ٹیگ کے محفوظات: کمتر

خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 170
دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں
کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں
یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں میں
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہگار ہُوں کافَر نہیں ہُوں میں
کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے؟
لعل و زمرّد و زر و گوھر نہیں ہُوں میں
رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ؟
رتبے میں مہر و ماہ سے کمتر نہیں ہُوں میں؟
کرتے ہو مجھ کو منعِ قدم بوس کس لیے؟
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہُوں میں؟
غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ@ کہتے تھے نوکر نہیں ہُوں میں
@ کچھ نسخوں میں ’جو‘، @ ’ مہر نے پانچویں۔ چھٹے اور ساتویں شعر کو نعتیہ اشعار میں شمار کیا ہے۔‘
مرزا اسد اللہ خان غالب

ہم بادہ کشوں کے حصے کی، اب جام میں کمتر جاتی ہے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 18
کچھ محتسبوں کی خلوت میں، کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے
ہم بادہ کشوں کے حصے کی، اب جام میں کمتر جاتی ہے
یوں عرض و طلب سے کب اے دل، پتھر دل پانی ہوتے ہیں
تم لاکھ رضا کی خُو ڈالو، کب خوئے ستمگر جاتی ہے
بیداد گروں کی بستی ہے یاں داد کہاں خیرات کہاں
سر پھوڑتی پھرتی ہے ناداں فریاد جو در در جاتی ہے
ہاں، جاں کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجے
ہر رہ جو اُدھر کو جاتی ہے، مقتل سے گزر کر جاتی ہے
اب کوچہء دلبر کا رہرو، رہزن بھی بنے تو بات بنے
پہرے سے عدو ٹلتے ہی نہیں اور رات برابر جاتی ہے
ہم اہلِ قفس تنہا بھی نہیں، ہر روز نسیمِ صبحِ وطن
یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے
منٹگمری جیل
فیض احمد فیض