ٹیگ کے محفوظات: کل

اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے

چپ ہے آغاز میں، پھر شورِ اجل پڑتا ہے
اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے
ایک وحشت ہے کہ ہوتی ہے اچانک طاری
ایک غم ہے کہ یکایک ہی ابل پڑتا ہے
یاد کا پھول مہکتے ہی نواحِ شب میں
کوئی خوشبو سے ملاقات کو چل پڑتا ہے
حجرہِٗ ذات میں سنّاٹا ہی ایسا ہے کہ دل
دھیان میں گونجتی آہٹ پہ اچھل پڑتا ہے
روک لیتا ہے ابد وقت کے اُس پار کی راہ
دوسری سمت سے جاوٗں تو ازل پڑتا ہے
ساعتوں کی یہی تکرار ہے جاری پر دم
میری دنیا میں کوئی آج، نہ کل پڑتا ہے
تابِ یک لحظہ کہاں حسنِ جنوں خیز کے پیش
سانس لینے سے توجّہ میں خلل پڑتا ہے
مجھ میں پھیلی ہوئی تاریکی سے گھبرا کے کوئی
روشنی دیکھ کے مجھ میں سے نکل پڑتا ہے
جب بھی لگتا ہے سخن کی نہ کوئی لوَ ہے نہ رَو
دفعتاً حرف کوئی خوں میں مچل پڑتا ہے
غم چھپائے نہیں چھپتا ہے کروں کیا عرفان
نام لوں اُس کا تو آواز میں بل پڑتا ہے
عرفان ستار

محض خیال سے آگے نکل رہا ہے کوئی

نشاطِ درد کا عنواں بدل رہا ہے کوئی
محض خیال سے آگے نکل رہا ہے کوئی
قیام لگتی ہیں ساری مسافتیں جب سے
ہر ایک سانس کے ہمراہ چل رہا ہے کوئی
مرے خیال کی زینت رہے گا ہر منظر
بدل کے دیکھ لے رُخ گر بدل رہا ہے کوئی
یہ بے کلی تَو تری انجمن کا ہے دستور
بھلا یہاں پہ کبھی ایک کل رہا ہے کوئی
وہ شخص قید ہوں میں جس کی ذات میں ضامنؔ
اُسے خبر ہی نہیں ہے سنبھل رہا ہے کوئی
ضامن جعفری

مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں

ترے ملنے کو بیکل ہو گئے ہیں
مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں
بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم
وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں
یہاں تک بڑھ گئے آلامِ ہستی
کہ دل کے حوصلے شل ہو گئے ہیں
کہاں تک تاب لائے ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں
نگاہِ یاس کو نیند آ رہی ہے
مژہ پر اشک بوجھل ہو گئے ہیں
اُنھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں
جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصرؔ
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
ناصر کاظمی

گر مے پہ ہے پابندی کچھ اُس کا بدل آئے

معمول میں رندوں کے ساقی نہ خلل آئے
گر مے پہ ہے پابندی کچھ اُس کا بدل آئے
مایوس نہیں کرتا میں تجھ کو مگر اے دل
جو آج نہیں آیا مشکل ہے وہ کل آئے
چاہا بھی کہ ہو جائیں کچھ اہلِ ہوس جیسے
پر جو اُنہیں آتے ہیں ہم کو نہ وہ چھل آئے
شاید یہی بہتر ہے ہو جائیں ہمیں سیدھے
قبل اِس کے کہ ماتھے پر اُس شوخ کے بَل آئے
تم دیکھ تو لو آ کر بیمار کو اپنے، پھر
چاہے یہ شفا پائے یا اِس کی اجل آئے
باصر کاظمی

