ٹیگ کے محفوظات: کھنڈر

کھنڈر

بادِ خزاں سے گلشنِ ہستی ہے ہم کنار

ویرانیوں کا رقص ہے اب ڈھل چکی بہار

کلیاں جُھلس چکی ہیں ‘ خزاں کا نُزول ہے

پُر ہَول خامشی ہے‘ بگولے ہیں ‘ دُھول ہے

وہ کج رَوی ہے اور نہ اب وہ غرور و ناز

گُنبد زمیں پہ بیٹھ گئے ہیں بصد نیاز

ابرو میں وہ تناؤ نہ آنکھوں میں کوئی رَس

محراب ہے نہ طاق نہ سینے پہ وہ کَلَس

نقش و نگار مسخ تو چہرے پر جھرّیاں

ہل کی اَنی سے پڑ گئیں کھیتوں میں دھاریاں

ہے یہ بدن پہ کھال کا سمٹا ہوا غلاف

ڈالے ہیں زلزلے نے عمارت میں کیا شگاف

نیلی رَگوں کے جسم پہ بکھرے ہیں جال سے

جیسے کہ رینگتے ہوئے کیڑوں کے سلسلے

ہر دم کمالِ ضُعف سے یوں کانپتا ہے سر

جیسے لرز رہا ہو سفینہ بہاؤ پر

خشکی جمی ہوئی لبِ سادہ پہ اس طرح

روغن اتر رہا ہو دریچے کا جس طرح

آنکھوں کی پُتلیوں پہ پپوٹوں کے سائباں

جیسے کسی مکان کی دربستہ کھڑکیاں

بینائی پر ہے دُھند کا پردہ پڑا ہوا

جیسے کہ رَوزنوں پہ ہو جالا تنا ہوا

بکھرے ہوئے یہ بال‘ یہ اُلجھی ہوئی لَٹیں

جیسے کسی درخت کی سُوکھی ہوئی جڑیں

ماتھا ہے ملگجی سا کہ پگھلا ہوا ہے رانگ

ٹوٹی ہوئی کڑی ہے کوئی یا شکستہ مانگ

سبزہ ہے رُخ پہ یا کہ ہے کانٹوں کی کوئی باڑ

بازو ہیں نیم وَا کہ ہیں اترے ہوئے کواڑ

اعصابِ مُردہ‘ جسم کا ہر حصّہ بے سَکت

آغوش جس طرح کوئی بیٹھی ہوئی سی چھت

یوں ضُعف سے درازیِ قامت ہے سَرنِگوں

بارہ دری کا جیسے خمیدہ سا اک ستوں

پُشت آبلہ نما تو کمر نصف دائرہ

مینار گویا اپنے ہی قدموں پہ آگرا

سینے پہ زندگی کے شکستہ سے بام و در

ڈھانچا ہے ہڈّیوں کا کہ اُجڑا ہوا نگر

کیا کیا نہ ظلم و جَور حَسیں جسم پر ہوئے

اُف وہ محل‘ جو وقت سے پہلے کھنڈر ہوئے

شکیب جلالی

صحرا میں لوگ آئے ہیں دیوار و در کے ساتھ

یادیں ہیں اپنے شہر کی اہل سفر کے ساتھ
صحرا میں لوگ آئے ہیں دیوار و در کے ساتھ
منظر کو دیکھ کر پس منظر بھی دیکھیے
بستی نئی بسی ہے پرانے کھنڈر کے ساتھ
سائے میں جان پڑ گئی دیکھا جو غور سے
مخصوص یہ کمال ہے اہلِ نظر کے ساتھ
اک دن ملا تھا بام پہ سورج کہیں جسے
الجھے ہیں اب بھی دھوپ کے ڈورے کگر کے ساتھ
اک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں
اک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ
اس مرحلے کو موت بھی کہتے ہیں دوستو
اک پل میں ٹوٹ جائیں جہاں عمر بھر کے ساتھ
میری طرح یہ صبح بھی فنکار ہے شکیبؔ
لکھتی ہے آسماں پہ غزل آب زر کے ساتھ
شکیب جلالی

پھیلتے جا رہے ہیں کھنڈر سامنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
کوئی بستی نہ دیوار و در سامنے
پھیلتے جا رہے ہیں کھنڈر سامنے
اپنی جانب لپکتے قدم دیکھ کر
مُسکراتے ہیں گل شاخ پر سامنے
یاد میں تھیں صبا کی سی اٹکھیلیاں
جانے کیا کچھ رہا رات بھر سامنے
زندگی ہے کہ آلام کی گرد سے
ہانپتی ہے کوئی راہگزر سامنے
رات تھی جیسے جنگل کا تنہا سفر
چونک اُٹھے جو دیکھی سحر سامنے
آئنے ہیں مقابل جِدھر دیکھیے
اپنی صورت ہے با چشمِ ترا سامنے
ہم ہیں ماجدؔ سُلگتے دئیے رات کے
بُجھ گئے بھی تو ہو گی سحر سامنے
ماجد صدیقی

