شبِ گزشتہ کے زخم سی کے
پھر آج بیٹھے ہیں زہر پی کے
ہمارے دِل کی جو رونقیں تھیں
وہ خواب کیسے تھے زِندگی کے
فضائے محفل! یہ کیا ستم ہے
نہ وہ ہمارا! نہ ہم کسی کے
ندامتوں کے یہ داغ دل پر
یہ وار احساسِ کمتری کے
نکل کے آنکھوں سے بس گئے ہیں
افق پہ سارے یہ رنگ پھیکے
گزشت آنچہ گزشت یاؔور
اٹھاؤ نغمے کوئی خوشی کے
یاور ماجد