وہی ننھے ننھے پودے تھے گھنے درخت کل کے

دمِ صبح آندھیوں نے جنہیں رکھ دیا مسل کے
وہی ننھے ننھے پودے تھے گھنے درخت کل کے
نئے ساتھیوں کی دُھن میں تیری دوستی کو چھوڑا
کوئی تجھ سا بھی نہ پایا تِرے شہر سے نکل کے
وہی رسمِ کم نگاہی وہی رات کی سیاہی
مرے شہر کے چراغو یہاں کیا کرو گے جل کے
نئے خواب میری منزل تہِ آب میرا ساحل
تمہیں کیا ملے گا یارو مرے ساتھ ساتھ چل کے
سرِ شام آج کوئی مرے دل سے کہہ رہا ہے
کوئی چاند بھی تو نکلے کوئی جام بھی تو چھلکے
یہ جو گھر لٹا لٹا ہے یہ جو دل بجھا بجھا ہے
اِسی دل میں رہ گئے ہیں کئی آفتاب ڈھل کے
یہ مشاہدہ ہے میرا رہِ زندگی میں باصرِؔ
وہی منہ کے بَل گرا ہے جو چلا سنبھل سنبھل کے
باصر کاظمی

وُہ کہ ڈسا جانے والا ہے، سنبھل جاتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
سانپ کہاں ہے اِتنا پتہ جب چل جاتا ہے
وُہ کہ ڈسا جانے والا ہے، سنبھل جاتا ہے
اُس کی غرض تو بس سانسیں پی جانے تک ہے
جس کو نگلے دریا اُسے، اُگل جاتا ہے
گود کھلاتی خاک بھی کھسکے پَیروں تلے سے
سرپر ٹھہرا بپھرا امبر بھی ڈھل جاتا ہے
پانی پر لہروں کے نقش کہاں ٹھہرے ہیں
منظر آتی جاتی پل میں بدل جاتا ہے
دُشمن میں یہ نقص ہے جب بھی دکھائی دے تو
رگ رگ میں اِک تُند الاؤ جل جاتا ہے
جس کا تخت ہِلا ہے ذرا سا اپنی جگہ سے
آج نہیں جاتا وہ شخص تو کل جاتا ہے
اِس جانب سے ماجد اُس جانب کے افق تک
ساکن چاند بھی چُپ چُپ دُور نکل جاتا ہے
ماجد صدیقی

اب کے لگے ہے ٹھہری وہ ٹھنڈے جل سی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 48
خون میں برپا رہتی تھی جو ہلچل سی
اب کے لگے ہے ٹھہری وہ ٹھنڈے جل سی
ایسی کیوں ہے، آنکھ نہیں بتلا سکتی
نِندیا ہے کہ گرانی سے ہے بوجھل سی
لا فانی ہے، یہ تو کتابیں کہتی ہیں
روح نجانے رہتی ہے کیوں بے کل سی
رات کا اکھوا ہے کہ نشانِ بد امنی
دور افق پر ایک لکیر ہے کاجل سی
منظر منظر تلخ رُوئی ہے وہ ماجد
اُتری ہے جو آنکھوں آنکھوں حنظل سی
ماجد صدیقی

پُوری عمر کی دُوری پر آتا کل لگتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
خون میں برپا اِک محشر سا ہر پل لگتا ہے
پُوری عمر کی دُوری پر آتا کل لگتا ہے
سارا رنگ اور رس ہے اُس کی قربت سے ورنہ
دل ویرانہ لگتا ہے دل جنگل لگتا ہے
آنکھ میں شب کی اوٹ میں کھلتی کلیوں کی سی حیا
اُس کے رُخ پر لپٹا چاند کا آنچل لگتا ہے
اپنے اِک اِک دن کا سورج خون آشام لگے
چہرہ اپنے ہر اخبار کا مقتل لگتا ہے
ہونٹوں پر سے پل پل صحرا کی سی آنچ اُٹھے
آنکھ کا آنگن اشکِ رواں سے جل تھل لگتا ہے
نشۂ جُہل نے اپنے یہاں یُوں سب کو سیر کیا
اپنے عقیدے میں ہر شخص ہی پاگل لگتا ہے
لب پہ رکا ہے آ کر جانے کون سا حرفِ گراں
ماجِد ہاتھ میں اپنا قلم تک بوجھل لگتا ہے
ماجد صدیقی

