ٹیگ کے محفوظات: کلی

آرزو میں بھی سادگی نہ رہی

حُسن میں جب سے بے رُخی نہ رہی
آرزو میں بھی سادگی نہ رہی
ان کا غم جب سے راس آیا ہے
دل کی کوئی خوشی، خوشی نہ رہی
جب کبھی موت کا خیال آیا
زیست میں کوئی دلکشی نہ رہی
آپ سے ایک بات کہنی ہے
لیجیے مجھ کو یاد بھی نہ رہی
کہہ رہی ہے بہ چشمِ تر شبنم
مُسکرا کر کَلی، کَلی نہ رہی
جب کبھی وہ، شکیبؔ، یاد آئے
چاند تاروں میں روشنی نہ رہی
شکیب جلالی

حسن کی سادگی میں کیا کچھ تھا

نازِ بیگانگی میں کیا کچھ تھا
حسن کی سادگی میں کیا کچھ تھا
لاکھ راہیں تھیں لاکھ جلوے تھے
عہدِ آوارگی میں کیا کچھ تھا
آنکھ کھلتے ہی چھپ گئی ہر شے
عالمِ بے خودی میں کیا کچھ تھا
یاد ہیں مرحلے محبت کے
ہائے اُس بے کلی میں کیا کچھ تھا
کتنے بیتے دنوں کی یاد آئی
آج تیری کمی میں کیا کچھ تھا
کتنے مانوس لوگ یاد آئے
صبح کی چاندنی میں کیا کچھ تھا
رات بھر ہم نہ سو سکے ناصرؔ
پردۂ خامشی میں کیا کچھ تھا
ناصر کاظمی

مکر کی اُس میں صنّاعی دکھلائی دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 82
بات بظاہر جو بھی کھری دکھلائی دے
مکر کی اُس میں صنّاعی دکھلائی دے
ماند کرے پل بھر میں گردِ ریا اُس کو
باغ میں کھِلتی جو بھی کلی دکھلائی دے
عُمر کی گاڑی جس کو پیچھے چھوڑ آئی
اُس جیسی اَب کون پری دکھلائی دے
دن کو بھی اَب یُوں ہے جیسے آنکھوں میں
سُرمے جیسی رات سجی دکھلائی دے
کینچلیوں سی برگ و شجر سے اُتری جو
آنے والی رُت بھی وُہی دکھلائی دے
آنکھ کا عالم پُوچھ نہ اُس کے بچھڑنے پر
کاسۂ گُل میں اوس بھری دکھلائی دے
تُو اُس مارِسیہ سے دُور ہی رہ
نیّت جس کی تجھ کو بُری دکھلائی دے
ماجد صدیقی

بھُلا دیا ہے اُسی شہر میں کسی نے مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 73
جنوں شناس کیا جس کی ہر گلی نے مجھے
بھُلا دیا ہے اُسی شہر میں کسی نے مجھے
شجر سے جھڑ کے دُہائی چمن چمن دوں گا
وہ دن دکھائے اگر میری خستگی نے مجھے
مرا نصیب! مجھے تربیت طلب کی نہ تھی
کیا ہے خوار تمّنا کی سادگی نے مجھے
خزاں کے بعد سلوکِ وداع، صرصر کا
سِک سِسک کے سنایا کلی کلی نے مجھے
در آئی ہے جو مجھے اُس نمی پہ حق ہے مرا
کہ دشت دشت پھرایا ہے تشنگی نے مجھے
پئے نمو ہے یہ کیا عارضہ لجاجت کا
یہ کیسے روگ دئیے ذوقِ تازگی نے مجھے
رہِ سفر میں برہنہ نظر تھا میں ماجدؔ
لیا ہے ڈھانپ بگولوں کی ہمرہی نے مجھے
ماجد صدیقی

ہاں دیکھ ہماری سادگی کو

ہم خاک ہوئے تری خوشی کو
ہاں دیکھ ہماری سادگی کو
اے واہمۂ فراقِ جاناں
پیروں میں کچل نہ دوں تجھی کو
تم مجھ سے جُدا ہوئے تو ہوتے
پھر دیکھتے میری بے کلی کو
ظلمت ہی جہاں نظر نظر ہو
چاہے کوئی کیسے روشنی کو
یہ لُطفِ سخن کہاں تھا ماجدؔ
بیتِے ہیں برس سخنوری کو
ماجد صدیقی

