ٹیگ کے محفوظات: کوئی

میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی

اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی
میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی
کن بے دِلوں میں پھینک دیا حادثات نے
آنکھوں میں جن کی نور نہ باتوں میں تازگی
بول اے مرے دیار کی سوئی ہوئی زمیں
میں جن کو ڈھونڈتا ہوں کہاں ہیں وہ آدمی
وہ شاعروں کا شہر وہ لاہور بجھ گیا
اگتے تھے جس میں شعر وہ کھیتی ہی جل گئی
میٹھے تھے جِن کے پھل وہ شجر کٹ کٹا گئے
ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی
بازار بند راستے سنسان بے چراغ
وہ رات ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں کوئی
گلیوں میں اب تو شام سے پھرتے ہیں پہرہ دار
ہے کوئی کوئی شمع سو وہ بھی بجھی بجھی
اے روشنیٔ دِیدہ و دل اب نظر بھی آ
دُنیا ترے فراق میں اندھیر ہو گئی
القصہ جیب چاک ہی کرنی پڑی ہمیں
گو اِبتدائے غم میں بڑی احتیاط کی
اب جی میں ہے کہ سر کسی پتھر سے پھوڑیے
ممکن ہے قلبِ سنگ سے نکلے کوئی پری
بیکار بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کوئی دِن
تصویر کھینچیے کسی موجِ خیال کی
ناصر بہت سی خواہشیں دل میں ہیں بے قرار
لیکن کہاں سے لاؤں وہ بے فکر زندگی
ناصر کاظمی

منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو

دن ڈھلا رات پھر آ گئی سو رہو سو رہو
منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو
سارا دن تپتے سورج کی گرمی میں جلتے رہے
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھر چلی سو رہو سو رہو
گرم سنسان قریوں کی دھرتی مہکنے لگی
خاک رشکِ ارم بن گئی سو رہو سو رہو
رزم گاہِ جہاں بن گئی جائے امن و اماں
ہے یہی وقت کی راگنی سو رہو سو رہو
کیسے سنسان ہیں آسماں چپ کھڑے ہیں مکاں
ہے فضا اجنبی اجنبی سو رہو سو رہو
تھک گئے ناقہ و سارباں تھم گئے کارواں
گھنٹیوں کی صدا سو گئی سو رہو سو رہو
چاندنی اور دھوئیں کے سوا دور تک کچھ نہیں
سو گئی شہر کی ہر گلی سو رہو سو رہو
گردشِ وقت کی لوریاں رات کی رات میں
پھر کہاں یہ ہوا یہ نمی سو رہو سو رہو
ساری بستی کے لوگ اس مدھر لے میں کھوئے گئے
دُور بجنے لگی بانسری سو رہو سو رہو
دُور شاخوں کے جھرمٹ میں جگنو بھی گم ہو گئے
چاند میں سو گئی چاندنی سو رہو سو رہو
گھر کے دیوار و دَر راہ تک تک کے شل ہو گئے
اب نہ آئے گا شاید کوئی سو رہو سو رہو
سُست رفتار تارے بھی آنکھیں جھپکنے لگے
غم کے مارو گھڑی دو گھڑی سو رہو سو رہو
منہ اندھیرے ہی ناصر کسے ڈھونڈنے چل دیے
دُور ہے صبحِ روشن ابھی سو رہو سو رہو
ناصر کاظمی

یہ دل کرے گا کسی دن کوئی بڑی لغزش

ہوئی ہے آج تو بس ایک عام سی لغزش
یہ دل کرے گا کسی دن کوئی بڑی لغزش
بس اس قدر ہی یہ دنیا سمجھ میں آئی ہے
وہیں سزا ملی ہم کو جہاں ہوئی لغزش
ہُوا ہے کھیل جو میری گرفت سے باہر
ضرور مجھ سے ہوئی ہے کہیں کوئی لغزش
ازالۂ غلَطی کا ہے انحصار اِس پر
وہ صبح کی غلَطی ہے کہ شام کی لغزش
نہیں ہے جیتنا ممکن ترے لیے باصرِؔ
ترا حریف نہ جب تک کرے کوئی لغزش
باصر کاظمی

