ٹیگ کے محفوظات: کہکشاں

مٹے ہیں لاکھوں ستارے ہی کہکشاں کے لیے

ہر ایک موت ہے تعمیرِ نکتہ داں کے لیے
مٹے ہیں لاکھوں ستارے ہی کہکشاں کے لیے
یہ بہکی بہکی سی باتیں یہ مضمحل نظریں
سُکوں نواز نہ بن جائیں نیم جاں کے لیے
غَرَض کے واسطے جیتی ہے فطرتاً دنیا
بہار پھول کھلاتی نہیں خزاں کے لیے
خوشی زمانے کو مرغوب ہی سہی، لیکن
الم حَسین ہے عنوانِ داستاں کے لیے
خرامِ ناز، نظرمست، منتشر زلفیں
یہ اہتمام ہے کیوں، کس لیے، کہاں کے لیے!
حقائقِ غمِ اُلفت کبھی چُھپے ہیں شکیبؔ!
بیان کیسے بدلتا میں راز داں کے لیے
شکیب جلالی

لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

تمہارا نام سرِ لوحِ جاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے
لہو سے تر ہے ورق در ورق بیاضِ سخن
حسابِ دل زدگاں سب یہاں لکھا ہوا ہے
نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟
فصیلِ شہر پہ شہرِ اماں لکھا ہوا ہے
ملی ہے اہلِ جنوں کو جہاں بشارتِ اجر
وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے
زمیں بھی تنگ ہوئی، رزق بھی، طبیعت بھی
مرے نصیب میں کیا آسماں لکھا ہوا ہے؟
یہ کیسی خام امیدوں پہ جی رہے ہو میاں؟
پڑھو تو، لوحِ یقیں پر گماں لکھا ہوا ہے
تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے؟
ذرا ہمیں بھی دکھاوٗ، کہاں لکھا ہوا ہے؟
یہ کائنات سراسر ہے شرحِ رازِ ازل
کلامِ حق تو سرِ کہکشاں لکھا ہوا ہے
میں سوچتا ہوں تو کیا کچھ نہیں عطائے وجود
میں دیکھتا ہوں تو بس رائگاں لکھا ہوا ہے
جو چاہتا تھا میں جس وقت، وہ کبھی نہ ہُوا
کتابِ عمر میں سب ناگہاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہوا نہیں کچھ بھی بنامِ خوابِ وجود
نبود و بود کے سب درمیاں لکھا ہوا ہے
عدو سے کوئی شکایت نہیں ہمیں عرفان
حسابِ رنج پئے دوستاں لکھا ہوا ہے
عرفان ستار

سکونِ قلب گریزاں ہے ہر فغاں خاموش

ترے اسیرِ جفا کی ہے داستاں خاموش
سکونِ قلب گریزاں ہے ہر فغاں خاموش
تری جفا پہ بھلا کس کو جراتِ فریاد
زمیں تھی محوِ تماشا و آسماں خاموش
شبِ فراق کے ماروں کو دیکھ کر مایوس
چلا فَلَک سے ستاروں کا کارواں خاموش
بیانِ غم پہ مرے سب رہے ترے ہمساز
ہر ایک گوش بر آواز و ہر زباں خاموش
شکست و فتح و نشیب و فراز کے ہمراز
یہ زخمہائے جگر مثلِ کہکشاں خاموش
جفائے یار لباسِ وفا میں تھی ملبوس
سو لے کے آگئے ضامنِؔ یہ ارمغاں خاموش
ضامن جعفری

کہ دشتِ سود و زیاں سے آگے اُتار مجھ کو

بساطِ خورشیدِ جاں سے آگے اُتار مجھ کو
کہ دشتِ سود و زیاں سے آگے اُتار مجھ کو
پڑاؤ میرا یہیں کہیں ہے میں جانتا ہوں
سو بے نشاں کے نشاں سے آگے اُتار مجھ کو
کسے خبر ہے کہاں کہاں سے یہ چھیل ڈالے
بدن کے کوہِ گراں سے آگے اُتار مجھ کو
میں ارتقا کی اک ایک حد کو پھلانگ جاؤں
کبھی تو اِس کہکشاں سے آگے اُتار مجھ کو
عجب نہیں ہے کہ عشق کی موت مارا جاؤں
تُو کوچۂ مہ وشاں سے آگے اُتار مجھ کو
میں دوستوں کی عنایتوں سے ڈرا ہوا ہوں
فلکؔ صفِ دشمناں سے آگے اُتار مجھ کو
افتخار فلک