ہم بھی کریں مداوا، یخ بستہ خامشی کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 62
جھانکے جو بام پر سے سُورج تری ہنسی کا
ہم بھی کریں مداوا، یخ بستہ خامشی کا
کھِلتے ہوئے لبوں پر مُہریں لگا کے بیٹھیں
تھا کیا یہی تقاضا ہم سے کلی کلی کا
اَب آنکھ بھی جو اُٹھے، جی کانپتا ہے اپنا
کیا حشر کر لیا ہے ہمّت رہی سہی کا
پھر سنگ بھی جو ہوتی اپنی زباں تو کیا تھا
دعوےٰ اگر نہ ہوتا ہم کو سخنوری کا
بستر لپیٹ کر ہم اُٹھ جائیں رہ سے اُس کی
مقصد نہیں تھا شاید ایسا تو مدّعی کا
ماجدؔ لبوں کے غنچے چٹکے دھُواں اُگلتے
تھا یہ بھی ایک پہلو افسردہ خاطری کا
ماجد صدیقی

ذرا سی دھوپ میں کچھ چاندنی کی آمیزش

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 40
نظر کی تیزی میں ہلکی ہنسی کی آمیزش
ذرا سی دھوپ میں کچھ چاندنی کی آمیزش
یہی تو وجہِ شکستِ وفا ہُوئی میری
خلوصِ عشق میں سادہ دلی کی آمیزش
مرے لیے ترے الطاف کی وہ اُجلی رُت
عذابِ مرگ میں تھی زندگی کی آمیزش
وہ چاند بن کے مرے جسم میں پگھلتا رہا
لُہو میں ہوتی گئی روشنی کی آمیزش
یہ کو ن بن میں بھٹکتا تھا جس کے نام پہ ہے
ہوائے دشت میں آشفتگی کی آمیزش
زمیں کے چہرے پہ بارش کے پہلے پیار کے بعد
خوشی کے ساتھ تھی حیرانگی کی آمیزش
سمندروں کی طرح میری آنکھ ساکت ہے
مگر سکوت میں کس بے کلی کی آمیزش
پروین شاکر

ادھر اندھیرے میں چل پڑوں گا جدھر مجھے روشنی ملے گی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 101
بلا سے ہو شام کی سیآ ہی کہیں تو منزل مری ملے گی
ادھر اندھیرے میں چل پڑوں گا جدھر مجھے روشنی ملے گی
ہجومِ محشر میں کیسا ملنا نظر فریبی بڑی ملے گی
کسی سے صورت تری ملے گی کسی سے صورت مری ملے گی
تمھاری فرقت میں تنگ آ کر یہ مرنے والوں کا فیصلہ ہے
قضا سے جو ہمکنار ہو گا اسے نئی زندگی ملے گی
قفس سے جب چھٹ کے جائیں گے ہم تو سب ملین گے بجز نشیمن
چمن کا ایک ایک گل ملے گا چمن کی اک اک کلی ملے گی
تمھاری فرقت میں کیا ملے گا، تمھارے ملنے سے کیا ملے گا
قمر کے ہوں گے ہزار ہا غم رقیب کو اک خوشی ملے گی
قمر جلالوی

ترے منہ پر کہی تیری مرے منہ پر کہی میری

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 93
یہ آئینے کی سازش تھی کچھ خطا بھی نہ تھی میری
ترے منہ پر کہی تیری مرے منہ پر کہی میری
تعلق مجھ سے کیا اے درد کیوں مجھ کو ستاتا ہے
نہ تجھ سے دوستی میری نہ تجھ سے دشمنی میری
لڑکپن دیکھئے گلگشت میں وہ مجھ سے کہتے ہیں
چمن میں پھول جتنے ہیں وہ سب تیرے کلی میری
کوئی اتنا نہیں ہے آ کے جو دو پھول رکھ جائے
قمر تربت پر بیٹھی رو رہی ہے بے کسی میری
قمر جلالوی

یوں گھر نہ تباہ ہو کسی کا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 14
اب دل ہے مقام بے کسی کا
یوں گھر نہ تباہ ہو کسی کا
کس کس کو مزا ہے عاشقی کا
تم نام تو لو بھلا کسی کا
پھر دیکھتے ہیں عیش آدمی کا
بنتا جو فلک میر خوشی کا
گلشن میں ترے لبوں نے گویا
رس چوم لیا کلی کلی کا
لیتے نہیں بزم میں مرا نام
کہتے ہیں خیال ہے کسی کا
جیتے ہیں کسی کی آس پر ہم
احسان ہے ایسی زندگی کا
بنتی ہے بری کبھی جو دل پر
کہتا ہوں برا ہو عاشقی کا
ماتم سے مرے وہ دل میں خوش ہیں
منہ پر نہیں نام بھی ہنسی کا
اتنا ہی تو بس کسر ہے تم میں
کہنا نہیں مانتے کسی کا
ہم بزم میں ان کی چپکے بیٹھے
منہ دیکھتے ہیں ہر آدمی کا
جو دم ہے وہ ہے بسا غنیمت
سارا سودا ہے جیتے جی کا
آغاز کو کون پوچھتا ہے
انجام اچھا ہو آدمی کا
روکیں انہیں کیا کہ ہے غنیمت
آنا جانا کبھی کبھی کا
ایسے سے جو داگ نے نباہی
سچ ہے کہ یہ کام تھا اسی کا
داغ دہلوی

