ٹیگ کے محفوظات: کہسار

لے گئی ہیں دور تڑپیں سایۂ دیوار کو

دیوان اول غزل 400
دیکھتا ہوں دھوپ ہی میں جلنے کے آثار کو
لے گئی ہیں دور تڑپیں سایۂ دیوار کو
باب صحت ہے وگرنہ کون کہتا ہے طبیب
جلد اٹھائو میرے دروازے سے اس بیمار کو
حشر پہ موقوف تھا سو تو نظر آیا نہ یاں
کیا بلا درپیش آئی وعدئہ دیدار کو
وے جو مست بے خودی ہیں عیش کرتے ہیں مدام
میکدے میں دہر کے مشکل ہے ٹک ہشیار کو
نقش شیریں یادگار کوہکن ہے اس میں خوب
ورنہ کیا ہے بے ستوں دیکھا ہے میں کہسار کو
کس قدر الجھیں ہیں میرے تار دامن کے کہ اب
پائوں میں گڑ کر نہیں چبھنے کی فرصت خار کو
ہے غبار میر اس کے رہگذر میں یک طرف
کیا ہوا دامن کشاں آتے بھی یاں تک یار کو
میر تقی میر

دی ہم نے زبردستی لبِ یار پہ دستک

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 260
ہونٹوں بھری رکھ دی درِ انکارِ پہ دستک
دی ہم نے زبردستی لبِ یار پہ دستک
اک شام پلٹ آئے ہیں یہ بات الگ ہے
دی پاؤں نے برسوں رہِ پُر خار پہ دستک
پھر رات کی رانی کا محل سامنے مہکے
پھر صبح کی چڑیوں بھری چہکار پہ دستک
کاندھے پہ کوئی بھیدوں بھری پوٹلی رکھ کر
دیتا ہے پھر امکان ابد زار پہ دستک
دم بھر کو نئی صبح کا اعلانیہ سن کر
دی اہلِ قفس نے گل و گلزار پہ دستک
بازار سے گزرا تو چہکتی ہوئی رت کی
تصویر نے دی جیبِ خریدار پہ دستک
کچھ ہاتھ کہیں اور سے آیا ہی نہیں ہے
دینا پڑی پھر عرشِ کرم بار پہ دستک
ممکن ہے ملاقات ہو آسیبِ بدن سے
اچھی طرح دے کمرئہ اسرار پہ دستک
ہے فرض یہی تجھ پہ یہی تیری عبادت
دے خاک نسب ! خانہء سیار پہ دستک
درویش فقیری ہی کہیں بھول نہ جائے
یہ کون ہے دیتا ہے جو پندار پہ دستک
وہ دیکھیے دینے لگا پھر اپنے بدن سے
اک تازہ گنہ، چشم گنہگار پہ دستک
اٹھ دیکھ کوئی درد نیا آیا ہوا ہے
وہ پھر ہوئی دروازئہ آزار پہ دستک
دشنام گلابوں کی طرح ہونٹوں پہ مہکیں
درشن کے لیے دے درِ دلدار پہ دستک
برسوں سے کھڑا شخص زمیں بوس ہوا ہے
یہ کیسی سمندر کی تھی کہسار پہ دستک
پانی مجھے مٹی کی خبر دینے لگے ہیں
اک سبز جزیرے کی ہے پتوار پہ دستک
افسوس ضروری ہے مرا بولنا دو لفظ
پھر وقت نے دی حجرۂ اظہار پہ دستک
مایوسی کے عالم میں محبت کا مسافر
در چھوڑ کے دینے لگا دیوار پہ دستک
دی جائے سلگتی ہوئی پُر شوق نظر سے
کچھ دیر تو اس کے لب و رخسار پہ دستک
اب اور گنی جاتی نہیں مجھ سے یہ قبریں
اب دینی ضروری ہے کسی غار پہ دستک
منصور بلایا ہے مجھے خواب میں اس نے
دی نیند نے پھر دیدۂ بیدار پہ دستک
منصور آفاق

دیکھ پڑتی ہوئی دیوار کے سینے میں دراڑ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 255
ساعتِ دیدۂ انکار کے سینے میں دراڑ
دیکھ پڑتی ہوئی دیوار کے سینے میں دراڑ
ایک ہی لفظ سے بھونچال نکل آیا ہے
پڑ گئی ہے کسی کہسار کے سینے میں دراڑ
کوئی شے ٹوٹ گئی ہے مرے اندر شاید
آ گئی ہے مرے پندار کے سینے میں دراڑ
چاٹتی جاتی ہے رستے کی طوالت کیا کیا
ایک بنتی ہوئی دلدار کے سینے میں دراڑ
تم ہی ڈالو گے مرے شاہ سوارو آخر
موت کی وادیِ اسرار کے سینے میں دراڑ
کھلکھلاتی ہوئی اک چشمِ سیہ نے ڈالی
آ مری صحبتِ آزار کے سینے میں دراڑ
رو پڑا خود ہی لپٹ کر شبِ غم میں مجھ سے
تھی کہانی ترے کردار کے سینے میں دراڑ
روندنے والے پہاڑوں کو پلٹ آئے ہیں
دیکھ کر قافلہ سالار کے سینے میں دراڑ
صبح کی پہلی کرن ! تجھ پہ تباہی آئے
ڈال دی طالعِ بیدار کے سینے میں دراڑ
کل شبِ ہجر میں طوفان کوئی آیا تھا
دیدۂ نم سے پڑی یار کے سینے میں دراڑ
غم کے ملبے سے نکلتی ہوئی پہلی کونپل
دیکھ باغیچہء مسمار کے سینے میں دراڑ
لفظ کی نوکِ سناں سے بھی کہاں ممکن ہے
وقت کے خانہء زنگار کے سینے میں دراڑ
بس قفس سے یہ پرندہ ہے نکلنے والا
نہ بڑھا اپنے گرفتار کے سینے میں دراڑ
شام تک ڈال ہی لیتے ہیں اندھیرے منصور
صبح کے جلوۂ زرتار کے سینے میں دراڑ
منصور آفاق