ٹیگ کے محفوظات: کھلونا

پھر کسی نے سونا ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 596
خالی پھر بچھونا ہے
پھر کسی نے سونا ہے
سربلند لوگوں کا
بادشاہ بونا ہے
پوری کیسے ہو تعبیر
خواب آدھا’ پونا‘ ہے
دوسروں کے ماتم پر
اپنا اپنا رونا ہے
اجنبی ہے دنیا سی
کون مجھ سا ہونا ہے
انتظارِ جاری نے
کیا کسی کو کھونا ہے
آنسوئوں کی بارش سے
قیقہوں کو دھونا ہے
وقت ایک بچہ سا
آدمی کھلونا ہے
زخم زخم دامن کا
چاک کیا پرونا ہے
میں ہوں اور تنہائی
گھر کا ایک کونا ہے
چائے کی پیالی میں
آسماں ڈبونا ہے
کائنات سے باہر
کیا کسی نے ہونا ہے
عرش کا گریباں بھی
آگ میں بھگونا ہے
موت کو بھی آخر کار
قبر میں سمونا ہے
آبلوں کے دریا کو
دشت بھر چبھونا ہے
تیرے دل میں میرا غم
پھر مجھے کہونا، ہے
حسن دھوپ میں منصور
سانولا سلونا ہے
منصور آفاق

فلک پر اس کا ملبہ گر پڑا تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 88
زمیں پلٹی تو الٹا گر پڑا تھا
فلک پر اس کا ملبہ گر پڑا تھا
میں بھر لایا ہوں مشکیزہ دکھوں سے
کنویں کی تہہ میں صحرا گر پڑا تھا
سُکھانا چاہتا تھا خواب لیکن
ٹشو پیپر پہ آنسو گر پڑا تھا
مری رفتار کی وحشت سے ڈر کر
کسی کھائی میں رستہ گر پڑا تھا
کھلی تھی اک ذرا بس چونچ اس کی
کہیں چاول کا دانہ گر پڑا تھا
مرے کردار کی آنکھیں کھلی تھیں
اور اس کے بعد پردہ گر پڑا تھا
مری سچائی میں دہشت بڑی تھی
کہیں چہرے سے چہرہ گر پڑا تھا
بس اک موجِ سبک سر کی نمو سے
ندی میں پھر کنارہ گر پڑا تھا
مرے چاروں طرف بس کرچیاں تھیں
نظر سے اک کھلونا گر پڑا تھا
اٹھا کر ہی گیا تھا اپنی چیزیں
بس اس کے بعد کمرہ گر پڑا تھا
نظر منصور گولی بن گئی تھی
ہوا میں ہی پرندہ گر پڑا تھا
منصور آفاق