دل کو جب تسلیم جاں کی عقلِ با تدبیر نے
تہنیت دی بڑھ کے دامِ حلقہِ زنجیر نے
یاس و حسرت، رنج و غم، سب لکھ دیے میرے لیے
کیا دیا اہلِ جہاں کو کاتبِ تقدیر نے
سُن کے ضامنؔ وہ مِرا احوال تھے تَو مضطرب
کچھ اثَر شاید دِکھایا آہِ بے تاثیر نے
ضامن جعفری