زمین کیا ہے، فضا کیا ہے، آسماں کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
نگاہ میں ہے جو منظر بہ جُز گماں کیا ہے
زمین کیا ہے، فضا کیا ہے، آسماں کیا ہے
یہ جانتے ہیں مسافر فقط اندھیروں کے
ستارۂ سحری کیا ہے، کہکشاں کیا ہے
نظر میں لا کے تنِ برگِ زرد کا لرزہ
کُھلا یہ ہم پہ کہ اندیشۂ خزاں کیا ہے
گدا گدا ہے سو کُتّوں کا سامنا ہے اُسے
غنی کے واسطے آوازۂ سگاں کیا ہے
زوالِ عمر تلک ہم نہ سُرخرو ٹھہرے
حیات!تُجھ سا کوئی اور امتحاں کیا ہے
کوئی رہا ہے نہ ماجِد کسی نے رہنا ہے
تو پھر یہ مضحکۂ رنجِ رفتگاں کیا ہے
ماجد صدیقی

لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 78
تمہارا نام سرِ لوحِ جاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے
لہو سے تر ہے ورق در ورق بیاضِ سخن
حسابِ دل زدگاں سب یہاں لکھا ہوا ہے
نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟
فصیلِ شہر پہ شہرِ اماں لکھا ہوا ہے
ملی ہے اہلِ جنوں کو جہاں بشارتِ اجر
وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے
زمیں بھی تنگ ہوئی، رزق بھی، طبیعت بھی
مرے نصیب میں کیا آسماں لکھا ہوا ہے؟
یہ کیسی خام امیدوں پہ جی رہے ہو میاں؟
پڑھو تو، لوحِ یقیں پر گماں لکھا ہوا ہے
تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے؟
ذرا ہمیں بھی دکھاوٗ، کہاں لکھا ہوا ہے؟
یہ کائنات سراسر ہے شرحِ رازِ ازل
کلامِ حق تو سرِ کہکشاں لکھا ہوا ہے
میں سوچتا ہوں تو کیا کچھ نہیں عطائے وجود
میں دیکھتا ہوں تو بس رائگاں لکھا ہوا ہے
جو چاہتا تھا میں جس وقت، وہ کبھی نہ ہُوا
کتابِ عمر میں سب ناگہاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہوا نہیں کچھ بھی بنامِ خوابِ وجود
نبود و بود کے سب درمیاں لکھا ہوا ہے
عدو سے کوئی شکایت نہیں ہمیں عرفان
حسابِ رنج پئے دوستاں لکھا ہوا ہے
عرفان ستار

ہے خاکِ تن ہوا و ہوا خوں فشاں ہنوز

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 52
ہم بے نشان اور وفا کا نشاں ہنوز
ہے خاکِ تن ہوا و ہوا خوں فشاں ہنوز
بیت الحزن میں نغمۂ شادی بلند ہے
نکلا ہی بابِ مصر سے ہے کارواں ہنوز
صبحِ شبِ وصال نیِ صبح ہے، مگر
پرویں ہنوز جلوہ گر و کہکشاں ہنوز
ہرگز ابھی شکایتِ دشمن نہ چاہئے
ہم پر بھی یار خوب نہیں مہرباں ہنوز
کیوں کر کہیں کہ چھٹ گئے ہم بندِ جسم سے
اس زلفِ پیچ پیچ میں الجھی ہے جاں ہنوز
جو بات میکدے میں ہے اک اک زبان پر
افسوس مدرسے میں ہے بالکل نہاں ہنوز
ضبط و شکیب یاں ہے نقابِ جمال میں
بے وجہ واں نہیں ہے سرِ امتحاں ہنوز
مدت ہوئی بہارِ جہاں دیکھتے ہوئے
دیکھا نہیں کسی نے گلِ بے خزاں ہنوز
اکثر ہوا ہے مجھ کو سفر در وطن مگر
لایا نہ دوستوں کے لئے ارمغاں ہنوز
اک شب ہوا تھا جلوہ نما چرخ پر وہ ماہ
مدہوش ہیں ملائکۂ آسماں ہنوز
نا آشنا رقیب سے ہے آشنا ابھی
نا آشنا ہے لب سے ہمارے فغاں ہنوز
آشفتہ زلف، چاک قبا، نیم باز چشم
ہیں صحبتِ شبانہ کے ظاہر نشاں ہنوز
اے موجۂ نسیم ذرا اور ٹھہر جا
ہے خاک پر ہماری وہ دامن فشاں ہنوز
مے خانے میں تمام جوانی بسر ہوئی
لیکن ملا نہ منصبِ پیرِ مغاں ہنوز
اے تابِ برق تھوڑی سی تکلیف اور بھی
کچھ رہ گئے ہیں خار و خسِ آشیاں ہنوز
آتا ہوں میں وہیں سے ذرا صبر شیفتہ
سونے کے قصد میں بھی نہیں پاسباں ہنوز
مصطفٰی خان شیفتہ