ابکے لگے ہے ٹھہری وہ ٹھنڈے جل سی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
خون میں برپا رہتی تھی جو ہلچل سی
ابکے لگے ہے ٹھہری وہ ٹھنڈے جل سی
ایسی کیوں ہے آنکھ نہیں بتلا سکتی
نندیا ہے کہ گرانی سے ہے بوجھل سی
لا فانی ہے یہ تو کتابیں کہتی ہیں
روح نجانے رہتی ہے کیوں بے کل سی
رات کا اکھوا ہے کہ نشانِ بدامنی
دور افق پر ایک لکیر ہے کاجل سی
منظر منظر تلخ رُوئی ہے وہ ماجد
اتری لگے جو آنکھوں آنکھوں حنظل سی
ماجد صدیقی

جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 111
ایسا ہے کہ سب خواب مسلسل نہیں ہوتے
جو آج تو ہوتے ہیں مگر کل نہیں ہوتے
اندر کی فضاؤں کے کرشمے بھی عجب ہیں
مینہ ٹوٹ کے برسے بھی تو بادل نہیں ہوتے
کچھ مشکلیں ایسی ہیں کہ آساں نہیں ہوتیں
کچھ ایسے معمے ہیں کبھی حل نہیں ہوتے
شائستگیِ غم کے سبب آنکھوں کے صحرا
نمناک تو ہو جاتے ہیں جل تھل نہیں ہوتے
کیسے ہی تلاطم ہوں مگر قلزمِ جاں میں
کچھ یاد جزیرے ہیں کہ اوجھل نہیں ہوتے
عشاق کے مانند کئی اہل ہوس بھی
پاگل تو نظر آتے ہیں پاگل نہیں ہوتے
سب خواہشیں پوری ہوں فراز ایسا نہیں ہے
جیسے کئی اشعار مکمل نہیں ہوتے
احمد فراز

اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 77
چپ ہے آغاز میں، پھر شورِ اجل پڑتا ہے
اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے
ایک وحشت ہے کہ ہوتی ہے اچانک طاری
ایک غم ہے کہ یکایک ہی ابل پڑتا ہے
یاد کا پھول مہکتے ہی نواحِ شب میں
کوئی خوشبو سے ملاقات کو چل پڑتا ہے
حجرہِٗ ذات میں سنّاٹا ہی ایسا ہے کہ دل
دھیان میں گونجتی آہٹ پہ اچھل پڑتا ہے
روک لیتا ہے ابد وقت کے اُس پار کی راہ
دوسری سمت سے جاوٗں تو ازل پڑتا ہے
ساعتوں کی یہی تکرار ہے جاری پر دم
میری دنیا میں کوئی آج، نہ کل پڑتا ہے
تابِ یک لحظہ کہاں حسنِ جنوں خیز کے پیش
سانس لینے سے توجّہ میں خلل پڑتا ہے
مجھ میں پھیلی ہوئی تاریکی سے گھبرا کے کوئی
روشنی دیکھ کے مجھ میں سے نکل پڑتا ہے
جب بھی لگتا ہے سخن کی نہ کوئی لوَ ہے نہ رَو
دفعتاً حرف کوئی خوں میں مچل پڑتا ہے
غم چھپائے نہیں چھپتا ہے کروں کیا عرفان
نام لوں اُس کا تو آواز میں بل پڑتا ہے
عرفان ستار

یہ خبر ہی نہ تھی طور جل جائے گا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 26
موسیٰؑ سمجھے تھے ارماں نکل جائے گا
یہ خبر ہی نہ تھی طور جل جائے گا
میری بالیں پہ رونے سے کیا فائدہ
کی مری موت کس وقت ٹل جائے گا
کیا عیادت کو اس وقت آؤ گے تم
جب ہمارا جنازہ نکل جائے گا
کم سنی میں ہی کہتی تھی تیری نظر
تو جواں ہو کے آنکھیں بدل جائے گا
سب کو دنیا سے جانا ہے اک دن قمر
رہ گیا آج کوئی تو کل جائے گا
قمر جلالوی