سر پر مرے کھڑی ہو شب شمع زور روئی

دیوان اول غزل 446
میں نے جو بیکسانہ مجلس میں جان کھوئی
سر پر مرے کھڑی ہو شب شمع زور روئی
آتی ہے شمع شب کو آگے ترے یہ کہہ کر
منھ کی گئی جو لوئی تو کیا کرے گا کوئی
بے طاقتی سے آگے کچھ پوچھتا بھی تھا سو
رونے نے ہر گھڑی کے وہ بات ہی ڈبوئی
بلبل کی بے کلی نے شب بے دماغ رکھا
سونے دیا نہ ہم کو ظالم نہ آپ سوئی
اس ظلم پیشہ کی یہ رسم قدیم ہے گی
غیروں پہ مہربانی یاروں سے کینہ جوئی
نوبت جو ہم سے گاہے آتی ہے گفتگو کی
منھ میں زباں نہیں ہے اس بد زباں کے گوئی
اس مہ کے جلوے سے کچھ تا میر یاد دیوے
اب کے گھروں میں ہم نے سب چاندنی ہے بوئی
میر تقی میر

ننگی تلواریں ہیں دونوں وہ کوئی آنکھیں ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 376
رات جن کاجلی آنکھوں سے لڑی آنکھیں ہیں
ننگی تلواریں ہیں دونوں وہ کوئی آنکھیں ہیں
آنکھ جھپکوں تو نکل آتی ہیں دیواروں سے
میرے کمرے میں دو آسیب بھری آنکھیں ہیں
ہجر کی جھیل ترا دکھ بھی ہے معلوم مگر
یہ کوئی نہر نہیں ہے یہ مری آنکھیں ہیں
دیکھتے ہیں کہ یہ سیلاب اترتا کب ہے
دیر سے ایک ہی پانی میں کھڑی آنکھیں ہیں
جن کی مژگاں پہ نمی دیکھ کے تُو روتی تھی
تیز بارش میں ترے در پہ وہی آنکھیں ہیں
کون بچھڑا ہے کہ گلیوں میں مرے چاروں طرف
غم زدہ چہرے ہیں او ر ر وتی ہوئی آنکھیں ہیں
انتظاروں کی دو شمعیں ہیں کہ بجھتی ہی نہیں
میری دہلیز پہ برسوں سے دھری آنکھیں ہیں
اب ٹھہر جا اے شبِ غم کہ کئی سال کے بعد
اک ذرا دیر ہوئی ہے یہ لگی آنکھیں ہیں
باقی ہر نقش اُسی کا ہے مرے سنگ تراش
اتنا ہے اس کی ذرا اور بڑی آنکھیں ہیں
خوف آتا ہے مجھے چشمِ سیہ سے منصور
دیکھ تو رات کی یہ کتنی گھنی آنکھیں ہیں
منصور آفاق

میرے ساتھ خوشبو اور روشنی مسافر ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 368
یاد کے گلی میں دو اجنبی مسافر ہیں
میرے ساتھ خوشبو اور روشنی مسافر ہیں
گھر میں کمپیوٹر کی صرف ایک کھڑکی ہے
ورنہ قیدیوں کے دل ہر گھڑی مسافر ہیں
چند ٹن بیئر کے ہیں چند چپس کے پیکٹ
رات کی سڑک ہے اور ہم یونہی مسافر ہیں
کون ریل کو سگنل لالٹین سے دے گا
گاؤں کے سٹیشن پر اک ہمی مسافر ہیں
نیند کے جزیرے پر، آنکھ کی عمارت میں
اجنبی سے لگتے ہیں ، یہ کوئی مسافر ہیں
شب پناہ گیروں کے ساتھ ساتھ رہتی ہے
روشنی کی بستی میں ہم ابھی مسافر ہیں
اور اک سمندر سا پھر عبور کرنا ہے
خار و خس کی کشتی ہے کاغذی مسافر ہیں
چند اور رہتے ہیں دھوپ کے قدم منصور
شام کی گلی کے ہم آخری مسافر ہیں
منصور آفاق