ٹیگ کے محفوظات: کمرہ

میں بھی تیرے جیسا ہوں

اپنی دُھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں
او پچھلی رُت کے ساتھی
اب کے برس میں تنہا ہوں
تیری گلی میں سارا دن
دُکھ کے کنکر چنتا ہوں
مجھ سے آنکھ ملائے کون
میں تیرا آئینہ ہوں
میرا دِیا جلائے کون
مَیں ترا خالی کمرہ ہوں
تیرے سوا مجھے پہنے کون
میں ترے تن کا کپڑا ہوں
تو جیون کی بھری گلی
میں جنگل کا رستہ ہوں
آتی رُت مجھے روئے گی
جاتی رُت کا جھونکا ہوں
اپنی لہر ہے اپنا روگ
دریا ہوں اور پیاسا ہوں
ناصر کاظمی

مری مجذوب خاموشی کو افسانہ بنانے میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 348
زمانہ… تجھ کو کیا حاصل ہوا قصہ بنانے میں
مری مجذوب خاموشی کو افسانہ بنانے میں
غزل کہنا پڑی ایسے سخن آباد میں مجھ کو
خدا مصلوب ہوتے ہیں جہاں مصرعہ بنانے میں
نجانے کون سے دکھ کی اداسی کا تعلق ہے
مری اس سائیکی کو اتنا رنجیدہ بنانے میں
تجھے دل نے کسی بہتر توقع پر بلایا تھا
لگے ہو تم مسائل اور پیچیدہ بنانے میں
اگر آ ہی گئے ہو تو چلو آؤ یہاں بیٹھو
ذرا سی دیر لگنی ہے مجھے قہوہ بنانے میں
کسے معلوم کیا کیا کر دیا قربان آنکھوں نے
یہ تنہائی کی آبادی، یہ ویرانہ بنانے میں
مری صبح منور کی جسے تمہید بننا تھا
کئی صدیاں لگا دی ہیں وہ اک لمحہ بنانے میں
کہاں سے آ گئی اتنی لطافت جسم میں میرے
شبیں ناکام پھرتی ہیں مرا سایہ بنانے میں
کھڑا ہے لاش پر میری وہ کیسی تمکنت کے ساتھ
جسے تکلیف ہوتی تھی مجھے زینہ بنانے میں
مرے منزل بکف جن پہ تُو طعنہ زن دکھائی دے
یہ پاؤں کام آئے ہیں ترا رستہ بنانے میں
مجھ ایسے آسماں کو گھر سے باہر پھینکنے والو
ضرورت چھت کی پڑتی ہے کوئی کمرہ بنانے میں
کہیں رہ جاتی تھیں آنکھیں کہیں لب بھول جاتا تھا
بڑی دشواریاں آئیں مجھے چہرہ بنانے میں
پلٹ کر دیکھتے کیا ہو۔ صفِ دشمن میں یاروں کو
بڑے ماہر ہیں اپنے دل کو یہ کوفہ بنانے میں
کسی کرچی کے اندر کھو گیا میرا بدن مجھ سے
جہانِ ذات کو اک آئینہ خانہ بنانے میں
مٹھاس ایسے نہیں آئی مرے الفاظِ تازہ میں
لگی ہے عمر مجھ کو دودھ کا چشمہ بنانے میں
بڑا دل پھینک ہے یہ دل بڑی آوارہ آنکھیں ہیں
کوئی عجلت ہوئی شاید دل و دیدہ بنانے میں
کسی ہجرِ مسلسل کا بڑا کردار ہے منصور
محبت کی کہانی اتنی سنجیدہ بنانے میں
انا الحق کی صداؤں میں کہیں گم ہو گیا میں بھی
اسے منصور اپنی ذات کا حصہ بنانے میں
مرے ہمزاد اپنا آپ نادیدہ بنانے میں
تجھے کیا مل گیا آنکھوں کو لرزیدہ بنانے میں
منصور آفاق

