ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 139
بھید کھولیں گے اب نہ یہ دل کے
ہونٹ اچھے لگے ہمیں سِل کے
مجھ سے مِلنا ترا دکھایا ہے
آسماں نے زمین سے مِل کے
بِس کی پُڑیاں تھیں گھُورتی آنکھیں
مُنہ نمونے تھے سانپ کی بِل کے
شرط ہی جب بِدی تھی کچھوؤں سے
خواب کیا دیکھنے تھے منزل کے
وہ بھنور کا غرور کیا جانے
سُکھ جسے مِل گئے ہوں ساحل کے
خوش تھے نامِ صباؔ و سِپراؔ پر
جتنے مزدور بھی ملے مِل کے
دیکھ ماجدؔ! دیا کلی نے ابھی
درس جینے کا شاخ پر کھِل کے
ماجد صدیقی