے ہیں
سخن تم سے ہو یا احباب سے یا اپنے دل سے
یہی لگتا ہے ہم ہر بات بے جا کررہے ہیں
تمہاری آرزو ہونے سے پہلے بھی تو ہم تھے
سو جیسے بن پڑے اب بھی گزارا کررہے ہیں
ذرا پوچھے کوئی معدوم ہوتے ان دکھوں سے
ہمیں کس کے بھروسے پر اکیلا کررہے ہیں
ہمیں روکے ہوئے ہے پاسِ ناموسِ محبت
یہ مت سمجھو کہ ہم دنیا کی پروا کررہے ہیں
بجز سینہ خراشی کچھ نہیں آتا ہے لیکن
ذرا دیکھو تو ہم یہ کام کیسا کررہے ہیں
ہمیں اس کام کی مشکل کا اندازہ ہے صاحب
بڑے عرصے سے ہم بھی ترکِ دنیا کررہے ہیں
جو ہو گی صبح تو تقسیم ہوجائیں گے پھر ہم
ڈھلی ہے شام تو خود کو اکھٹا کررہے ہیں
جنوں سے اتنا دیرینہ تعلق توڑ دیں گے؟
ارے توبہ کریں عرفان، یہ کیا کررہے ہیں؟
عرفان ستار

چمک رہے ہیں، مگر آئینہ نہیں ہوئے ہیں

ترے جمال سے ہم رُونما نہیں ہوئے ہیں
چمک رہے ہیں، مگر آئینہ نہیں ہوئے ہیں
دھڑک رہا ہے تو اک اِسم کی ہے یہ برَ کت
وگرنہ واقعے اِس دل میں کیا نہیں ہوئے ہیں
بتا نہ پائیں، تو خود تم سمجھ ہی جاؤ کہ ہم
بلا جواز تو بے ماجرا نہیں ہوئے ہیں
ترا کمال، کہ آنکھوں میں کچھ، زبان پہ کچھ
ہمیں تو معجزے ایسے عطا نہیں ہوئے ہیں
یہ مت سمجھ، کہ کوئی تجھ سے منحرف ہی نہیں
ابھی ہم اہلِ جُنوں لب کُشا نہیں ہوئے ہیں
بنامِ ذوقِ سخن خود نمائی آپ کریں
ہم اِس مرض میں ابھی مبتلا نہیں ہوئے ہیں
ہمی وہ، جن کا سفر ماورائے وقت و وجود
ہمی وہ، خود سے کبھی جو رہا نہیں ہوئے ہیں
خود آگہی بھی کھڑی مانگتی ہے اپنا حساب
جُنوں کے قرض بھی اب تک ادا نہیں ہوئے ہیں
کسی نے دل جو دکھایا کبھی، تو ہم عرفان
اُداس ہو گئے، لیکن خفا نہیں ہوئے ہیں
عرفان ستار

ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں

کیا بتاوٗں کہ جو ہنگامہ بپا ہے مجھ میں
ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں
اُس کی خوشبو کہیں اطراف میں پھیلی ہوئی ہے
صبح سے رقص کناں بادِ صبا ہے مجھ میں
تیری صورت میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں میں بھی
غالباً تُو بھی مجھے ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں
ایک ہی سمت ہر اک خواب چلا جاتا ہے
یاد ہے، یا کوئی نقشِ کفِ پا ہے مجھ میں؟
میری بے راہ روی اس لیے سرشار سی ہے
میرے حق میں کوئی مصروفِ دعا ہے مجھ میں
اپنی سانسوں کی کثافت سے گماں ہوتا ہے
کوئی امکان ابھی خاک ہُوا ہے مجھ میں
اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں
یا تو میں خود ہی رہائی کے لیے ہوں بے تاب
یا گرفتار کوئی میرے سِوا ہے مجھ میں
آئینہ اِس کی گواہی نہیں دیتا، تو نہ دے
وہ یہ کہتا ہے کوئی خاص ادا ہے مجھ میں
ہو گئی دل سے تری یاد بھی رخصت شاید
آہ و زاری کا ابھی شور اٹھا ہے مجھ میں
مجھ میں آباد ہیں اک ساتھ عدم اور وجود
ہست سے برسرِ پیکار فنا ہے مجھ میں
مجلسِ شامِ غریباں ہے بپا چار پہر
مستقل بس یہی ماحولِعزا ہے مجھ میں
ہو گئی شق تو بالآخر یہ انا کی دیوار
اپنی جانب کوئی دروازہ کھلا ہے مجھ میں
خوں بہاتا ہُوا، زنجیر زنی کرتا ہُوا
کوئی پاگل ہے جو بے حال ہُوا ہے مجھ میں
اُس کی خوشبو سے معطر ہے مرا سارا وجود
تیرے چھونے سے جو اک پھول کِھلا ہے مجھ میں
تیرے جانے سے یہاں کچھ نہیں بدلا، مثلاً
تیرا بخشا ہوا ہر زخم ہرا ہے مجھ میں
کیسے مل جاتی ہے آوازِ اذاں سے ہر صبح
رات بھر گونجنے والی جو صدا ہے مجھ میں
کتنی صدیوں سے اُسے ڈھونڈ رہے ہو بے سُود
آوٗ اب میری طرف آوٗ، خدا ہے مجھ میں
مجھ میں جنّت بھی مِری، اور جہنّم بھی مِرا
جاری و ساری جزا اور سزا ہے مجھ میں
روشنی ایسے دھڑکتے تو نہ دیکھی تھی کبھی
یہ جو رہ رہ کے چمکتا ہے، یہ کیا ہے مجھ میں؟
عرفان ستار

مجھے بدن سے نکالو، میں تنگ آ گیا ہوں

یہ کیسے ملبے کے نیچے دبا دیا گیا ہوں
مجھے بدن سے نکالو، میں تنگ آ گیا ہوں
کسے دماغ ہے بے فیض صحبتوں کا میاں
خبر اڑا دو کہ میں شہر سے چلا گیا ہوں
مآلِ عشقِ اناگیر ہے یہ مختصراً
میں وہ درندہ ہوں جو خود کو ہی چبا گیا ہوں
کوئی گھڑی ہے کہ ہوتا ہوں آستین میں دفن
میں دل سے بہتا ہوا آنکھ تک تو آ گیا ہوں
مرا تھا مرکزی کردار اس کہانی میں
بڑے سلیقے سے بے ماجرا کیا گیا ہوں
وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے عجب تحیّر سے
نجانے جھونک میں کیا کچھ اُسے بتا گیا ہوں
مجھے بھلا نہ سکے گی یہ رہگزارِ جنوں
قدم جما نہ سکا، رنگ تو جما گیا ہوں
سب اہتمام سے پہنچے ہیں اُس کی بزم میں آج
میں اپنے حال میں سرمست و مبتلا گیا ہوں
مرے کہے سے مرے گرد و پیش کچھ بھی نہیں
سو جو دکھایا گیا ہے وہ دیکھتا گیا ہوں
اُسے بتایا نہیں ہجر میں جو حال ہُوا
جو بات سب سے ضروری تھی وہ چھپا گیا ہوں
غزل میں کھینچ کے رکھ دی ہے اپنی جاں عرفان
ہر ایک شعر میں دل کا لہو بہا گیا ہوں
عرفان ستار

ترے فراق سے پہلے ہی میں جدا ہو جاؤں

وفا کے باب میں اپنا مثالیہ ہو جاؤں
ترے فراق سے پہلے ہی میں جدا ہو جاؤں
میں اپنے آپ کو تیرے سبب سے جانتا ہوں
ترے یقین سے ہٹ کر تو واہمہ ہو جاؤں
تعلقات کے برزخ میں عین ممکن ہے
ذرا سا دُکھ وہ مجھے دے تو میں ترا ہو جاؤں
ابھی میں خوش ہوں تو غافل نہ جان اپنے سے
نہ جانے کون سی لغزش پہ میں خفا ہو جاؤں
ابھی تو راہ میں حائل ہے آرزو کی فصیل
ذرا یہ عشق سوا ہو تو جا بہ جا ہو جاؤں
ابھی تو وقت تنفس کے ساتھ چلتا ہے
ذرا ٹھہر کہ میں اس جسم سے رہا ہو جاؤں
ابھی تو میں بھی تری جستجو میں شامل ہوں
قریب ہے کہ تجسس سے ماورا ہو جاؤں
خموشیاں ہیں، اندھیرا ہے، بے یقینی ہے
رہے نہ یاد بھی تیری تو میں خلا ہو جاؤں
کسی سے مل کے بچھڑنا بڑی اذیت ہے
تو کیا میں عہدِ تمنا کا فاصلہ ہو جاؤں
ترے خیال کی صورت گری کا شوق لیے
میں خواب ہو تو گیا ہوں اب اور کیا ہو جاؤں
یہ حرف و صوت کا رشتہ ہے زندگی کی دلیل
خدا وہ دن نہ دکھائے کہ بے صدا ہو جاؤں
وہ جس نے مجھ کو ترے ہجر میں بحال رکھا
تُو آ گیا ہے تو کیا اُس سے بے وفا ہو جاؤں
عرفان ستار

ہزار زخم سہے، اور دل بڑا رکھا

کبھی کسی سے نہ ہم نے کوئی گلہ رکھا
ہزار زخم سہے، اور دل بڑا رکھا
چراغ یوں تو سرِ طاقِ دل کئی تھے مگر
تمہاری لَو کو ہمیشہ ذرا جدا رکھا
خرد سے پوچھا، جنوں کا معاملہ کیا ہے؟
جنوں کے آگے خرد کا معاملہ رکھا
ہزار شکر ترا، اے مرے خدائے جنوں
کہ مجھ کو راہِ خرد سے گریزپا رکھا
خیال روح کے آرام سے ہٹایا نہیں
جو خاک تھا سو اُسے خاک میں ملا رکھا
چھپا ہُوا نہیں تجھ سے دلِ تباہ کا حال
یہ کم نہیں کہ ترے رنج کو بچا رکھا
وہ ایک زلف کہ لپٹی رہی رگِ جاں سے
وہ اک نظر کہ ہمیں جس نے مبتلا رکھا
بس ایک آن میں گزرا میں کس تغیّر سے
کسی نے سر پہ توجّہ سے ہاتھ کیا رکھا
سنائی اپنی کہانی بڑے قرینے سے
کہیں کہیں پہ فسانے میں واقعہ رکھا
سنا جو شور کہ وہ شیشہ گر کمال کا ہے
تو ہم لپک کے گئے اور قلب جا رکھا
میں جانتا تھا کہ دنیا جو ہے، وہ ہے ہی نہیں
سو خود کو خواہشِ دنیا سے ماورا رکھا
مرے جنوں نے کیے رد وجود اور عدم
الگ ہی طرح سے ہونے کا سلسلہ رکھا
خوشی سی کس نے ہمیشہ ملال میں رکھی؟
خوشی میں کس نے ہمیشہ ملال سا رکھا؟
یہ ٹھیک ہے کہ جو مجھ پاس تھا، وہ نذر کیا
مگر یہ دل کہ جو سینے میں رہ گیا رکھا؟
کبھی نہ ہونے دیا طاقِ غم کو بے رونق
چراغ ایک بجھا، اور دوسرا رکھا
نگاہ دار مرا تھا مرے سِوا نہ کوئی
سو اپنی ذات پہ پہرا بہت کڑا رکھا
تُو پاس تھا، تو رہے محو دیکھنے میں تجھے
وصال کو بھی ترے ہجر پر اٹھا رکھا
ترا جمال تو تجھ پر کبھی کھلے گا نہیں
ہمارے بعد بتا آئینے میں کیا رکھا؟
ہر ایک شب تھا یہی تیرے خوش گمان کا حال
دیا بجھایا نہیں اور در کھلا رکھا
ہمی پہ فاش کیے راز ہائے حرف و سخن
تو پھر ہمیں ہی تماشا سا کیوں بنا رکھا؟
ملا تھا ایک یہی دل ہمیں بھی آپ کو بھی
سو ہم نے عشق رکھا، آپ نے خدا رکھا
خزاں تھی، اور خزاں سی خزاں، خدا کی پناہ
ترا خیال تھا جس نے ہرا بھرا رکھا
جو ناگہاں کبھی اذنِ سفر ملا عرفان
تو فکر کیسی کہ سامان ہے بندھا رکھا
عرفان ستار

تری محفل میں اب میری بَلا جائے

یہیں گر موت آنی ہے تَو آ جائے
تری محفل میں اب میری بَلا جائے
بکھرتے جا رہے ہیں سارے پتّے
شجر ہے لا تعلّق کیا کِیا جائے
یہ سب یک حال بھی ہیں ہمزباں بھی
یہاں بہتر یہی ہے چُپ رہا جائے
تمہاری بزم کا یہ کیا ہے دستور
کہ جو خوش ہو کے آئے وہ خفا جائے
وہاں محفوظ ہَوں گے ہم زیادہ
چَلو گھر لے کے جنگل میں بَسا جائے
یہ بزمِ یار کی پابندیاں ہیں
یہاں سے کیسے اُٹھ کر چَل دِیا جائے
جدھر چاہے زمانہ جائے ضاؔمن
ہر اِک رستہ سُوئے کوئے فنا جائے
ضامن جعفری

کسی کو ترکِ تعلّق سَتا رہا ہو گا

ہر انجمن میں مرا ذکر آ رہا ہو گا
کسی کو ترکِ تعلّق سَتا رہا ہو گا
دل و دماغ میں اِک کشمکش تو ہو گی ابھی
لبوں پہ نام مرا ڈگمگا رہا ہو گا
زہے نصیب وہ پھر آ رہا ہے بستی میں
گئے زمانوں کو بھی ساتھ لا رہا ہو گا
خوشی میں بھی مجھے رہتی ہے فکر دامن گیر
کہ وقت تِیر کماں میں لگا رہا ہو گا
لحد میں ہوں گے حقوقِ بشر مرے لب پر
فرشتہ حکمِ اِلٰہی سُنا رہا ہو گا
بنایا کرتے تھے ہنس ہنس کے سب کو دیوانہ
زمانہ اب وہ اُنہیں یاد کیا رہا ہو گا
ضامن جعفری

زمانہ مجھ میں پِھر کیا دیکھتا ہے

نظر میری نہ چہرہ دیکھتا ہے
زمانہ مجھ میں پِھر کیا دیکھتا ہے
نظر کا کام ہے پیغام دینا
مگر دِل تَو ارادہ دیکھتا ہے
زمانے سے توقّع رکھنے والے
زمانہ بس تماشا دیکھتا ہے
ہُوا دِل مثلِ سنگِ میل بے حِس
نہ جانے روز کیا کیا دیکھتا ہے
مِرے چہرے پَہ وہ نظریں جمائے
تغیّر آتا جاتا دیکھتا ہے
وہ کچھ سمجھا نَہ ہو ممکن ہے ضامنؔ
پَہ رنگِ رُخ تَو اُڑتا دیکھتا ہے
ضامن جعفری

