بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہوسکا
ہم جس پہ مرمٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا
رہ تو گئی فریبِ مسیحا کی آبرو
ہر چند غم کے ماروں کا چارہ نہ ہو سکا
خوش ہوں کہ بات شورشِ طوفاں کی رہ گئی
اچھا ہوا نصیب کنارا نہ ہو سکا
بے چارگی پہ چارہ گری کی ہیں تہمتیں
اچھا کسی سے عشق کا مارا نہ ہو سکا
کچھ عشق ایسی بخش گیا بے نیازیاں
دل کو کسی کا لُطف گوارا نہ ہو سکا
فرطِ خوشی میں آنکھ سے آنسو نکل پڑے
جب ان کا التفات گوارا نہ ہو سکا
الٹی تو تھی نقاب کسی نے مگر، شکیبؔ
دعووں کے باوجود نظارہ نہ ہو سکا
شکیب جلالی