تمام رات میں یاقوت چُن رہی تھی مگر

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 5
چراغِ ماہ لیے تجھ کو ڈھونڈتی گھر گھر
تمام رات میں یاقوت چُن رہی تھی مگر
یہ کیا کہ تری خوشبو کا صرف ذکر سُنوں
توعکسِ موجہ ءِ گُل ہے تو جسم وجاں میں اُتر
ذرا یہ حبس کٹے،کُھل کے سانس لے پاؤں
کوئی ہوا تو رواں ہو، صبا ہو یا صَر صَر
گئے دنوں کے تعاقب میں تتلیوں کی طرح
ترے خیال کے ہمراہ کر رہی ہوں سفر
ٹھہر گئے ہیں قدم،راستے بھی ختم ہُوئے
مسافتیں رگ وپے میں اُتر رہی ہیں مگر
میں سوچتی تھی،ترا قرب کچھ سکوں دے گا
اُداسیاں ہیں کہ کُچھ اور بڑھ گئیں مِل کر
ترا خیال،کہ ہے تارِ عنکبوت تمام
مرا وجود،کہ جیسے کوئی پُرانا کھنڈر
پروین شاکر

پہنچے گی جو نہ اس تک ہم اس خبر میں ہوں گے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 188
جب ہم کہیں نہ ہوں گے تب شہر بھر میں ہوں گے
پہنچے گی جو نہ اس تک ہم اس خبر میں ہوں گے
تھک کر گریں گے جس دم بانہوں میں تیری آ کر
اُس دَم بھی کون جانے ہم کس سفر میں ہوں گے
اے جانِ عہد و پیماں۔۔ہم گھر بسائیں گے ہاں
تُو اپنے گھر میں ہو گا۔۔ہم اپنے گھر میں ہوں گے
میں لے کے دل کے رشتے گھر سے نکل چکا ہوں
دیوار و دَر کے رشتے۔۔دیوار و دَر میں ہوں گے
تجھ عکس کے سوا بھی اے حُسن وقتِ رخصت
کچھ اور عکس بھی تو اس چشمِ تر میں ہوں گے
ایسے سراب تھے وہ ایسے تھے کچھ کہ اب بھی
میں آنکھ بند کر لوں تب بھی نظر میں ہوں گے
اس کے نقوشِ پا کو راہوں میں ڈھونڈنا کیا
جو اس کے زیر پا تھے وہ میرے سر میں ہوں گے
وہ بیشتر ہیں جن کو کل کا خیال کم ہے
تُو رُک سکے تو ہم بھی ان بیشتر میں ہوں گے
آنگن سے وہ جو پچھلے دالان تک بسے تھے
جانے وہ میرے سائے اب کِس کھنڈر میں ہوں گے
یہ تو کمر عجب ہے اِک سوچ ہے جو اَب ہے
اب جانے ہاتھ میرے کِس کمر میں ہوں گے
جون ایلیا

کس کو آواز لگاتا ہے کھنڈر کا وارث

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 86
ایک آسیب ہے ٹوٹے ہوئے گھر کا وارث
کس کو آواز لگاتا ہے کھنڈر کا وارث
پھر کوئی خیمہ کسی اذنِ عقوبت کا شکار
پھر کوئی نیزہ کسی دولتِ سر کا وارث
کب مرے قریۂ ظلمات پہ ہو گا روشن
میرا مہتاب‘ مرے دیدۂ تر کا وارث
جانے اس دشت میں بھٹکے گا اکیلا کب تک
میرا ناقہ مری جاگیرِ سفر کا وارث
رفتگاں وعدہ شکن ابرِ گریزاں کی طرح
اور اک طائرِ مجروح شجر کا وارث
حکم ہے مجھ کو خرابوں کی نگہبانی کا
میں کسی موسم بے برگ و ثمر کا وارث
عرفان صدیقی