وہ اگر ٹُوٹ کے بِکھرا ہو گا

کیسے اپنے کو سَمیٹا ہو گا
وہ اگر ٹُوٹ کے بِکھرا ہو گا
ایک رَٹ دل نے لگا رکّھی ہے
"چاند کس شہر میں اُترا ہو گا”
نئی دولت جو یہ ہاتھ آئی ہے
میرے دل کا کوئی ٹکڑا ہو گا!
چاند تاروں کو ہَٹا دے کوئی
یہ مری آہ کا رَستا ہو گا
دولتِ غم ہے تمہارے دم سے
تم نہیں ہو گے تو پھر کیا ہو گا
اب ہیں اہداف خلوص اور وفا
اب ہر اِک زخم ہمارا ہو گا
زندگی رہنِ گماں ہے ضامنؔ
وہ مجھے دیکھنے آتا ہو گا
ضامن جعفری

ہر روز ایک زخم نیا چاہئے مجھے

کیا پوچھتے ہو مجھ سے کہ کیا چاہئے مجھے
ہر روز ایک زخم نیا چاہئے مجھے
اپنے سکونِ دل کا پتا چاہئے مجھے
اِک دردِ لا دوا کی دوا چاہئے مجھے
وہ حبسِ التفات ہے گھٹنے لگا ہے دم
سانس آ سکے بس اتنی ہَوا چاہئے مجھے
اب چشم و گوش پر ہے فقط انحصارِ زیست
چہرہ وہی، اُسی کی صدا چاہئے مجھے
شایانِ شان ہو مرے جرم حسین کی
ایسی کوئی حسین سزا چاہئے مجھے
زاہد! ترے خدا کی ضرورت نہیں مجھے
جو میرے دل میں ہے وہ خدا چاہئے مجھے
کچھ کا خیال ہے کہ شہیدِ وفا ہوں میں
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں سزا چاہئے مجھے
تشخیص ہو چکی ہے تو اب جا چکیں طبیب
جا کر اُسے بتائیں کہ کیا چاہئے مجھے
ضامنؔ! مرے خلوص و وفا کو تَرَس نہ جائے
میرا تو کیا ہے؟ اُس کا بھلا چاہئے مجھے
ضامن جعفری

ہو کوئی بے بَصَر تَو بھَلا کیا دکھائی دے

حُسنِ نظر کو حُسن ہر اِک جا دکھائی دے
ہو کوئی بے بَصَر تَو بھَلا کیا دکھائی دے
خوش رنگیِ چمن بھی ہے غارت گرِ سکوں
گلشن بہ ہر نظر رخِ زیبا دکھائی دے
رشکِ صد انجمن ہے وہ تنہا اگر ملے
آجائے انجمن میں تَو تنہا دکھائی دے
اِس انجمن میں سَب کو ہے اپنی پڑی ہُوئی
دربارِ حُسن حشر کا نقشا دکھائی دے
الزامِ خودکُشی ہمیں دینے سے پیشتر
قاتل سے بھی کہیَں نہ مسیحا دکھائی دے
کب تک پیے گا شہر میں آنسو ہر ایک شخص
ہے کوئی جس کو قطرے میں دریا دکھائی دے
ضامنؔ! یہ کیسا گلشنِ امّید ہے جہاں
ہر برگِ گل پہ خونِ تمنّا دکھائی دے
ضامن جعفری

زمیں زیرِ قَدَم سَر پَر خدا محسوس ہوتا ہے

جہاں میں ہُوں ہر اِک بے آسرا محسوس ہوتا ہے
زمیں زیرِ قَدَم سَر پَر خدا محسوس ہوتا ہے
شَجَر کی یاد نے پوچھا ہے ہم سے دَشتِ غُربَت میں
نہیں ہے سَر پہ اَب سایہ تَو کیا محسوس ہوتا ہے
میں کِس رَستے سے تجھ تَک آؤں کہ تُو دَنگ رہ جائے
ہر اِک رَستے پہ کوئی نقشِ پا محسوس ہوتا ہے
ہمارے شعر سُن کر اُن پہ خاموشی سی ہے طاری
سکوتِ ذات میں شورِ اَنا محسوس ہوتا ہے
جُدا ہو راہ و منزل سَب کی اُس کو بِھیڑ کہتے ہیں
نہ جانے آپ کو کیوں قافلہ محسوس ہوتا ہے
کسی کو جب غزل میری سُناتا ہے کوئی ضامنؔ
وہ کہتا ہے یہ کوئی دِل جَلا محسوس ہوتا ہے
ضامن جعفری

دِل کو آنکھوں میں رَکھ لِیا کیجے

جَب کبھی اُن کا سامنا کیجے
دِل کو آنکھوں میں رَکھ لِیا کیجے
ٹھان ہی لی ہے اب تَو کیا کیجے
جائیے! عرضِ مدّعا کیجے
کہیِں نیچی نہ ہو نظَر صاحب
حالِ دل سب سے مت کہا کیجے
کوئی شعلہ نَفَس ہے محفل میں
میرے جینے کی بس دُعا کیجے
جُنبِشِ لَب نَظَر میں رہتی ہے
گفتگو آنکھ سے کِیا کیجے
جب اشارے کنائے ہیں موجود
جو کہیَں کھُل کے مت کَہا کیجے
ڈال کر پھر نَظَر اَجَل انداز
میرے حق میں کوئی دُعا کیجے
اُسی انداز میں وہی الفاظ
جب بھی موقع ہو کہہ دیا کیجے
میں ہُوں ضامنؔ مجھے تَو کم از کم
رازِ الفت سے آشنا کیجے
ضامن جعفری

دِل پریشان ہے کہ کیا ہو گا

آج پھر اُن سے سامنا ہو گا
دِل پریشان ہے کہ کیا ہو گا
گفتگو سے کریں گے وہ بھی گریز
دل ہمیں بھی سنبھالنا ہو گا
پھر کوئی بات ہو گئی ہو گی
کچھ نگاہوں نے کہہ دیا ہو گا
کیا ہُوا ہم جو ہمسَفَر نہ ہُوئے
شہر بھر ساتھ ہو لیا ہو گا
دوستی میں تَو یہ بھی ہوتا ہے
لڑکھڑائے تو تھامنا ہو گا
ہم نے سمجھا دیا تھا دیکھ اے دِل
زندگی بھر کا سلسلہ ہو گا
پھر خیالوں میں کھو گئے ضامنؔ
کوئی چپکے سے آ گیا ہو گا
ضامن جعفری

میں تجھ کو اپنا سمجھا تھا

تیرا قصور نہیں میرا تھا
میں تجھ کو اپنا سمجھا تھا
دیکھ کے تیرے بدلے تیور
میں تو اُسی دن رو بیٹھا تھا
اب میں سمجھا اب یاد آیا
تو اُس دن کیوں چپ چپ سا تھا
تجھ کو جانا ہی تھا لیکن
ملے بغیر ہی کیا جانا تھا
اب تجھے کیا کیا یاد دِلاؤں
اب تو وہ سب کچھ ہی دھوکا تھا
وہی ہوئی ہے جو ہونی تھی
وہی ملا ہے جو لکھا تھا
دل کو یونہی سا رنج ہے ورنہ
تیرا میرا ساتھ ہی کیا تھا
کس کس بات کو روؤں ناصر
اپنا لہنا ہی اِتنا تھا
ناصر کاظمی

بارش میں سورج نکلا تھا

روتے روتے کون ہنسا تھا
بارش میں سورج نکلا تھا
چلتے ہوئے آندھی آئی تھی
رستے میں بادل برسا تھا
ہم جب قصبے میں اُترے تھے
سورج کب کا ڈوب چکا تھا
کبھی کبھی بجلی ہنستی تھی
کہیں کہیں چھینٹا پڑتا تھا
تیرے ساتھ ترے ہمراہی
میرے ساتھ مرا رستہ تھا
رنج تو ہے لیکن یہ خوشی ہے
اب کے سفر ترے ساتھ کیا تھا
ناصر کاظمی

یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا

پل پل کانٹا سا چبھتا تھا
یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا
یہ کانٹے اور تیردامن
میں اپنا دُکھ بھول گیا تھا
کتنی باتیں کی تھیں لیکن
ایک بات سے جی ڈرتا تھا
تیرے ہاتھ کی چائے تو پی تھی
دل کا رنج تو دل میں رہا تھا
کسی پرانے وہم نے شاید
تجھ کو پھر بے چین کیا تھا
میں بھی مسافر تجھ کو بھی جلدی
گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا
اک اُجڑے سے اسٹیشن پر
تو نے مجھ کو چھوڑ دیا تھا
ناصر کاظمی

میرا کون یہاں رہتا تھا

میں اِس شہر میں کیوں آیا تھا
میرا کون یہاں رہتا تھا
گونگے ٹیلو! کچھ تو بولو
کون اِس نگری کا راجا تھا
کن لوگوں کے ہیں یہ ڈھانچے
کن ماؤں نے اِن کو جنا تھا
کس دیوی کی ہے یہ مورت
کون یہاں پوجا کرتا تھا
کس دُنیا کی کوتا ہے یہ
کن ہاتھوں نے اِسے لکھا تھا
کس گوری کے ہیں یہ کنگن
یہ کنٹھا کس نے پہنا تھا
کن وقتوں کے ہیں یہ کھلونے
کون یہاں کھیلا کرتا تھا
بول مری مٹی کی چڑیا
تو نے مجھ کو یاد کیا تھا
ناصر کاظمی

پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا

تھوڑی دیر کو جی بہلا تھا
پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا
یاد آئی وہ پہلی بارش
جب تجھے ایک نظر دیکھا تھا
ہرے گلاس میں چاند کے ٹکڑے
لال صراحی میں سونا تھا
چاند کے دل میں جلتا سورج
پھول کے سینے میں کانٹا تھا
کاغذ کے دل میں چنگاری
خس کی زباں پر انگارہ تھا
دل کی صورت کا اک پتا
تیری ہتھیلی پر رکھا تھا
شام تو جیسے خواب میں گزری
آدھی رات نشہ ٹوٹا تھا
شہر سے دُور ہرے جنگل میں
بارش نے ہمیں گھیر لیا تھا
صبح ہوئی تو سب سے پہلے
میں نے تیرا منہ دیکھا تھا
دیر کے بعد مرے آنگن میں
سرخ انار کا پھول کھلا تھا
دیر کے مرجھائے پیڑوں کو
خوشبو نے آباد کیا تھا
شام کی گہری اونچائی سے
ہم نے دریا کو دیکھا تھا
یاد آئیں کچھ ایسی باتیں
میں جنھیں کب کا بھول چکا تھا
ناصر کاظمی

دھرتی سے آکاش ملا تھا

نئے دیس کا رنگ نیا تھا
دھرتی سے آکاش ملا تھا
دُور کے دریاؤں کا سونا
ہرے سمندر میں گرتا تھا
چلتی ندیاں گاتے نوکے
نوکوں میں اِک شہر بسا تھا
نوکے ہی میں رَین بسیرا
نوکے ہی میں دن کٹتا تھا
نوکا ہی بچوں کا جھولا
نوکا ہی پیری کا عصا تھا
مچھلی جال میں تڑپ رہی تھی
نوکا لہروں میں اُلجھا تھا
ہنستا پانی روتا پانی
مجھ کو آوازیں دیتا تھا
تیرے دھیان کی کشتی لے کر
میں نے دریا پار کیا تھا
ناصر کاظمی

بس یونہی رستا بھول گیا تھا

مجھ کو اور کہیں جانا تھا
بس یونہی رستا بھول گیا تھا
دیکھ کے تیرے دیس کی رچنا
میں نے سفر موقوف کیا تھا
کیسی اندھیری شام تھی اُس دن
بادل بھی گھر کر چھایا تھا
رات کی طوفانی بارش میں
تو مجھ سے ملنے آیا تھا
ماتھے پر بوندوں کے موتی
آنکھوں میں کاجل ہنستا تھا
چاندی کا اک پھول گلے میں
ہاتھ میں بادل کا ٹکڑا تھا
بھیگے کپڑے کی لہروں میں
کندن سونا دمک رہا تھا
سبز پہاڑی کے دامن میں
اُس دن کتنا ہنگامہ تھا
بارش کی ترچھی گلیوں میں
کوئی چراغ لیے پھرتا تھا
بھیگی بھیگی خاموشی میں
مَیں ترے گھر تک ساتھ گیا تھا
ایک طویل سفر کا جھونکا
مجھ کو دُور لیے جاتا تھا
ناصر کاظمی

دھوپ کا شیشہ دُھندلا سا تھا

گرد نے خیمہ تان لیا تھا
دھوپ کا شیشہ دُھندلا سا تھا
نکہت و نور کو رخصت کرنے
بادل دُور تلک آیا تھا
گئے دِنوں کی خوشبو پا کر
میں دوبارہ جی اُٹھا تھا
سوتی جاگتی گڑیا بن کر
تیرا عکس مجھے تکتا تھا
وقت کا ٹھاٹھیں مارتا ساگر
ایک ہی پل میں سمٹ گیا تھا
جنگل ، دریا ، کھیت کے ٹکڑے
یاد نہیں اب آگے کیا تھا
نیل گگن سے ایک پرندہ
پیلی دھرتی پر اُترا تھا
ناصر کاظمی

پہلے تیرا نام لکھا تھا

میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
میں وہ صبرِ صمیم ہوں جس نے
بارِ امانت سر پہ لیا تھا
میں وہ اسمِ عظیم ہوں جس کو
جن و ملک نے سجدہ کیا تھا
تو نے کیوں مرا ہاتھ نہ پکڑا
میں جب رستے سے بھٹکا تھا
جو پایا ہے وہ تیرا ہے
جو کھویا وہ بھی تیرا تھا
تجھ بن ساری عمر گزاری
لوگ کہیں گے تو میرا تھا
پہلی بارش بھیجنے والے
میں ترے درشن کا پیاسا تھا
ناصر کاظمی

ساتھ مرے اک دُنیا جاگے

ایسا بھی کوئی سپنا جاگے
ساتھ مرے اک دُنیا جاگے
وہ جاگے جسے نیند نہ آئے
یا کوئی میرے جیسا جاگے
ہوا چلی تو جاگے جنگل
ناؤ چلے تو ندیا جاگے
راتوں میں یہ رات اَمر ہے
کل جاگے تو پھر کیا جاگے
داتا کی نگری میں ناصر
میں جاگوں یا داتا جاگے
ناصر کاظمی

