ٹیگ کے محفوظات: کھل

ہونٹ اچھے لگے ہمیں سِل کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 139
بھید کھولیں گے اب نہ یہ دل کے
ہونٹ اچھے لگے ہمیں سِل کے
مجھ سے مِلنا ترا دکھایا ہے
آسماں نے زمین سے مِل کے
بِس کی پُڑیاں تھیں گھُورتی آنکھیں
مُنہ نمونے تھے سانپ کی بِل کے
شرط ہی جب بِدی تھی کچھوؤں سے
خواب کیا دیکھنے تھے منزل کے
وہ بھنور کا غرور کیا جانے
سُکھ جسے مِل گئے ہوں ساحل کے
خوش تھے نامِ صباؔ و سِپراؔ پر
جتنے مزدور بھی ملے مِل کے
دیکھ ماجدؔ! دیا کلی نے ابھی
درس جینے کا شاخ پر کھِل کے
ماجد صدیقی

لوہو لگا کے وہ بھی شہیدوں میں مل گیا

دیوان پنجم غزل 1567
ناخن سے بوالہوس کا گلا یوں ہی چھل گیا
لوہو لگا کے وہ بھی شہیدوں میں مل گیا
دل جمع تھا جو غنچہ کے رنگوں خزاں میں تھا
اے کیا کہوں بہار گل زخم کھل گیا
بے دل ہوئے پہ کرتے تدارک جو رہتا ہوش
ہم آپ ہی میں آئے نہیں جب سے دل گیا
دیکھا نہیں پہاڑ گراں سنگ یا سبک
زوروں چڑھا تھا عشق میں فرہاد پل گیا
شبنم کی سی نمود سے تھا میں عرق عرق
یعنی کہ ہستی ننگ عدم تھی خجل گیا
غم کھینچتے ہلا نہیں جاگہ سے کیا کروں
دل جا لگے ہے دم بہ دم اودھر ہی ہل گیا
صورت نہ دیکھی ویسی کشادہ جبیں کہیں
میں میر اس تلاش میں چین و چگل گیا
میر تقی میر

اگرچہ جان جاتی ہے چلی لیکن تغافل کر

دیوان اول غزل 208
یہ عشق بے اجل کش ہے بس اے دل اب توکل کر
اگرچہ جان جاتی ہے چلی لیکن تغافل کر
سفر ہستی کا مت کر سرسری جوں باد اے رہرو
یہ سب خاک آدمی تھے ہر قدم پر ٹک تامل کر
سن اے بے درد گلچیں غارت گلشن مبارک ہے
پہ ٹک گوش مروت جانب فریاد بلبل کر
نہ وعدہ تیرے آنے کا نہ کچھ امید طالع سے
دل بیتاب کو کس منھ سے کہیے ٹک تحمل کر
یہ کیا جانوں کہ کیوں رونے لگا رونے سے رہ کر میں
مگر یہ جانتا ہوں مینھ گھر آتا ہے پھر کھل کر
مرے پاس اس کی خاک پا کو بیماری میں رکھا تھا
نہ آیا سر مرا بالیں پہ اودھر جو گیا ڈھل کر
تجلی جلوہ ہیں کچھ بام و در غم خانے کے میرے
وہ رشک ماہ آیا ہم نشیں بس اب دیا گل کر
تری خاموشی سے قمری ہوا شور جنوں رسوا
ہلاٹک طوق گردن کو بھی ظالم باغ میں غل کر
گداز عاشقی کا میر کے شب ذکر آیا تھا
جو دیکھا شمع مجلس کو تو پانی ہو گئی گھل کر
میر تقی میر

کیا کہوں اے ہم نشیں میں تجھ سے حاصل دل گیا

دیوان اول غزل 57
خواہ مجھ سے لڑ گیا اب خواہ مجھ سے مل گیا
کیا کہوں اے ہم نشیں میں تجھ سے حاصل دل گیا
اپنے ہی دل کو نہ ہو واشد تو کیا حاصل نسیم
گو چمن میں غنچۂ پژمردہ تجھ سے کھل گیا
دل سے آنکھوں میں لہو آتا ہے شاید رات کو
کشمکش میں بے قراری کی یہ پھوڑا چھل گیا
قیس کا کیا کیا گیا اودھر دل و دیں ہوش و صبر
جس طرف صحرا سے لیلیٰ کا چلا محمل گیا
رشک کی جا گہ ہے مرگ اس کشتۂ حسرت کی میر
نعش کے ہمراہ جس کی گور تک قاتل گیا
میر تقی میر

اجل کو جانتا ہوں میں ، ازل سے ساتھ ساتھ ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 625
دماغِ کائنات کے خلل سے ساتھ ساتھ ہے
اجل کو جانتا ہوں میں ، ازل سے ساتھ ساتھ ہے
فلک ہے مجھ پہ مہرباں کہ ماں کی ہے دعا مجھے
زمیں مرے ہرے بھرے عمل سے ساتھ ساتھ ہے
یہ کس نے وقت کو اسیر کر لیا ہے خواب میں
یہ آج کس طرح گذشتہ کل سے ساتھ ساتھ ہے
قدم قدم پہ کھینچتی ہے مجھ کو رات کی طرف
یہ روشنی جو شاہ کے محل سے ساتھ ساتھ ہے
جو گا رہی ہے کافیاں لہو میں شاہ حسین کی
وہ مادھو لال آگ گنگا جل سے ساتھ ساتھ ہے
کہے، کہاں نظامِ زر تغیرات کا امیں ؟
وہ جدلیات جو جدل جدل سے ساتھ ساتھ ہے
کچھ اس کے ہونے کا سبب بھی ہونا چاہیے کہیں
وہ جو نمودِ علت و علل سے ساتھ ساتھ ہے
جہاں پہ پہلے علم تھا کہ کیا عمل کروں گا میں
یہ حال اُس مقامِ ماحصل سے ساتھ ساتھ ہے
ابھی فلک کی زد میں ہے سری نگر کا راستہ
یہ برف پوش رُت تراڑ کھل سے ساتھ ساتھ ہے
منصور آفاق

