ٹیگ کے محفوظات: کیاری

بے موقع یاں آہ و فغاں ہے بے اثری زاری میں ہے

دیوان پنجم غزل 1742
یاری کرے جو چاہے کسو سے غم ہی غم یاری میں ہے
بے موقع یاں آہ و فغاں ہے بے اثری زاری میں ہے
ہاتھ لیے آئینہ تجھ کو حیرت ہے رعنائی کی
ہے بھی زمانہ ہی ایسا ہر کوئی گرفتاری میں ہے
باغ میں شب جو روتا پھرتا ہوں اس بن میں سو صبح تلک
دانۂ اشک روش شبنم کے گل پر ہر کیاری میں ہے
صورتیں بگڑیں کتنی کیوں نہ اس کو توجہ کب ہے وہ
سامنے رکھے آئینہ مصروف طرحداری میں ہے
میر کوئی اس صورت میں امید بہی کی کیا رکھے
ایک جراحت سینے کے میرے ہر زخم کاری میں ہے
میر تقی میر

کیا ہوئی تقصیر اس کی نازبرداری کے بیچ

دیوان چہارم غزل 1372
رنج کیا کیا ہم نے کھینچے دوستی یاری کے بیچ
کیا ہوئی تقصیر اس کی نازبرداری کے بیچ
دوش و آغوش و گریباں دامن گلچیں ہوئے
گل فشانی کر رہی ہے چشم خونباری کے بیچ
ایک کو اندیشۂ کار ایک کو ہے فکر یار
لگ رہے ہیں لوگ سب چلنے کی تیاری کے بیچ
منتظر تو رہتے رہتے پھر گئیں آنکھیں ندان
وہ نہ آیا دیکھنے ہم کو تو بیماری کے بیچ
جان کو قید عناصر سے نہیں ہے وارہی
تنگ آئے ہیں بہت اس چار دیواری کے بیچ
روتے ہی گذری ہمیں تو شب نشینی باغ کی
اوس سی پڑتی رہی ہے رات ہر کیاری کے بیچ
یاد پڑتا ہے جوانی تھی کہ آئی رفتگی
ہو گیا ہوں میں تو مست عشق ہشیاری کے بیچ
ایک ہوویں جو زبان و دل تو کچھ نکلے بھی کام
یوں اثر اے میر کیا ہو گریہ و زاری کے بیچ
میر تقی میر

دریا سے پوچھو، رات یہ ہم نے کیسے گزاری دریا کنارے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 265
کشتی تو اپنی خود ہی جلا دی، بستی ہماری دریا کنارے
دریا سے پوچھو، رات یہ ہم نے کیسے گزاری دریا کنارے
برفیلی رُت نے جب بھی تمہاری مٹّی کا دانہ پانی چرایا
دیکھو پرندو‘ رب نے تمہاری روزی اتاری دریا کنارے
تم بھی مسافر کتنے دلاور‘ ہم بھی مسافر کیسے شناور
آندھی کے پیچھے جنگل سے ناتا‘ دریا سے یاری دریا کنارے
ریتی کے پیلے دامن پہ ہم بھی رنگِ حنا سے بکھرے پڑے ہیں
موجِ بہاراں‘ آئے گی کب تک تیری سواری دریا کنارے
تمثیل سمجھو یا استعارہ اتنا سا لوگو، قصہ ہمارا
آنکھوں میں اپنی پھولوں سے چہرے، چہروں کی کیاری دریا کنارے
عرفان صدیقی