تیرا درد چھپا رکھا ہے

دل میں اَور تو کیا رکھا ہے
تیرا درد چھپا رکھا ہے
اِتنے دُکھوں کی تیز ہوا میں
دل کا دِیپ جلا رکھا ہے
دُھوپ سے چہروں نے دُنیا میں
کیا اندھیر مچا رکھا ہے
اس نگری کے کچھ لوگوں نے
دُکھ کا نام دوا رکھا ہے
وعدئہ یار کی بات نہ چھیڑو
یہ دھوکا بھی کھا رکھا ہے
بھول بھی جاؤ بیتی باتیں
اِن باتوں میں کیا رکھا ہے
چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصر
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے
ناصر کاظمی

رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے

کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کر تے تھے
رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے
جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سو جاتی ہیں
اِن مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھے
کر دیا آج زمانے نے انہی ں بھی مجبور
کبھی یہ لوگ مرے دُکھ کی دَوا کرتے تھے
دیکھ کر جو ہمیں چپ چاپ گزر جاتا ہے
کبھی اُس شخص کو ہم پیار کیا کرتے تھے
اِتفاقاتِ زمانہ بھی عجب ہیں ناصر
آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے
ناصر کاظمی

خالی رستہ بول رہا ہے

میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
خالی رستہ بول رہا ہے
آج تو یوں خاموش ہے دنیا
جیسے کچھ ہونے والا ہے
کیسی اندھیری رات ہے دیکھو
اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے
آج تو شہر کی روِش روِش پر
پتوں کا میلہ سا لگا ہے
آؤ گھاس پہ سبھا جمائیں
میخانہ تو بند پڑا ہے
پھول تو سارے جھڑ گئے لیکن
تیری یاد کا زخم ہرا ہے
تو نے جتنا پیار کیا تھا
دُکھ بھی مجھے اتنا ہی دیا ہے
یہ بھی ہے ایک طرح کی محبت
میں تجھ سے، تو مجھ سے جدا ہے
یہ تری منزل وہ مرا رستہ
تیرا میرا ساتھ ہی کیا ہے
میں نے تو اِک بات کہی تھی
کیا تو سچ مچ رُوٹھ گیا ہے
ایسا گاہک کون ہے جس نے
سکھ دے کر دُکھ مول لیا ہے
تیرا رستہ تکتے تکتے
کھیت گگن کا سوکھ چلا ہے
کھڑکی کھول کے دیکھ تو باہر
دیر سے کوئی شخص کھڑا ہے
ساری بستی سو گئی ناصر
تو اب تک کیوں جاگ رہا ہے
ناصر کاظمی

تو ایک بار تو مل، سب گلے مٹا دُوں گا

جو گفتنی نہیں وہ بات بھی سنا دُوں گا
تو ایک بار تو مل، سب گلے مٹا دُوں گا
مجال ہے کوئی مجھ سے تجھے جدا کر دے
جہاں بھی جائے گا تو میں تجھے صدا دُوں گا
تری گلی میں بہت دیر سے کھڑا ہوں مگر
کسی نے پوچھ لیا تو جواب کیا دُوں گا
مری خموش نگاہوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ
میں رو پڑا تو دلوں کے طبق ہلا دُوں گا
یونہی اداس رہا میں تو دیکھنا اِک دِن
تمام شہر میں تنہائیاں بچھا دُوں گا
بہ پاسِ صحبتِ دیرینہ کوئی بات ہی کر
نظر ملا تو سہی میں تجھے دُعا دُوں گا
بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے
تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دُوں گا
وہ درد ہی نہ رہا ورنہ اے متاعِ حیات
مجھے گماں بھی نہ تھا میں تجھے بھلا دُوں گا
ابھی تو رات ہے کچھ دیر سو ہی لے ناصر
کوئی بلائے گا تو میں تجھے جگا دُوں گا
ناصر کاظمی

زِندگی تو ہی بتا کیسے جیا چاہیے

دل کے لیے درد بھی روز نیا چاہیے
زِندگی تو ہی بتا کیسے جیا چاہیے
میری نوائیں الگ، میری دُعائیں الگ
میرے لیے آشیاں سب سے جدا چاہیے
نرم ہے برگِ سمن، گرم ہے میرا سخن
میری غزل کے لیے ظرف نیا چاہیے
سر نہ کھپا اے جرس، مجھ کو مرا دل ہے بس
فرصتِ یک دو نفس مثلِ صبا چاہیے
باغ ترا باغباں ، تو ہے عبث بدگماں
مجھ کو تو اے مہرباں ، تھوڑی سی جا چاہیے
خوب ہیں گل پھول بھی تیرے چمن میں مگر
صِحنِ چمن میں کوئی نغمہ سرا چاہیے
ہے یہی عینِ وفا دل نہ کسی کا دُکھا
اپنے بھلے کے لیے سب کا بھلا چاہیے
بیٹھے ہو کیوں ہار کے سائے میں دیوار کے
شاعرِو، صورت گرو کچھ تو کیا چاہیے
مانو مری کاظمی تم ہو بھلے آدمی
پھر وُہی آوارگی کچھ تو حیا چاہیے
ناصر کاظمی

بھیس جدائی نے بدلا ہے

تو ہے یا تیرا سایا ہے
بھیس جدائی نے بدلا ہے
دل کی حویلی پر مدت سے
خاموشی کا قفل پڑا ہے
چیخ رہے ہیں خالی کمرے
شام سے کتنی تیز ہوا ہے
دروازے سر پھوڑ رہے ہیں
کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے
تنہائی کو کیسے چھوڑوں
برسوں میں اِک یار ملا ہے
رات اندھیری ناؤ نہ ساتھی
رستے میں دریا پڑتا ہے
ہچکی تھمتی ہی نہیں ناصر
آج کسی نے یاد کیا ہے
ناصر کاظمی

کہنے کو سب کچھ اپنا ہے

اِس دُنیا میں اپنا کیا ہے
کہنے کو سب کچھ اپنا ہے
یوں تو شبنم بھی ہے دریا
یوں تو دریا بھی پیاسا ہے
یوں تو ہیرا بھی ہے کنکر
یوں تو مٹی بھی سونا ہے
منہ دیکھے کی باتیں ہیں سب
کس نے کس کو یاد کیا ہے
تیرے ساتھ گئی وہ رونق
اب اِس شہر میں کیا رکھا ہے
بات نہ کر صورت تو دِکھا دے
تیرا اس میں کیا جاتا ہے
دھیان کے آتشدان میں ناصر
بجھے دِنوں کا ڈھیر پڑا ہے
ناصر کاظمی

نہ سنو تم تو کیا کہے کوئی

کب تلک مدعا کہے کوئی
نہ سنو تم تو کیا کہے کوئی
غیرتِ عشق کو قبول نہیں
کہ تجھے بے وفا کہے کوئی
منّتِ ناخدا نہیں منظور
چاہے اس کو خدا کہے کوئی
ہر کوئی اپنے غم میں ہے مصروف
کس کو درد آشنا کہے کوئی
کون اچھا ہے اِس زمانے میں
کیوں کسی کو برا کہے کوئی
کوئی تو حق شناس ہو یارب
ظلم کو ناروا کہے کوئی
وہ نہ سمجھیں گے اِن کنایوں کو
جو کہے برملا کہے کوئی
آرزُو ہے کہ میرا قصّہِ شوق
آج میرے سوا کہے کوئی
جی میں آتا ہے کچھ کہوں ناصر
کیا خبر سن کے کیا کہے کوئی
ناصر کاظمی

کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے

اِن سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے
یہ ٹھٹھری ہوئی لمبی راتیں کچھ پوچھتی ہیں
یہ خامشیٔ آواز نما کچھ کہتی ہے
سب اپنے گھروں میں لمبی تان کے سوتے ہیں
اَور دُور کہیں کوئل کی صدا کچھ کہتی ہے
جب صبح کو چڑیاں باری باری بولتی ہیں
کوئی نامانوس اُداس نوا کچھ کہتی ہے
جب رات کو تارے باری باری جاگتے ہیں
کئی ڈوبے ہوئے تاروں کی ندا کچھ کہتی ہے
کبھی بھور بھئے کبھی شام پڑے کبھی رات گئے
ہر آن بدلتی رُت کی ہوا کچھ کہتی ہے
مہمان ہیں ہم مہمان سرا ہے یہ نگری
مہمانوں کو مہمان سرا کچھ کہتی ہے
بیدار رہو بیدار رہو بیدار رہو
اے ہم سفرو آوازِ درا کچھ کہتی ہے
ناصر آشوبِ زمانہ سے غافل نہ رہو
کچھ ہوتا ہے جب خلقِ خدا کچھ کہتی ہے
ناصر کاظمی

کیا کہیں زیست میں کیا کیا نہ رہا

سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا
کیا کہیں زیست میں کیا کیا نہ رہا
اب تو دنیا بھی وہ دنیا نہ رہی
اب ترا دھیان بھی اُتنا نہ رہا
قصۂ شوق سناؤں کس کو
راز داری کا زمانا نہ رہا
زندگی جس کی تمنا میں کٹی
وہ مرے حال سے بیگانہ رہا
ڈیرے ڈالے ہیں خزاں نے چوندیس
گل تو گل باغ میں کانٹا نہ رہا
دن دہاڑے یہ لہو کی ہولی
خلق کو خوف خدا کا نہ رہا
اب تو سو جاؤ ستم کے مارو
آسماں پر کوئی تارا نہ رہا
ناصر کاظمی

حسن خود محوِ تماشا ہو گا

عشق جب زمزمہ پیرا ہو گا
حسن خود محوِ تماشا ہو گا
سن کے آوازۂ زنجیرِ صبا
قفسِ غنچہ کا در وا ہو گا
جرسِ شوق اگر ساتھ رہی
ہر نفس شہپرِ عنقا ہو گا
دائم آباد رہے گی دُنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
کون دیکھے گا طلوعِ خورشید
ذرّہ جب دیدۂ بینا ہو گا
ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بیدرد کوئی کیا ہو گا
پھر سلگنے لگا صحرائے خیال
ابر گھر کر کہیں برسا ہو گا
پھر کسی دھیان کے صد راہے پر
دلِ حیرت زدہ تنہا ہو گا
پھر کسی صبحِ طرب کا جادو
پردۂ شب سے ہویدا ہو گا
گل زمینوں کے خنک رَمنوں میں
جشنِ رامش گری برپا ہو گا
پھر نئی رُت کا اشارہ پا کر
وہ سمن بو چمن آرا ہو گا
گلِ شب تاب کی خوشبو لے کر
ابلقِ صبح روانہ ہو گا
پھر سرِ شاخِ شعاعِ خورشید
نکہتِ گل کا بسیرا ہو گا
اک صدا سنگ میں تڑپی ہو گی
اک شرر پھول میں لرزا ہو گا
تجھ کو ہر پھول میں عریاں سوتے
چاندنی رات نے دیکھا ہو گا
دیکھ کر آئینۂ آبِ رواں
پتہ پتہ لبِ گویا ہو گا
شام سے سوچ رہا ہوں ناصر
چاند کس شہر میں اُترا ہو گا
ناصر کاظمی

کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن

سازِ ہستی کی صدا غور سے سن
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن
دن کے ہنگاموں کو بیکار نہ جان
شب کے پردوں میں ہے کیا غور سے سن
چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان
ڈوبتے دن کی ندا غور سے سن
کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِ شام
روح کے تار ہلا غور سے سن
یاس کی چھاؤں میں سونے والے
جاگ اور شورِ درا غور سے سن
ہر نفس دامِ گرفتاری ہے
نو گرفتارِ بلا غور سے سن
دل تڑپ اُٹھتا ہے کیوں آخرِ شب
دو گھڑی کان لگا غور سے سن
اِسی منزل میں ہیں سب ہجر و وصال
رہروِ آبلہ پا غور سے سن!
اِسی گوشے میں ہیں سب دیر و حرم
دل صنم ہے کہ خدا غور سے سن
کعبہ سنسان ہے کیوں اے واعظ
ہاتھ کانوں سے اُٹھا غور سے سن
موت اور زیست کے اَسرار و رموز
آ مری بزم میں آ غور سے سن
کیا گزرتی ہے کسی کے دل پر
تو بھی اے جانِ وفا غور سے سن
کبھی فرصت ہو تو اے صبحِ جمال
شب گزیدوں کی دعا غور سے سن
ہے یہی ساعتِ ایجاب و قبول
صبح کی لے کو ذرا غور سے سن
کچھ تو کہتی ہیں چٹک کر کلیاں
کیا سناتی ہے صبا غور سے سن
برگِ آوارہ بھی اک مطرِب ہے
طائرِ نغمہ سرا غور سے سن
رنگ منّت کشِ آواز نہیں
گُل بھی ہے ایک نوا غور سے سُن
خامشی حاصلِ موسیقی ہے
نغمہ ہے نغمہ نما غور سے سن
آئنہ دیکھ کے حیران نہ ہو
نغمۂ آبِ صفا غور سے سن
عشق کو حسن سے خالی نہ سمجھ
نالۂ اہلِ وفا غور سے سن
دل سے ہر وقت کوئی کہتا ہے
میں نہیں تجھ سے جدا غور سے سن
ہر قدم راہِ طلب میں ناصر
جرسِ دل کی صدا غور سے سن
ناصر کاظمی

ہے دستورِ زمانہ بادشاہت

رواج و رسمِ دنیا بادشاہت
ہے دستورِ زمانہ بادشاہت
کہو کیا چاہیے؟ پوچھا گیا جب
کہا سب نے کہ آقا بادشاہت
چھپانے کے لیے کچھ، گاہے گاہے
دکھاتی ہے تماشا بادشاہت
اگر محکوم ہی رہنا تھا ہم کو
تو کیا جمہوریت کیا بادشاہت
بہت بھاگے تھے باصِرؔ آمروں سے
ملی دنیا میں ہر جا بادشاہت
باصر کاظمی

ہم بھی کب اپنا بھلا سوچتے ہیں

کیا جو اغیار برا سوچتے ہیں
ہم بھی کب اپنا بھلا سوچتے ہیں
سوچتے ہیں کہ نہ سوچیں گے کچھ
سوچتے بھی ہیں تو کیا سوچتے ہیں
سوچتا ہوں کہ مرے بارے میں
وہ نہیں سوچتے یا سوچتے ہیں
زندگی گزری بنا کچھ سوچے
ہے یہ اب اس کی سزا سوچتے ہیں
میں دعا دیتا ہوں اُن کو باصِرؔ
جو مرے دکھ کی دوا سوچتے ہیں
باصر کاظمی

