عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 104
ایک خط آج اگلے زمانوں کے نام
اک غزل دشت کے ساربانوں کے نام
ایک خیمہ زمیں پر کھجوروں کے پاس
ایک نیزہ بلند آسمانوں کے نام
ایک حرفِ خبر‘ ساریہ کے لیے
چشمِ بیدار کالی چٹانوں کے نام
نہر کے نام جاگیرِ خوں، دوستو
دولتِ جاں کڑکتی کمانوں کے نام
تشنگی میرے سوکھے گلے کا نصیب
دودھ کی چھاگلیں میہمانوں کے نام
میری آنکھیں مرے آشیانوں کی سمت
میرے پر میری اونچی اڑانوں کے نام
کتنی موجوں پہ میرے سفینے رواں
کتنے ساحل مرے بادبانوں کے نام
ایک پودا مرے کوئے جاں کا نشاں
ایک محراب میرے مکانوں کے نام
سلطنت‘ کھلنے والی کمندوں کا اجر
اپنے بچوں کا سکھ بے زبانوں کے نام
آج جو آگ سے آزمائے گئے
کل کی ٹھنڈک ان آشفتہ جانوں کے نام
لکھ رہی ہیں سلگتی ہوئی اُنگلیاں
دھوپ کے شہر میں سائبانوں کے نام
عرفان صدیقی