ٹیگ کے محفوظات: کھٹکا

جو ہاتھ دل پہ تھا یدِ بیضا نہیں ہُوا

اِتنا بھی تجھ سے سوزِ تمنّا نہیں ہُوا
جو ہاتھ دل پہ تھا یدِ بیضا نہیں ہُوا
بخشی وفا کو اُس نے یہ کہہ کر حیاتِ نَو
حیرت ہے کوئی زخم پُرانا نہیں ہُوا
تنہائی بولنے لگی، تم جب چلے گئے
وہ انہماک تھا کہ میں تنہا نہیں ہُوا
ہم بھی ملے تھے دل سے، جب اُن سے ملا تھا دل
لیکن پھر اُس کے بعد سے ملنا نہیں ہُوا
ایوانِ دل میں گونج رہا ہے سکوتِ مرگ
اِک عرصۂ دراز سے کھٹکا نہیں ہُوا
کیوں قَیسِ عامری اُنہَیں آیا ہے یاد؟ کیا؟
دشتِ جنوں کو ہم نے سنبھالا نہیں ہُوا؟
کم ظرفیوں کے دوَر میں جینا پڑا ہمیں
معیارِ ظرف کے لئے اچھّا نہیں ہُوا
ضامنؔ! مروّتیں بھی تھیں ، مجبوریاں بھی تھیں
وہ منتظر تھے، ہم سے تقاضا نہیں ہُوا
ضامن جعفری

سانپ کو ہاتھ میں پکڑا پر ڈھیلے انداز سے پکڑا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
اُس نے بھی جو زہریلے دشمن پر اب کے جھپٹا ہے
سانپ کو ہاتھ میں پکڑا پر ڈھیلے انداز سے پکڑا ہے
جتنے ہم مسلک تھے اُس کے کیا کیا اُس سے دُور ہوئے
دنیا نے اک جسم کو یوں بھی ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے
زور آور نے جتنا بھی باروری بیج تھا نخوت کا
ساون رُت کی بارش جیسا اُس کی خاک میں بویا ہے
اور تو امّ الحرب کو ہم عنوان نہیں کچھ دے سکتے
ہاں خاشاک نے دریا کو چالیس دنوں تک روکا ہے
ماجد جھُکتے سروں سے آخر یہِاک بات بھی سب پہ کھلی
کھٹکا ہے تو نفقہ و نان کا ہم ایسوں کو کھٹکا ہے
ماجد صدیقی

گرتوں کے ساتھ گرنے کا کھٹکا ہمیں ہو کیوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
پتّا گرے شجر سے تو لرزہ ہمیں ہو کیوں
گرتوں کے ساتھ گرنے کا کھٹکا ہمیں ہو کیوں
قارون ہیں جو، زر کی توقّع ہو اُن سے کیا
ایسوں پہ اِس قبیل کا دھوکا ہمیں ہو کیوں
بے فیض رہبروں سے مرتّب جو ہو چلی
احوال کی وہ شکل، گوارا ہمیں ہو کیوں
ملتی ہے کج روؤں کو نفاذِ ستم پہ جو
ایسی سزا کا ہو بھی تو خدشہ ہمیں ہو کیوں
رکھیں نمو کی آس بھلا کیوں چٹان سے
ایسوں سے اِس طرح کا تقاضا ہمیں ہو کیوں
ہم ہیں پھوار ابر کی بوچھاڑ ہم نہیں
سختی کریں کسی پہ، یہ یارا، ہمیں ہو کیوں
بِیجا ہے جو اُگے گا نہ وہ، کشتِ خیر میں!
ماجدؔ گماں جو ہو بھی تو ایسا ہمیں ہو کیوں
ماجد صدیقی