ٹیگ کے محفوظات: کہانیاں

نہیں ہے کوئی بھی اپنا مزاج داں لوگو

ہر ایک بات ہے منّت کشِ زباں لوگو
نہیں ہے کوئی بھی اپنا مزاج داں لوگو
کچھ اس طرح وہ حقائق کو سن کے چونک اٹھے
بکھر گئیں سرِ محفل پہیلیاں لوگو
مرے لبوں سے کوئی بات بھی نہیں نکلی
مگر تراش ،کیں تم نے کہانیاں لوگو
بہارِ نو بھی انہیں پھر سجا نہیں سکتی
بکھر گئی ہیں جو پھولوں کی پتّیاں لوگو
بڑا زمانہ ہوا آشیاں کو راکھ ہوۓ
مگر نگاہ ہے اب تک دھواں دھواں لوگو
خطا معاف کہ مے سے شکیبؔ منکر ہے
اسے عزیز ہیں دنیا کی تلخیاں لوگو
شکیب جلالی

ہاں میاں داستانیاں تھے ہم

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 57
دل گماں تھا گمانیاں تھے ہم
ہاں میاں داستانیاں تھے ہم
ہم سُنے اور سُنائے جاتے تھے
رات بھرکی کہانیاں تھے ہم
جانے ہم کِس کی بُود کا تھے ثبوت
جانے کِس کی نشانیاں تھے ہم
چھوڑتے کیوں نہ ہم زمیں اپنی
آخرش آسمانیاں تھے ہم
ذرہ بھر بھی نہ تھی نمود اپنی
اور پھر بھی جہانیاں تھے ہم
ہم نہ تھے ایک آن کے بھی مگر
جاوداں، جاودانیاں تھے ہم
روز اِک رَن تھا تیروترکش بِن
تھے کمیں اور کمانیاں تھے ہم
ارغوانی تھا وہ پیالہء ناف
ہم جو تھے ارغوانیاں تھے ہم
نار پستان تھی وہ قتّالہ
اور ہوس درمیانیاں تھے ہم
ناگہاں تھی اک آنِ آن کہ تھی
ہم جو تھے ناگہانیاں تھے ہم
جون ایلیا

اس بے نشاں کی ایسی ہیں چندیں نشانیاں

دیوان پنجم غزل 1685
تاروں کی جیسے دیکھیں ہیں آنکھیں لڑانیاں
اس بے نشاں کی ایسی ہیں چندیں نشانیاں
پیری ہے اب تو کہیے سو کیا کہیے ہم نشیں
کس رنج و غم میں گذریں ہیں اپنی جوانیاں
ظلم و ستم سے خون کیا پھر ڈبا دیا
برباد کیا گئیں ہیں مری جاں فشانیاں
میں آپ چھیڑچھیڑ کے کھاتا ہوں گالیاں
خوش آگئیں ہیں اس کی مجھے بد زبانیاں
سنتا نہیں ہے شعر بھی وہ حرف ناشنو
دل ہی میں خوں ہوا کیں مری نکتہ دانیاں
باتیں کڈھب رقیب کی ساری ہوئیں قبول
مجھ کو جو ان سے عشق تھا میری نہ مانیاں
مجلس میں تو خفیف ہوئے اس کے واسطے
پھر اور ہم سے اٹھتیں نہیں سرگرانیاں
عالم کے ساتھ جائیں چلے کس طرح نہ ہم
عالم تو کاروان ہے ہم کاروانیاں
سررفتہ سن نہ میر کا گر قصد خواب ہے
نیندیں اچٹتیاں ہیں سنے یہ کہانیاں
میر تقی میر

تم بھی تو ایک رات سنو یہ کہانیاں

دیوان اول غزل 329
کھوویں ہیں نیند میری مصیبت بیانیاں
تم بھی تو ایک رات سنو یہ کہانیاں
کیا آگ دے کے طور کو کی ترک سرکشی
اس شعلے کی وہی ہیں شرارت کی بانیاں
صحبت رکھا کیا وہ سفیہ و ضلال سے
دل ہی میں خوں ہوا کیں مری نکتہ دانیاں
ہم سے تو کینے ہی کی ادائیں چلی گئیں
بے لطفیاں یہی یہی نامہربانیاں
تلوار کے تلے ہی گیا عہد انبساط
مر مر کے ہم نے کاٹی ہیں اپنی جوانیاں
گالی سوائے مجھ سے سخن مت کیا کرو
اچھی لگے ہیں مجھ کو تری بدزبانیاں
غیروں ہی کے سخن کی طرف گوش یار تھے
اس حرف ناشنو نے ہماری نہ مانیاں
یہ بے قراریاں نہ کبھو ان نے دیکھیاں
جاں کاہیاں ہماری بہت سہل جانیاں
مارا مجھے بھی سان کے غیروں میں ان نے میر
کیا خاک میں ملائیں مری جاں فشانیاں
میر تقی میر