قدغن لگی ہے سوچ پہ اور لَب سلے ہوئے
اور چاک تک قفس کے مرے سَب سلے ہوئے
نکلا ہوں کتنے زعم سے دُنیا کے سامنے
پہنے ہوئے یہ چیتھڑے بے ڈَھب سلے ہوئے
صدیوں کی گھاٹیوں میں یہ لمحوں کی مشعلیں
گہرے فلک پہ اختر و کوکب سلے ہوئے
مشکل کہاں ہے میرے سوالوں کو بوجھنا
سادہ ہیں ان حروف میں مطلب سلے ہوئے
آنکھوں میں سُرخ ڈوریاں عمروں سے ساتھ تھیں
اس دِل کے زخم پھر بھی رہے کب سلے ہوئے
جُوں جُوں چمن میں سُرخی پروتی گئی بہار
کھلتے گئے ہیں گھاؤ مرے سب سلے ہوئے
ایسا بیاں کا زور کیا تھا اگر عطا
کیوں ہونٹ دے دئیے مجھے یا رب سلے ہوئے
یاور ماجد