مکاں میں رہتے ہوئے بھی رہوں مکاں سے پرے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 61
وُہ بے دلی ہے کہ زندہ ہوں جسم و جاں سے پرے
مکاں میں رہتے ہوئے بھی رہوں مکاں سے پرے
خفاں کہ ایک ستارہ نہ زیرِ دام آیا
کمندِ فکر تو ڈالی تھی کہکشاں سے پرے
سماعتوں پہ جھمکے ہیں عجیب سائے سے
نکلی گیا ہوں میں شاید حدِ بیاں سے پرے
بلا سے سامنے آئے کہ بے نمود رہے
وُہ حادثہ کہ ابھی ہے مرے گماں سے پرے
ابھی سے بننے لگیں وہم کی پناہ گاہیں
ابھی تو حشر کا سورج ہے سائباں سے پرے
کچھ ایسا لطف ملا خود یہ رحم کھانے میں
گیا نہ شوقِ غزل لذت زیاں سے پرے
آفتاب اقبال شمیم

کھلا لگتا ہے، لیکن بند ہے میرا مکاں مجھ پر

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 27
لگا دیں خوف نے ایسی بھی کچھ پابندیاں مجھ پر
کھلا لگتا ہے، لیکن بند ہے میرا مکاں مجھ پر
میں خاک افتادہ رکھتا ہوں اُفق سے ربط آنکھوں کا
بہت جھک کر اُترتا ہے شکوہِ آسماں مجھ پر
ملا دیتا ہوں اپنے خواب کو اُس کی حقیقت سحر
تبھی تو مشکلیں بنتی نہیں آسانیاں مجھ پر
مرا یوں جاگتے رہنا انہیں اچھا نہیں لگتا
ہیں دُز دان شبِ غفلت بہت نا مہرباں مجھ پر
کچھ ایسے زندگی بے پرسش احوال گزری ہے
کسی کا پوچھنا بھی اب گزرتا ہے گراں مجھ پر
کشید شعر جب چھلکے غزل کے آبگینے میں
تو برسانے لگے سیمِ ستارہ کہکشاں مجھ پر
آفتاب اقبال شمیم

اک یہ ملک، اور رزق اور گیت اور خوشیاں

مجید امجد ۔ غزل نمبر 185
مل کر سب تعمیر کریں اک ارماں
اک یہ ملک، اور رزق اور گیت اور خوشیاں
جیتی مٹی! تیرے نام کی ٹھنڈک
میرے اک اک گرم آنسو میں پنہاں
گلی کوئی بےنام، مکاں میں بےنمبر
ہے آباد مرا گھر، کنعاں کنعاں
شفق دھلی میزوں کے گرد وہ چہرے
آنکھیں جن میں جییں کسی کے پیماں
دور سے دیکھو، اونچا پل اس شہر کا
پانیوں پر اک لوہے کی یہ کہکشاں
ذکر کا اک پل اس کمرے میں گراں اور
اک بےمصرف سال کا چلّہ ارزاں
لوحیں طاق پہ ہیں اور ان کے نوشتے
تقدیروں میں تڑپنے والے طوفاں
دنیا اک دائم آباد محلہ
اس اینٹوں کے ابد میں سائے انساں
مجید امجد

تو مہرباں تھا تو دنیا بھی مہرباں تھی کبھی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 179
یہی جہاں تھا، یہی گردش جہاں تھی کبھی
تو مہرباں تھا تو دنیا بھی مہرباں تھی کبھی
ترے شگفتہ شگفتہ نقوش پا کے طفیل
مری نگاہ میں ہر راہ کہکشاں تھی کبھی
مرے خیال سے تیرا غرور روشن تھا
تری نگاہ سے دنیا میری جواں تھی کبھی
ترے تبسم رنگیں سے پھول کھلتے تھے
مری حیات بہاروں کی داستاں تھی کبھی
وہ بے خودی مری، وہ تیرے قرب کا احساس
نہ آس پاس تھی دنیا نہ درمیاں تھی کبھی
کبھی کبھی مجھے باقیؔ خیال آتا ہے
وہاں کھڑی ہے مری زندگی جہاں تھی کبھی
باقی صدیقی

وہ مہرباں تھے تو ہر چیز مہرباں تھی کبھی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 178
یہی جہاں تھا، یہی گردش جہاں تھی کبھی
وہ مہرباں تھے تو ہر چیز مہرباں تھی کبھی
ترے شگفتہ شگفتہ نقوش پا کے طفیل
مری نظر میں ہر اک راہ کہکشاں تھی کبھی
مری نگاہ سے تیرا غرور روشن تھا
تری نگاہ سے دنیا مری جواں تھی کبھی
براہ راست نظر تجھ سے بات کرتی تھی
نہ آس پاس تھی دنیا نہ درمیاں تھی کبھی
کبھی کبھی مجھے باقیؔ خیال آتا ہے
وہاں نہیں ہے مری زندگی جہاں تھی کبھی
باقی صدیقی