کیا کہوں کیا غلط ہے کیا ہے ٹھیک

اُن کو سب کچھ ہی لگ رہا ہے ٹھیک
کیا کہوں کیا غلط ہے کیا ہے ٹھیک
کبھی لب بستگی مناسب ہے
اور کبھی عرضِ مدعا ہے ٹھیک
ڈوب جائیں گے سُنتے سُنتے ہم
سب غلط ایک ناخدا ہے ٹھیک
آج ہم ٹھیک ہیں مگر یارو
مستقل کون رہ سکا ہے ٹھیک
تھی شفا چارہ گر کی باتوں میں
ہم سمجھتے رہے دوا ہے ٹھیک
چَین سے سو رہا ہے ہمسایا
چلیے کوئی تو گھر بنا ہے ٹھیک
ایک ہی دوست رہ گیا تھا مرا
وہ بھی دُشمن سے جا مِلا ہے، ٹھیک
کر دیا تھا عدو نے کام خراب
کر کے کتنے جتن کیا ہے ٹھیک
تیرا بیمار تجھ کو بھُول گیا
کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے ٹھیک
کچھ دوا کر کہ زخمِ دل باصرِؔ
خود بخود بھی کبھی ہُوا ہے ٹھیک
باصر کاظمی

رہ رہ کے خیال آ رہا ہے

کیا کیا وہ ہمیں سُنا گیا ہے
رہ رہ کے خیال آ رہا ہے
اک بات نہ کہہ کے آج کوئی
باتوں میں ہمیں ہرا گیا ہے
تم خوش نہیں ہو گے ہم سے مِل کے
آ جائیں گے ہم ہمارا کیا ہے
ہم لاکھ جواز ڈھونڈتے ہوں
جو کام بُرا ہے وہ بُرا ہے
کیا فائدہ فائدے کا یارو
نقصان میں کیا مضائقہ ہے
تم ٹھیک ہی کہہ رہے تھے اُس دن
کچھ ہم نے بھی اِن دنوں سُنا ہے
جتنی ہے تری نگاہ قاتل
اُتنی ترے ہاتھ میں شِفا ہے
دوشاخہ ہے میرے ذہن میں کیوں
جب سامنے ایک راستا ہے
کہنے کو ہَرا بھرا ہے لیکن
اندر سے درخت کھوکھلا ہے
خوش کرنے کو جو کہی تھی تُو نے
باصرِؔ اُسی بات پر خفا ہے
باصر کاظمی

جیسا لکھنا چاہا ویسا لِکھا ہے

کم لِکھا ہے لیکن جتنا لِکھا ہے
جیسا لکھنا چاہا ویسا لِکھا ہے
اب پڑھنے والے بھی تھوڑا غور کریں
لکھنے والوں نے تو کیا کیا لِکھا ہے
ٹھیک ہی سمجھے میری پریشانی کو تم
اُس نے پھر کچھ ایسا ویسا لِکھا ہے
ہم لِکھ لِکھ ہلکان ہوئے اور وہ بولے
ہاں تم نے بھی اچھا خاصا لِکھا ہے
باصرِؔ تیرا حال اسی نے کیا ہے غیر
جس نے خود کو تیرا اپنا لِکھا ہے
باصر کاظمی

ایک ناسور بن چکا ہوتا

غم اگر دل میں رہ گیا ہوتا
ایک ناسور بن چکا ہوتا
مجھ کو جلنا ہی تھا تو پھر اے دوست
میں تری رات کا دیا ہوتا
خاک میں کچھ کشش تو تھی ورنہ
پھول کیوں شاخ سے جدا ہوتا
تیرے محنت کشوں کی دنیا میں
غم نہ ہوتا تو اور کیا ہوتا
یاد بھی دل سے مٹ گئی اُس کی
نقشِ پا کچھ تو دیرپا ہوتا
آپ ہی کچھ خفا سے رہتے ہیں
کوئی کیوں آپ سے خفا ہوتا
خواہشیں ہر گھڑی یہ کہتی ہیں
کام کچھ کام کا کیا ہوتا
باصر کاظمی

اب مرا تجھ سے واسطا کیا ہے

یوں کنکھیوں سے دیکھتا کیا ہے
اب مرا تجھ سے واسطا کیا ہے
کان بجتے ہیں کیوں ہر آہٹ پر
ہر گھڑی دل میں یہ صدا کیا ہے
کھو گئے ہم تو پردۂ در میں
پسِ پردہ نجانے کیا کیا ہے
آج ہر بات پر الجھتے ہو
کچھ پتا تو چلے ہُوا کیا ہے
وہ تو کہیے کہ خیریت گذری
ورنہ میں کیا مری دعا کیا ہے
کہنے والے کو دیکھتے ہیں لوگ
یہ نہیں دیکھتے کہا کیا ہے
اِس چمن کو بنانے والے نے
کیا بنایا تھا بن گیا کیا ہے
بہتری خامشی میں ہے باصرِؔ
یوں بھی کہنے کو اب رہا کیا ہے
باصر کاظمی

وہ چاندنی وہ گھر وہ ہوا یاد آ گئی

بیتے ہوئے دنوں کی فضا یاد آ گئی
وہ چاندنی وہ گھر وہ ہوا یاد آ گئی
جیسے کوئی پکار رہا ہو کہیں مجھے
یہ آدھی رات کس کی صدا یاد آ گئی
تازہ تھا زخمِ ہجر تو تدبیر کچھ نہ کی
اب لا علاج ہے تو دوا یاد آ گئی
وہ شکل دُور رہ کے بھی ہے کتنی مہرباں
جب دل نے اُس کو یاد کیا یاد آ گئی
باصرِؔ کسی سے عہدِ وفا کر رہے تھے آج
ناگاہ پھر کسی کی وفا یاد آ گئی
باصر کاظمی

دیکھ کے کیا پلٹا ہے کچھ تو بتا او یار!

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
شاہ نگر سے وہ کہ ہے شہرِ ریا او یار!
دیکھ کے کیا پلٹا ہے کچھ تو بتا او یار!
کب تک اور ہمیں بے دم ٹھہرائے گی
ذکر سے شاہوں کے مسموم ہوا او یار!
اپنا مقدّر جنیں یا آفت سمجھیں
جس میں گھرے ہیں ہم وہ حبس ہے کیا او یار!
زورآور خوشبو بردار بتائیں جسے
کیوں وہ صبا لگتی ہے تعفّن زا او یار!
ذہن میں در آئے ہیں یہ کون سے اندیشے
بستر تک کیوں لگنے لگا ہے چِتا او یار!
جبر نے کونسا اور اب طیش دکھایا ہے
عدل کے حجلوں میں بھی شور بپا او یار!
رُخ پہ سرِ میداں نہ یہ کالک مَل اپنے
ماجِد تجھ سے کہے مت پیٹھ دکھا او یار!
ماجِد جبر کی رُت میں سخن کو دھیما رکھ
دھیان میں اپنے پیری بھی کچھ لا او یار!
ماجد صدیقی

رُت اپنے نگر کی اور کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
ہر جسم پہ گرد کی ردا ہے
رُت اپنے نگر کی اور کیا ہے
وُہ دوستی ہو کہ دُشمنی ہو
اِک کرب ہے دُوسری بلا ہے
دیتا ہے افق افق دکھائی
اک شخص کہ چاند سا ڈھلا ہے
کیا درس دِلا رہا ہے دیکھو!
پانی پہ جو بُلبُلہ اُٹھا ہے
بدلی نئی رُت نے اور کروٹ
پِھر شاخ پہ تازہ چہچہا ہے
پہچان کب اس کی جانے ہو گی
ماجِد کہ جو کُنج میں پڑا ہے
ماجد صدیقی

کیا اور نجانے دیکھنا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
ہر سمت ہی حشر اِک بپا ہے
کیا اور نجانے دیکھنا ہے
نِت اپنی جھلک دکھانے آئے
وُہ بُوم کہ بام پر بسا ہے
اِک اور کی ڈور سے وُہ دیکھو
اِک اور پتنگ لُٹ چلا ہے
جارِح کو گئے تھے جو دکھانے
وُہ زخم تو پھر بھی اَن سِلا ہے
گر دِل نہ رکاوٹوں کو مانے
مشکل ہو کوئی بھی سو وُہ کیا ہے
دِن کتنے ہیں اور کام کتنے
ماجِد تُجھے یہ بھی سوچنا ہے
ماجد صدیقی

جہان دیکھتا اپنا سلوک کیا ہوتا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
ملا نہ تخت ہمیں اور اگر ملا ہوتا
جہان دیکھتا اپنا سلوک کیا ہوتا
کھلے کی دھوپ میں کوئی تو آسرا ہوتا
وہ چاہے سایہ کسی گرد باد کا ہوتا
نظامِ دہر نجانے سنبھالتا کیسے
ہُوا بہشت بدر جو اگر خدا ہوتا
ماجد صدیقی

ننّھی ننّھی خواہشیں خلقت کی، جو اغوا کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
وہ کمانڈو بھی تو ہوں ایسوں کو جو سِیدھا کریں
ننّھی ننّھی خواہشیں خلقت کی، جو اغوا کریں
ہر نگارِ شام اُن کے واسطے ہو مہ بکف
ہم ہلالِ عید بعد از سال ہی دیکھا کریں
اُن کے جتنے تیر ہیں موزوں ہوں وہ اہداف پر
اور ہمیں تلقین یہ ،ایسا کریں ویسا کریں ،
خود ہی جب اقبال سا لکھنا پڑے اس کا جواب
اے خدا تجھ سے بھی ہم شکوہ کریں تو کیا کریں
وہ ادا کرتے ہیں جانے موسموں کو کیا خراج
بدلیاں جن کے سروں پر بڑھ کے خود سایا کریں
ماجد صدیقی

سلجھا نہیں جو بخت کا دھاگا ملا مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
ماتھے کی سلوٹوں سے ہے اتنا گلا مجھے
سلجھا نہیں جو بخت کا دھاگا ملا مجھے
چھابہ بغل میں اور ہے خوانچہ، کنارِ دوش
عمرِ اخیر! اور یہ کیا دے دیا مجھے
اے خاک! آرزو میں نگلنے کی تن مرا
کیسا یہ بارِ خارکشی دے دیا مجھے
ایسا ہی تیرا سبزۂ نورس پہ ہے کرم
کیا بوجھ پتھروں سا دیا اے خدا ! مجھے
کج ہو چلی زبان بھی مجھ کُوز پشت کی
کیا کیا ابھی نہیں ہے لگانی صدا مجھے
اک اک مکاں اٹھا ہے مرے سر کے راستے
کیسا یہ کارِ سخت دیا مزد کا، مجھے
بچپن میں تھا جو ہمدمِ خلوت، ملا کِیا
مکڑا قدم قدم پہ وُہی گھورتا مجھے
میں تھک گیا ہوں شامِ مسافت ہوا سے پوچھ
منزل کا آ کے دے گی بھلا کب پتا مجھے
محتاج ابر و باد ہوں پودا ہوں دشت کا
لگتی نہیں کسی بھی رہٹ کی دعا مجھے
لاتی ہے فکرِ روزیِ یک روز، ہر سحر
آہن یہ کس طرح کا پڑا کوٹنا مجھے
بارِ گراں حیات کا قسطوں میں بٹ کے بھی
ہر روز ہر قدم پہ جھُکاتا رہا مجھے
اتنا سا تھا قصور کہ بے خانماں تھا میں
کسبِ معاش میں بھی ملی ہے خلا مجھے
حکمِ شکم ہے شہر میں پھیری لگے ضرور
سُوجھے نہ چاہے آنکھ سے کچھ راستا مجھے
میں بار کش ہوں مجھ پہ عیاں ہے مرا مقام
اِحساسِ افتخار دلاتا ہے کیا مجھے
میری بھی ایک فصل ہے اُٹھ کر جو شب بہ شب
دیتی ہے صبح گاہ نیا حوصلہ مجھے
کہتا ہے ہجرتوں پہ گئے شخص کو مکاں
آ اے حریصِ رزق ! کبھی مل ذرا مجھے
ماجد صدیقی

پئے رقص، لطفِ ہوا چاہتا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
گِرا ہوں شجر سے اُڑا چاہتا ہوں
پئے رقص، لطفِ ہوا چاہتا ہوں
وہی جو منگیتر سا ہے مجھ سے، مخفی
وہ منظر، نظر پر کھُلا چاہتا ہوں
سبھی ناؤ والے ہیں، اِک میں نہیں ہوں
کہ تنکے کا جو، آسرا چاہتا ہوں
گریزاں ہوں ابنائے قابیل سے میں
کہ شانوں پہ یہ سر، سجا چاہتا ہوں
وہی شہ رگوں میں جو پنہاں ہے، اُس کا
سرِ طُور کیوں سامنا چاہتا ہوں
گوارا ہو بے ناپ خلعت مجھے کیوں
جو زیبا مجھے ہو قبا چاہتا ہوں
نہیں چاہتا تاج میں پاپیادہ
میں توقیر، حسبِ انا چاہتا ہوں
لگے جیسے پہرے ہوں ہر اور میری
کہوں کس سے ماجدؔ، میں کیا چاہتا ہوں
ماجد صدیقی

دل کیوں بیکل سا ہے اتنی دیر گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
کس نے یاد کیا ہے اتنی دیر گئے
دل کیوں بیکل سا ہے اتنی دیر گئے
کس نے کس کی پھر دیوار پھلانگی ہے
کس کا چین لٹا ہے اِتنی دیر گئے
کس کی آنکھ سے آس کا تارا ٹوٹا ہے
کس پر کون کھُلا ہے اِتنی دیر گئے
دل کے پیڑ پہ پنکھ سمیٹے سپنوں میں
ہلچل سی یہ کیا ہے اِتنی دیر گئے
کن آنکھوں کی نم میں گھلنے آیا ہے
بادل کیوں برسا ہے اِتنی دیر گئے
سو گئے سارے بچّے بھی اور جگنو بھی
پھر کیوں شور بپا ہے اِتنی دیر گئے
دیکھ کے ماجدؔ چندا نے بیدار کسے
آنگن میں جھانکا ہے اِتنی دیر گئے
ماجد صدیقی

آگے انت اُس کا دیکھا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
شاخ پہ پھول کھِلا دیکھا ہے
آگے انت اُس کا دیکھا ہے
زور رہا جب تک سینے میں
تھا نہ روا جو، روا دیکھا ہے
فریادی ہی رہا وہ ہمیشہ
جو بھی ہاتھ اُٹھا دیکھا ہے
ہم نے کہ شاکی، خلق سے تھے جو
اب کے سلوکِ خدا دیکھا ہے
سنگدلوں نے کمزوروں سے
جو بھی کہا ، وُہ کِیا ، دیکھا ہے
جس سے کہو، کہتا ہے وُہی یہ
کر کے بَھلا بھی ، بُرا دیکھا ہے
اور نجانے کیا کیا دیکھے
ماجد نے ، کیا کیا دیکھا ہے
ماجد صدیقی