اور ہاں یکبارگی کی جائے گی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 150
تم سے جانم عاشقی کی جائے گی
اور ہاں یکبارگی کی جائے گی
کر گئے ہیں کوچ اس کوچے کے لوگ
اب تو بس آوارگی کی جائے گی
تم سراپا حُسن ہو، نیکی ہو تم
یعنی اب تم سے بدی کی جائے گی
یار اس دن کو کبھی آنا نہیں
پھول جس دن وہ کلی کی جائے گی
اس سے مِل کر بے طرح روؤں گا میں
ایک طرفہ تر خوشی کی جائے گی
ہے رسائی اس تلک دل کا زیاں
اب تو یاراں نارسی کی جائے گی
آج ہم کو اس سے ملنا ہی نہیں
آج کی بات آج ہی کی جائے گی
ہے مجھے احساس کم کرنا ہلاک
یعنی اب تو بے حسی کی جائے گی
جون ایلیا

دکھ ہمیں بھی ہوتا ہے آدمی تو ہم بھی ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 381
دیکھتے لپک تیرے طنز کی تو ہم بھی ہیں
دکھ ہمیں بھی ہوتا ہے آدمی تو ہم بھی ہیں
کھلتے کھلتے کھلتے ہیں اپنی اپنی دنیا میں
تم اگر تجسس ہو سنسنی تو ہم بھی ہیں
تم سہی سیہ بدلی آنسوئوں کے موسم کی
آس پاس مژگاں کے کچھ نمی تو ہم بھی ہیں
عشق کی شریعت میں کیا جو قیس پہلے تھے
ہجر کی طریقت میں آخری تو ہم بھی ہیں
جانتے ہیں دنیا کو درد کا سمندر ہے
اور اس سمندر میں اک گلی تو ہم بھی ہیں
پیڑ سے تعلق تو ٹوٹ کے بھی رہتا ہے
سوختہ سہی لیکن شبنمی تو ہم بھی ہیں
دو گھڑی کا قصہ ہے زندگی محبت میں
دو گھڑی تو تم بھی ہو دو گھڑی تو ہم بھی ہیں
جیل کی عمارت ہے عاشقی کی صحبت بھی
بیڑیاں اگر تم ہو ہتھکڑی تو ہم بھی ہیں
نام وہ ہمارا پھر اک کرن کے ہونٹوں پر
وقت کے ستارے پر۔ ہاں ابھی تو ہم بھی ہیں
کیا ہوا جو ہجراں کی رہ رہے ہیں مشکل میں
یار کے شبستاں میں یاد سی تو ہم بھی ہیں
دیدنی زمانے میں بے خبر بہاروں سے
گلستانِ حیرت کی اک کلی تو ہم بھی ہیں
مانا عشق کرنے کا کچھ پتہ نہیں تم کو
دلبری کی بستی میں اجنبی تو ہم بھی ہیں
یہ الگ گوارا ہم وقت کو نہیں لیکن
جس طرح کے ہوتے ہیں آدمی تو ہم بھی ہیں
کربلا کی وحشت سے، سلسلہ نہیں لیکن
ساحلوں پہ دریا کے تشنگی تو ہم بھی ہیں
ہیر تیرے بیلے میں آنسوئوں کے ریلے میں
خالی خالی بیلے میں بانسری تو ہم بھی ہیں
تم چلو قیامت ہو تم چلو مصیبت ہو
بے بسی تو ہم بھی ہیں ، بے کسی تو ہم بھی ہیں
صبح کے نکلتے ہی بجھ تو جانا ہے ہم کو
رات کی سہی لیکن روشنی تو ہم بھی ہیں
دیکھتے ہیں پھولوں کو، سوچتے ہیں رنگوں کو
خوشبوئوں کے مکتب میں فلسفی تو ہم بھی ہیں
ایک الف لیلیٰ کی داستاں سہی کوئی
دوستو کہانی اک متھ بھری تو ہم بھی ہیں
منصور آفاق