ٹیگ کے محفوظات: کلفت

بے مروت اس زمانے میں ہمہ حیرت ہے اب

دیوان ششم غزل 1812
آئینہ سا جو کوئی یاں آشنا صورت ہے اب
بے مروت اس زمانے میں ہمہ حیرت ہے اب
کیا کوئی یاری کسو سے کرکے ہووے شاد کام
دوستی ہے دشمنی الفت نہیں کلفت ہے اب
چاہتا ہے درد دل کرنا کسو سے دل دماغ
سو دماغ اپنا ضعیف اور قلب بے طاقت ہے اب
کیونکے دنیا دنیا رسوائی مری موقوف ہو
عالم عالم مجھ پہ اس کے عشق کی تہمت ہے اب
اشک نومیدا نہ پھرتے ہیں مری آنکھوں کے بیچ
میر یہ دے ہے دکھائی جان کی رخصت ہے اب
میر تقی میر

بے کس ہوئے بے بس ہوئے بے کل ہوئے بے گت ہوئے

دیوان چہارم غزل 1493
بے دل ہوئے بے دیں ہوئے بے وقر ہم ات گت ہوئے
بے کس ہوئے بے بس ہوئے بے کل ہوئے بے گت ہوئے
ہم عشق میں کیا کیا ہوئے اب آخر آخر ہوچکے
بے مت ہوئے بے ست ہوئے بے خود ہوئے میت ہوئے
الفت جو کی کہتا ہے جی حالت نہیں عزت نہیں
ہم بابت ذلت ہوئے شائستۂ کلفت ہوئے
گر کوہ غم ایسا گراں ہم سے اٹھے پس دوستاں
سوکھے سے ہم دینت ہوئے تنکے سے ہم پربت ہوئے
کیا رویئے قیدی ہیں اب رویت بھی بن گل کچھ نہیں
بے پر ہوئے بے گھر ہوئے بے زر ہوئے بے پت ہوئے
آنکھیں بھر آئیں جی رندھا کہیے سو کیا چپکے سے تھے
جی چاہتا مطلق نہ تھا ناچار ہم رخصت ہوئے
یامست درگا ہوں میں شب کرتے تھے شاہد بازیاں
تسبیح لے کر ہاتھ میں یا میر اب حضرت ہوئے
میر تقی میر

دھوم رہی ہے سر پر میرے رنج و عتاب و کلفت کی

دیوان سوم غزل 1255
کیسے نحس دنوں میں یارب میں نے اس سے محبت کی
دھوم رہی ہے سر پر میرے رنج و عتاب و کلفت کی
میں تو سرو و شاخ گل کی قطع ہی کا دیوانہ تھا
یار نے قد قامت دکھلاکر سر پر میرے قیامت کی
قسمت میں جو کچھ کہ بدا ہو دیتے ہیں وہ ہی انساں کو
غم غصہ ہی ہم کو ملا ہے خوبی اپنی قسمت کی
خلوت یار ہے عالم عالم ایک نہیں ہے ہم کو بار
در پر جاکر پھر آتے ہیں خوب ہماری عزت کی
اک گردن سے سو حق باندھے کیا کیا کریے ہوں جو ادا
مدت اس پر ایک نفس جوں صبح ہماری فرصت کی
شیوہ اس کا قہر و غضب ہے ناز و خشم و ستم وے سب
کوئی نگاہ لطف اگر کی ان نے ہم سے مروت کی
بے پروائی درویشی کی تھوڑی تھوڑی تب آئی
جب کہ فقیری کے اوپر میں خرچ بڑی سی دولت کی
ناز و خشم کا رتبہ کیسا ہٹ کس اعلیٰ درجے میں
بات ہماری ایک نہ مانی برسوں ہم نے منت کی
دکھن پورب پچھم سے لوگ آکر مجھ کو دیکھیں ہیں
حیف کہ پروا تم کو نہیں ہے مطلق میری صحبت کی
دوستی یاری الفت باہم عہد میں اس کے رسم نہیں
یہ جانے ہیں مہر و وفا اک بات ہے گویا مدت کی
آب حسرت آنکھوں میں اس کی نومیدانہ پھرتا تھا
میر نے شاید خواہش دل کی آج کوئی پھر رخصت کی
میر تقی میر

رواج اس ملک میں ہے درد و داغ و رنج و کلفت کا

دیوان اول غزل 122
غلط ہے عشق میں اے بوالہوس اندیشہ راحت کا
رواج اس ملک میں ہے درد و داغ و رنج و کلفت کا
زمیں اک صفحۂ تصویر بیہوشاں سے مانا ہے
یہ مجلس جب سے ہے اچھا نہیں کچھ رنگ صحبت کا
جہاں جلوے سے اس محبوب کے یکسر لبالب ہے
نظر پیدا کر اول پھر تماشا دیکھ قدرت کا
ہنوز آوارئہ لیلیٰ ہے جان رفتہ مجنوں کی
موئے پر بھی رہا ہوتا نہیں وابستہ الفت کا
حریف بے جگر ہے صبر ورنہ کل کی صحبت میں
نیاز و ناز کا جھگڑا گرو تھا ایک جرأت کا
نگاہ یاس بھی اس صید افگن پر غنیمت ہے
نہایت تنگ ہے اے صید بسمل وقت فرصت کا
خرابی دل کی اس حد ہے کہ یہ سمجھا نہیں جاتا
کہ آبادی بھی یاں تھی یا کہ ویرانہ تھا مدت کا
نگاہ مست نے اس کی لٹائی خانقہ ساری
پڑا ہے برہم اب تک کارخانہ زہد و طاعت کا
قدم ٹک دیکھ کر رکھ میر سر دل سے نکالے گا
پلک سے شوخ تر کانٹا ہے صحراے محبت کا
میر تقی میر