دیوان اول غزل 423
جی چاہے مل کسو سے یا سب سے تو جدا رہ
پر ہوسکے تو پیارے ٹک دل کا آشنا رہ
کل بے تکلفی میں لطف اس بدن کا دیکھا
نکلا نہ کر قبا سے اے گل بس اب ڈھپا رہ
عاشق غیور جی دے اور اس طرف نہ دیکھے
وہ آنکھ جو چھپاوے تو تو بھی ٹک کھنچا رہ
پہنچیں گے آگے دیکھیں کس درجہ کو ابھی تو
اس ماہ چاردہ کا سن دس ہے یا کہ بارہ
کھینچا کرے ہے ہر دم کیا تیغ بوالہوس پر
اس ناسزاے خوں کے اتنا نہ سر چڑھا رہ
مستظہر محبت تھا کوہکن وگرنہ
یہ بوجھ کس سے اٹھتا ایک اور ایک گیارہ
ہر مشت خاک یاں کی چاہے ہے اک تامل
بن سوچے راہ مت چل ہر گام پر کھڑا رہ
شاید کہ سربلندی ہووے نصیب تیرے
جوں گرد راہ سب کے پائوں سے تو لگا رہ
اس خط سبز نے کچھ رویت نہ رکھی تیری
کیا ایسی زندگانی جا خضر زہر کھا رہ
حد سے زیادہ واعظ یہ کودنا اچھلنا
کاہے کو جاتے ہیں ہم اے خرس اب بندھا رہ
میں تو ہیں وہم دونوں کیا ہے خیال تجھ کو
جھاڑ آستین مجھ سے ہاتھ آپ سے اٹھا رہ
جیسے خیال مفلس جاتا ہے سو جگہ تو
مجھ بے نوا کے بھی گھر ایک آدھ رات آ رہ
دوڑے بہت ولیکن مطلب کو کون پہنچا
آئندہ تو بھی ہم سا ہوکر شکستہ پا رہ
جب ہوش میں تو آیا اودھر ہی جاتے پایا
اس سے تو میر چندے اس کوچے ہی میں جا رہ
میر تقی میر
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