عکس در عکس ہے کیا چیز، نظر ہو تو کہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 292
آئینہ کون ہے کچھ اپنی خبر ہو تو کہوں
عکس در عکس ہے کیا چیز، نظر ہو تو کہوں
اُس تجلی پہ کوئی نظم کوئی تازہ غزل
مہرباں قوسِ قزح بار دگر ہو تو کہوں
درد کے طے یہ مراحل تو ہوئے ہیں لیکن
قطرہ پہ گزری ہے کیا، قطرہ گہر ہو تو کہوں
ہمسفر میرا پتہ پوچھتے کیا ہو مجھ سے
کوئی بستی، کوئی چوکھٹ، کوئی در ہو تو کہوں
کوئی شہ نامہء شب، کوئی قصیدئہ ستم
معتبر کوئی کہیں صاحبِ زر ہو تو کہوں
قیس صحرا میں مجھے ساتھ تو لے جائے گا
آتشِ غم کا کوئی زادِ سفر ہو تو کہوں
کیسے لگتی ہے مجھے چلتی ہوئی بادِ سحر
کبھی برفائی ہوئی رات بسر ہو تو کہوں
یہ پرندے تو ہیں گل پوش رتوں کے ساتھی
موسمِ زرد میں آباد شجر ہو تو کہوں
کون بے چہرگیِ وقت پہ تنقید کرے
سر بریدہ ہے یہ دنیا، مرا سر ہو تو کہوں
رات آوارہ مزاجی کا سبب پوچھتی ہے
کیا کروں کوئی ٹھکانہ کوئی گھر ہو تو کہوں
کشتیاں کیوں بھری آتی ہیں بجھے گیتوں سے
کیا ہے اس پار مجھے کوئی خبر ہو تو کہوں
ایک ہی پیڑ بہت ہے ترے صحرا میں مجھے
کوئی سایہ سا، کوئی شاخِ ثمر ہو تو کہوں
دہر پھولوں بھری وادی میں بدل سکتا ہے
بامِ تہذیب پہ امکانِ سحر ہو تو کہوں
زندگی رنگ ہے خوشبو ہے لطافت بھی ہے
زندہ رہنے کا مرے پاس ہنر ہو تو کہوں
میں تماشا ہوں تماشائی نہیں ہو سکتا
آئینہ خانہ سے کوئی مجھے ڈر ہو تو کہوں
سچ کے کہنے سے زباں آبلہ لب ہوتی ہے
سینہء درد میں پتھر کا جگر ہو تو کہوں
میری افسردہ مزاجی بھی بدل سکتی ہے
دل بہاروں سے کبھی شیر و شکر ہو تو کہوں
تُو بجھا سکتی ہے بس میرے چراغوں کو ہو ا
کوئی مہتاب ترے پیشِ نظر ہو تو کہوں
رائیگانی کا کوئی لمحہ میرے پاس نہیں
رابطہ ہجر کا بھی زندگی بھر ہو تو کہوں
پھر بلایا ہے کسی نیلے سمندر نے مجھے
کوئی گرداب کہیں کوئی بھنور ہو تو کہوں
پھر تعلق کی عمارت کو بنا سکتا ہوں
کوئی بنیاد کہیں کوئی کھنڈر ہو تو کہوں
عید کا چاند لے آیا ہے ستم کے سائے
یہ بلائیں ہیں اگر ماہِ صفر ہو تو کہوں
اس پہ بھی ترکِ مراسم کی قیامت گزری
کوئی سسکاری کوئی دیدئہ تر ہو تو کہوں
ایک مفروضہ جسے لوگ فنا کہتے ہیں
"یہ تو وقفہ ہے کوئی ، ان کو خبر ہو تو کہوں
کتنے جانکاہ مراحل سے گزر آئی ہے
نرم و نازک کوئی کونپل جو ثمر ہو تو کہوں
یہ محبت ہے بھری رہتی ہے بھونچالوں سے
جو اُدھر ہے وہی تخریب اِدھر ہو تو کہوں
مجھ کو تاریخ کی وادی میں سدا رہنا ہے
موت کے راستے سے کوئی مفر ہو تو کہوں
آسماں زیرِ قدم آ گئے میرے لیکن
قریہء وقت کبھی زیر و زبر ہو تو کہوں
ختم نقطے کا ابھی دشت نہیں کر پایا
خود کو شاعر کبھی تکمیلِ ہنر ہو تو کہوں
اہل دانش کو ملا دیس نکالا منصور
حاکمِ شہر کوئی شہر بدر ہو تو کہوں
زندگی ایسے گزر سکتی نہیں ہے منصور
میری باتوں کا کوئی اس پہ اثر ہو تو کہوں
پوچھتے کیا ہو ازل اور ابد کا منصور
ان زمانوں سے کبھی میرا گزر ہو تو کہوں
منصور آفاق