جانا تھا کس سمت کو جانے بس بے اٹکل چل نکلے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 183
باد بہاری کے چلتے ہی لہری پاگل چل نکلے
جانا تھا کس سمت کو جانے بس بے اٹکل چل نکلے
جو ہلچل مارے تھے، ان کو دوش نہ دو نردوش ہیں وہ
دوش ہمیں دو، اس بستی سے ہم بے ہلچل چل نکلے
پاس ادب کی حد ہوتی ہے ہم پہلے ہی کہتے تھے
کل تک جن کو پاس تھا ان کا وہ ان سے کل چل نکلے
کچھ مت پوچھو حیف آتا ہے وحشت کے بے حالوں پر
وحشت جب پر حال ہوئی تو چھوڑ کے جنگل چل نکلے
خون بھی اپنا سیر طلب تھا ہم بھی موجی رنگ کے تھے
یوں بھی تھا نزدیک ہی مقتل سوئے مقتل چل نکلے
جون ایلیا

صبح کی بائو سے لگ لگنے نہ دیتی گل کو

دیوان دوم غزل 934
ہوتی کچھ عشق کی غیرت بھی اگر بلبل کو
صبح کی بائو سے لگ لگنے نہ دیتی گل کو
میں نے سر اپنا دھنا تھا تبھی اس شوخ نے جب
پگڑی کے پیچ سے باندھا تھا اٹھا کاکل کو
مستی ان آنکھوں سے نکلے ہے اگر دیکھو خوب
خلق بدنام عبث کرتی ہے جام مل کو
جیسے ہوتی ہے کتاب ایک ورق بن ناقص
نسبت تام اسی طور ہے جز سے کل کو
ایک لحظے ہی میں بل سارے نکل جاتے میر
پیچ اس زلف کے دینے تھے دکھا سنبل کو
میر تقی میر

جو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہے

دیوان اول غزل 601
دہر بھی میر طرفہ مقتل ہے
جو ہے سو کوئی دم کو فیصل ہے
کثرت غم سے دل لگا رکنے
حضرت دل میں آج دنگل ہے
روز کہتے ہیں چلنے کو خوباں
لیکن اب تک تو روز اول ہے
چھوڑ مت نقد وقت نسیہ پر
آج جو کچھ ہے سو کہاں کل ہے
بند ہو تجھ سے یہ کھلا نہ کبھو
دل ہے یا خانۂ مقفل ہے
سینہ چاکی بھی کام رکھتی ہے
یہی کر جب تلک معطل ہے
اب کے ہاتھوں میں شوق کے تیرے
دامن بادیہ کا آنچل ہے
ٹک گریباں میں سر کو ڈال کے دیکھ
دل بھی کیا لق و دق جنگل ہے
ہجر باعث ہے بدگمانی کا
غیرت عشق ہے تو کب کل ہے
مر گیا کوہکن اسی غم میں
آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہے
میر تقی میر

وہ کہ جو کل نہ ہوا، کل نہیں ہونے والا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 83
مسئلہ آدمی کا حل نہیں ہونے والا
وہ کہ جو کل نہ ہوا، کل نہیں ہونے والا
ایک تعمیر جو ہر دم زدِ تخریب میں ہے
اس جگہ کچھ بھی مکمل نہیں ہونے والا
جھیل ہے آنکھ مری، ایک پرت پانی کی
جس سے جلوہ ترا اوجھل نہیں ہونے والا
اس عنایت میں کوئی اس کی غرض بھی ہو گی
یہ کرم تم پہ مسلسل نہیں ہونے والا
شوق سے بوجھ مصائب کا بڑھاتے جاؤ
یہ جو ہے دوش مرا، شل نہیں ہونے والا
آفتاب اقبال شمیم