آپ سے ہو گیا بھی اگر سامنا ہم نہ کچھ کہہ سکے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
دل میں اندوہ جتنا تھا دل میں رہا ہم نہ کچھ کہہ سکے
آپ سے ہو گیا بھی اگر سامنا ہم نہ کچھ کہہ سکے
منعکس ہو سکی ہم سے بس اِس قدر اپنی رودادِ دل
ایک قطرہ سا پلکوں سے ڈھلکا کیا ہم نہ کچھ کہہ سکے
دل کے اندر تھا جو کچھ وہ چہرے پہ مرقوم ہوتا رہا
حشر سا اک پسِچشم ولب تھا بپا ہم نہ کچھ کہہ سکے
نارسائی کی کثرت نے ہم کو دلائے حجاب اس قدر
چھیڑتی رہ گئی آنچلوں کی ہوا ہم نہ کچھ کہہ سکے
عذر کیا کیا زباں پر نہ لائے، دئیے کوسنے کیا سے کیا
آپ ہی نے ہمیں جو کہا سو کہا ،ہم نہ کچھ کہہ سکے
ماجد صدیقی

ہم نہ بتلا تے، نہیں، ایسا نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
آپ ہی نے رازِدل پوچھا نہیں
ہم نہ بتلا تے، نہیں، ایسا نہیں
آپ سے ملنے کا ایسا تھا نشہ
رنگ تھا جیسے کوئی ،اُترا نہیں
سنگ دل تھے اہلِ دنیا بھی بہت
آپ نے بھی ،پیا ر سے دیکھا نہیں
دمبدم تھیں اِک ہمِیں پر یورشیں
تختۂ غیراں کبھی الٹا نہیں
توڑنا، پھر جوڑنا، پھر توڑنا
ہم کھلونوں پر کرم کیا کیا نہیں
ماجد صدیقی

تجھ سے کچھ اور نہ اے میرے مسیحا! مانگوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
صحنِ امروز میں بچپن کا اُجالا مانگوں
تجھ سے کچھ اور نہ اے میرے مسیحا! مانگوں
بہرِ عرفان، عطا زیست مکّرر ہو اگر
میں جو مانگوں تو فقط دیدۂ بینا مانگوں
ہونٹ مانگوں وہ تپش جن سے، سخن کی جھلکے
اور درونِ رگِ جاں، خون مچلتا مانگوں
حرفِ حق منہ پہ جو ہے، اُس کی پذیرائی کو
پیشِ فرعون، خدا سے یدِ بیضا مانگوں
جس نے دی عمر مجھے، وام ہی، چاہے دی ہے
وہ سخی مدِّ مقابل ہو تو کیا کیا مانگوں
جو بھی دیکھے اُسے صنّاع مرا، یاد آئے
میں سرِ خاک بس ایسا قدِ بالا مانگوں
جس پہ ٹھہرے نہ کوئی چشمِ تماشا ماجدؔ
لفظ در لفظ وہ معنی کا اُجالا مانگوں
ماجد صدیقی

آنکھ مری کیوں وا ہے اِتنی دیر گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
در کاہے کو کُھلا ہے اِتنی دیر گئے
آنکھ مری کیوں وا ہے اِتنی دیر گئے
کس نے کس کی پھر دیوار پھلانگی ہے؟
کس سے کون خفا ہے اِتنی دیر گئے
کس کی آنکھ کی آس کا تارا ٹُوٹا ہے
کس کا چین لُٹا ہے اِتنی دیر گئے
دل کے پیڑ پہ پنکھ سمیٹے سپنوں میں
ہلچل سی یہ کیا ہے اِتنی دیر گئے
کن آنکھوں کی نم میں، گُھلنے آیا ہے
بادل کیوں برسا ہے اِتنی دیر گئے
سو گئے سارے بچّے بھی اور جگنو بھی
پھر کیوں شور بپا ہے اِتنی دیر گئے
کس کو بے کل دیکھ کے ماجدؔ چندا نے
آنگن میں جھانکا ہے اِتنی دیر گئے
ماجد صدیقی

شور سُورج سے بچھڑ کر دن بھی کچھ ایسا کرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
گر کے پتّا شاخ سے جس طرح واویلا کرے
شور سُورج سے بچھڑ کر دن بھی کچھ ایسا کرے
تھے ہمِیں وُہ گُل جو گلدانوں میں بھی مہکا کئے
کون ہے ورنہ جو نُچ کر بھی سلوک اچّھا کرے
خواب تک میں بھی یہی رہتی ہے جانے آس کیوں
چاند جیسے ابر سے، کھڑکی سے وُہ جھانکا کرے
التفات ہم پر ہے یُوں اہلِ کرم کا جس طرح
دشت پر بھٹکا ہُوا بادل کوئی سایا کرے
فکر ہو بھی تو رعایا کو خود اپنی فکر ہو
شاہ کو کیا ہے پڑی ایسی کہ وہ سوچا کرے
کیا کہیں کتنی اپھل ہے نوکری اِس دَور کی
آدمی اِس سے تو دانے بھُون کر بیچا کرے
مُکھ دمک اُٹھیں سبھی تو رقص پر موقوف کیا
ہو گیا ایسا تو ماجدؔ جانے کیا سے کیا کرے
ماجد صدیقی

خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 93
زمیں پر کون کیسے جی رہا ہے
خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے
انگوٹھہ منہ سے نکلا ہے تو بچّہ
نجانے چیخنے کیوں لگ پڑا ہے
کسی کو پھر نگل بیٹھا ہے شاید
سمندر جھاگ سی دینے لگا ہے
گماں یہ ہے کہ بسمل کے بدن میں
کسی گھاؤ کا مُنہ پھر کُھل گیا ہے
ہوئی ہر فاختہ ہم سے گریزاں
نشاں جب سے عقاب اپنا ہوا ہے
وُہ دیکھو جبر کی شدّت جتانے
کوئی مجبور زندہ جل اٹھا ہے
بڑی مُدّت میں آ کر محتسب بھی
فقیہہِ شہر کے ہتّھے چڑھا ہے
لگے جیسے خطا ہر شخص اپنی
مِرے ہی نام لکھتا جا رہا ہے
بھُلا کر دشت کی غُّراہٹیں سب
ہرن پھر گھاٹ کی جانب چلا ہے
چلیں تو سیدھ میں بس ناک کی ہم
اِسی میں آپ کا، میرا بھلا ہے
دیانت کی ہمیں بھی تاب دے وُہ
شجر جس تاب سے پھُولا پھَلا ہے
بہلنے کو، یہ وُہ بستی ہے جس میں
بڑوں کے ہاتھ میں بھی جھنجھنا ہے
ملانے خاک میں، میری توقّع
کسی نے ہاتھ ٹھوڑی پر دھرا ہے
نہیں ہے سیج، دن بھی اُس کی خاطر
جو پہرہ دار شب بھر جاگتا ہے
کھِلے تو شاذ ہی مانندِ نرگس
لبوں پر جو بھی حرفِ مُدعّا ہے
نجانے ذکر چل نکلا ہے کس کا
قلم کاغذ تلک کو چُومتا ہے
اَب اُس سے قرب ہے اپنا کُچھ ایسا
بتاشا جیسے پانی میں گھُلا ہے
ہوئی ہے اُس سے وُہ لمس آشنائی
اُسے میں اور مجھے وُہ دیکھتا ہے
وُہ چاند اُترا ہوا ہے پانیوں میں
تعلّق اُس سے اپنا برملا ہے
نِکھر جاتی ہے جس سے رُوح تک بھی
تبسّم میں اُسی کے وُہ جِلا ہے
مَیں اُس سے لُطف کی حد پوچھتا ہوں
یہی کچُھ مجُھ سے وُہ بھی پُوچتھا ہے
بندھے ہوں پھُول رومالوں میں جیسے
مری ہر سانس میں وُہ یُوں رچا ہے
لگے ہے بدگماں مجھ سے خُدا بھی
وُہ بُت جس روز سے مجھ سے خفا ہے
جُدا ہو کر بھی ہوں اُس کے اثر میں
یہی تو قُرب کا اُس کے نشہ ہے
کہیں تارا بھی ٹوٹے تو نجانے
ہمارا خُون ہی کیوں کھولتا ہے
ہمارے رزق کا اِک ایک دانہ
تہِ سنگِ گراں جیسے دبا ہے
مِری چاروں طرف فریاد کرتی
مِری دھرتی کی بے دم مامتا ہے
رذالت بھی وراثت ہے اُسی کی
ہر اِک بچّہ کہاں یہ جانتا ہے
چھپا جو زہر تھا ذہنوں میں، اَب وُہ
جہاں دیکھو فضاؤں میں گھُلا ہے
اجارہ دار ہے ہر مرتبت کا
وُہی جو صاحبِ مکر و رِیا ہے
سِدھانے ہی سے پہنچا ہے یہاں تک
جو بندر ڈگڈگی پر ناچتا ہے
سحر ہونے کو شب جس کی، نہ آئے
اُفق سے تا اُفق وُہ جھٹپٹا ہے
نظر والوں پہ کیا کیا بھید کھولے
وُہ پتّا جو شجر پر ڈولتا ہے
وہاں کیا درسِ بیداری کوئی دے
جہاں ہر ذہن ہی میں بھُس بھرا ہے
ہوئی ہے دم بخود یُوں خلق جیسے
کوئی لاٹو زمیں پر سو گیا ہے
جہاں جانیں ہیں کچھ اِک گھونسلے میں
وہیں اِک ناگ بھی پھُنکارتا ہے
شجر پر شام کے، چڑیوں کا میلہ
صدا کی مشعلیں سُلگا رہا ہے
کوئی پہنچا نہ اَب تک پاٹنے کو
دلوں کے درمیاں جو فاصلہ ہے
نجانے رشک میں کس گلبدن کے
چمن سر تا بہ سر دہکا ہوا ہے
بہ نوکِ خار تُلتا ہے جو ہر دم
ہمارا فن وُہ قطرہ اوس کا ہے
یہی عنواں، یہی متنِ سفر ہے
بدن جو سنگِ خارا سے چِھلا ہے
نہیں پنیچوں کو جو راس آسکا وُہ
بُرا ہے، شہر بھر میں وُہ بُرا ہے
پنہ سُورج کی حّدت سے دلانے
دہانہ غار کا ہر دَم کھُلا ہے
جو زور آور ہے جنگل بھی اُسی کی
صدا سے گونجتا چنگھاڑتا ہے
نجانے ضَو زمیں کو بخش دے کیا
ستارہ سا جو پلکوں سے ڈھلا ہے
نہیں ہے کچھ نہاں تجھ سے خدایا!
سلوک ہم سے جو دُنیا نے کیا ہے
نجانے یہ ہُنر کیا ہے کہ مکڑا
جنم لیتے ہی دھاگے تانتا ہے
نہیں ہے شرطِ قحطِ آب ہی کچھ
بھنور خود عرصۂ کرب و بلا ہے
عدالت کو وُہی دامانِ قاتل
نہ دکھلاؤ کہ جو تازہ دُھلا ہے
گرانی درد کی سہنے کا حامل
وُہی اَب رہ گیا جو منچلا ہے
بہ عہدِ نو ہُوا سارا ہی کاذب
بزرگوں نے ہمیں جو کچھ کہا ہے
سُنو اُس کی سرِ دربار ہے جو
اُسی کا جو بھی فرماں ہے، بجا ہے
ہُوا ہے خودغرض یُوں جیسے انساں
ابھی اِس خاک پر آ کر بسا ہے
بتاؤ خلق کو ہر عیب اُس کا
یہی مقتول کا اَب خُوں بہا ہے
ہُوا ہے جو، ہُوا کیوں صید اُس کا
گرسنہ شیر کب یہ سوچتا ہے
بہم جذبات سوتیلے ہوں جس کو
کہے کس مُنہ سے وُہ کیسے پلا ہے
ملیں اجداد سے رسمیں ہی ایسی
شکنجہ ہر طرف جیسے کَسا ہے
جو خود کج رَو ہے کب یہ فرق رکھّے
روا کیا کچھ ہے اور کیا ناروا ہے
ذرا سی ضو میں جانے کون نکلے
اندھیرے میں جو خنجر گھونپتا ہے
سحر ہو، دوپہر ہو، شام ہو وُہ
کوئی بھی وقت ہو ہم پر کڑا ہے
جِسے کہتے ہیں ماجدؔ زندگانی
نجانے کس جنم کی یہ سزا ہے
کسی کا ہاتھ خنجر ہے تو کیا ہے
مرے بس میں تو بس دستِ دُعا ہے
جھڑا ہے شاخ سے پتّا ابھی جو
یہی کیا پیڑ کا دستِ دُعا ہے
اَب اُس چھت میں بھی، ہے جائے اماں جو
بہ ہر جا بال سا اک آ چلا ہے
وُہ خود ہر آن ہے نالوں کی زد میں
شجر کو جس زمیں کا آسرا ہے
نظر کیا ہم پہ کی تُو نے کرم کی
جِسے دیکھا وُہی ہم سے خفا ہے
بڑوں تک کو بنا دیتی ہے بونا
دلوں میں جو حسد جیسی وبا ہے
جو موزوں ہے شکاری کی طلب کو
اُسی جانب ہرن بھی دوڑتا ہے
گھِرے گا جور میں جب بھی تو ملزم
کہے گا جو، وُہی اُس کی رضا ہے
تلاشِ رزق میں نِکلا پرندہ
بہ نوکِ تیر دیکھو جا سجا ہے
کہے کیا حال کوئی اُس نگر کا
جہاں کُتّا ہی پابندِ وفا ہے
وُہ پھل کیا ہے بہ وصفِ سیر طبعی
جِسے دیکھے سے جی للچا رہا ہے
بظاہر بند ہیں سب در لبوں کے
دلوں میں حشر سا لیکن بپا ہے
جہاں رہتا ہے جلوہ عام اُس کا
بہ دشتِ دل بھی وُہ غارِ حرا ہے
نمائش کی جراحت سے نہ جائے
موادِ بد جو نس نس میں بھرا ہے
نہ پُوچھے گا، بکاؤ مغویہ سا
ہمیں کس کس ریا کا سامنا ہے
نجانے نیم شب کیا لینے، دینے
درِ ہمسایہ پیہم باجتا ہے
مہِ نو سا کنارِ بام رُک کر
وُہ رُخ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے
کرا کے ماں کو حج دُولہا عرب سے
ویزا کیوں ساس ہی کا بھیجتا ہے
لگے تازہ ہر اک ناظر کو کیا کیا
یہ چہرہ آنسوؤں سے جو دھُلا ہے
ہُوا جو حق سرا، اہلِ حشم نے
اُسی کا مُنہ جواہر سے بھرا ہے
بہن اَب بھی اُسے پہلا سا جانے
وُہ بھائی جو بیاہا جا چکا ہے
مسیحاؤں سے بھی شاید ہی جائے
چمن کو روگ اَب کے جو لگا ہے
ہمیں لگتا ہے کیوں نجمِ سحر سا
وُہ آنسو جو بہ چشمِ شب رُکا ہے
پھلوں نے پیڑ پر کرنا ہے سایہ
نجانے کس نے یہ قصّہ گھڑا ہے
اُترتے دیکھتا ہوں گُل بہ گُل وُہ
سخن جس میں خُدا خود بولتا ہے
بشارت ہے یہ فرعونوں تلک کو
درِ توبہ ہر اک لحظہ کھُلا ہے
نہیں مسجد میں کوئی اور ایسا
سرِ منبر ہے جو، اِک باصفا ہے
خُدا انسان کو بھی مان لوں مَیں
یہی شاید تقاضا وقت کا ہے
دیانت سے تقاضے وقت کے جو
نبھالے، وُہ یقینا دیوتا ہے
مداوا کیا ہمارے پیش و پس کا
جہاں ہر شخص دلدل میں پھنسا ہے
لگا وُہ گھُن یہاں بدنیّتی کا
جِسے اندر سے دیکھو کھوکھلا ہے
عناں مرکب کی جس کے ہاتھ میں ہے
وُہ جو کچھ بھی اُسے کہہ دے روا ہے
کشائش کو تو گرہیں اور بھی ہیں
نظر میں کیوں وُہی بندِ قبا ہے
بغیر دوستاں، سچ پُوچھئے تو
مزہ ہر بات ہی کا کرکرا ہے
بنا کر سیڑھیاں ہم جنس خُوں کی
وُہ دیکھو چاند پر انساں چلا ہے
پڑے چودہ طبق اُس کو اُٹھانے
قدم جس کا ذرا پیچھے پڑا ہے
مری کوتاہ دستی دیکھ کر وُہ
سمجھتا ہے وُہی جیسے خُدا ہے
تلاشِ رزق ہی میں چیونٹیوں سا
جِسے بھی دیکھئے ہر دم جُتا ہے
وُہی جانے کہ ہے حفظِ خودی کیا
علاقے میں جو دشمن کے گھِرا ہے
صبا منت کشِ تغئیرِ موسم
کلی کھِلنے کو مرہونِ صبا ہے
بصارت بھی نہ دی جس کو خُدا نے
اُسے روشن بدن کیوں دے دیا ہے
فنا کے بعد اور پہلے جنم سے
جدھر دیکھو بس اِک جیسی خلا ہے
ثمر شاخوں سے نُچ کر بے بسی میں
کن انگاروں پہ دیکھو جا پڑا ہے
یہاں جس کا بھی پس منظر نہیں کچھ
اُسے جینے کا حق کس نے دیا ہے
کوئی محتاج ہے اپنی نمو کا
کوئی تشنہ اُسی کے خُون کا ہے
وطن سے دُور ہیں گو مرد گھر کے
بحمداﷲ گھر تو بن گیا ہے
ٹلے خوں تک نہ اپنا بیچنے سے
کہو ماجدؔ یہ انساں کیا بلا ہے
ماجد صدیقی