جاری رہا ہے دشت کا جلسہ فراق میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 331
پڑھتا رہا ہوں قیس کا نوحہ فراق میں
جاری رہا ہے دشت کا جلسہ فراق میں
دو موم بتیاں تھیں ، ستارے تھے فرش پر
اک دیکھنے کی چیز تھا کمرہ فراق میں
میں باندھ باندھ دیتا تھا کھونٹے سے اپنا آپ
وحشت کامجھ پہ ایسا تھا غلبہ فراق میں
جس میں بھری ہو نیند سے مری سلگتی آنکھ
دیکھا نہیں ہے میں نے وہ عرصہ فراق میں
شاید مرا لباس تھا وہ دلربا وصال
میں دیکھتا تھا خود کو برہنہ فراق میں
منصوراُس چراغِ بدن سے وصال کا
آسیب بن گیا تھا ارادہ فراق میں
منصور آفاق

محبت کا یہ کم آباد رستہ دیکھتے کیا ہو

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 233
گزرتا ہے کوئی برسوں میں تارہ دیکھتے کیا ہو
محبت کا یہ کم آباد رستہ دیکھتے کیا ہو
مرے برجِ جدی تم ہو یہ خوش بختی تمہی سے ہے
لکیریں دیکھتے کیا ہو ستارہ دیکھتے کیا ہو
محبت وہ نہیں حاصل جہاں لا حاصلی بس ہو
جو کھلتا ہی نہیں ہے وہ دریچہ دیکھتے کیا ہو
یہاں کاغذ پہن کر صرف میرے خواب رہتے ہیں
یہ بے ترتیب سا نظموں کا کمرہ دیکھتے کیا ہو
ہے بندو بست ، لمس و ذائقہ کی پیاس کا منصور
نگاہوں سے کسی کا صرف چہرہ دیکھتے کیا ہو
منصور آفاق

جاتا ہے مدنیہ سے بس اک رستۂ مخصوص

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 198
فردوس سے آگے ہے وہ سرچشمۂ مخصوص
جاتا ہے مدنیہ سے بس اک رستۂ مخصوص
اپنی تو رسائی نہیں اس بامِ فلک تک
معلوم کیا جائے کوئی بندۂ مخصوص
اے شہرِ گداگر ترے والی کے لیے کیا
بنوانا ضروری ہے کوئی کاسۂ مخصوص
انکارِ مسلسل کی فصیلیں ہیں جہاں پر
تسخیر کروں گا میں وہی رشتۂ مخصوص
اک نرم سے ریشے کی کسی نس کے نگر میں
بس دیکھتا پھرتا ہوں ترا چہرۂ مخصوص
کہتے ہیں کہ آسیب وہاں رہنے لگے ہیں
ہوتا تھا کسی گھر میں مرا کمرۂ مخصوص
سنتے ہیں نکلتا ہے فقط دل کی گلی سے
منزل پہ پہنچ جاتا ہے جو جادۂ مخصوص
لوگوں سے ابوزر کے روابط ہیں خطرناک
صحرا میں لگایا گیا پھر خیمۂ مخصوص
ہنستے ہوئے پانی میں نیا زہر ملا کر
بھیجا ہے کسی دوست نے مشکیزۂ مخصوص
آواز مجھے دیتا ہے گرداب کے جیسا
منصور سمندر میں کوئی دیدۂ مخصوص
منصور آفاق

فلک پر اس کا ملبہ گر پڑا تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 88
زمیں پلٹی تو الٹا گر پڑا تھا
فلک پر اس کا ملبہ گر پڑا تھا
میں بھر لایا ہوں مشکیزہ دکھوں سے
کنویں کی تہہ میں صحرا گر پڑا تھا
سُکھانا چاہتا تھا خواب لیکن
ٹشو پیپر پہ آنسو گر پڑا تھا
مری رفتار کی وحشت سے ڈر کر
کسی کھائی میں رستہ گر پڑا تھا
کھلی تھی اک ذرا بس چونچ اس کی
کہیں چاول کا دانہ گر پڑا تھا
مرے کردار کی آنکھیں کھلی تھیں
اور اس کے بعد پردہ گر پڑا تھا
مری سچائی میں دہشت بڑی تھی
کہیں چہرے سے چہرہ گر پڑا تھا
بس اک موجِ سبک سر کی نمو سے
ندی میں پھر کنارہ گر پڑا تھا
مرے چاروں طرف بس کرچیاں تھیں
نظر سے اک کھلونا گر پڑا تھا
اٹھا کر ہی گیا تھا اپنی چیزیں
بس اس کے بعد کمرہ گر پڑا تھا
نظر منصور گولی بن گئی تھی
ہوا میں ہی پرندہ گر پڑا تھا
منصور آفاق