ٹیگ کے محفوظات: کڑی

نَظَر نے جھُکنا ابھی تَو سیکھا ہے جب سے یہ کچھ بڑی ہُوئی ہے

اَزَل سے حُسن اَور چَشمِ حیَراں کو اپنی اپنی پڑی ہُوئی ہے
نَظَر نے جھُکنا ابھی تَو سیکھا ہے جب سے یہ کچھ بڑی ہُوئی ہے
ضمیرِ انساں نے حَدِّ امکاں کی رفعتوں پر پُہنچ کے دیکھا
جِلَو میں اس کے کوئی نہ کوئی اِک آرزو بھی کھَڑی ہُوئی ہے
بَتائے کوزہ گروں کو کوئی کہ زینتِ چاک اَور کیا ہے
وہ مُشتِ خاک اُن کے راستوں میں جو ہر قَدَم پر پَڑی ہُوئی ہے
یہ رُوح و تَن کا مُناقَشہ جو اَزَل سے ہے تا اَبَد رہے گا
نہ رُوح بھاگی نہ تَن دَبا ہے نَظَر نَظَر سے لَڑی ہُوئی ہے
یہ احسن الخلق یا اِلٰہی کہیں نہ ہو سعیِ رایگاں ہی
کہ اس کی فطرت جہاں تھی پہلے وَہیں ابھی تک گَڑی ہُوئی ہے
ہُوئی نہ باغِ عَدَم میں سَرزَد خَطا کَبھی کوئی ہَم سے ضامنؔ
ہُوئی بھی ہو تَو یہ قیدِ ہَستی سَزا زِیادَہ کَڑی ہُوئی ہے
ضامن جعفری

پر چاہنے والوں کو جدائی کی پڑی تھی

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 85
دنیا کو تو حالات سے امید بڑی تھی
پر چاہنے والوں کو جدائی کی پڑی تھی
کس جان گلستاں سے یہ ملنے کی گھڑی تھی
خوشبو میں نہائی ہوئی اک شام کھڑی تھی
میں اس سے ملی تھی کہ خود اپنے سے ملی تھی
وہ جیسے مری ذات کی گم گشتہ کڑی تھی
یوں دیکھنا اُس کو کہ کوئی اور نہ دیکھے
انعام تو اچھا تھا مگر شرط کڑی تھی
پروین شاکر

وہ طبع تو نازک ہے کہانی یہ بڑی ہے

دیوان دوم غزل 1044
کیا حال بیاں کریے عجب طرح پڑی ہے
وہ طبع تو نازک ہے کہانی یہ بڑی ہے
کیا فکر کروں میں کہ ٹلے آگے سے گردوں
یہ گاڑی مری راہ میں بے ڈول اڑی ہے
ہے چشمک انجم طرف اس مہ کے اشارہ
دیکھو تو مری آنکھ کہاں جاکے لڑی ہے
کیا اپنی شررریزی کہیں پلکوں کی صف کی
ہم جانتے ہیں ہم پہ جو یہ باڑھ جھڑی ہے
وے دن گئے جو پہروں لگی رہتی تھیں آنکھیں
اب یاں ہمیں مہلت کوئی پل کوئی گھڑی ہے
ایسا نہ ہوا ہو گا کوئی واقعہ آگے
اک خواہش دل ساتھ مرے جیتی گڑی ہے
کیا نقش میں مجنوں ہی کے تھی رفتگی عشق
لیلیٰ کی بھی تصویر تو حیران کھڑی ہے
جاتے ہیں چلے متصل آنسو جو ہمارے
ہر تار نگہ آنکھوں میں موتی کی لڑی ہے
کھنچتا ہی نہیں ہم سے قدخم شدہ ہرگز
یہ سست کماں ہاتھ پر اب کتنی کڑی ہے
گل کھائے ہیں افراط سے میں عشق میں اس کے
اب ہاتھ مرا دیکھو تو پھولوں کی چھڑی ہے
وہ زلف نہیں منعکس دیدئہ تر میر
اس بحر میں تہ داری سے زنجیر پڑی ہے
میر تقی میر

میں بڑا تھا میری مشکل بھی بڑی ہونی تھی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 490
ہر قدم پر کوئی دیوار کھڑی ہونی تھی
میں بڑا تھا میری مشکل بھی بڑی ہونی تھی
سایہ ء ابرِ رواں ساتھ کہاں تک چلتا
میں مسافر تھا مسافت تو کڑی ہونی تھی
موت کی سالگرہ آج منانی تھی مجھے
آج تو دس تھی محرم کی جھڑی ہونی تھی
صبحِ تقریب! ذرا دیر ہوئی ہے ورنہ
یہ گھڑی اپنے تعارف کی گھڑی ہونی تھی
بورڈ پر سرخ سا اک پن بھی لگا ہونا تھا
اور اس میں کوئی تتلی بھی گڑی ہونی تھی
اور کیا ہونا تھا دروازے سے باہر منصور
دن رکھا ہونا تھا یا رات پڑی ہونی تھی
منصور آفاق

شہر میں رات کی جھڑی ہے ابھی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 481
روشنی سائے میں کھڑی ہے ابھی
شہر میں رات کی جھڑی ہے ابھی
دیکھنا ہے اسے مگر اپنی
آنکھ دیوار میں گڑی ہے ابھی
آسماں بھی مرا مخالف ہے
ایک مشکل بہت بڑی ہے ابھی
ایک بجھتے ہوئے تعلق میں
شام کی آخری گھڑی ہے ابھی
ہم سے مایوس آسماں کیا ہو
موتیوں سے زمیں جڑی ہے ابھی
ایک ٹوٹے ہوئے ستارے کی
میرے ہاتھوں میں ہتھکڑی ہے ابھی
موسمِ گل ہے میرے گلشن میں
شاخ پر ایک پنکھڑی ہے ابھی
وہ کھلی ہے گلاب کی کونپل
میری قسمت کہاں سڑی ہے ابھی
سایہء زلف کی تمازت ہے
رات کی دوپہر کڑی ہے ابھی
اس میں بچپن سے رہ رہا ہوں میں
آنکھ جس خواب سے لڑی ہے ابھی
میں کھڑا ہوں کہ میرے ہاتھوں میں
ایک دیمک زدہ چھڑی ہے ابھی
آگ دہکا نصیب میں منصور
برف خاصی گری پڑی ہے ابھی
منصور آفاق