اپنی صورت بھی ہے کیا سے کیا ہو گئی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
مُو بہ مُو تھی جو ظلمت ضیا ہو گئی
اپنی صورت بھی ہے کیا سے کیا ہو گئی
لے کے نکلے غرض تو ہمارے لئے
خلق ساری ہی جیسے خدا ہو گئی
دیکھ ٹانگہ کچہری سے خالی مُڑا
ہے سجنوا کو شاید سزا ہو گئی
اَب نمِ برگ بھی ساتھ لاتی نہیں
اتنی قلّاش کیونکر ہوا ہو گئی
جس پہ تھا مرغ، صّیاد کے وار سے
شاخ تک وُہ شجر سے جدا ہو گئی
عدل ہاتھوں میں آیا تو اپنے لئے
جو بھی شے ناروا تھی روا ہو گئی
ہم نے کیونکر ریا کو ریا کہہ دیا
ہم سے ماجدؔ! یہ کیسی خطا ہو گئی
ماجد صدیقی

پھر بھی خاموش میرا خُدا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 70
سر کہیں اور جھُکنے لگا ہے
پھر بھی خاموش میرا خُدا ہے
گرد ہے نامرادی کی پیہم
اورِادھر میرا دستِ دعا ہے
ہاتھ میں برگ ہے پھر ہوا کے
پھر ورق اک الٹنے لگا ہے
محو ہیں ابر پھر قہقہوں میں
پھر نشیمن کوئی جل اٹھا ہے
معتبر ہی جو ٹھہرے تو مجھ پر
جو ستم بھی کرو تم، روا ہے
خود کلامی سی ہے ایک، ورنہ
شاعری میں دھرا اور کیا ہے
میرے حصے کا من و سلویٰ
جانے ماجدؔ کہاں رُک گیا ہے
ماجد صدیقی

جو کیا ہے صاحبو! اچّھا کیا اچّھا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 72
سامنے غیروں کے اپنے یار کو رُسوا کیا
جو کیا ہے صاحبو! اچّھا کیا اچّھا کیا
رفعتوں کی سمت تھیں اونچی اڑانیں آپ کی
اور میں بے چارگی سے آپ کو دیکھا کیا
آسماں ٹوٹا نہ گر، پھٹ جائے گی خود ہی زمیں
آنگنوں کے حبس نے یہ راز ہے افشا کیا
کل تلک کھُل جائے گا یہ بھید سارے شہر پر
ڈھانپنے کو عیب اپنے تم نے بھی کیا کیا کیا
گو سرِ ساحل تھا لیکن سیل ہی ایسا تھا کچھ
گال اپنے دیر تک ماجدؔ بھی سہلایا کیا
ماجد صدیقی

اُس نے بھی اب کے ہمیں رُسوا کہا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 111
جس کو باوصفِ ستم اپنا کہا
اُس نے بھی اب کے ہمیں رُسوا کہا
دَمبدم ہوں ضو فشاں اُس روز سے
جب سے ماں نے مجھ کو چاند ایسا کہا
عاق ہو کر رہ گئے پل میں سبھی
پیڑ نے پتّوں سے جانے کیا کہا
برق خود آ کر اُسے نہلا گئی
جس شجر کو ہم نے تھا میلا کہا
قولِ غالب ہے کہ اُس سے قبل بھی
ایک شاعر نے سخن اچّھا کہا
اک ہماری ہی زباں تھی زشت خُو
اُس نے تو ماجدؔ نہ کچھ بے جا کہا
ماجد صدیقی

مگر وُہ بھید مجھ پر کھُل چکا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 131
بدن اُس شوخ کا اِک بھید سا ہے
مگر وُہ بھید مجھ پر کھُل چکا ہے
ہوا میں اَب کے وُہ بّرش ہے جیسے
کوئی آرا سرِ جاں چل رہا ہے
یہ کس کے قرب کا لمحہ گل آسا
سر شاخِ نظر کھلنے لگا ہے
سماعت پر وُہ حرفِ تند اُس کا
کہ جیسے سنگ شیشے پر گرا ہے
یہ سورج کون سے سفّاک دن کا
مرے صحنِ نظر میں آ ڈھلا ہے
پرندہ ہانپتے اُترا تھا جس پر
وُہ دانہ چونچ ہی میں رہ گیا ہے
نہیں گر زہرِ خاموشی تو ماجدؔ!
لبوں پر پھر یہ نیلاہٹ سی کیا ہے
ماجد صدیقی

جو ناروا ہے تم اُس کو بھی اَب روا کہنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 132
بنے نہ بات تو بندوں کو بھی خُدا کہنا
جو ناروا ہے تم اُس کو بھی اَب روا کہنا
نہیں ہے کچھ بھی کسی پر گر آسماں ٹوٹے
جو اپنی جان پہ گزرے اُسے سَوا کہنا
کوئی طبیب ہو رکھتا ہے وہ عزیز ہمیں
کہ آ گیا ہے ہمیں درد کو دوا کہنا
نہیں نصیب میں جب حرف کے پذیرائی
تو دل میں کرب ہے جو بھی کسی سے کیا کہنا
کسی کا درد ہو آئے نظر وُہ سوتیلا
ہے آشنا کو بھی مشکل اب آشنا کہنا
ہے حرفِ حق کا تقاضا کہ دل میں ہو تو اُسے
کھلِے گلاب کی مانند برملا کہنا
تمیز، فہم سے اَب یہ اُٹھا ہی دو ماجدؔ!
کہ جو بُرا ہے اُسے بھی نہیں بُرا کہنا
ماجد صدیقی

اُس پر کیا لکھا جانا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 160
کورا کاغذ سوچ رہا ہے
اُس پر کیا لکھا جانا ہے
نرخ نہیں گو ایک سے لیکن
ہر انسان یہاں بِکتا ہے
کون ہے گالی سُن کر جس کے
ہونٹوں سے امرت ٹپکا ہے
دشتِ طلب میں بِن کُتّوں کے
کس کے ہاتھ شکار لگا ہے
اپنی چال سلامت رکھنے
شیر ہرن پر ٹوٹ پڑا ہے
کُود کے جلتی آگ میں دیکھو
پروانہ گلزار بنا ہے
ٹھیک ہے گر بیٹا یہ سوچے
اُس نے باپ سے کیا پایا ہے
پکڑا جانے والا ہی کیوں
تنہا دم مجرم ٹھہرا ہے
جس نے بھی جاں بچتی دیکھی
تنکوں تک پر وہ اٹکا ہے
مجرم نے پچھلی پیشی پر
جو بھی کہا اُس سے مُکرا ہے
خالق اپنی خلق سے کھنچ کر
عرش پہ جانے کیا کرتا ہے
بہلانے مجھ بچّے کو وہ
جنت کا لالچ دیتا ہے
پیڑ زبانوں کو لٹکائے
دشت سے جانے کیا کہتا ہے
دیواروں سے ڈرتا ہو گا
کہنے والا کیوں ٹھٹکا ہے
موجِ الم نے کھول کے بازو
مجھ کو جیسے بھنچ لیا ہے
اُتنا ہی قد کاٹھ ہے اُس کا
جتنا جس کو ظرف ملا ہے
کس کو اَب لوٹانے جائیں
گردن میں جو طوق پڑا ہے
ٹہنی عاق کرے خود اُس کو
پھول وگرنہ کب جھڑتا ہے
جینے والا جانے کیونکر
موت کے در پر آن کھڑا ہے
صحرا کی بے درد ہوا نے
بادل کو کب رُکنے دیا ہے
دیکھوں اور بس دیکھو اُس کو
جانے اُس تصویر میں کیا ہے
کہنے کی باتیں ہیں ساری
زخمِ رگِ جاں کب بھرتا ہے
رُت کی خرمستی یہ جانے
پودا کیسے پیڑ بنا ہے
برق اور رعد کے لطف و کرم سے
گلشن کو کب فیض ملا ہے
لوٹایا اِک ڈنک میں سارا
سانپ نے جتنا دُودھ پیا ہے
ربط نہیں اُس سے اتنا بھی
شہر میں جتنا کچھ چرچا ہے
بند کلی چُپ رہنا اُس کا
لب کھولے تو پھولوں سا ہے
برگ و ثمر آنے سے پہلے
شاخ نے کیا کیا جبر سہا ہے
گُل برساتا ہے اوروں پر
وُہ جو زخم مجھے دیتا ہے
کوہِ قاف سے اِس جانب وہ
ڈھونڈوں بھی تو کب ملتا ہے
اُس کی دو رنگی مت پُوچھو
کالر پر جو پھول سجا ہے
رسّی کی شِشکار ہے پیچھے
کھیت کنارے جال بِچھا ہے
ڈس لیتا ہے سانپ جسے بھی
رَسّی تک سے وہ ڈرتا ہے
قبرپہ جل مرنے والے کی
ایک دیا اب تک جلتا ہے
بانس انار سے آنکھ ملائے
اپنی قامت ناپ رہا ہے
موسیٰ ہر فرعون کی خاطر
مشکل سے نت نت آتا ہے
سارے ہونٹ سلے ہیں پھر بھی
گلیوں میں اک حشر بپا ہے
دھڑکن دھرکن ساز جدا ہیں
کس نے کس کا دُکھ بانٹا ہے
کرنا آئے مکر جسے بھی
زر کے ساتھ وُہی تُلتا ہے
خون میں زہر نہیں اُترا تو
آنکھوں سے پھر کیا رِستا ہے
ہم اُس سے منہ موڑ نہ پائے
پیار سے جس نے بھی دیکھا ہے
کون ہے وہ جو محرومی کی
تہمت اپنے سر لیتا ہے
کھُلتی ہے ہر آنکھ اُسی پر
غنچہ جب سے پھول بنا ہے
انساں اپنا زور جتانے
چاند تلک پر جا نکلا ہے
دل نے پھر گُل کھِل اُٹھنے پر
نام کسی کا دہرایا ہے
وقت صفائی مانگ کے ہم سے
کاہے کو مُنہ کھُلواتا ہے
ہم شبنم کے قطروں پرہی
سورج داتا کیوں جھپٹا ہے
فصلِ سکوں پر بُغض یہ کس کا
مکڑی بن کر آ ٹوٹا ہے
دل تتلی کا پیچھا کرتے
کن کانٹوں میں جا اُلجھا ہے
زخم اگر بھر جائے بھی تو
نقش کہاں اُس کا مٹتا ہے
انجانوں سا مجھ سے وُہ پوچھے
اُس سے مرا دل مانگتا کیاہے
پھول جھڑیں یا پتے سُوکھیں
موسم نے یہ کب دیکھا ہے
اَب تو دل کی بات اٹھاتے
لفظ بھی چھلنی سے چھنتاہے
تجھ بن جو منظر بھی دیکھیں
آنکھ میں کانٹوں سا چُبھتا ہے
کانوں کے دَر کھُل جائیں تو
پتھر تک گویا لگتا ہے
آنکھوں کی اِس جھیل میں جانے
کون کنول سا لہراتا ہے
دور فلک پر کاہکشاں کا
رنگ ترے سپنوں جیسا ہے
گلشن والے کب جانیں یہ
پنجرے میں دن کب ڈھلتا ہے
صبح اُسی کے صحن میں اُتری
جس کا دامن چاک ملا ہے
جانے کس خرمن پر پہنچے
تابہ اُفق جو کھیت ہرا ہے
مَیں وہ غار تمّنا کا ہوں
سورج جس سے رُوٹھ گیا ہے
جانے کیا کیا زہر نہ پی کر
انساں نے جینا سیکھا ہے
بحر پہ پُورے چاند کے ہوتے
پانی کیوں ٹھہرا ٹھہرا ہے
وہ کب سایہ سینت کے رکھے
رستے میں جو پیڑ اُگا ہے
اُس کا حسن برابر ہو تو
حرف زباں پر کب آتا ہے
دیکھنے پر اُس آئنہ رُو کے
پھولوں کا بھی رنگ اُڑا ہے
پھل اُترا جس ٹہنی پر بھی
پتھر اُس پر آن پڑا ہے
کب اوراق پُرانے پلٹے
وُہ کہ مجھے جو بھول چکا ہے
اپنی اپنی قبر ہے سب کی
کون کسی کے ساتھ چلا ہے
اَب تو اُس تک جانے والا
گستاخی کا ہی رستہ ہے
اُونٹ چلے ڈھلوان پہ جیسے
ایسا ہی کچھ حال اپنا ہے
لُٹ کے کہے یہ شہد کی مکھی
محنت میں بھی کیا رکھا ہے
کس نے آتا دیکھ کے مجھ کو
بارش میں در بھینچ لیا ہے
اُس سے حرفِ محبت کہنے
ہم نے کیا کیا کچھ لکھا ہے
دامن سے اُس شوخ نے مجھ کو
گرد سمجھ کر جھاڑ دیا ہے
فرق ہے کیوں انسانوں میں جب
سانس کا رشتہ اِک جیسا ہے
فرصت ہی کب پاس کسی کے
کون رُلانے بھی آتا ہے
یادوں کے اک ایک ورق پر
وُہ کلیوں سا کھِل اُٹھتا ہے
شیر بھی صید ہُوا تو آخر
دیواروں پر آ لٹکا ہے
نُچنے سے اِک برگ کے دیکھو
پیڑ ابھی تک کانپ رہا ہے
ایک ذرا سی چنگاری نے
سارا جنگل پھونک دیا ہے
لفظ سے پاگل سا برتاؤ
ساگر ناؤ سے کرتا ہے
بہلا ہے دل درد سے جیسے
بچہ کانچ سے کھیل رہا ہے
کڑوے پھل دینے والے کا
رشتہ باغ سے کب ملتا ہے
خدشوں میں پلنے والوں نے
سوچا ہے جو، وُہی دیکھا ہے
اپنے اپنے انت کو پانے
جس کو دیکھو دوڑ رہا ہے
زور آور سبزے نے دیکھو
بادل سے حق مانگ لیا ہے
کس رُت کے چھننے سے جانے
صحنِ گلستاں دشت ہوا ہے
ہونٹ گواہی دیں نہ کچھ اُس کی
دل میں جتنا زہر بھرا ہے
لفظ کے تیشے سے ابھرے جو
زخم وہی گہرا ہوتا ہے
آنکھ ٹھہرتی ہے جس پر بھی
منظر وُہ چھالوں جیسا ہے
بن کر کالی رات وہ دیکھو
کّوا چڑیا پر جھپٹا ہے
جتنا اپنے ساتھ ہے کوئی
اُتنا اُس کے ساتھ خُدا ہے
اونچی کر دے لو زخموں کی
پرسش وُہ بے رحم چِتا ہے
ساکت کر دے جو قدموں کو
جیون وُہ آسیب ہُوا ہے
دشت تھا اُس کا ہجر پہ ہم نے
یہ صحرا بھی پاٹ لیا ہے
مجھ سے اُس کا ذکر نہ چھیڑو
وہ جیسا بھی ہے اچّھا ہے
ساتھ ہمارے ہے وہ جب سے
اور بھی اُس کا رنگ کھُلا ہے
شاہی بھی قربان ہو اُس پر
ماجدؔ کو جو فقر ملا ہے
ماجد صدیقی