یعنی منصوبہ زمانے کا مکمل ہو گیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 55
اک فنا کے گھاٹ اُترا، ایک پاگل ہو گیا
یعنی منصوبہ زمانے کا مکمل ہو گیا
جسم کے برفاب میں آنکھیں چمکتی ہیں ابھی
کون کہتا ہے اُس کا حوصلہ شل ہو گیا
ذہن پر بے سمتیوں کی بارشیں اتنی ہوئیں
یہ علاقہ تو گھنے راستوں کا جنگل ہو گیا
اس کلید اسم نا معلوم سے کیسے کُھلے
دل کا دروازہ کہ اندر سے مقفل ہو گیا
شعلہ زار گُل سے گزرے تو سرِ آغاز ہی
اک شرر آنکھوں سے اُترا، خون میں حل ہو گیا
شہر آئندہ کا دریا ہے گرفت ریگ میں
بس کہ جو ہونا ہے، اُسکا فیصلہ کل ہو گیا
موسمِ خیراتِگُل آتا ہے کس کے نام پر
کون ہے جس کا لہو اِس خاک میں حل ہو گیا
اس قدر خوابوں کو مسلا پائے آہن پوش نے
شوق کا آئین بالآخر معطل ہو گیا
آفتاب اقبال شمیم

اجل کو جانتا ہوں میں ، ازل سے ساتھ ساتھ ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 625
دماغِ کائنات کے خلل سے ساتھ ساتھ ہے
اجل کو جانتا ہوں میں ، ازل سے ساتھ ساتھ ہے
فلک ہے مجھ پہ مہرباں کہ ماں کی ہے دعا مجھے
زمیں مرے ہرے بھرے عمل سے ساتھ ساتھ ہے
یہ کس نے وقت کو اسیر کر لیا ہے خواب میں
یہ آج کس طرح گذشتہ کل سے ساتھ ساتھ ہے
قدم قدم پہ کھینچتی ہے مجھ کو رات کی طرف
یہ روشنی جو شاہ کے محل سے ساتھ ساتھ ہے
جو گا رہی ہے کافیاں لہو میں شاہ حسین کی
وہ مادھو لال آگ گنگا جل سے ساتھ ساتھ ہے
کہے، کہاں نظامِ زر تغیرات کا امیں ؟
وہ جدلیات جو جدل جدل سے ساتھ ساتھ ہے
کچھ اس کے ہونے کا سبب بھی ہونا چاہیے کہیں
وہ جو نمودِ علت و علل سے ساتھ ساتھ ہے
جہاں پہ پہلے علم تھا کہ کیا عمل کروں گا میں
یہ حال اُس مقامِ ماحصل سے ساتھ ساتھ ہے
ابھی فلک کی زد میں ہے سری نگر کا راستہ
یہ برف پوش رُت تراڑ کھل سے ساتھ ساتھ ہے
منصور آفاق

شاید اوہنوں روکے، بّتی اگلے چوک دے سگنل دی

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 14
ایس ائی آس تے نسدا جاواں، دھڑکن سُندا پل پل دی
شاید اوہنوں روکے، بّتی اگلے چوک دے سگنل دی
تھوہراں نُوں کھُل دے کے جنّھے، کومل پھُل زنجیرے نیں
باگ کنارے، واڑاں لاؤن دی، سوچ سی ایہہ کِس پاگل دی
کِیہ کہوئیے، کد وڈیاں اپنے، قولاں دی لج رکھنی ایں
نکیاں ہوندیاں توں پئے تکئیے‘ حالت ایہو، اج کل دی
شام دے ویہڑے اودھر، جھوٹ تسلیاں آؤندی فجر دیاں
ایدھر، مارُو پِیڑ کسے وی، دارُو توں پئی نئیں کَھل دی
چار چفیرے کِھلرے تھل نے، ہور اَسن کِیہہ دینا ایں
سِر تے آ کے رُک گئی جیہڑی اوہ دُھپ تے ہُن نئیں ڈھل دی
گلی گلی وچ جتھے، میریاں لختاں، یُوسف بنیاں نیں
ہے بازارِ مصر دا ماجد، یا ایہہ نگری راول دی
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)