منصور آفاق ۔ غزل نمبر 392
یہی دوچار برس آنکھ نے رونا ہے تمہیں
ہو بھی جاؤ جو کسی اورکا ہونا ہے تمہیں
آخری بات کہ کس وقت ملیں گے کل ہم
مجھ کو معلوم ہے اب رات ہے ، سونا ہے تمہیں
یاد رکھنا کہ تمہیں چارہ گری کرنی ہے
زخم سینے ہیں مرے ،چاک پرونا ہے تمہیں
کیا گزاروگے اسی خیمہ ء افلاک میں رات
کیا بنانا یہی فٹ پاتھ بچھونا ہے تمہیں
کوئی خودکُش سا دھماکہ بھی ضروری ہے وہاں
جلدی سے جائے وقوعہ کو بھی دھونا ہے تمہیں
تم سے پہلوں نے جہاں اپنے قدم رکھے تھے
اسی آسیب زدہ غار میں کھونا ہے تمہیں
روح تک دیکھنے کی تم میں بصارت ہی نہیں
صرف کافی یہی مٹی کاکھلونا ہے تمہیں
سرخ فوارہ کی دھاروں کے دمادم کی قسم
رات کی چھاتی میں بس تیر چبھونا ہے تمہیں
دیکھنے ہیں مجھے جذبوں کی صراحی کے خطوط
میں نے وہسکی سے کسی روز بھگونا ہے تمہیں
صرف ہم نصف کے مالک ہیں بحکمِ ربی
فصل بھی کاٹنی ہے بیج بھی بونا ہے تمہیں
میری باہو سے ملاقات ہے ہونے والی
زندگی !’’ ہو‘‘ کے سمندر میں ڈبونا ہے تمہیں
تم پرندے ہو کسی وقت بھی اڑسکتے ہو
ساتھ رکھنے کے لئے جاں میں سمونا ہے تمہیں
جس میں چلتی چلی جاتی ہے قیامت منصور
اُس دوپٹے کا پکڑنا کوئی کونا ہے تمہیں
منصور آفاق
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