رُوح میں تُجھ کو سمایا دیکھوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
تن بدن لُطف سے نِکھرا دیکھوں
رُوح میں تُجھ کو سمایا دیکھوں
اشک در اشک ہوں عنواں تیرے
آئنوں میں تجھے اُترا دیکھوں
فیصلہ یہ بھی سُنا دے مجھ کو
مَیں ٹھہر جاؤں کہ رستہ دیکھوں
دیکھ کر چاند اُفق پر اُبھرا
تُجھ کو دیکھوں ترا ماتھا دیکھوں
ہاتھ پر لمس کی تحریر تری
ان لبوں سے تُجھے چکھا دیکھوں
کیسا موسم ہے یہ دِل پر ماجدؔ
تہ بہ تہ رنگ یہ کیا کیا دیکھوں
ماجد صدیقی

سجدۂ بے بسی ادا کیجے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 48
شاخ سے ایک اِک جھڑا کیجے
سجدۂ بے بسی ادا کیجے
دستِ گلچین و برق و ابر و ہوا
کس سے بچئے کسے خدا کیجے
زخم بن جائے جو سماعت کا
بات ایسی نہ تم کیا کیجے
اُس کو حرفوں میں ڈھالنے کے لئے
انگلیوں میں قلم لیا کیجے
خواہشِ اَوج کی سزا ہے یہی
ہوکے شعلہ بہ سر بُجھا کیجے
کُیوں دُکھے دل دُکھائیے ماجدؔ
چُپ نہ رہئے تو اور کیا کیجے
ماجد صدیقی

کھولی کتاب اور سرِ مَتن جا رُکا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
دیکھا نہ گرد پوش تھا کیا، ابتدا تھی کیا
کھولی کتاب اور سرِ مَتن جا رُکا
طے ہے کہ کھُل گیا بھی تو بھنچنا ہے پھر اُسے،
قاروں کے دَر کو ضربِ سُبک سے نہ کھٹکھٹا
ویسے ہی آپ شوخئِ عنوان پر گئے
چہرے پہ دل کا درد بھی بین السطور تھا
درسِ قبول تیرگئ عہدِ نو بھی دیکھ
بجتے ہی سائرن کے دِیا دل کا بُجھ گیا
تھی ابتدا کچھ اور مگر انتہا ہے اور
ماجدؔ تضاد ہے یہ تمہاری غزل میں کیا
ماجد صدیقی

کم ہوں نہ شورشیں ہی لہو کی تو کیا کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 62
خواہش تو ہے کہ دل کو سکوں آشنا کریں
کم ہوں نہ شورشیں ہی لہو کی تو کیا کریں
کچھ لطفِ بے نیازئ صحرا بھی چاہئے
ہر دم نہ زیر بارِ چمن ہی رہا کریں
شامل ہے مثلِ درد جو ماجدؔ بہ ہر نفس
اُس کرب ناروا کا مداوا بھی کیا کریں
ماجد صدیقی

میں ایسے اظہار سے جانے کیا لیتا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 90
پیشانی پر دل کے درد سجا لیتا ہوں
میں ایسے اظہار سے جانے کیا لیتا ہوں
اپنے کاج سنوار بھی لوں تو اِس سے کیا ہے
میں آخر کس ٹوٹے دل کی دُعا لیتا ہوں
رکھ کر عذر پرانا وہی مشقّت والا
میں بچّوں سے چُھپ کر کیا کچھ کھا لیتا ہوں
جس سے عیاں ہو میری کوئی اپنی نادانی
کس عیّاری سے وہ بات چھپا لیتا ہوں
یہ نسبت تو باعثِ رسوائی ہے ماجدؔ
شاخ سے جھڑکے موجِ صبا سے کیا لیتا ہوں
ماجد صدیقی

کرتے بھی کیا اور کہ سہہ گئے سینہ تان کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 94
برسے دِل پر تیر جو تیر تھے کڑی کمان کے
کرتے بھی کیا اور کہ سہہ گئے سینہ تان کے
جُڑتے ہیں کب دوستو جھڑتے پتّے شاخ سے
کیا کر لیں گے آپ بھی حال ہمارا جان کے
پھیلے دام نہ دیکھ کر آہو ہوئے اسیر جو
نکلے ہونگے دشت میں جی میں کیا کچھ ٹھان کے
لب پر ڈیرے آہ کے بکھرے تار نگاہ کے
کیسے ہوئے ملول ہیں ہم بھی دیکھو آن کے
دل سے اٹُھے درد کو ممکن تھا کب روکنا
ٹپکے آخر آنکھ سے چھالے مری زبان کے
نرم خرامی ابر سی، دریاؤں سا زور بھی
کیا کیا کچھ انداز ہیں ماجدؔ ترے بیان کے
ماجد صدیقی

اَب اپنے آپ کو یوں عُمر بھر سزا دوں گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
یہ ٹھان لی ہے کہ دل سے تجھے بھُلا دوں گا
اَب اپنے آپ کو یوں عُمر بھر سزا دوں گا
ہُوا یہ سایۂ ابلق بھی اَب جو نذرِ خزاں
تو راہ چلتے مسافر کو اور کیا دوں گا
سموم عام کروں گا اِسی کے ذرّوں سے
فضائے دہر کو اَب پیرہن نیا دوں گا
وہ کیا ادا ہے مجھے جس کی بھینٹ چڑھنا ہے
یہ فیصلہ بھی کسی روز اَب سُنا دوں گا
سزا سُناؤ تو اِس جُرم زیست کی مُجھ کو
صلیبِ درد کی بُنیاد تک ہلا دوں گا
ہر ایک شخص کا حق کچھ نہ کچھ ہے مجھ پہ ضرور
میں اپنے قتل کا کس کس کو خوں بہا دوں گا
جو سانس ہے تو یہی آس ہے کہ اب ماجدؔ
شبِ سیاہ کو بھی رُوپ چاند سا دوں گا
ماجد صدیقی

اے کاش یہ جان لوں کہ کیا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
مَیں برگ ہوں خاک ہوں ہوا ہوں
اے کاش یہ جان لوں کہ کیا ہوں
تجھ کو جو بہ غور دیکھتا ہوں
مَیں خود ہی پہ رشک کر رہا ہوں
منسوب ہے مجھ سے یہ ستم بھی
انجان دلوں سے کھیلتا ہوں
آؤ کہ یہ رُت نہ پھر ملے گی
مَیں آپ کی راہ دیکھتا ہوں
حالات سے مانگ کر خدائی
حالات سے کھیلنے لگا ہوں
شرماؤ گے دیکھ کر مجھے تُم
مَیں بھی تو تمہارا آئنہ ہوں
آگے کا سلوک جانے کیا ہو
غنچہ سا چمن میں کھِل چلا ہوں
قسمت میں شرر لکھے ہیں ماجدؔ
انگارہ صفت دہک رہا ہوں
ماجد صدیقی

اپنے اندر کے اُس شخص کو دیکھتا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
کاش! مَیں جس کے اُوپر ہوں اِک خوں سا
اپنے اندر کے اُس شخص کو دیکھتا
پاگلوں کی طرح وہ تجھے چاہنا
تھا مری سوچ کا وہ بھی اِک زاویہ
مُرغ تھا زد پہ تِیرِ قضا کی مگر
آشیاں تھا کھُلے بازوؤں دیکھتا
ساغرِ مئے پیے، ساتھ خوشبو لیے
در بدر ٹھوکریں کھا رہی تھی ہوا
وہ تو وہ اُس کے ہونے کا احساس بھی
تھا مہک ہی مہک، رنگ ہی رنگ تھا
چاند نکلا ہے ڈوبے گا کچھ دیر میں
چاہیئے بھی ہمیں اِس سمے اور کیا
کیسے بخشے گا آئینِ گلشن ہمیں
ہم نے مَسلا اِسے، دل کہ اِک پھُول تھا
عمر بھر ہم بھی خوشیوں کے منکر رہے
شکر ہے یہ بھی اِک مرحلہ طے ہوا
کیوں ہمیں چھُو کے ماجدؔ گزرنے لگی
آگ میں کیوں جھُلسنے لگی ہے صبا
ماجد صدیقی

کیا جُرم نجانے دِلِ وحشی نے کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 59
جو مرحلۂ زیست ہے پہلے سے کڑا ہے
کیا جُرم نجانے دِلِ وحشی نے کیا ہے
جو آنکھ جھکی ہے ترے سجدے میں گرے ہے
جو ہاتھ تری سمت اُٹھا، دستِ دُعا ہے
اُس درد کا ہمسر ہے ترا پیار نہ تُو ہے
تجھ سے کہیں پہلے جو مرا دوست ہوا ہے
آتا ہے نظر اور ہی اَب رنگِ گلستاں
خوشبُو ہے گریزاں تو خفا موجِ صبا ہے
دل ہے سو ہے وابستۂ سنگِ درِ دوراں
اور اِس کا دھڑکنا ترے قدموں کی صدا ہے
ماجدؔ ہے کرم برق کا پھر باغ پہ جیسے
پھر پیڑ کے گوشوں سے دھواں اُٹھنے لگا ہے
ماجد صدیقی

کیا کیا سلوک ہم سے چمن کی ہوا کرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 61
جھُلسے بدن کو گاہ نمو آشنا کرے
کیا کیا سلوک ہم سے چمن کی ہوا کرے
جاؤں درِ بہار پہ کاسہ بدست میں
ایسا تو وقت مجھ پہ نہ آئے خدا کرے
ہم کیوں کریں دراز کہیں دستِ آرزو
اپنی بلا سے کوئی مسیحا ہُوا کرے
ہاں ہاں مری نگاہ بھی سورج سے کم نہیں
آنکھوں میں کس کی دم کہ مرا سامنا کرے
ہاں ہاں مجھے ضیائے تخیّل عطا ہوئی
ایسا کوئی ملے بھی تو اِس دل میں جا کرے
ماجدؔ یہ طرزِ حُسنِ بیاں اور یہ رفعتیں
دل اس سے بڑھ کے اور تمّنا بھی کیا کرے
ماجد صدیقی

