ٹیگ کے محفوظات: کٹایا

نظر میں اس کی میں تو بھی نہ آیا

دیوان ششم غزل 1784
فلک نے پیس کر سرمہ بنایا
نظر میں اس کی میں تو بھی نہ آیا
زمانے میں مرے شور جنوں نے
قیامت کا سا ہنگامہ اٹھایا
بلا تھی کوفت کچھ سوز جگر سے
ہمیں تو کوٹ کوٹ ان نے جلایا
تمامی عمر جس کی جستجو کی
اسے پاس اپنے اک دم بھی نہ پایا
نہ تھی بیگانگی معلوم اس کی
نہ سمجھے ہم اسی سے دل لگایا
قریب دیر خضر آیا تھا لیکن
ہمیں رستہ نہ کعبے کا بتایا
حق صحبت نہ طیروں کو رہا یاد
کوئی دو پھول اسیروں تک نہ لایا
غرور حسن اس کا دس گنا ہے
ہمارا عشق اسے کن نے جتایا
عجب نقشہ ہے نقاش ازل نے
کوئی ایسا نہ چہرہ پھر بنایا
علاقہ میر تھا خنجر سے اس کے
ندان اپنا گلا ہم نے کٹایا
میر تقی میر

اس کی دیوار کا سر سے مرے سایہ نہ گیا

دیوان اول غزل 65
جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا
اس کی دیوار کا سر سے مرے سایہ نہ گیا
کاو کاو مژئہ یار و دل زار و نزار
گتھ گئے ایسے شتابی کہ چھڑایا نہ گیا
وہ تو کل دیر تلک دیکھتا ایدھر کو رہا
ہم سے ہی حال تباہ اپنا دکھایا نہ گیا
گرم رو راہ فنا کا نہیں ہوسکتا پتنگ
اس سے تو شمع نمط سر بھی کٹایا نہ گیا
پاس ناموس محبت تھا کہ فرہاد کے پاس
بے ستوں سامنے سے اپنے اٹھایا نہ گیا
خاک تک کوچۂ دلدار کی چھانی ہم نے
جستجو کی پہ دل گم شدہ پایا نہ گیا
آتش تیز جدائی میں یکایک اس بن
دل جلا یوں کہ تنک جی بھی جلایا نہ گیا
مہ نے آ سامنے شب یاد دلایا تھا اسے
پھر وہ تاصبح مرے جی سے بھلایا نہ گیا
زیر شمشیر ستم میر تڑپنا کیسا
سر بھی تسلیم محبت میں ہلایا نہ گیا
جی میں آتا ہے کہ کچھ اور بھی موزوں کیجے
درد دل ایک غزل میں تو سنایا نہ گیا
میر تقی میر