اس مسافت پر طبعیت شوق سے مائل رہی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 494
ہر قدم پر کوچہ ء جاناں میں گو مشکل رہی
اس مسافت پر طبعیت شوق سے مائل رہی
ایک اک گنتا رہا ضربِ مسلسل ایک اک
دل کی دھڑکن کپکپاتی یاد میں شامل رہی
اک طرف کتنے مسافر راستے میں رہ گئے
اک طرف پائے طلب کی منتظر منزل رہی
آخری الہام کی پہلی کرن سے پیشتر
چارہ گر آتے رہے بیچارگی بسمل رہی
یہ بنامِ امن جنگیں یہ ہلاکت خیز خیر
زندگی تہذیب کی دہلیز پر گھائل رہی
خشک پتے کی طرح اڑنا مجھے اچھا لگا
سچ یہی ہے عمر کا آوارگی حاصل رہی
ڈوبنے سے جو بچالیتی ہے اپنی زندگی
بس وہی کشتی سمندر کا سدا ساحل رہی
تنگ کرتی جا رہی ہے بس یہی الجھن مجھے
کوئی شے تھی پاس میرے جونہیں اب مل رہی
پھر کوئی منصور خوشبو ملنے والی ہے مجھے
ان دنوں باغیچے میں پھرہے چنبلی کھل رہی
منصور آفاق

اک سیہ مورت سے مل کے صبح شرمندہ ہوئی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 445
کالکیں چہرے سے چھل کے صبح شرمندہ ہوئی
اک سیہ مورت سے مل کے صبح شرمندہ ہوئی
جس کی نس نس میں اندھیرے تھے تبسم آفریں
اس کلی کے ساتھ کھل کے صبح شرمندہ ہوئی
وہ مجسم رات وہ کالی صراحی کے خطوط
دامنِ خوباں میں سل کے صبح شرمندہ ہوئی
حسرتوں کی ٹھیکرے تھے، ڈھیر تھے افسوس کے
پھر کھنڈر میں آ کے دل کے صبح شرمندہ ہوئی
اس نے زلفوں کو بکھیرا اور سورج بجھ گیا
سامنے لہراتے ظل کے صبح شرمندہ ہوئی
ہر نمو مٹی کی کالی قبر سے آباد تھی
بیچ شہرِآب و گل کے صبح شرمندہ ہوئی
یار کے رخسار پر ہے اک عجب کالا گلاب
پھر مقابل ایک تل کے صبح شرمندہ ہوئی
کنجِ لب سے ہی نکلتی یار کے تو بات تھی
بس افق کے پاس کھل کے صبح شرمندہ ہوئی
جھانک سکتی ہی نہیں مٹی کے اندر روشنی
خاک پہ منصور پل کے صبح شرمندہ ہوئی
منصور آفاق

ہم بہت خوش ہیں آپ سے مل کے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 228
تھے ہی کیا اور مرحلے دل کے
ہم بہت خوش ہیں آپ سے مل کے
اور اک دل نواز انگڑائی
راز کھلنے لگے ہیں محفل کے
لاؤ طوفاں میں ڈال دیں کشتی
کون کھائے فریب ساحل کے
رنگ و بو کے مظاہرے کب تک
پھول تنگ آ گئے ہیں کھل کھل کے
اڑ رہا ہے غبار سا باقیؔ
چھپ نہ جائیں چراغ منزل کے
باقی صدیقی

شاید اوہنوں روکے، بّتی اگلے چوک دے سگنل دی

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 14
ایس ائی آس تے نسدا جاواں، دھڑکن سُندا پل پل دی
شاید اوہنوں روکے، بّتی اگلے چوک دے سگنل دی
تھوہراں نُوں کھُل دے کے جنّھے، کومل پھُل زنجیرے نیں
باگ کنارے، واڑاں لاؤن دی، سوچ سی ایہہ کِس پاگل دی
کِیہ کہوئیے، کد وڈیاں اپنے، قولاں دی لج رکھنی ایں
نکیاں ہوندیاں توں پئے تکئیے‘ حالت ایہو، اج کل دی
شام دے ویہڑے اودھر، جھوٹ تسلیاں آؤندی فجر دیاں
ایدھر، مارُو پِیڑ کسے وی، دارُو توں پئی نئیں کَھل دی
چار چفیرے کِھلرے تھل نے، ہور اَسن کِیہہ دینا ایں
سِر تے آ کے رُک گئی جیہڑی اوہ دُھپ تے ہُن نئیں ڈھل دی
گلی گلی وچ جتھے، میریاں لختاں، یُوسف بنیاں نیں
ہے بازارِ مصر دا ماجد، یا ایہہ نگری راول دی
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)