مَیں پھر بھی تُجھ سے تیرا پتہ پوچھتا رہا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
تو پھُول تھا، مہک تھا صدا کی ادا بھی تھا
مَیں پھر بھی تُجھ سے تیرا پتہ پوچھتا رہا
جل بُجھ کے رہ گیا ہوں بس اپنی ہی آگ میں
کِس زاویے پہ آ کے مقابل ترے ہوا
شب بھر ترے جمال سے چُنتا رہا وہ پھُول
پھُوٹی سحر تو میں بھی سحر کی مثال تھا
مَیں ہی تو تھا کہ جس نے دکھایا جہان کو
تیشے سے اِک پہاڑ کا سینہ چِھدا ہوا
بدلا ہے گلستاں نے نیا پیرہن اگر
گُدڑی پہ ہم نے بھی نیا ٹانکا لگا لیا
مَیں تھا اور اُس کا وقتِ سفر تھا اور ایک دھند
ہاں اُس کے بعد پھر کبھی دیکھا نہ زلزلہ
بعدِ خزاں ہے جب سے تہی دست ہو گئی
سہلا رہی ہے شاخِ برہنہ کو پھر ہوا
مَیں تو ہوا تھا تِیر کے لگتے ہی غرقِ آب
تالاب بھر میں خون مرا پھیلتا گیا
ہر اِک نظر پہ کھول دیا تُو نے اپنا آپ
دل کا جو بھید تھا اُسے ماتھے پہ لکھ لیا
واضح ہیں ہر کسی پہ ترے جسم کے خطوط
تُو تو چھپی سی چیز تھی تُو نے یہ کیا کیا
اِک بات یہ بھی مان کہ ماجدؔ غم و الم
پیروں کی خاک میں نہ اِنہیں سر پہ تو اُٹھا
ماجد صدیقی

وگرنہ زندگی ہم نے بھی کیا سے کیا نہیں کی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 95
کسی سے دل کی حکایت کبھی کہا نہیں کی
وگرنہ زندگی ہم نے بھی کیا سے کیا نہیں کی
ہر اک سے کون محبت نباہ سکتا ہے
سو ہم نے دوستی یاری تو کی، وفا نہیں کی
شکستگی میں بھی پندارِ دل سلامت ہے
کہ اس کے در پہ تو پہنچے مگر صدا نہیں کی
شکایت اس کی نہیں ہے کہ اس نے ظلم کیا
گلہ تو یہ ہے کہ ظالم نے انتہا نہیں کی
وہ نا دہند اگر تھا تو پھر تقاضا کیا
کہ دل تو لے گیا قیمت مگر ادا نہیں کی
عجیب آگ ہے چاہت کی آگ بھی کہ فراز
کہیں جلا نہیں کی اور کہیں بجھا نہیں کی
احمد فراز

صحرا کی تشنگی تھی سو دریا شراب پی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 92
کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی
صحرا کی تشنگی تھی سو دریا شراب پی
اپنوں نے تج دیا ہے تو غیروں میں جا کے بیٹھ
اے خانماں خراب! نہ تنہا شراب پی
تو ہم سفر نہیں ہے تو کیا سیرِ گلستاں
تو ہم سبو نہیں ہے تو پھر کیا شراب پی
اے دل گرفتۂ غم جاناں سبو اٹھا
اے کشتۂ جفائے زمانہ شراب پی
دو صورتیں ہیں دوستو دردِ فراق کی
یا اس کے غم میں ٹوٹ کے رو،۔۔ یا شراب پی
اک مہرباں بزرگ نے یہ مشورہ دیا
دکھ کا کوئی علاج نہیں، جا شراب پی
بادل گرج رہا تھا ادھر محتسب ادھر
پھر جب تلک یہ عقدہ نہ سلجھا شراب پی
اے تو کہ تیرے در پہ ہیں رندوں کے جمگھٹے
اک روز اس فقیر کے گھر آ، شراب پی
دو جام ان کے نام بھی اے پیر میکدہ
جن رفتگاں کے ساتھ ہمیشہ شراب پی
کل ہم سے اپنا یار خفا ہو گیا فراز
شاید کہ ہم نے حد سے زیادہ شراب پی
احمد فراز

اسے خبر ہی نہ تھی، خاک کیمیا تھی مری

احمد فراز ۔ غزل نمبر 89
میں مر مٹا تو وہ سمجھا یہ انتہا تھی مری
اسے خبر ہی نہ تھی، خاک کیمیا تھی مری
میں چپ ہوا تو وہ سمجھا کہ بات ختم ہوئی
پھر اس کے بعد تو آواز جا بجا تھی مری
جو طعنہ زن تھا مری پوششِ دریدہ پر
اسی کے دوش پہ رکھی ہوئی قبا تھی مری
میں اس کو یاد کروں بھی تو یاد آتا نہیں
میں اس کو بھول گیا ہوں، یہی سزا تھی مری
شکست دے گیا اپنا غرور ہی اس کو
وگرنہ اس کے مقابل بساط کیا تھی مری
کہیں دماغ کہیں دل کہیں بدن ہی بدن
ہر اک سے دوستی یاری جدا جدا تھی مری
کوئی بھی کوئے محبت سے پھر نہیں گزرا
تو شہرِ عشق میں کیا آخری صدا تھی مری؟
جو اب گھمنڈ سے سر کو اٹھائے پھرتا ہے
اسی طرح کی تو مخلوق خاکِ پا تھی مری
ہر ایک شعر نہ تھا در خورِ قصیدۂ دوست
اور اس سے طبعِ رواں خوب آشنا تھی مری
میں اس کو دیکھتا رہتا تھا حیرتوں سے فراز
یہ زندگی سے تعارف کی ابتدا تھی مری
احمد فراز

جانے کیا دور ہے، کیا لوگ ہیں، کیا کہتے ہیں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 78
زخم کو پھول تو صَرصَر کو صبا کہتے ہیں
جانے کیا دور ہے، کیا لوگ ہیں، کیا کہتے ہیں
کیا قیامت ہے کہ جن کے لئے رک رک کے چلے
اب وہی لوگ ہمیں آبلہ پا کہتے ہیں
کوئی بتلاؤ کہ اک عمر کا بِچھڑا محبوب
اتفاقا کہیں‌مل جائے تو کیا کہتے ہیں
یہ بھی اندازِ سخن ہے کہ جفا کو تیری
غمزہ و عشوہ و انداز و ادا کہتے ہیں
جب تلک دور ہے تو تیری پرستش کر لیں
ہم جسے چھو نہ سکیں اس کو خدا کہتے ہیں
کیا تعجب ہے کہ ہم اہل تمنا کو فراز
وہ جو محرومِ تمنا ہیں‌ برا کہتے ہیں
احمد فراز

کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 60
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں
تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا
ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں
ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں
پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں
ہم اگر منزلیں نہ بن پائے
منزلوں تک کا راستہ ہو جائیں
دیر سے سوچ میں ہیں پروانے
راکھ ہو جائیں یا ہوا ہو جائیں
اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ایسے لپٹیں تری قبا ہو جائیں
بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فراز
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں
احمد فراز

آج کیا جانیے کیا یاد آیا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 25
جو بھی دکھ یاد نہ تھا یاد آیا
آج کیا جانیے کیا یاد آیا
پھر کوئی ہاتھ ہے دل پر جیسے
پھر ترا عہد وفا یاد آیا
جس طرح دھند میں‌لپٹے ہوئے پھول
ایک اک نقش ترا یاد آیا
ایسی مجبوری کے عالم میں‌ کوئی
یاد آیا بھی تو کیا یاد آیا
اے رفیقو سر منزل جا کر
کیا کوئی آبلہ پا یاد آیا
یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
پھر نہیں‌ یاد کہ کیا یاد آیا
جب کوئی زخم بھرا داغ بنا
جب کوئی بھول گیا یاد آیا
یہ محبت بھی ہے کیا روگ فراز
جس کو بھولے وہ سدا یاد آیا
احمد فراز

مہک اُداسی ہے، بادِ صبا اُداسی ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 97
عجب ہے رنگِ چمن، جا بجا اُداسی ہے
مہک اُداسی ہے، بادِ صبا اُداسی ہے
نہیں نہیں، یہ بھلا کس نے کہہ دیا تم سے؟
میں ٹھیک ٹھاک ہوں، ہاں بس ذرا اُداسی ہے
میں مبتلا کبھی ہوتا نہیں اُداسی میں
میں وہ ہوں جس میں کہ خود مبتلا اُداسی ہے
طبیب نے کوئی تفصیل تو بتائی نہیں
بہت جو پوچھا تو اتنا کہا، اُداسی ہے
گدازِ قلب خوشی سے بھلا کسی کو ملا؟
عظیم وصف ہی انسان کا اُداسی ہے
شدید درد کی رو ہے رواں رگِ جاں میں
بلا کا رنج ہے، بے انتہا اُداسی ہے
فراق میں بھی اُداسی بڑے کمال کی تھی
پسِ وصال تو اُس سے سِوا اُداسی ہے
تمہیں ملے جو خزانے، تمہیں مبارک ہوں
مری کمائی تو یہ بے بہا اُداسی ہے
چھپا رہی ہو مگر چھپ نہیں رہی مری جاں
جھلک رہی ہے جو زیرِ قبا اُداسی ہے
مجھے مسائلِ کون و مکاں سے کیا مطلب
مرا تو سب سے بڑا مسئلہ اُداسی ہے
فلک ہے سر پہ اُداسی کی طرح پھیلا ہُوا
زمیں نہیں ہے مرے زیرِ پا، اُداسی ہے
غزل کے بھیس میں آئی ہے آج محرمِ درد
سخن کی اوڑھے ہوئے ہے ردا، اُداسی ہے
عجیب طرح کی حالت ہے میری بے احوال
عجیب طرح کی بے ماجرا اُداسی ہے
وہ کیفِ ہجر میں اب غالباً شریک نہیں
کئی دنوں سے بہت بے مزا اُداسی ہے
وہ کہہ رہے تھے کہ شاعر غضب کا ہے عرفان
ہر ایک شعر میں کیا غم ہے، کیا اُداسی ہے
عرفان ستار

اب تو بس معلوم کرنا ہے کہ کیا موجود ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 84
یہ خبر ہے، مجھ میں کچھ میرے سِوا موجود ہے
اب تو بس معلوم کرنا ہے کہ کیا موجود ہے
ایک میں ہوں، جس کا ہونا ہو کے بھی ثابت نہیں
ایک وہ ہے جو نہ ہو کر جابجا موجود ہے
ہاں خدا ہے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں
اس سے تم یہ مت سمجھ لینا خدا موجود ہے
حل کبھی ہوتا نہیں یہ جسم سے چھوٹے بغیر
میں ابھی زندہ ہوں سو یہ مسئلہ موجود ہے
تاب آنکھیں لا سکیں اُس حسن کی، ممکن نہیں
میں تو حیراں ہوں کہ اب تک آئینہ موجود ہے
رات کٹتی ہے مزے میں چین سے ہوتی ہے صبح
چاندنی موجود ہے بادِ صبا موجود ہے
روشنی سی آرہی ہے اِس طرف چھنتی ہوئی
اور وہ حدۤت بھی جو زیرِ قبا موجود ہے
ایک پل فرصت کہاں دیتے ہیں مجھ کو میرے غم
ایک کو بہلا دیا تو دوسرا موجود ہے
درد کی شدۤت میں بھی چلتی ہے میرے دل کے ساتھ
اک دھڑکتی روشنی جو ہر جگہ موجود ہے
معتبر تو قیس کا قصہ بھی ہے اس ضمن میں
اس حوالے سے مرا بھی واقعہ موجود ہے
خواب میں اک زخم دیکھا تھا بدن پر جس جگہ
صبح دیکھا تو وہاں اک داغ سا موجود ہے
ایک ہی شعلہ سے جلتے آرہے ہیں یہ چراغ
میر سے مجھ تک وہی اک سلسلہ موجود ہے
یوں تو ہے عرفان ہر احساس ہی محدود سا
اک کسک سی ہے کہ جو بے انتہا موجود ہے
عرفان ستار

میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 81
مرے خواب سے اوجھل اُس کا چہرہ ہو گیا ہے
میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے
تعلق اب یہاں کم ہے ملاقاتیں زیادہ
ہجومِ شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے
تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی
مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے
جو باغِ آرزو تھا اب وہی ہے دشتِ وحشت
یہ دل کیا ہونے والا تھا مگر کیا ہو گیا ہے
میں سمجھا تھا سیئے گی آگہی چاکِ جنوں کو
مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے
میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے
ترے آنے سے آیا کون سا ایسا تغیر
فقط ترکِ مراسم کا مداوا ہو گیا ہے
مرا عالم اگر پوچھیں تو اُن سے عرض کرنا
کہ جیسا آپ فرماتے تھے ویسا ہو گیا ہے
میں کیا تھا اور کیا ہوں اور کیا ہونا ہے مجھ کو
مرا ہونا تو جیسے اک تماشا ہو گیا ہے
یقینا ہم نے آپس میں کوئی وعدہ کیا تھا
مگر اس گفتگو کو ایک عرصہ ہو گیا ہے
اگرچہ دسترس میں آ گئی ہے ساری دنیا
مگر دل کی طرف بھی ایک در وا ہو گیا ہے
یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن
بقدرِ عمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے
مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز
چلو عرفانؔ اٹھ جاؤ سویرا ہو گیا ہے
عرفان ستار

میری حالت تو کوئی دیکھنے والا سمجھے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 74
جو ہو خود ایک تماشا وہ بھلا کیا سمجھے
میری حالت تو کوئی دیکھنے والا سمجھے
مجھ میں آباد ہے اک شہر، ترے حُسن کا شہر
وہ جو باہر سے مجھے دیکھے وہ تنہا سمجھے
مجھ سے ممکن یہ نہیں ہے کہ میں کھل کر کہہ دوں
اس کے بس میں یہ نہیں ہے کہ اشارہ سمجھے
آہ ایسی، کہ سنے کوئی تو سمجھے نغمہ
اشک ایسا، کوئی دیکھے تو ستارا سمجھے
ٹھیک ہے دشت بھی ہوں، باغ بھی ہوں، دریا بھی
جس کو جیسا نظر آؤں مجھے ویسا سمجھے
لفظ پردہ ہیں، اسے کاش بتا دے کوئی
اس کو سمجھائے کہ سمجھے، مرا لہجہ سمجھے
بس یہی ہے جو میّسر ہے مرے قرب کے ساتھ
جو مرے دل میں بسے وہ اِسے دنیا سمجھے
سانحہ کرکے سنایا تھا اُسے رنجِ فراق
سُن کے بس اتنا کہا اُس نے کہ ’’اچھا۔ ۔ ۔ سمجھے‘‘
دل کسی حرفِ ملائم سے سنبھل بھی جاتا
میرے سینے میں اچھلتا ہے بگولا، سمجھے؟
وصل سے اِن کے نمو پاتی ہے اک کیفیۤت
کوئی الفاظ و معانی کا یہ رشتہ سمجھے
اتنا دشوار ہوں کیا میں جو کسی پر نہ کھلوں؟
کوئی تو ہو مجھے میرے علاوہ سمجھے
ابھی سمجھو تو میں کیا خوب سخن تم سے کروں
بعد میرے مجھے سمجھے بھی تو پھر کیا سمجھے
تُو سمجھتا ہے اُسے، شکر بجا لا عرفان
وہ جسے دیر نہ کعبہ، نہ کلیسا سمجھے
عرفان ستار